امامت ائمہٴ اطہار (ع)؛ كی نگاہ میں

241

امامت ائمہٴ اطہار (ع)؛ كی نگاہ میں
امامت كے كلی مسائل سے متعلق یہ ہماری آخری بحث ہے اس كے بعد ہم اس سلسلہ میں جو بحثیں كریں گے وہ احادیث و روایات كی روشنی میں ہوں گی۔ مثال كے طور پر وہ حدیثیں جو امیر المومنین(ع) كے سلسلہ میں پیغمبر اكرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں یا خود امیر المومنین(ع) نے اپنے بعد كے ائمہٴ(ع) كے لئے ذكر فرمائی ہیں، یوں ہی حضرت رسول خدا(ص) نے ان ائمہ كے بارہ میں جو كچھ فرمایا ہے نیز یہ كہ ہر امام نے اپنے بعد كے امام كے لئے كس طرح وضاحت فرمائی ہے ہم ایك ایك كركے ان سب كا جائزہ لیں گے كہ ان میں سے اكثر و بیشتر روایات نقلی، تعیینی و تنصیصی پہلو ركھتی ہیں۔
موجودہ بحث كچھ اس ڈھنگ كی ہے كہ اس كا كچھ حصہ شاید ہم گزشتہ گفتگو میں بھی متفرق طور پر پیش كرچكے ہیں لیكن چونكہ یہ مسئلہ امامت كی روح سے مربوط ہے لہٰذا اب ہم ائمہٴ معصومین(ع) كے اقوال كی روشنی میں اس پر بحث كریں گے۔ اور كتاب "اصول كافی"كی" كتاب الحجۃ"كا ایك حصہ بھی آپ كی خدمت میں پیش كریں گے۔ ہم مكرّر عرض كرچكے ہیں كہ امامت كا جو مفہوم ہم شیعہ یا كم از كم ائمہ(ع) شیعہ كے اقوال میں پیش كیا گیا ہے وہ امامت كے اس مفہوم سے بالكل الگ ہے جو اہل سنّت كے یہاں رائج ہے۔ یہ مسئلہ حكومت سے بالكل الگ ایك چیز ہے جس كا چرچا ہمارے زمانہ میں بہت ہوتا ہے۔ مثلاً، امامت بنیادی طور پر نبوت كے قدم بہ قدم یا اس كے بالكل دوش بدوش والا مسئلہ ہے لیكن اس معنی میں نہیں كہ اس كا مرتبہ ہر نبوت سے كمتر درجہ كا ہے۔ بلكہ اس سے مقصود یہ ہے كہ نبوت سے مشابہ ایك ایسا منصب ہے جو بڑے انبیاء كو بھی عطا ہوا ہے یعنی یہ ایك ایسا معنوی منصب ہے كہ بڑے انبیاء نبوت كے ساتھ ساتھ امامت كے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ ائمہ معصومین(ع) نے كلی طور پر اس مسئلہ كے تحت اپنی گفتگو میں انسان كو بنیاد قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں پہلے انسان كے متعلق اپنے تصورات و خیالات پر تجدید نظر كرنا چاہیئے تاكہ یہ مسئلہ پورے طور سے واضح ہوسكے۔
انسان؟
آپ جانتے ہیں كہ اساسی طور پر انسان كے سلسلہ میں دونظریے پائے جاتے ہیں ایك یہ كہ انسان بھی تمام جانداروں كے مانندصدفی صد ایك خاكی یا مادی وجود ہے۔ لیكن یہ ایسا مادی وجود ہے جو اپنے تغیرات كی راہ طے كرتے ہوئے اس حد كمال كو پہنچ چكا ہے جہاں تك زیادہ سے زیادہ مادہ میں اس كی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ حیات، چاہے نباتات میں ہو یا اس سے بلند حیوانات میں یا ان سب سے بڑھ كر انسان میں ، یہ خود مادہ كے تدریجی ارتقاو كمال كی نشان دہی كرتی ہے۔ یعنی اس وجود كی بناوٹ اور ساخت میں مادی عناصر كے علاوہ كوئی اور عنصر كارفرما نہیں ہے۔ (یہاں عنصر كا لفظ اس لئے استعمال ہوا كہ اس كی كوئی دوسری تعبیر ہمارے پاس نہیں ہے)۔ جتنے حیرت انگیز آثار اس وجود میں پائے جاتے ہیں ان كا سرچشمہ یہی مادی تشكیل ہے۔ اس نظریہ كے مطابق قہری طور پر پہلے انسان كو یاد نیا میں آنے والے ابتدائی انسانوں كو ناقص ترین انسان ہونا چاہیئے اور جوں جوں یہ قافلہ انسانیت آگے بڑھا ہوگا انسان كا مل تر ہوتا گیا ہوگا۔ خواہ ہم اولین انسان كو قدما كے تصور كے مطابق براہ راست خاك سے پیدا شدہ مانیں یا عہد حاضر كے بعض (سائنس داں) حضرات كے مفروضہ كے مطابق … جو مفروضہ ہونے كی حیثیت سے قابل توجہ ہے كہ انسان اپنے آپ سے پست تر اور ناقص تروجود 1 كی تغییر یافتہ اور كامل شدہ مخلوق ہے۔ جس كی اصل وبنیاد مٹی تك پہنچتی ہے۔ ایسا نہیں ہے كہ پہلا انسان براہ راست خاك سے خلق ہوگیا ہو۔
پہلا انسان قرآن كی نظر میں
لیكن اسلامی و قرآنی بلكہ تمام مذاہب كے اعتقادات كے مطابق پہلا انسان وہ وجود ہے جو اپنے بعد كے بہت سے انسانوں حتی كہ آج كے انسانوں سے بھی زیادہ كامل ہے۔ یعنی پہلی بار جب اس انسان نے عرصہٴ عالم میں قدم ركھا، اسی وقت سے وہ خلیفۃ اللہ یا دوسرے الفاظ میں پیغمبر كے درجہ پر فائز نظر آیا۔ دین كی منطق میں یہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ كیوں پہلا انسان ہی دنیا میں آیا تو ایك حجت خدا اور پیغمبر كی شكل میں آیا، جبكہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا كہ انسان دنیا میں آتے رہتے اور ارتقائی منازل طے كرتے رہتے اور جب عالی مراحل و مراتب سے ہمكنار ہوتے تو ان میں سے كوئی ایك نبوت و پیغمبری كے منصب پر فائز ہوجاتا، نہ یہ كہ پہلا ہی انسان پیغمبر ہو۔
قرآن كریم پہلے انسان كے لئے بہت عظیم اور بلند درجہ كا قائل ہے:
"وَاِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكة اِنّی جَاعِلُ فی الارض خَلیفۃُ قَالُوا اَتَجْعَلُ فِیْھَامن یّفسدُ فیھا ویَسْفِكُ الدِمَاء وَنَحْنُ نسبحُ بِحَمدِك وَنُقَدِسُ لك انی اعلم مالا تعلمون و علم اٰدم الاسماء كلھا ثم عرضھم علیٰ الملائكۃ فقال انبئُونی باسماء ھٰوٴلاءِ" 2
