انتظار اورحرکت کا باہمی رابطہ
انتظار اورحرکت کا باہمی رابطہ
مسئلہ انتظار کی وضاحت
بعض لوگ”انتظار “کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ”انتظار“ سماج اور تاریخ کے کمزور اور دوکچلے ہوئے لوگوں کی محرومیوں کی دین ہے اور انتظاردر اصل موجودہ مشکلات ومصائب سے بچنے کے لئے ایسے مستقبل کے تصور میں غرق ہوجانا ہے جس میں تمام محرومین اپنے حقوق اور اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت کو دوبارہ حاصل کرلیں گے ایسا تصور در حقیقت ”بیداری میں خواب“دیکھنے یا ”حقائق سے خیالات کی دنیا کی طرف فرارکرنے کے “ مانند ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انتظار کی اس تاویل او روضاحت کا علم سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے آئیے انتظار کی تاریخ کو انسانیت کے مشہور ومعروف ادیان کے وسیع وعریض میدانوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے ۔
انتظار لا مذہب مکاتب فکر کی روشنی میں
انتظار کا تعلق فقط مذہبی مکاتب فکر سے نہیں ہے بلکہ انتظار کا دائرہ مارکسزم جیسے بے دین مکاتب فکر تک پھیلا ہوا ہے چنانچہ برٹرانڈراسل کا بیان ہے:”انتظارکا تعلق صرف مذاہب سے نہیں ہے بلکہ غیر مذہبی مکاتب فکربھی ایسی شخصیت کے منتظر میں جو عدل وانصاف کا پرچم لہرا کر دنیا کو نجات دے سکے ۔“
انتظار کے بارے میں راسل نے جوکہا ہے :انتظار کا وہی مفہوم عیسائیوں کے یہاں بھی پایا جا تا ہے اسی طرح”ٹولسٹائے“کے نزدیک بھی انتظار کا مفہوم وہی ہے جو عیسائیوں کے یہاں ہے البتہ اس روسی مفکر کے یہاں اس مسئلہ کو پیش کرنے کا انداز عیسائیوں سے قدرے مختلف ہے۔
انتظار کے بارے میں ما قبل اسلام موجود ادیان کا نظریہ
کتاب مقدس کے عہد قدیم میں ہمیں یہ ملتا ہے :”اشراراور ظالموں کی موجودگی سے آزردہ خاطر نہ ہو کیونکہ ظالموں کا سلسلہ عنقریب ہی ختم ہو جائے گا اور عدل الٰہی کے منتظر زمین کے وارث ومالک بن جائیں گے اور قابل لعنت افراد پراکندہ ہو جائیں گے اور نیک بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے اور دنیا کے آخری دورتک وہی آبادرہیں گے۔“(۱)
کتاب مقدس نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اسی کا تذکرہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے:< وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ >(۲)”اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔“
انتظار اہل سنت کی نظر میں
صرف شیعوں کوہی دنیا کو ظلم وجور سے ”نجات دینے والے مہدی“کاانتظارنہیں ہے بلکہ شیعی احادیث کی طرح اہل سنت کے یہاں بھی اس سلسلہ میں بکثرت اتنی صحیح احادیث موجود ہیں جن کے بعد کسی شک وشبہہ کا امکان باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
آٹھویں صدی ہجری کے معروف سنی عالم اور کتاب ”العِبَر“کے مقدمہ کے مولف عبد الرحمٰن بن خلدون کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے:”یا د رکھو کہ ہر دور کے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہوررہی ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت کی ایک فرد کا ظہور ضروری ہے جودین کی حمایت کر ے گااور عدل وانصاف کو ظاہر کر ے گا ،مسلمان اس کی پیروی کریں گے ،تمام اسلامی ممالک کے اوپراس کا تسلط قائم ہوگا ،اس کا نام”مہدی“ہوگا۔اور دجال کا خروج یا قیامت کے دوسرے آثار جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے اور وہ دجال کو قتل کر دیں گے یا یہ کہ حضرت عیسیٰ ان کے ساتھ نازل ہو کر دجال کو قتل کرنے میں ان کی مدد کریں گے اور پھر حضرت عیسیٰ حضرت مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔“(۳)
مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں:” حرم کے المناک واقعہ سے بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں انہیں سوالات کی وضاحت کے لئے بعض علما ء نے ریڈیو اور دیگرذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول خدا سے منقول روایتیں صحیح ہیں ،ان علماء میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (صدر ارادہٴ تعلیم وتبلیغ)نے اپنے بعض رسائل اور کتابچوں میں اس مسئلہ کو رسول اللہ کی صحیح اور مستفیض احادیث سے ثابت کیا ہے ، ان علماء میں مسجد نبوی کے امام شیخ عبد العزیز بن صالح بھی شامل ہیں۔ “
اس کے بعد شیخ محسن العباد تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ رسالہ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے تحریر کیا ہے کہ مہدی آخر الزمان کے خروج پر صحیح روایات دلالت کرتی ہیں اور شاذ ونادرافراد کے علاوہ تقریباً سبھی علمائے اہل سنت اس کے قائل ہیں۔“(۴)
آیہٴ کریمہ :<وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلاَتَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُونِی ہَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ >(۵) کے بارے میں ابن حجر الہیتمی نے یہ تحریر کیا ہے:کہ مقاتل اور ان کا اتباع کرنے والے مفسرین کا یہ بیان ہے کہ:”یہ آیت مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“آئندہ ایسی احادیث بیان کی جائیں گی جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ مہدی“ کا تعلق اہل بیت ٪ نبوت سے ہے۔اور اس بنا پر —— آیہٴ کریمہ نسل فاطمہ و علی رضی اللہ عنہما میں برکت پرصراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خداوندعالم انہیں کثیر وطیب اولاد عطا کرے گا اور ان کی نسل کو حکمت کی کنجی اور رحمت کی معدن قرار دے گااور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم نے جنا ب فاطمہ =اور ان کی ذریت کے لئے شیطان رجیم سے محفوظ رہنے کے لئے پناہ طلب کی تھی اور یہی دعا آپ نے حضرت علی کے لئے بھی کی تھی۔(۶)
عصر حاضر کے شیخ الحدیث اور عالم ”شیخ ناصر الدین البانی“”التمدن الاسلامی “ نامی رسالہ میں تحریر کرتے ہیں:
” zجہاں تک مسئلہ مہدی کا سوال ہے تو یاد رکھو کہ ان کے ظہور کے بارے میں بکثرت معتبر احادیث پائی جاتی ہیں ان احادیث میں سے کثیر روایات کی سند صحیح ہے اور میں اس مقام پر ا ن کے چند نمونے پیش کر رہا ہوں ۔“پھر انہوں نے کچھ حدیثوں کا تذکرہ کیا ہے۔
احادیث انتظار،شیعہ امامیہ کی نظرمیں
اثنا عشری شیعوں کے یہاں انتظار کے بارے میں بکثرت روایات بحدتواتر موجود ہیں اور ان میں اکثرکی سند صحیح ہے۔اور بعض علمائے کرام نے ان احادیث کو نہایت علمی انداز میں جمع کیا ہے۔جن میں شیخ لطف اللہ صافی کی کتاب ’منتخب الاثر “اور شیخ علی کورانی کی کتاب ”موسوعة الامام المھدی“ اہم اور قابل ذکرہیں۔(۷)
سر دست ان احادیث کوپیش کر نامقصود نہیں ہے کیونکہ ہماری گفتگو کا موضوع امام مہدی کے بارے میں منقول احادیث کے بارے میں تحقیق اور سند یا دلالت کے اعتبار سے ان کا جائزہ لینا نہیں ہے بلکہ اس رسالہ میں ہمیں دوسرے موضوع کے بارے میں گفتگو کرنا ہے خداوندعالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مقصد میں کامیاب کرے امام مہدی سے متعلق احادیث پر گفتگو کو ہم اس موضوع سے متعلق حدیث کی مفصل کتابوں پر ہی چھوڑتے ہیں کیونکہ ہم فی الحال جس موضوع کے بارے میں گفتگو کریں گے وہ انتظار اور اس کی تہذیبی قدرو قیمت ہے:
