قیام امام مهدی
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا قیام
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے روز قیام کے سلسلے میں مختلف روایتیںپائی جاتیں ہیں ،بعض میں نو روزکا دن قیام کے آغاز کا دن ہے، اوربعض میں روز عاشورہ ،اورکچھ روایتوں میں سنیچر کا دن اور کچھ میں جمعہ کا،قیام کے لئے معین ہے،
ایک ہی زمانے میں نو روزاور عاشورہ کا واقع ہونامحل اشکال نہیں ہے؛ اس لئے کہ نو روز شمسی اعتبار سے، اور عاشورہ قمری لحاظ سے حساب ہو جائے گا،لہٰذادو روز کا ایک ہونا ممکن ہے۔
اور ان دو روز (عاشورہ و نو روز) کا ایک زمانہ میں واقع ہونا ممکن ہے البتہ جو کچھ مشکل اور مانع ہے وہ ہفتہ میں دو دن بعنوان قیام کا ذکر کرنا ہے، لیکن اس طرح کی روایت بھی قابل توجیہ ہے؛اس طرح کہ اگر ان روائیوں کی سند صحیح ہو تو ایسی صورت میں روز جمعہ والی روایات کو قیام و ظہور کے دن پر حمل کیا جائے گا، اور وہ روایات جو شنبہ کو قیام کا دن کہتی ہیں نظام الٰہی کے اثبات اور مخالفین کی نابودی کا دن سمجھا جائے گا ،لیکن جاننا چاہئے کہ جو روایتیں شنبہ کا دن تعیین کرتی ہیں وہ سند کے لحاظ سے مورد تاّمل ہیں ۔ لیکن روز جمعہ والی روایات اس اعتبار سے بے خدشہ ہیں۔
اس سلسلے میں اب روایات ملاحظہ ہوں۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ہمارا قائم جمعہ کے دن قیام کریں گا “(۱)
(۱)اثبات الہداة، ص۴۹۶؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۲۷۹
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضر ت قائم عاشور کے دن شنبہ کو رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہیں ،اور جبرئیل آنحضرت کے سامنے کھڑے لوگوں کو ان کی بیعت کی دعوت دے رہے ہیں“(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : روز عاشورہ شنبہ کے دن حضرت قائم(عجل اللہ فرجہ) قیام کریں گے یعنی جس دن امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے ہیں۔(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” کیا جانتے ہو کہ عاشور ہ کون سا دن ہے ؟ یہ وہی دن ہے جس میں خداوند عالم نے آدم و حوا کی توبہ قبول کی،اسی دن خدا نے بنی اسرائیل کے لئے دریا شگاف کیا، اور فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کیا،اور موسیٰ (علیہ السلام) فرعون پر غالب آئے اسی دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے، حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے توبہ او ر جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا دن ہے“(۳)
اسی مضمون کی امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے؛( ۴)
لیکن اس روایت میں ابن بطائنی کی وثاقت جو سلسلہ سند میں واقع ہوا ہے مورد خدشہ ہے ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” تیسویں کی شب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فر جہ )
(۱)طو سی، غیبة، ص۲۷۴؛کشف الغمہ، ج۳ ،ص۲۵۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۹۰
(۲)کمال الدین ،ج۲، ص۶۵۳؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۴ ؛التہذیب، ج۴، ص۳۳۳؛ملاذ الاخیار،ج۷،ص۱۷۴؛ بحار الانوار ، ج۵۲،ص۲۸۵
(۳)بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۸۵
(۴)التہذیب، ج۴، ص۳۰۰؛ابن طاوٴس، اقبال، ص۵۵۸؛خرائج، ج۳ ،ص۱۱۵۹؛وسائل الشیعہ، ج۷، ص۳۳۸ ؛بحار الانوار، ج۹۸،ص۳۴؛ملاذالاخیار ،ج۷، ص۱۱۶
کے نام سے آواز آئے گی اور روز عاشورہ حسین بن علی کی شہادت کے دن قیام کریں گے۔‘ ‘(۱)
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :”نوروز کے دن ہم اہل بیت( علیہم السلام )کے قائم ظہور کریں گے“(۲)
الف)اعلان ظہور
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا اعلان سب سے پہلے آسمانی منادی کے ذریعہ ہوگا ،اس وقت آنحضرت جب کہ قبلہٴ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوں گے،حق کی دعوت کے ساتھ، اپنے ظہور کا اعلان کریں گے۔
امیر الموٴمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب منادی آسمانی آواز دے گا: حق آل محمد کی طرف ہے ،اگر تم لوگ ہدایت و سعادت کے خواہاں ہو، توآل محمد کے دامن سے متمسک ہو جاوٴ،اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کررہے ہیں“ (۳)