جب تمہارے پروردگار نے ملائكہ سے فرمایا كہ میں زمین پر خیلفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے كہا (خدایا) كیا تو انہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد خونریزی برپا كریںاور ہم تو تیری تسبیح و تقدیس كرتے ہیں(خدا وند عالم نے)فرمایا، بلاشبہ (اس انسان كے اسرار كے بارے میں) جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ نے آدم(ع) كو تمام اسماء تعلیم دیئے پھر ان كے حقائق ملائكہ كے سامنے بھی پیش كئے اور فرما یا ہمیں ان كے نام بتاؤ"۔
مختصر یہ كہ جب پہلاانسان عالم وجود میں آیا تو اس نے ملائكہ كو بھی حیرت میں ڈال دیا كہ آخر اس میں كیا راز پنہاں ہے؟…پہلے انسان كے بارے میں "نفخت فیہ من روحی" (اپنی روح اس میں پھونكی) كی تعبیر استعمال كی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ اس پیكر كی ساخت اور اس كے ڈھانچہ میں مادی عناصر كے علاوہ ایك عُلوی عنصر بھی كارفرما ہے جو (اپنی روح) كی تعبیر كے ذریعہ بیان كیا گیا ہے۔ یعنی اللہ كی جانب سے ایك خصوصی شئے اس وجود كے پیكر میں داخل ہوئی ہے۔ اس كے علاوہ اس لئے بھی كہ اس كو خلیفۃ اللہ سے تعبیر كیا گیا ہے۔"انی جاعل فی الارض خلیفۃ" میں زمین پر اپنا خلیفہ بنارہا ہوں۔
بنابرایں قرآن، انسان كو اس عظمت كے ساتھ پیش كرتا ہے ۔ كہ پہلا انسان جب عالم وجود میں قدم ركھتا ہے تو حجت خدا و پیغمبر خدا اور ایك ایسے وجود كے عنوان سے قدم ركھتا ہے جو عالم غیب سے رابطہ ركھتا ہو۔ ہمارے ائمہٴ كے كلام كی اساس و بنیاد انسان كی اسی اصل و حقیقت پر ہے یعنی پہلا انسان جو اس زمین پر آیا اسی صنف كا تھا اور آخری انسان بھی جو اس زمین پر ہوگا اسی سلسلہ كی ایك كڑی ہوگا اور عالم انسانیت كبھی بھی ایسے وجود سے خالی نہیں جس میں "انی جاعل فی الارض خیلفۃ" كی روح پائی جاتی ہے۔ (بنیادی طور سے اس مسئلہ كا محور یہی ہے) دیگر تمام انسان، ایسے انسانی وجود كی فرع كی حیثیت ركھتے ہیں، اور اگر یہ انسان نہ ہو تو بقیہ تمام انسان كسی بھی صورت سے باقی نہیں رہیں گے۔ ایسے ہی انسان كو حجت خدا سے تعبیر كرتے ہیں؛۔
"اللھم بلیٰ لا تحلو الارض من قائم للہ بحجۃ" ہاں (مگر) زمین ایسی فرد سے خالی نہیں رہتی جو اللہ كی حجت ہے یہ جملہ نہج البلاغہ 3 میں سے اور بہت سی كتابوں میں نقل ہوا ہے۔ میں نے یہ بات مرحوم آیۃ اللہ بروجردی سے سنی ہے، لیكن یہ یاد نہیں كہ میں نے خود اسے دوسری جگہ بھی كہیں دیكھا ہے یا نہیں، یعنی اس كی جستجو نہیں كی۔ آپ فرماتے تھے كہ یہ جملہ حضرت كے ان جملوں میں سے ہے جنہیں آپ نے بصرہ میں بیان فرمایا ہے اور شیعہ و سنی دونوں نے اس تواتر كے ساتھ نقل كیا ہے۔ یہ جملہ مشہور حدیث كمیل كا ایك حصہ ہے ۔ كمیل كا بیان ہے كہ ایك روز حضرت علی(ع) نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے ہمراہ لے كر شہر كے باہر تشریف لائے۔ یہاں تك كہ ہم لوگ "جبّان" نامی ایك جگہ پر پہنچے۔ جیسے ہی ہم لوگ شہر سے خارج ہوكر سناٹے اور تنہائی میں آئے: فتنفس الصمعداء حضرت نے گہری سانس لی، ایك آہ كھینچی اور فرمایا:۔
"یاكمیل! انّ ھٰذہ القلوب اوعیۃ فخیرُھا او عاھا فاحفظ عنی مااقول لك"
"اے كمیل! اولاد آدم(ع) كے دل ظرف كے مانند ہیں اور بہترین ظرف وہ ہے جو كسی چیز كو اپنے اندر محفوظ ركھے (یعنی اس میں سوراخ نہ ہو) لہٰذا میں تم سے جو كچھ كہتا ہوں اسے محفوظ كرلو"۔
پہلے آپ نے انسانوں كو تین گروہوں میں تقسیم فرمایا:۔
"النّاس ثلاثۃ: فعالم ربانی و متعلم فی سبیل نجاة وھمج رعاع"۔
"انسان تین قسم كے ہیں: ایك گروہ علمائے ربانی كا ہے (البتہ حضرت علی(ع)) كی اصطلاح میں عالم ربّانی سے مراد ہر وہ عالم ربانی نہیں ہے جو ہم ہر ایك كو تكّلفاً كہہ دیا كرتے ہیں، بلكہ اس سے مراد ایسا عالم ہے جو واقعاً صدفی صد الہٰی ہو اور خالص خدا كے لئے عمل كرتا ہو اور شاید یہ تعبیر سوائے انبیاء و ائمہ (علیہم السلام) كے كسی اور پر صادق نہیں آتی) "ومتعلّم علی سبیل نجاة" (چونكہ اس عالم كو اس متعلم كے مقابل میں ذكر كیا ہے لہٰذا اُس سے مقصود وہ عالم ہے جو كسی بشر سے علم حاصل نہیں كرتا) یہ دوسرا گروہ اُن سے علم حاصل كرنے والوں اور شاگردوں كا ہے۔ ان لوگوں كا ہے جو ان علماء سے استفادہ كرتے ہیں۔ تیسرے گروہ كے لوگ "ھمج رعاع" ہیں (اس كی تشریح یہ ہے) كہ : "لم یستضیسئو ا بنورالعلم ولم یلجاٴ واالیٰ ركن وثیق" جنہوں نے علم كے نور سے كوئی روشنی حاصل كی ہے اور نہ كسی محكم ستون كو سہارا حاصل كیا ہے۔"