انتظار ایک اسلامی اصطلاح ہے جو ہمارے تہذیبی اقدار کا حصہ ہے:انتظار کے اس مفہوم پر مخصوص تہذیبی و ثقافتی انداز فکر سامنے آتا ہے کیونکہ کبھی لوگ انتظار کا غلط اور منفی مفہوم مراد لیتے ہیں جس سے ا نتظار بے حس وحرکت ،ساکت وجامد پڑے رہنے کے معنی بیان کرنے یا تاخیر والتواء میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اور کبھی اس کا صحیح اور مثبت مفہوم میں استعمال ہوتاہے جس سے یہ انسانی زندگی میں جو ش وجذبہ اور شوق وولولہ کا ذریعہ قرار پاتا ہے۔
اس لئے مسئلہ انتظار کے صحیح مفہوم کی باقاعدہ وضاحت ضروری ہے ،اور اس کتابچہ کی تالیف کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔
انتظار ایک کلچر ہے جو ہماری ذہنی نشوونما ، اندازفکر ،طرز زندگی اور مستقبل میں دخیل ہے یہی کلچر حال اور مستقبل سے متعلق ہماری سیاسی منصوبہ بندیوں میں بھی موثر ہے۔
ہماری قومی تہذیب اور ثقافتی زندگی میں انتظار کی جڑیں ۱۱۹۰/ سال پرانی ہیں کیونکہ غیبت صغریٰ ۳۲۹ ئھ میں اختتام پذیر ہوگئی تھی۔
اس طویل عرصہ میں انتظارنے ہمارے سیاسی شعور اور انقلابی طرز فکرمیں موثرکردارادا کیاہے،اور بالفرض اگرہم اپنی سیاسی اور انقلابی تاریخ کو ”مفہوم انتظار“سے الگ کرنے کی کوشش کریں تو پھر اس تاریخ کی شکل وصورت ہی کچھ اور ہوگی۔
چنانچہ جو افرادبھی دعائے ندبہ پڑھتے ہیں (جیسا کہ عام طور سے مومنین کرام ہرجمعہ اس کی تلاوت کرتے ہیں)اس سے مومنین کے قلوب،عقل وشعوراور انداز فکر ونظرپر ابھرنے والے انتظار کے گہرے نقوش کا خود بخود اندازہ ہو جائے گا۔
انتظار کی قسمیں
نجات دینے والے انتظار کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم :ایسا نجات دہندہ انتظار جسے مقدم یاموخر کرنامصیبت زدہ انسان کے لئے ممکن نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی ڈوبنے والے انسان کو انتظار ہو کہ کوئی شخص ساحل سے آکر اسے ڈوبنے سے بچانے والاہے اسی لئے اس کی نظر یں ساحل پر لگی رہتی ہیں،لیکن یہ طے شدہ ہے کہ ڈوبنے والے کے لئے اپنے نجات دہندہ کی رفتار تیز کرنا توممکن نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ نجات دہندہ کودیکھنے کے بعد ڈوبنے والے کے اندر نجات کے لئے ایک نیا عزم وحوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے قلب ودماغ پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادلوں کو چیرکر زندگی کی آرزوا ورتمنا اس کی آنکھوں میں زندگی کی نئی روشنی اور چمک پیدا کر دیتی ہے۔
قطعی طور پر ”امید“سے انسان کو مقابلہ اوراستقامت کا عزم وحوصلہ ملتا ہے اسی لئے ڈوبنے والا نجات دہندہ کے پہنچنے تک ہاتھ پیر مارنے کی بھر پور کوشش کرتا رہتاہے۔چنانچہ اس انسان کی صورت حال اس وقت عجیب دیدنی ہوتی ہے کہ جب وہ ہمت ہار جاتاہے یا جب مقاومت کرتا ہے۔کیونکہ اس کے ہمت ہار جانے کے بعد کوئی بھی اسے اس بھنور سے باہر نہیں نکال سکتا اور نہ ہی اس کی ڈوبتی ہو ئی کشتی کو ساحل نجات تک پہنچا سکتا ہے۔اور کبھی کبھی تو یہ شکست کسی فرد یا جماعت تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے ملک یاسیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسا کہ ہم نے ماضی قریب میں سوویت یونین کا زوال دیکھا ہے جو ایک سپر پاور ملک تھا۔
جب انسان ثابت قدمی کامظاہرہ کرتا ہے تو خداوندعالم ایسے بندہ کو اس راہ میں ڈٹے رہنے کاعزم وحوصلہ عطا کردیتاہے تو کوئی چیز بھی اس کے قدموں کو نہیں ہلا سکتی اور نہ ہی اس کے آہنی ارادوں میں کوئی تزلزل پیدا ہو سکتا ہے۔بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ گوشت اور پوست سے بنا ہوا یہ انسان عزم وہمت کا ایک ہمالیہ ثابت ہوتا ہے اوربڑے سے بڑے مصائب کے بالمقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتا ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کی یہ استقامت خداوندعالم کاعطیہ ہوتی ہے۔اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ اس استقامت کی اصل بنیاد ”امید وآرزو“ہی ہے ان دونوں باتوں کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں ہے:
ایک تو یہ کہ انتظار سے ”آرزو اورامید “کی کرن پیدا ہو تی ہے اور انسانی زندگی پر مایوسی کے چھائے ہوئے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ آرزو اور امید سے انسان کو ثبات قدم کا عزم وحوصلہ ملتا ہے۔
دوسری قسم : یہ ہے کہ انسان کے پاس اس کے بارے میں خود فیصلہ کرنے بلکہ اس میں اصلاح وترمیم کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔جیسے بیماری سے شفا یاب ہونا ،یا کسی تعمیری ،تجارتی ،یا علمی منصوبہ کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانا ،دشمن پر فتحیاب ہونا،فقیری سے نجات پانا وغیرہ کہ یہاں بھی ایک طرح کا انتظار ہی ہے اور ان تمام امور میںعجلت یا تاخیر خودانسان کے اختیار میں ہے۔
انسان کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بیماری سے جلد ی شفایاب ہوجائے یا اس میں تاخیر کر دے یا شفا حاصل ہی نہ کرے،یا یہ کہ کسی تجارتی وتعمیری اور علمی منصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کر لے یا اسے دیر تک معطل رکھے یا مثلاً دولت وثروت یا دشمن پر فتح حاصل کرے یا ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔
اس انتظار کاانداز گذشتہ انتظار سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اسے جس چیز کا انتظار ہے اس کو حاصل کرنے میں جلدی یا تاخیر حتی کہ اس سے صرف نظر کرنا خود انسان کے اختیار میں ہے۔
اس طرح انتظار کی دوسری قسم میں انسان کے اندر ”آرزو“اور ”استقامت“ کے علاوہ ”تحریک حرکت اور جد وجہد“بھی پیدا ہو تی ہے۔اس طرح ”تحریک حرکت“انتظار کی صرف اسی قسم کالازمہ ہے۔کیونکہ جب کسی انسان یہ معلوم ہو جائے کہ اسے نجات اور کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ جد وجہداور دوڑ دھوپ کرے تو وہ ایسا ضرورکرے گا چنانچہ اس یقین کے بعد اس کی زندگی کا نقشہ یکسر تبدیل ہو جاتاہے اور وہ لگن کے ساتھ باقاعدہ محنت ومشقت شروع کر دیتا ہے جب کہ اس کی زندگی میں پہلے ان چیزوں کا نام ونشان نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ انتظار کی پہلی قسم میں ”امیدوآرزو “اور ”استقامت“کے علاوہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہوتا لیکن انتظار کی دوسری قسم میں آرزو اور استقامت کے علاوہ اس کے اندر عزم وحوصلہ اور جوش وجذبہ (تحریک وحرکت)بھی پیدا ہو جاتاہے۔
۱۔ انسان کے دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے تو وہ حال کے دریچوں سے اپنے مستقل کودیکھنے کی کوشش کرتا ہے دو طرح کے افراد ہوتے ہیں کچھ وہ ہوتے ہیں جو صرف اپنی موجودہ مشکلات کی عینک سے خدا ،کائنات اور لوگوں کو دیکھتے ہےں اور کچھ وہ جو ان تمام چیزوں کو ماضی،حال اور مستقل کے آئینے میں دیکھتے ہیں ان دونوں افراد کے درمیان بہت نمایاں فرق پایا جاتا ہے ۔کیونکہ پہلے طرز نگاہ میں دھندھلاپن ،تاریکی اور منفی رخ پایاجاتا ہے جب کہ دوسرا طرز نگاہ ان چیزوں قطعاً مبراہے۔
۲۔ استقامت کی بنا پرانسان جووجہد سے کام لیتا ہے اور مدد پہنچنے تک مسلسل تباہی و بربادی یا تنزلی کے مقابل ڈٹا رہتا ہے اور جس انسان کو مدد پہنچنے کی امیدنہیں ہوتی اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اوروہ خود ہی گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