امام محمد باقر (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) مکہ میں نماز عشاء کے وقت ظہور کریں گے ؛جب کہ پیغمبر کا پرچم، تلوار اور پیراہن ہمراہ لئے ہوں گے اور جب نماز عشاء پڑھ چکیں گے، توآوازدیں گے :اے لوگو!تمہیں خدا اور خدا کے سامنے (روز قیامت) کھڑے ہونے کو یاد دلاتا ہوں ؛ جب کہ تم پر دنیا میں اپنی حجت تمام کر چکا ہے انبیاء بھیجے ،اورقرآن نازل کیا،خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کا کسی کو شریک قرار نہ دو اور اس کے پیغمبروں کی
(۱)طوسی ،غیبة، ص۲۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۹۰
(۲)المہذب البارع ،ج۱، ص۱۹۴؛خاتون آبادی، اربعین ،ص۱۸۷؛وسائل الشیعہ، ج۵،ص۲۲۸؛اثبات الہداة، ج۳ ، ص۵۷۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۰۸
(۳)الحاوی للفتاوی، ج۲، ص۶۸ ؛حقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۲۴
اطاعت کرو، جس کے زندہ کرنے کو قرآن نے کہا ہے اسے زندہ کرو، اور جس کے نابود کرنے کا حکم دیا ہے اسے نابود کرو اور راہ ہدایت کے ساتھی بنو اور تقویٰ وپر ہیز گاری اختیار کرو اس لئے کہ دنیا کے فنا ہونے زوال اور وداع کا وقت آچکاہے ۔
میں تمہیں اللہ ،رسول ،کتاب عمل اور باطل کی نابودی رسول اللہ کی سیرت کے احیاء کی دعوت دیتا ہوں، اس وقت ۳۱۳ / انصار کے درمیان ظہور کریں گے۔(۱)
ب)پرچم قیام کا نعرہ
ہر حکومت کا ایک قومی نشان ہوتا ہے تاکہ وہ اسی کے ذریعہ پہچانی جائے ،اسی طرح قیام و انقلاب بھی ایک مخصوص پرچم رکھتے ہیں،اور اس کا مونو گرام ایک حد تک اس کے رہبروں کے مقاصد کو نمایا ں کرتا ہے، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا عالمی انقلاب بھی مخصوص مونوگرام رکھتا ہوگا اور اس پر شعار لکھا ہوگا ،البتہ مونوگرام کے شعار کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ لوگوں کو حضرت کی اطاعت کی دعوت دے گا۔(۲)
ابھی ہم اس سلسلے میں چند نمونے ذکرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پرچم پہ لکھا ہوگا :
”کان کھلا رکھو اور حضرت کی اطاعت کرو“(۳)
(۱)ابن حماد، فتن ،ص۹۵؛عقد الدرر ،ص۱۴۵؛سفارینی الوائح، ج۲، ص۱۱؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛الصر اط المستقیم ، ج ۲،ص۲۶۲
(۲)امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو حمزہ سے فرمایا : میں اہلبیت آل محمد کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ نجف میں وارد ہو رہے ہیں، اور جب نجف کے اندر پہنچے گے تو رسول خدا کے پرچم کو لہرائیں گے، اور وہ پرچم جس طرح بدر میں کھلا تھا فرشتے نیچے آئے تھے اسی طرح حضرت کے لئے بھی نازل ہوں گے “،عیاشی، تفسیر، ج۱، ص۱۰۳ ؛نعمانی ،غیبة، ص۳۰۸؛کمال الدین ،ج۲، ص۶۷۲؛تفسیر، برہان، ج۱، ص۲۰۹؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۶
(۳)اثبات الہداة ،ج۲،ص۵۸۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۰۵
دوسری جگہ ملتا ہے کہ پر چم مہدی کا نعرہ ”البیعة ِللہ ؛بیعت خدا کے لئے ہے “(۱)
ج)قیام سے کائنات کی خوشحالی
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا قیام انسانوں کی خوشحالی کا باعث ہوگا ،اوراس خوشحالی کا بیان مختلف طریقوں سے ہے، بعض روایتوں میں زمین اور آسمان والوں کی خوشی ہے، اور بعض میں مردوں کی خوشحالی مذکور ہے، ایک روایت میں قیام کے لئے لوگوں کے استقبال کا تذکرہ ہے دوسری روایتوں میں مردو ں کے زندہ ہونے کی آرزو کا تذکرہ ہے یہاں پر اس کے چند نمونے ذکر کرتا ہوں۔
رسول خدا فرماتے ہیں : حضرت مہدی کے قیام سے تمام اہل زمین و آسمان پرندے ،درندے اوردریا کی مچھلیاں خو شحال و شاد ہوں گی ۔(۲)
اس سلسلے میں حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”اس وقت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے جب آپ کانام مبارک خاص و عام کی زبان زدہوگا اور لوگوں کے وجود حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عشق سے سرشار ہوں گے، اس طرح سے کہ ان کے نام کے سوا کوئی اور نام نہ زبان زد ہوگا اور نہ یاد رہ جائے گا ،اور ان کی دوستی سے اپنی روح کو سیراب کریں گے“(۳)