اس كے بعد آپ نے اہل زمانہ كا گلہ كرنا شروع كیا۔ فرمایا میں بہت سے علوم اپنے سینہ میں ركھتا ہوں۔ لیكن مجھے كوئی ایسا شخص نہیں ملتا جس میں (انہیں حاصل كرنے كی) صلاحیت موجود ہو۔ آپ(ع) نے لوگوں كی گروہ بندی كرتے ہوئے فرمایا: ایسے لوگ بھی ہیں جو زیرك اور عقلمند ہیں لیكن ایسے زیرك ہیں كہ جو كچھ حاصل كرتے ہیں اس سے اپنے لئے فائدہ حاصل كرنا چاہتے ہیں یعنی دین كو اپنی دنیا كے لئے استعمال كرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا میں ان سے پرہیز كرنے پر مجبور ہوں۔ كچھ دوسرے افراد ہیں جو اچھے اور نیك تو ہیں لیكن احمق ہیں۔ وہ كچھ حاصل ہی نہیں كرتے یا اگر حاصل بھی كرتے ہیں تو ایك دم الٹا اور غلط مطلب سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہاں تك تو امام(ع) كی گفتگو مایوسانہ رنگ لئے ہوئے ہے (كیونكہ اس سے اندازہ ہوتا ہے) كہ كوئی اہل موجود نہیں ہے ۔لیكن اس كے بعد فرماتے ہیں :-"اللھم بلی…" نہیں ایسا بھی نہیں ہے كہ كوئی شخص موجود نہ ہو۔ میں تو یہ جو كچھ كہہ رہا ہوں لوگوں كی اكثریت كو كہہ رہا ہوں(یہاں آقائے بروجردی فرماتے تھے كہ ھضرت(ع) نے یہ اشارہ بصرہ میں ایك خطبہ كے ذیل میں فرمایا تھا، ورنہ یہ كمیل كے ساتھ ہونے والی گفتگو میں بھی موجود ہے)۔
اللھم بلی لا تخلو الارض من قائم للّہِ بحجۃ اما ظاھرا مشہوراً واما خائفا مغمورا لئلا تبطل حجج اللہ و بیناتہ وكم ذا و این؟ اولئك واللّہِ الاقلون عدداً و الاعظمون عند اللہِ قدراً، یحفظ اللہ بھم حججہ و بیناتہ حتیٰ یودعوھا نظرائھم و یزرعو ھا فی قلوب اشباھھم ھجم بھم العلم علیٰ حقیقۃ البصیرۃ وباشروا روح الیقین واستلانوا ما استعورہ المترفون و انسوا بما استوحش منہ الجاھلون و صحبوا الدنیا بابدان ارواحھا معلقۃ بالمحل الاعلیٰ۔
(نہج البلاغہ فیض الاسلام حكمت ۱۳۹ مطابق نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین مرحوم حكمت نمبر ۱۴۷)
"امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہے۔ اب چاہے یہ حجت ظاہر ہو اور لوگوںكے درمیان ہو یا مستور اور پوشیدہ یعنی موجود تو ہو، لیكن لوگ اسے دیكھ نہ پائیں، وہ نگاہ سے پوشیدہ ہو۔ ان ہی حجتوں كے ذریعہ خداوند عالم اپنی دلیلیں اور نشانیاں لوگوں كے درمیان محفوظ ركھتا ہے۔ اور یہ لوگ بھی جو كچھ جانتے ہیں اس كے بیج اپنے ہی جیسے افراد كے دلوں میں بودیتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے كہ یہ امانتیں ان كے حوالہ نہ كریں اور چلے جائیں یعنی ایسا نہیں ہے كہ میرے پاس جو كچھ ہے اسے بیان كئے بغیر چلا جاؤں گا۔ اس كے بعد حضرت ان افراد سے متعلق جو ایك ملكوتی مبداٴ و مركز سے استفادہ كرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ھجم بھم العلم علیٰ حقیقة البصیرة خود علم ان پر ہجوم كرتا ہے اور ٹوٹ كر برستا ہے۔وہ علم كی طرف نہیں بڑھتے۔ (مطلب یہ ہے كہ ان كا علم تفویضی ہے) اور وہ علم جو ان پر ہجوم كرتا ہے، انہیں حقیقی معنوں میں بصیرت عطا كرتا ہے یعنی اس علم میں كوئی اشتباہ، نقص یا خطا نہیں پائی جاتی۔ "وباشرواروح الیقین" وہ روح یقین كو متصل ركھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے كہ وہ عالم دیگر سے بھی ایك طرح كا ارتباط و اتصال ركھتے ہیں۔…"واستلانوا ماا ستعورہ المترفون" وہ چیزیں جنھیں مترف (یعنی اہل عیش و طرب)اپنے لئے بہت دشوار سمجھتے ہیں ان كے لئے آسان ہیں۔ مثلاً عیش و عشرت كے عادی افراد كا گھنٹہ بھر اپنے خدا سے لولگانا اور اس سے راز و نیاز كی باتیں كرنا گویا سب سے زیادہ دشوار كام ہے۔ لیكن ان كے لئے یہ كام آسان ہی نہیں بلكہ ان كا پسندیدہ عمل ہے۔ "وانسوا بما استوحش منہ الجاھلون" جن چیزوں سے نادان اور جاہل افراد وحشت كرتے ہیں یہ ان سے مانوس ہیں۔
"وصحبواالدنیا بابدان ارواحھامعلقۃ بالمحلّ الاعلیٰ" وہ اپنے جسموں كے ساتھ لوگوں كے ہمراہ رہتے ہیں جبكہ اسی وقت ان كی روحیں مقام اعلیٰ سے تعلق و اتصال ركھتی ہیں۔ یعنی ان كا جسم لوگوں كے ساتھ ہے لیكن ان كی روح یہاں نہیں ہے۔ جو لوگ ان كے ہمراہ ہیں انہیں اپنے ہی جیسا انسان سمجھتے ہیں اور ان میں اور اپنے آپ میں كوئی فرق نہیں سمجھتے، لیكن وہ یہ نہیں جانتے كہ اس (انسانِ كامل) كا باطن كسی اور عالم سے وابستہ ہے۔
بہر حال امامت كا اصل فلسفہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے كہ كتاب "كافی" میں "باب الحجۃ" كے عنوان سے ایك مستقل باب موجود ہے۔ اور اس میں ملتا ہے كہ اگر دنیا میں صرف دو انسان باقی رہیں تو ان میں ایك اسی طرح كا انسان ہوگا جس طرح دنیا كا پہلا انسان اسی منصب پر فائز تھا ہم اس فلسفہ كی روح كو لوگوں كے ذہنوں سے مزید قریب كرنے كے لئے اور اس حقیقت سے زیادہ آشنا كرنے كے لئے "اصول كافی" سے "كتاب الحجة" كی بعض روایتیں اور حدیثیں آپ كی خدمت میں پیش كرتے ہیں۔ اس مسئلہ سے متعلق تمام دوسرے مسائل مثلاً معاشرہ میں امام كا وجود ضروری ہے تاكہ وہ لوگوں پر عدل و انصاف كے ساتھ حكومت كرے، یا دینی امور میں لوگوں كے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات كو حل كرسكے۔ یہ سب باتیں اس اصل مسئلہ میں طفیل كی حیثیت ركھتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے كہ امام كو لوگوں پر حكومت كرنے كے لئے امام قرار دیا جائے اور بس، بلكہ یہ مسئلہ ان تمام باتوں سے كہیں بالاتر ہے۔ یہ باتیں گویا امام كے "فوائد جاریہ" یعنی اس كے وجود كے نتیجہ میں مرتب ہونے والے فوائد كی حیثیت ركھتی ہیں۔ ہم ہر حدیث سے كچھ جملے منتخب كركے آپ كی خدمت میں عرض كرتے ہیں تاكہ فلسفہٴ امامت كی حقیقت پورے طور سے واضح ہوجائے۔