۳۔ جد وجہد اور حرکت سے کامیابی ، نجات طاقت واستغناء اور خود کفائی وخود اعتمادی حاصل ہوتی ہے ۔ایسی صفات کے حصول کے لئے جد وجہد کو”تحریکی انتظار “کہا جاتا ہے اور یہ انتظارکی سب سے اعلیٰ قسم ہے لہٰذا اس وقت ہم انتظار کی اسی قسم کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔
تبدیلی کے اسباب
اس انتظار کی بنا پر بندے خداوندعالم سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے معاملات کو اس طرح تبدیل کر دے کہ برائی کی جگہ بھلائی ،فقیری وناداری کی جگہ مال ودولت کی فراوانی ،عاجزی ولاچاری کی جگہ قدرت وطاقت اور ناکامی کی جگہ کامیابی اس کا مقدر بن جائے اور یہ صحیح اور معقول توقع بھی ہے کیونکہ انسان ضعف وناتوانی ،ناداری وجہالت اور برائیوں کا پتلہ ہے۔
اور وہ صرف خدا کی ذات ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حالات کو تبدیل کر سکتا ہے اور خدا سے ایسی توقع رکھنے میں بندوں کے لئے کوئی حرج بھی نہیں ہے البتہ اس تبدیلی کے لئے یہ شرط ضرور ہے کہ انسان ان حالات اوراسباب کو بھی فراہم کرنے کی کوشش کرے جن کی فراہمی کا حکم خدا نے د یاہے تبدیلی خدا وند عالم کی جانب سے ہوگی ہے۔اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے لیکن اس کے لئے طے شدہ اور معین اسباب بہر حال ضروری ہیں لہٰذا جب تک انسان ان اسباب کا سہارا نہ لے خداوندعالم کی جانب سے اس تبدیلی کی توقع رکھنا بھی صحیح نہیں ہے لہٰذا ان انسا ن حالات واسباب کو تبدیل کرنے کے لئے پہل خود کرنا چاہئے تاکہ خداوندعالم بھی اس کے امور میں تبدیلی پیدا کردے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اقتصادی اورفوجی کمزوری، تعلیمی پسماندگی ،بدانتظامی کی اصل بنیاد جہالت ،سستی،کاہلی اور نا توانی کے علاوہ نیز جراٴت وہمت اور شجاعت کا فقدان ہے۔
لہٰذا اگر ہم”خود اپنے اندر“ تبدیلی پیدا کر لیں تو بے شک خدا بھی ہمارے حالات تبدیل کردے گا اور اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ خداوندعالم تن تنہا ہمارے حالات تبدیل کر سکتا ہے۔
اور اس میں بھی کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ جب تک ہم اپنے حالات تبدیل نہیں کریں گے خداوند عالم بھی ہمارے حالات کی اصلاح نہیں کرے گا۔اور یہ ایسے حقائق ہیں جن میں کسی قسم کے شک وشبہہ کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔مختصر یہ ہے کہ خدا کی طرف سے حالات میں تبدیلی کا انتظار صحیح اور حق بجانب ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے ساتھ انسان کی جانب سے جد وجہد،سعی وعمل بھی ضرور ی ہے ،اور اسی کو دوسرے الفاظ میں تحریکی انتظار کہا جاتا ہے۔
انتظارجد وجہد مسلسل یا تعطل؟
اگرت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انتظار کسی ایسے غیر متوقع حادثہ کا منفی انداز سے مشاہدہ کر لینے کا نام ہے جس میں ہمار اکوئی منفی یا مثبت کردار نہ ہو۔بالکل ایسے ہی جیسے ہم چاند یا سورج گرہن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے ،انتظار کے صحیح معنی ”حرکت‘پیہم‘ ”سعی مسلسل“”جد وجہد“اور ”عمل“کرنے کے ہیں جس کی تفصیل انشا ء اللہ عنقریب ہی پیش کی جائے گی۔
ظہور میں تاخیر کی وجہ ؟
اس سوال کاصحیح جواب تلاش کے لئے انتظار کے صحیح معنی سمجھناضروری ہیں کہ ظہور حرکت وعمل کا نام ہے یاتعطل اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کا نام ہے؟
پہلانظریہ
اگر امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے ظہور اور آپ کے عالمی انقلاب میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک دنیا ظلم وجور سے نہیں بھری ہے تو پھر انتظارکا مطلب تعطل اور حالات کا مشاہدہ کرنا ہیں۔ حالانکہ اسلام کا واضح حکم ہے کہ ہم دنیا میں ظلم وجور کو بڑھاوا نہیں دے سکتے ہیں۔