(۱)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۷؛القول المختصر،ص۲۴؛ینابیع المودة، ص۴۳۵؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۰
(۲)عقد الدرر ،ص۸۴، ۱۴۹؛البیان، ص۱۱۸؛حاکم مستدرک ،ج۴،ص۴۳۱؛الدر المنثور، ج۶، ص۵۰؛نور الابصار، ص۱۷۰؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۴۲؛حقاق الحق، ج۱۳، ص۱۵۰
(۳)الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۸؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۲۴
روایت میں ”یَشْرِبُوْنَ حُبَّہ“کی تعبیر سے یعنی ”لوگ ان کی محبت سے اپنی پیاس بجھائیں گے“ حضرت سے ارتباط وتعلق کو خوشگوار پینے کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جسے لوگ الفت اور پوری رغبت سے پیتے ہیں ،اور حضرت مہدی کا عشق ان کے وجود میں نفوذ کر جائے گا۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) ظہور سے قبل کے تلخ حوادث اور فتنوں کو شمار کرتے ہوئے ظہور کے بعد فرج اور کشادگی کے بارے میں فرماتے ہیں :” اس وقت لوگوں کو اس طرح فرج و سکون حاصل ہوگا کہ مردے دوبارہ زندگی کی تمنا کریں گے“(۱)
امام جعفرصادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:”گویا میں منبر کوفہ کی بلندی پر قائم (عج)کو بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں، اوروہ رسول خدا کی زرہ ڈالے ہوئے ہیں، اس وقت حضرت کے بعض حالات بیان فرمائے ،اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کوئی مومن قبر میں نہیں بچے گا کہ اس کے دل میں خوشی و مسرت داخل نہ ہوئی ہو، اس طرح سے کہ ُمردے ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں گے، اور حضرت کے ظہور کی ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے ۔
بعض روایتوں میں ”تلک الفرجة“کی لفظ آئی ہے یعنی برزخ کے باشیوں کے لئے حضرت کے ظہور سے کشایش پیدا ہوگی، اس نقل کے مطابق رہبری و انقلاب کی عظمت اس درجہ ہے کہ ارواح پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ (۲)
د)محرومین کی نجا ت
اس میں کوئیشک نہیں کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا قیام عدالت کی بر قراری اور انسانی سماج سے تمام محرومیت کی بیخ کنی ہے ،اس حصے میں حضرت کے قیام کے وقت مظلوموں
(۱)خرائج ،ج۳،ص۱۱۶۹؛طوسی ،غیبة، ص۲۶۸
(۲)اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۳۰
کے سلسلے میں جوآپ کا اقدام ہوگا کہ محروموں کی پناہ کا باعث ہو اُسے بیان کریں گے۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” میری امت سے مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، خدا انھیں انسانوں کا ملجاء بنا کر بھیجے گا ،اس زمانے میں لوگ نعمت اورآسائش میں زندگی گذاریں گے“(۱)
رسول خدا نے فریاد رسی کو کسی گروہ ،ملت اور قوم وقبیلہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ؛بلکہ کلمہٴ (ناس) کے ذریعہ تمام انسانوں کا نجات دہندہ جاناہے، اس بناء پر ان کے ظہور سے پہلے شرائط کچھ ایسے ہوجائیں گے کہ دنیا کے تمام انسان ظہور کی تمنا کریں گے جابر کہتے ہیں : امام محمد باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا:” حضرت مہدی مکہ میں ظہور کریں گے اورخدا وند عالم ان کے ہاتھوں سے سرزمین حجاز کو فرج عطا کرے گا، اور حضرت(قائم عج) بنی ہاشم کے تمام قیدیوں کو آزاد کریں گے“(۲)
ابو ارطات کہتا ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)(مکہ سے) مدینہ کے لئے عازم ہوں گے، اور اسراء بنی ہاشم کو آزاد ی دلائیں گے، پھر کوفہ جائیں گے، اور بنی ہاشم کے اسراء کو آزاد کریں گے ۔(۳)
شعرانی کہتا ہے : جب حضرت مہدی غرب کی سر زمین پر پہنچیں گے تواُندلس کے لوگ ان کے پاس جاکے کہیں گے: اے حجة اللہ! جزیرہ اُندلس کی مدد کیجئے کہ وہاں کے لوگ اور جزیرہ تباہ ہو گیا ہے ۔(۴)
(۱)عقد الدرر، ص۱۶۷
(۲)ابن حماد ،فتن ،ص ۹۵؛ابنطاوٴس، ملاحم، ص۶۴؛الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۱ ؛القول المختصر ،ص۲۳
(۳)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۷؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۱۸؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۴
(۴)قرطبی، مختصر تذکرہ، ص۱۲۸؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۲۶۰