امام جعفر صادق(ع) سے ایك روایت
یہ روایت انبیاء و مرسلین سے متعلق ہے۔ ایك زندیق (مادہ پرست) نے امام صادق(ع) سے سوال كیا كہ :"من این اثبت الانبیاء والرسل؟" آپ انبیاء ورسل كو كس دلیل سے ثابت كرتے ہیں؟ امام(ع) نے جواب میں مسئلہ توحید كو بنیاد قرار دیتے ہوئے فرما یا:
"انا اثبتنا ان لناخالقا صانعا متعالیا عناوعن جمیع ما خلق و كان ذٰلك الصانع حكیما متعالیا لم یجز ان یشاھدہ خلقہ ولایلامسوہ فیبا شرھم ویباشروہ ویُحاجھم ویحاجوہ ثبت انّ لہ سفراء فی خلقہ یعسبروں عنہ الیٰ خلقہ وعبادہ ویدلونھم علی مصالحھم ومنافعھم ومابہ بقائھم وفی تركہ فنائھم فثبت الامرون والناھون عن الحكیم العلیم فی خلقہ…"
مختصر یہ كہ انبیاء و رسل كے ثابت كرنے كی بنیاد ، اپنی تمام الہٰی شان و صفات كے ساتھ خود اللہ كے اثبات پر موقوف ہے جب ہم نے یہ جان لیا كہ ہمارا كوئی خالق و صانع ہے جو حكیم ہے اور ہم سے اعلیٰ و ارفع ہے یعنی ہم اپنے حواس و ادراك كے ذریعہ اس سے براہ راست ارتباط پیدا نہیں كرسكتے۔ نہ اس كا مشاہدہ كرسكتے ہیں اور نہ اسے چھو سكتے ہیں اور نہ ہی اس سے دوبدو سوال و جواب كر سكتے ہیںجبكہ ہم اس كے محتاج ہیں كہ وہ ہماری راہنمائی كرے۔ كیونكہ فقط وہی حقیقی حكیم و دانا ہے اور ہمارے واقعی مصالح و مفادات سے آگاہ ہے۔ لہٰذا ایسے وجود كا ہونا ضروری ہے جو بیك وقت دو پہلوؤں كا حامل ہو: ایك طرف وہ خدا سے ارتباط ركھتا ہو یعنی اس پر وحی نازل ہوتی ہو اور دوسری طرف ہم اس سے رابطہ قائم كرسكتے ہوں۔ اور ایسے افراد كو ہونا لازم و واجب ہے۔
اس كے بعد امام(ع)ان افراد كے بارہ میں فرماتے ہیں: "حكماء مودبین بالحكمۃ" خود ان لوگوں كو حكیم و دانا ہونا چاہیئے، وہ حكمت كی بنیاد پر موٴدب و مہذب كئے گئے ہوں۔ "معبوثین بھا" اور حكمت ہی پر مبعوث كئے گئے ہوں یعنی ان كی دعوت اور ان كا پیغام حكمت پر مبنی ہو۔ "غیر مشاركین للناس علٰی مشاركتِھِم لَھُم فی الخَلق"اگر چہ وہ خلقت كے اعتبار سے انسانوں میں شریك ہوں لیكن بعض جہات میں لوگوں سے الگ اور جدا ہوں۔ ایك انفرادی پہلو اور امتیازی روح ان میں پائی جاتی ہو۔ "موٴیّدین من عندالحكیم العلیم بالحكمۃ" خدائے حكیم و علیم كی جانب سے حكمت كی بنیاد پر ان كی تائید كی گئی ہو ۔ "ثم ثبت ذالك فی كل دھر ومكان " ایسے واسطوں اور ذریعوں كا وجود ہر زمانہ اور ہر عہد میں لازمی و ضروری ہے۔ "لكیلا تخلو الارض من حجۃ یكون معہ علم یدل علیٰ صدق مقالتہ و جواز عدالتہ" تاكہ زمین كسی وقت بھی ایسی حجت سے خالی نہ رہے جس كے پاس اس كی صداقت گفتار اور اس كی عدالت رفتار كے ثبوت میں كوئی علم (دلیل یا معجزہ) موجود ہو۔
زید بن علی(ع) اور مسئلہ امامت
زید ابن علی بن الحسین امام محمد باقر(ع) كے بھائی ہیں اور صالح و محترم شخص ہیں۔ ہمارے ائمہ نے آپ كی اور آپ كی مجاہدانہ اقدام كی تعریف كی ہے۔ اس سلسلہ میںاختلاف ہے كہ جناب زید واقعاً خود اپنے لئے خلافت كے مدعی تھے یا صرف امربالمعروف اور نہی عن المنكر كے فرائض انجام دے رہے تھے اور خود خلافت كے دعویدار نہیں تھے بلكہ آپ امام محمد باقر(ع) كی خلافت كے خواہاں تھے، یہ بہر حال مسلم ہے كہ ہمارے ائمہ(ع) نے آپ كی تعریف و توصیف كی ہے۔ اور آپ كو شہید كہا ہے۔ اور یہی ان كی عظمت كے لئے كافی ہے كہ : "مضی واللہ شھیدا" وہ شہید ہوكر دنیا سے اٹھے لیكن بحث اس بات پر ہے كہ آپ خود اس مسئلہ (امامت) میں شبہ كا شكار تھے یا نہیں؟ جو روایت اس وقت میں آپ كی خدمت میں پیش كررہا ہوںاس سے یہ ظاہر ہوتا ہے كہ آپ خود اس سلسلہ میں شبہ میں مبتلا تھے۔ اب یہ بات كہ ایسا شخص اس مسئلہ میں شبہ كا شكار كیسے ہوسكتا ہے۔ یہ ایك دوسری بحث ہے۔
امام محمد باقر(ع) كے ایك صحابی ابو جعفر احول بیان كرتے ہیں: جس وقت زید بن علی مخفی تھے انہوں نے میرے پاس پیغام بھیجا اور مجھ سے فرمایا كہ اگر ہم میں سے كوئی جہاد كے لئے قیام كرے تو كیا تم ہماری مدد كے لئے آمادہ ہو؟ میں نے جواب دیا اگر آپ كے پدر بزرگوار اور بھائی (حضرت امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیہم السلام) اجازت دیں تو میں حاضر ہوں ورنہ نہیں۔ زید نے فرمایا، میں خود قیام كا ارادہ ركھتا ہوں۔ بھائی سے كوئی مطلب نہیں ہے۔ كیا اب بھی تم ہماری حمایت پر آمادہ ہو؟ میں نے عرض كیانہیں۔ آپ نے پوچھا كیوں؟ كیا تم ہمارے سلسلہ میں اپنی جان سے دریغ كرتے ہو؟ میں نے عرض كیا: انّمَاھی نفس و احدة فان كان للہ فی الارض حجۃ فالمتخلف عنك ناج والخارج معك ھالك وان لا تكن للہ حجۃفی الارض فالمتخلف عنك والخارح معك سواء" میں ایك ہی جان ركھتا ہوں اور آپ بھی حجت خدا ہونے كا دعویٰ نہیں كرتے۔ اگر زمین پر آپ كے علاوہ كوئی حجت خدا ہے تو جو شخص آپ كے ساتھ قیام كرے اس نے خود كو ضائع كیا بلكہ ہلاك ہوا اور جس نے آپ سے انكار كیا اس نے نجات پائی لیكن اگر زمین پر كوئی حجت خدا نہ ہو تو میں چاہے آپ كے ساتھ قیام كروں یا نہ كروں دونوں باتیں برابر ہیں۔