اس نظریہ کے مطابق ہمیں ظلم وجور کا مقابلہ نہیں کرناچاہئے کیونکہ اس سے غیبت کا زمانہ اور طولانی ہو جائے گا اس طرح ہم اپنی سیاسی سماجی اور عسکری زندگی میں ہاتھ پرہاتھ رکھے ہوئے خاموش تماشائی بنے رہیں۔تاکہ ظلم وجور کااضافہ ہوتا رہے اور جب زمین ظلم وجور سے بھر جائے تو امام زمانہ (عجل)ظہور فرما کر ظالموں کا تختہ الٹ دیں اور مظلوموں کی دستگیری فرمائیں۔
دوسرا نظریہ
اگر ظہور میں تاخیر کی وجہ ایسے انصار کی قلت ہے جو روئے زمین پرامام کے ظہور کے لئے حالات سازگار کریں اور آپ کے ظہور کے شایان شان سماج تشکیل دیں جو آپ کے ظہور کے بعد آپ کی حکومت اور انقلاب میں آپ کا ہاتھ بٹائیں تو صورتحال بالکل تبدیل ہو جائے گی اور پھر روئے زمین پر حق کی حکومت قائم کرنے کے لئے جد وجہد،ذہنی وفکری آمادگی،افرادسازی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ضرورت ہوگی تاکہ امام (عجل)ظہور فرماسکیں۔اس صورت میں ظہور کا مطلب خاموش تماشائی بنے رہنانہ ہوگابلکہ اس سے ”تحریک او رعمل“نیز روئے زمین پر حق کی حکومت قائم کرنے کے لئے”جہاد “ مراد ہوگا اور اس کے بعد ہی امام کے عالمی ظہورکے لئے حالات فراہم ہو سکتے ہیں۔
انتظار ظہور امام کے معنی اگر ”تعطل“اور بے کاری کے لئے جائیں تو یہ منفی معنی ہیں اور اگر انتظار ”حرکت“اور جد وجہد ہو تو یہ مثبت اور معقول معنی ہیں اور دونوں معنی میں بہت زیادہ فرق ہے ۔اب ہم اس مسئلہ کا صحیح جواب تلاش کرنے کے لئے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلے نظریہ کا تجزیہ
اس نظریہ کے بارے میں چند اعتراضات قابل توجہ ہیں:
۱۔ دنیا کے ظلم وجورسے بھر جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ روئے زمین پر توحید اور عدل وانصاف کا نام ونشان نہ رہ جائے اور کوئی علاقہ ایسا نہ رہ جائے جس پر خدا کی عبادت نہ ہوتی ہو۔کیونکہ یہ بات محال اور سنت الٰہی کے بر خلاف ہے۔
بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حق وباطل کے درمیان جو دائمی کشمکش جاری ہے اس میں حق پر باطل کا غلبہ ہو جائے گا۔
۲۔ حق کے اوپر باطل کا موجودہ دور سے زیادہ غلبہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اس وقت ظلم روئے زمین پراپنی بد ترین شکل اور مقدار میں موجود ہے جیسے سربیائی درندوں کے ہاتھوں بوسنیا کے مسلمان جس ظلم وتشدد کا شکار ہوئے ہیں اس کی نظیر تاریخ ظلم وتشدد میں کم ہی نظر آتی ہے ۔اس ظلم وتشدداور قتل عام کے دوران تو بسا اوقات نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سربیائی ظالموں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے ان کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے بچوں کو شکم سے باہر نکال کر پھینک دیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کے سر قلم کرکے ما ں باپ اور گھر والوں کے سامنے ان سے فٹبال کھیلا گیا۔
چیچنیا میںروسیوں نے مسلمان بچوں کو زندہ ذبح کر کے ان کا گوشت سوروں کو کھلایا،اسی طرح مشرق وسطی کے مسلمانوں پر کمیونسٹوں نے اپنی کمیونسٹ حکومت کے دوران جو ظلم ڈھائے ہیں ان کو سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یا اسرائیل کی جیلوں میں مسلمانوں کو جس وحشیانہ انداز سے تکلیفیں دی جاتی ہیں انہیں الفاظ کے ذریعہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔اور ان تمام مظالم سے کہیں زیادہ عراق میں صدامی جلادوں کے ذریعہ جو مظالم ہوئے یا ہو رہے ہیں، جس طرح مومنین کی نسل کشی کی گئی ان کا صفایاکیا گیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے ،یہ دل کو دہلانے والے ایسے حقائق ہیں جن کی توصیف سے الفاظ بھی بے بس ہیں ۔