ابو جعفر احول جانتے تھے كہ زید كا مقصد كیا ہے۔ لہٰذا وہ اس حدیث كے ذریعہ یہ واضح كرنا چاہتے تھے كہ اس وقت روئے زمین پر ایك"حجت" موجود ہے۔ اور وہ آپ كے بھائی امام محمد باقر(ع) ہیں۔ آپ نہیں ہیں۔ یہاں روایت میں حضرت زید كی گفتگو كا خلاصہ یہ ہے ، تمہیں یہ بات كیسے معلوم ہوئی جبكہ میں امام كا فرزند ہوتے ہوئے اس نكتہ سے واقف نہیں ہوں اور میرے پدربزرگوار نے بھی مجھے نہیں بتایا؟ كیا میرے بابا مجھے چاہتے نہیں تھے؟ خدا كی قسم میرے بابا مجھے ا س قدر چاہتے تھے كہ مجھے بچپن میں دسترخوان پر اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اگر نوالہ گرم ہوتا تھا تو پہلے اسے ٹھنڈا كرتے تھے اس كے بعد كھلاتے تھے تاكہ میرا دہن نہ جلنے پائے وہ باپ جو مجھ سے اس قدر محبت كرتا تھا كہ اسے ایك لقمہ كے ذریعہ میرا دہن جلنا گوارہ نہ تھا۔ كیا اس نے اتنی اہم بات جسے تم سمجھے ہو۔ مجھے بتانے سے مضائقہ كیا تاكہ میں جہنم كی آگ سے محفوظ رہوں؟ (ابو جعفر احوال نے)جواب دیا۔ انہوں نے آپ كو جہنم كی آگ سے محفوظ ركھنے كے لئے ہی نہیں بتایا۔ چونكہ وہ آپ كو بہت چاہتے تھے اس لئے آپ كو نہیں بتایا كیونكہ وہ جانتے تھے كہ اگر میں كہہ دوں گا تو آپ انكار كریں گے اور جہنمی ہو جائیں گے چونكہ وہ آپ كی طبیعت كی تیزی سے واقف تھے لہٰذا آپ سے بتانا نہیں چاہا۔ اور یہی بہتر سمجھا كہ آپ لاعلمی كی حالت پر باقی رہیں تاكہ كم ازكم آپ میں عناد نہ پیدا ہونے پائے۔ لیكن یہ بات مجھ سے فرمادی تاكہ اس قبول كركے نجات حاصل كرلوں یا انكار كركے جہنمی بن جاؤں… اور میں نے بھی اسے قبول كرلیا۔
اس كے بعدمیں نے زید سے دریافت كیا: " انتم افضل ام الانبیاء" آپ افضل ہیں یا انبیاء؟ فرمایا انبیاء۔ "قلت یقول یعقوب لیوسف یا بنی لاتقصص روٴیاك علٰی اخوتك فیكیدو ا لك كیدا" میں نے عرض كیا یعقوب(ع) جو پیغمبر ہیں اپنے بیٹے یوسف(ع) سے جو خود بھی پیغمبر اور ان كے جانشین ہیں، كہتے ہیں كہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ كرنا۔ آیا یعقوب(ع) كا یہ حكم یوسف(ع) كے بھائیوں سے دشمنی كی بنا پر تھا یا ان كی اور یوسف(ع) كی دوستی كی بنیاد پر تھا چونكہ وہ یوسف(ع) كے بھائیوں كی طبیعت سے واقف تھے كہ اگر وہ سمجھ گئے كہ یوسف(ع) اس مقام و منزلت پر فائز ہونے والے ہیں تو ابھی سے ان كی دشمنی پر كمر بستہ ہوجائیں گے"۔ آپ كے ساتھ آپ كے پدربزرگوار اور بھائی كا قصہ بالكل یعقوب(ع) و یوسف(ع) اور ان كے بھائیوں جیسا ہے۔
گفتگو كے اس مرحلہ پر آكر زید بالكل خاموش ہوگئے اور كچھ جواب نہ دے سكے۔ تھوڑی دیر كے بعد انہوں نے فرمایا:"اما واللہ لان قلت ذالك" اب جبكہ تم مجھ سے یہ بات كہہ رہے ہو تو میں بھی تمہیں یہ بتادوں كی: "لقد حدثنی صاحبك بالمدینۃ" تمہارے آقا (یہاں مراد امام ہیں تمہارے امام یعنی میرے بھائی امام محمد باقر(ع)) نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا: "انی اقتل و اصلب بالكناسۃ" كہ تمہیں قتل كیا جائے اور كناسہٴ كوفہ پر سولی دی جائے گی۔ "وان عندہ لصحیفہ فیھا قتلی و صلبی" اور ان كے پاس ایك صحیفہ (كتاب)ہے جس میں میرے قتل كئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے كا ذكر ہے۔
یہاںزید، ابو جعفر كے سامنے ایك دوسرا ورق الٹتے ہیں كیونكہ یك بیك بات ایك دم بدل جاتی ہے اور وہ دوسرے نظریہ كی تائید كرتے نظر آتے ہیں ۔ معلوم ہوا كہ اس سے قبل جو باتیں آپ ابو جعفر سے فرمارہے تھے گویا اس سے اپنے آپ كو پنہاں ركھنا چاہتے تھے۔ لیكن جب یہ دیكھا كہ ابو جعفر مسئلہ امامت كے سلسلہ میں اس قدر راسخ الاعتقاد ہیں تو خود سے فرمایا كہ ان كو بتادوں كہ میں بھی اس نكتہ سے غافل نہیں ہوں۔ وہ كہیں شبہ كا شكار نہ ہوں، میں بھی اس مسئلہ كو نہ صرف جانتا ہوں بلكہ اس كا اعتراف و اعتقاد بھی ركھتا ہوں ۔ گفتگو كے آخری جملہ میں اسی مطلب كا اظہار ہے كہ میں پورے علم و ارادہ كے ساتھ نیز اپنے بھائی كے حكم سے جہاد كے لئے اٹھ رہا ہوں۔ یہاں تك كہ (ابوجعفر) كہتے ہیں كہ اس گفتگو كے بعد ایك سال میں مكہ مكرمہ گیا اور وہاں میں نے یہ پورا واقعہ حضرت امام صادق(ع) سے بیان كیا۔ حضرت نے بھی میرے نظریات كی تائید كی۔
حضرت امام صادق(ع) سے دواور حدیثیں
امام(ع) ایك دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: "اِنَّ الارض لاتخلو الاوفیھا امام" زمین كبھی بھی امام سے خالی نہیں رہتی۔ نیز حضرت(ع) سے ایك اور حدیث نقل ہے: "لوبقیٰ اثنان لكان احد ھما الحجۃ علیٰ صاحبہ" اگر روئے زمین پر دو شخص بھی باقی رہیں تو ان میں ایك اپنے ساتھی پر خدا كی حجت ہوگا۔
حضرت امام رضا(ع) سے ایك روایت
اس سلسلہ میں ہمارے یہاں بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔ ایك مفصل روایت جو امام رضا(ع) سے مروی ہے ملاحظہ فرمائیں۔ عبدالعزیز بن مسلم كا بیان ہے كہ : "كنامع الرضا علیہ السلام بمرو فاجتمعنا فی الجامع یوم الجمۃ فی بدء مقدمنا" ہم مرومیں امام رضا(ع) كے ہمراہ تھے (یہ اس سفر كی بات ہے جب امام(ع) ولی عہدی كے سلسلہ میں خراسان لے جائے جارہے تھے) جمعہ كے دن ہم مرو كی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے اور امام جماعت موجود نہیں تھ الوگ جمع ہوكر مسئلہ امامت پر گفتگو كررہے تھے۔ اس كے بعد وہاں سے اٹھ كر امام(ع) كی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ساری باتیں بیان كردیں۔ امام(ع) نے تمسخر آمیز تبسم فرمایا كہ آخر یہ لوگ كیا سوچتے ہیں ؟! یہ لوگ دراصل موضوع (امامت)كو ہی نہیں سمجھتے۔ اس كے بعد امام(ع) نے فرمایا: "جھل القوم وخدعو اعن اٰرائھم" یہ لوگ جاہل ہیں اور انہوں نے اپنے افكار و عقائد میں دھوكہ كھایا ہے خداوند عالم نے اپنے پیغمبر (ص) كو اس وقت تك نہیں اٹھایا جب تك دین كامل نہیں ہوا۔ اس نے قرآن نازل فرمایا جس میں حلال ، حرام، حدود و احكام اور وہ تمام باتیں جن كی دین كے سلسلہ میں انسان كو ضرورت ہے سب بیان كردیں اور اعلان كردیا: "مافرّطنا فی الكتاب من شیٴ" ہم نے اس كتاب (قرآن مجید)میں كسی بھی چیز كو نہیں چھوڑا ہے یعنی سب كچھ بیان كردیا ہے (اس سے مراد حرام و حلال سے متعلق قرآن كے احكام اور انسانوں كے تمام فرائض ہیں) اپنی حیات طیبہ كے آخری ایام میں پیغمبر اسلام (ص) نے حجۃ الوداع كے موقع پر اس آیت كی تلاوت بھی فرمائی: "الیوم اكملت لكم دینكم واتممت علیكم نعمتی ورضیت لكم الاسلام دینا"یعنی آج میں نے تمہارے دین كو تمہارے لئے كامل كردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام كردیں اور تمہارے لئے اسلام سے راضی ہوگیا۔ اس كے بعد حضرت امام رضا(ع) نے فرمایا"وامر الامامة من تمام الدین" اور مسئلہ امامت دین كو تمام و كامل كرنے والے مسائل میں سے ایك ہے۔ "ولم یمض حتی بین لامتہ معالم دینھم"پیغمبر (ص)اس وقت تك تشریف نہیں لے گئے جب تك انہوں نے اپنی امت كے درمیان ہدایت كی نشانیوں كو بیان نہ كردیا اور ان كے لئے دین كی راہ روشن نہ كردی۔ "وَاقَامَ لَھُمْ عَلِیّا عَلَمًا" اور ان كے لئے علی(ع) كو راہنما مقرر فرمادیا۔
مختصر یہ كہ قرآن پوری صراحت كے ساتھ فرماتا ہے كہ ہم نے كسی بھی امر كو فراموش نہیں كیا۔ اب یہ كہ كیا اس نے تمام جزئیات بھی…بیان كردیئے؟ یا نہیں بلكہ فقط كلیات واصول بیان كئے ہیںاور ان چیزوںكاذكر كیا ہے جن كی لوگوں كو ضرورت تھی۔ ان ہی كلیات و اصول میں سے ایك مسئلہ یہ بھی ہے كہ قرآن نے (پیغمبر اكرم (ص) كے بعد كے لئے) ایك ایسے انسان كو تعارف كرادیا جو قرآن كی تفسیر اس كے معانی كی وضاحت نیز اس كے كلیات كی تشریح سے واقف ہے۔ اس كا یہ علم اجتہادكی بنیاد پر نہیں ہے۔ جس میں كچھ باتیں صحیح ہوں اور كچھ غلط (بلكہ وہ علم الہٰی كے ذریعہ ان چیزوں سے آگاہ ہے) اور حقیقت اسلام اس كے پاس محفوظ ہے۔ پس قرآن یہ جو كہتا ہے كہ ہم نے تمام چیزیں بیان كردیں اس كا مطلب یہ كہ اب كوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ ہم نے كلیات كے ساتھ ساتھ جزئیات بھی بیان كردیئے ہیں اور انہیں ایك "دانا" كے پاس محفوظ كردیا ہے۔ اور ہمیشہ اسلام سے آگاہ ایك شخص لوگوں كے درمیان موجود رہتا ہے۔ "مَنْ زَعَمَ اَنّ اللّٰہَ عزّوَجَلَ لَم یُكمِل دِینہ فَقَد رَدّ كِتابَ اللّہِ" اگر كوئی شخص یہ كہے كہ خداوند نے اپنے دین كامل نہیں كیا تو اس نے قرآن كے خلاف بات كہی ہے اور جو بھی قرآن كو رد كرے كافر ہے۔"وَھَل یَعرفون قدر الامامۃ و محلھا من الامۃ فیجوز فیھا اختیار ھم" جولوگ كہتے ہیں كہ امامت انتخابی ہے كیا وہ جانتے بھی ہیں كہ امام كے كیا معنی ہیں؟ ان لوگوں نے سمجھ لیا ہے كہ امام كا انتخاب كسی سپہ سالارِ لشكر كے انتخاب كے مانند ہے، جبكہ امام وہ ہے كہ (جس كی تعین پر)قرآن فرماتا ہے كہ میں نے دین كامل كردیا۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں كہ اسلام كے جزئیات قرآن میں نہیں ہیں، حقیقت اسلام اس (امام) كے پاس ہے۔ كیا لوگ سمجھ سكتے ہیں كہ ایسا شخص كون ہے كہ خود اسے انتخاب كرلیں؟ یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے كہا جائے كہ پیغمبر كا انتخاب ہم خود ہی كرتے ہیں!
"اِنّ الامَامۃ اَجَلّ قَدراً وَاَعظَمُ شانًا وَاَعلٰی مَكاناً وَاَمنَع جَانباً وَاَبعَدُ غوراً مِن یَبلُغَھا النّاسُ بعقولِھِم اَو ینَالو ھَا بآرائِھم۔" امامت انسان كی فكری حدود سے اس سے كہیں بالاتر ہے كہ اسے انتخابی قرار دیا جائے اسی مسئلہ كو انتخابی كہا جانا چاہیئے جسے لوگ واقعی طور پر تشخیص دے سكیں، جن مسائل میں انسان خود تشخیص كی صلاحیت ركھتا ہے وہاں دین كبھی براہ راست مداخلت نہیں كرتا۔ اور بنیادی طور پر ایسے مسائل میں دین كی براہ راست مداخلت بالكل غلط ہے، كیونكہ ایسی صورت میں سوال اٹھے گا كہ پھر انسان كی فكر و عقل آخر كہاں كام آئے گی؟ جہاں تك انسانی فكر و عقل كا دائرہ ہے انسان خود انتخاب كرے لیكن جو بات عقل بشر كی حد سے خارج اور بالاتر ہے، اس میں انتخاب كی گنجائش ہی نہیں ہے۔ (امامت) قدر و منزلت كے اعتبار سے بہت بلند، شان كے اعتبار سے بہت عظیم ، مرتبہ كے اعتبار سے بہت عالی ہے، اس كی دیواریں ناقابل عبور ہیں اور وہ عقل و فكر كی حدسے باہر ہے۔" انسان اپنی عقل كے ذریعہ امام كو درك نہیں كرسكتے نہ اس تك اپنی آراء كے ذریعہ رسائی حاصل كر سكتے ہیں اور نہ اپنے اختیار سے اس كا انتخاب كرسكتے ہیں۔"اِنّ الامامَۃ خصرّ اللہ عَزّ وَجَلّ بھا ابراھِیمَ الخَلیل بَعد النّبوة وَالخُلّۃ" اگر امامت كے حقیقی معنی سمجھنا چاہتے ہو تو یہ جان لوكہ (امامت) ان تمام مسائل سے الگ ہے جن كا آج لوگ اظہار كرتے ہیں كہ پیغمبر كا ایك خلیفہ و جانشین منتخب كریں، لیكن یہ جانشین پیغمبر صرف لوگوں كے امور كی دیكھ بھال كرے۔ امامت تو اصل میں وہ منصب ہے كہ ابراہیم (ع) جیسا پیغمبر نبوت كے بعد اس تك رسائی حاصل كرتا ہے اور اس منصب پر فائز ہونے كے بعد مسرت كا اظہار كرتے ہوئے خدا كی بارگاہ میں عرض كرتا ہے "وَمِن ذُرّیّتی" خداوندا میری ذریت میں سے كچھ افراد كو بھی یہ منصب عطا فرما۔ ابراہیم(ع) جانتے ہیں كہ یہ عظیم منصب ان كی تمام ذریت كو حاصل نہیں ہوسكتا ۔ جواب دیا جاتا ہے "لَایَنالُ عَھدِی الظّالمِینَ" یہ وہ منصب ہے جو ظالم كو نہیں مل سكتا۔ ہم عرض كرچكے ہیں كہ یہاں سوال اٹھتا ہے كہ اس سے مراد كیا ہے؟ كیا ظالم ہر حال میں ظالم ہے چاہے ماضی میں وہ ظالم رہا ہو یا پہلے نیك اور صالح رہا ہو كیونكہ یہ محال ہے كہ ابراہیم(ع) كہیں ، خدایا (یہ منصب) میری ذریت میں سے ظالموں كو عطا فرما۔ پس بہر حال ان كی نظر میں آپ كی نیك اور صالح اولاد ہی رہی ہے۔ چنانچہ خدا وند عالم كی طرف سے جواب ملا كہ یہ منصب آپ كی ذریت میں سے ان كو عطا ہوگا جن كا ظلم سے سابقہ نہ رہا ہو۔
"فَاَبطلت ھٰذہِ الایَۃ اِمَامَۃَ كُلّ ظَالم اِلٰی یومِ القیَامۃ وصارت فِی الصّفوةِ" یہ منصب ان منتخب افراد میں ہے یعنی ذریت حضرت ابراہیم(ع) میں اہل صفوة (منتخب اور بہترین) افراد كو عطا ہوا ہے۔ (صفوة یعنی مكھن كے مانند ایك ایسی چیز جسے مٹھامنھ كے اوپر سے نكال لیتے ہیں اور وہی "زبدہ" كہلاتا ہے) "ثُمّ اكرمَہ اللہُ تعالیٰ بَان جَعَلَھا فِی ذرّیّتہِ اَھلَ الصّفوَة وَ الطّھَارَہِ۔" ( اس كے بعد خداوند عالم نے امامت كو بزرگ و مكرم بنایا اور وہ اس عنوان سے كہ اسے) صفوة اور اہل طہارت یعنی ذریت ابراہیم میں صاحبان عصمت كا حصہ قرار دیا۔ اس كے بعد امام(ع) قرآن كی آیات سے استدلال فرماتے ہیں:
وَوَھَبْنَا لَہ اِسحٰقَ وَیَعْقُوبَ نَافِلَۃ وَّكُلّاً جَعَلنَاصَالحِینَ وَجَعَلنَاھُم اَئِمةً یّھدُونَ بِاَمرِناوَ اَوحَینا اِلَیھِم فعلَ الخَیرات 4
ور اہم نے ابراہیم(ع) كو اسحٰق(ع) و یعقوب(ع) جیسے فرزند عطا كئے اور ہم نے ان سب كونیكو كار و صالح (نبی)قرار دیا۔اور ان كو لوگوں كا ہادی و پیشوا قرار دیا كہ ہمارے حكم سے لوگوں كی ہدایت كرتے تھے، اورہم نے ان كی طرف نیك اعمال بجالانے كی وحی كی۔
قرآن مجید میں اس نكتہ پر كافی زور دیا گیا ہے كہ ذریت حضرت ابراہیم(ع) كو منصب امامت سے نوازا گیا ہے۔
اس كے بعد امام(ع) فرماتے ہیں: "فَمِن اَینَ یختار ھٰؤلاءِ الجھال" آخر وہ مقام و منصب جوحضرت ابراہیم(ع)كو نبوت كے بعد عطا ہوا، یہ نادان اسے آخر كس طرح انتخاب كرنا چاہتے ہیں؟ كیا بنیادی طور پر یہ منصب انتخاب كے ذریعہ حاصل بھی كیا جاسكتا ہے؟!"اِنّ الامامَۃ ھِیَ منزلۃ الانبیاٴ وارث الاوصیاء" امامت در اصل مقام انبیاء اور میراث اوصیاء ہے۔ یعنی یہ ایك وراثتی امر و منصب ہے لیكن قانونی میراث كے عنوان سے نہیں بلكہ اس اعتبار سے كہ اس كی استعداد و صلاحیت ایك نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی ہے۔"انّ الامَامَۃ خِلافۃ اللہِ" امامت خلافت الہٰی ہے جو سب سے پہلے آدم(ع) كو عطا ہوئی۔ "وَخلافَۃ الرّسُولِ" اور خلافت پیغمبر ہے۔ اس كے بعد امام فرماتے ہیں:"اِنّ الامَامَۃ زِمَامُ الدّینِ…" امامت زمام دین، نظام مسلمین،صلاح و فلاح دنیا، عزت مسلمین، اسلام كی اصل و اساس اور اس كابنیادی تنا ہے۔"بالامامِ تمام الصّلوۃ والزّكوٰة وَالصّیَام وَالحَجّ وَالجھَادِ … تاآخر۔" یعنی امام ہی كے ذریعہ نماز،زكوٰة، روزہ، حج، جہاد اور دیگر اسلامی احكام واوامر كامل ہوتے ہیں۔
نتیجہ
مذكورہ بالا تمام باتوںسے ایك اساسی و بنیادی منطق ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ ہاں اگر بالفرض كوئی اسے بھی قبول نہ كرے تو اور بات ہے۔ یہ منطق ا ن سطحی و معمولی مسائل سے بالكل الگ كہ اكثر متكلمین كی طرح ہم یہ كہیں كہ پیغمبر اسلام(ص) كے بعد ابوبكر خلیفہ ہوئے اور علی(ع)چوتھے خلیفہ ہوئے۔ آیا علی(ع) كو پہلا خلیفہ ہونا چاہیئے یا مثلا چوتھا؟ آیا ابوبكر میں امامت كے شرائط پائے جاتے تھے یانہیں؟ اس كے بعد ہم شرائط امامت كو مسلمانوں كی حاكمیت كے عنوان سے دیكھنا اور پركھنا شروع كریں۔ البتہ یہ بھی ایك بنیادی و اساسی مطلب ہے، اور شرائط حاكمیت كے اعتبار سے بھی شیعوں نے اعترضات كئے ہیں اور بجا اعتراضات كئے ہیں۔ لیكن اصولی طور پرمسئلہ امامت كو اس انداز سے بیان كرنا ہی صحیح نہیں ہے كہ ابوبكر میں امامت كے شرائط پائے جاتے تھے یا نہیں۔ اصل میں خود اہل سنت بھی ان كے لئے اس منصب كا اقرار نہیں كرتے۔
اس سلسلہ میں اہل سنت كے عقیدہ كا خلاصہ یہ ہے كہ آدم (ع) و ابراہیم(ع) سے لے كر حضرت رسول اكرم(ص) تك خداوند عالم نے ان افراد سے متعلق انسان كے جتنے ماوراء الطبیعی پہلوؤں كا ذكر كیا ہے آنحضرت (ص) كے بعد تمام ہوگئے۔ پیغمبر اكرم(ص) كے بعد اب تمام انسان معمولی اور ایك جیسے ہیں۔ اب صرف علماء ہیں جو پڑھنے لكھنے كے بعد عالم ہوئے ہیں اور ان سے كبھی غلطی ہوتی ہے كبھی نہیں ہوتی۔ یا حكام ہیں جن میں سے بعض عادل ہیں اور بعض فاسق ۔ اب یہ مسئلہ امامت ان ہی كے درمیان دائر ہوتا ہے… اب وہ باب جو ہمارے یہاں حجت الہٰیہ كے نام سے پایا جاتا ہے، یعنی وہ افراد جو علم ، ماورالطبیعہ یا عالم بالا سے ارتباط ركھتے ہیں۔ (ان كے یہاں نہیں پایا جاتا، ان كا عقیدہ ہے كہ) پیغمبر اكرم(ص) كے بعد و یہ بساط ہی لپیٹ دی گئی ہے۔
شیعہ جواب دیتے ہیں كہ (پیغمبر اكرم( ص )كے بعد)رسالت كا مسئلہ ختم ہوگیا۔ ا ب كوئی دوسرا انسان كوئی نیا دین و آئین لے كر نہیں آئے گا۔ دین ایك سے زیادہ نہیں ہے اور وہ ہے اسلام، پیغمبر اكرم(ص) كے ساتھ رسالت و نبوت كا سلسلہ ختم ہوگیا۔ لیكن حجت اور انسان كامل كا مسئلہ اور اس كی ضرورت انسانوں كے درمیان ہرگز تمام نہیں ہوئی ہے، كیونكہ روئے زمین پر پہلا انسان اس طرح كا تھا اور آخری انسان بھی ان ہی صفات كا نمونہ ہونا چاہیئے۔ اہل سنت میں صرف صوفیا كا طبقہ ایسا ہے جو ایك دوسرے نام سے سہی، اس مطلب كو تسلیم كرتا ہے، چنانچہ ہم دیكھتے ہیں كہ صوفیائے اہل سنت اگر چہ صوفی ہیں لیكن جیسا كہ ان كے بعض بیانات سے ظاہر ہوتا ہے انہوں نے مسئلہ امامت كو اسی عنوان سے قبول كیا ہے۔ جیسے شیعہ مانتے ہیں۔
محی الدین عربی، اندلس كا رہنے والا ہے۔ اور اندلس وہ جگہ ہے جہاں كے رہنے والے نہ صرف سنی تھے بلكہ شیعوں سے عناد بھی ركھتے تھے اور ان میں ناصبیت كی بو پائی جاتی تھی اس كی وجہ یہ تھی كہ اندلس كو امویوں نے فتح كیا اور بعد میں برسہابرس وہاں ان كی حكومت رہی۔ اور چونكہ یہ لوگ بھی اہل بیت(ع) كے دشمن تھے لہٰذاعلمائے اہل سنت میں زیادہ تر ناصبی علماء اندلسی ہیں۔ شاید اندلس میں شیعہ ہوں بھی نہیں اور اگر ہوں گے بھی تو بہت كم اور نہ ہونے كے برابر ہوں گے۔
بہر حال یہ محی الدین اندلسی ہے، لیكن اپنے عرفانی ذوق كی بنیاد پروہ اس بات كا معتقد ہے كہ زمین كبھی كسی ولی یا حجت سے خالی نہیں رہ سكتی، یہاں وہ شیعی نظریہ كو قبول كرتے ہوئے ائمہ علیہم السلام كے ناموں كا ذكر كرتا ہے، یہاں تك كہ حضرت حجت(عج)كا نام بھی لیتا ہے اور دعویٰ كرتا ہے كہ میں نے سن چھ سو كچھ ہجری میں حضرت محمد بن حسن عسكری (ع) سے فلاں مقام پر ملاقات كی ہے ۔ البتہ بعض باتیں اس نے ایسی كہی ہیں جو اس كی ایك دم ضد ہیں اور وہ بنیادی طور پر ایك متعصب سنی ہے لیكن اس كے باوجودچونكہ اس كا ذوق عرفانی تقاضہ كرتا ہے كہ صوفیوں كے مطابق زمین كبھی كسی "ولی" (اور ہمارے ائمہ(ع) كے مطابق حجّت) سے خالی نہیں رہ سكتی ، اس مسئلہ كو نہ صرف تسلیم كرتا ہے بلكہ مشاہدہ و ملاقات كا دعویٰ كرتے ہوئے یہ بھی كہتا ہے كہ میں حضرت محمد(ع) بن حسن عسكری (ع)كی خدمت میں پہنچ چكا ہوں، اور اس وقت جبكہ ان كی عمر تین سو كچھ برسوں سے زیادہ ہوچكی ہے اور وہ مخفی ہیں، میں ان كی زیارت سے شرفیاب ہوا ہوں۔
منبع: مجله التوحید؛ جلد 7، نمبر 3

1. ڈارون كا مشہور نظریہ۔ انسان پہلے بندر تھا…
2. سورہ بقرہ۔ آیات ۳۰۔۳۱
3. نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، حكمت نمبر۱۳۹… مطابق نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین مرحوم، حكمت ۱۴۷
4. سورہٴ انبیائ آیت نمبر ۷۲۔۷۳

آیة الله شہید مرتضیٰ مطہری
مترجم: سید احتشام عباس زیدی
   بشکریہ گروہ ترجمہ سایٹ صادقین

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.