میراخیال ہے کہ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں مسلمانوں کے خلاف ظلم وتشدد کا جو سلسلہ جاری ہے یہ ایک ایسی ڈراونی اور خوفناک صورت حال ہے جو ظلم وجور سے بھی تجاوز کر چکی ہے بلکہ ”زمین کے ظلم وجور سے بھر جانے“سے مزید کی نشاندہی کرتی ہے ۔ بلکہ یہ تو دنیا کی موجودہ قوموں اور مادیت میں گرفتار انسانیت کے مردہ ضمیر ہونے اورانسانیت کے سوتے خشک ہو جانے کی علامت ہے۔اور ضمیروں کا مردہ ہونا یا انسانیت کے سوتے خشک ہو جانا خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے جو تہذیب وتمدن اور تاریخ انسانیت کو مسلسل پستی وبربادی کی طرف لے جاتی ہے اور اس منزل تک پہنچا تی ہے جسے قرآن مجید نے ”امتوں کی ہلاکت وتباہی“ کا نام دیا ہے۔
ضمیر انسان کی انتہائی اہم اور بنیادی ضرورتوںمیں شامل ہے اور جس طرح انسان ”امن وسکون “ ، ”دواوعلاج“کھانے پانی ،”سیاسی نظام“ اور علم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ضمیر کے بغیر بھی اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا جب بھی ضمیر کا حیات بخش چشمہ خشک ہو جائے تو پھر تہذیب وتمدن کا خاتمہ ایک فطری بات ہے اور جب اس کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر تبدیلی ،جانشینی اور وراثت کا قانون اپنا کام کرے گا۔اور یہی وہ وقت ہوگا جب امام زمانہ (عجل)کی ہمہ گیر اور عالمی حکومت قائم ہوگی۔
۳۔ امام زمانہ (عجل)کی غیبت کی بنیادی وجہ شر وفساد اور ظلم وجور کی کثرت ہے اور اگر یہ سب نہ ہوتا تو آپ ہماری نظروں سے غائب نہ ہوتے آخر یہی ظلم وجور امام زمانہ (عجل)کے ظہور کاسبب کیسے بن سکتا ہے؟
۴۔ لوگوں کی توقع کے برخلاف ظالم ،سیاسی ،فوجی اور اقتصادی ادارے آہستہ آہستہ تباہ وبرباد ہو رہے ہیں جس کا مشاہدہ دنیا میں ہر جگہ کیا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے کہ چند مہینوں کے اندر ہی سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہوگیا یہ نظام کھوکھلی عمارت کی طرح ہو گیا تھا اور اسے باقی رکھنا یا انہدام سے بچانا کسی کے بس میں نہیںتھا ۔
اور اب تبدیلی کی اسی ہوا کا رخ امریکہ کے خلاف ہے اسی وجہ سے اس کے اقتصادیات ،امن وامان اور اخلاقی اقدار اور شان وشوکت کو زبر دست جھٹکے لگ رہے ہیں جب کہ اسے سپر پاور کہا جاتا ہے۔
بے شک اس موجودہ جاہلی نظام کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اوریہی اس کی تباہی وبربادی کی گھنٹی بھی ہے ۔ایسے میں یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نظام خونخواری، درندگی وبے رحمی میں اور اضافہ ہوگا۔
۵۔ غیبت سے متعلق روایات میں :”یملاٴ الاٴرض عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً“ (زمین کوعدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہو گی ) آیا ہے نہ کہ”بعد ان ملئت ظلما وجوراً“(ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد ۔)
لہٰذا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امام زمانہ(عجل)اس بات کے منتظر ہیں کہ دنیا میں اس وقت جو ظلم وجور پھیلا ہوا ہے اس میں مزید اضافہ ہو جائے بلکہ ان روایات کے معنی یہ ہیں کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور ظلم وفساد کا خاتمہ کر یں گے اور ظلم وفسادکا دنیا سے اس طرح صفایا ہو جائے گا جےسے وہ اس سے قبل ظلم وجور سے چھلک رہی تھی۔
اعمش نے ابی وائل سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امیر المومنین نے امام مہدی کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:
”یخرج علی حین غفلة من الناس واقامة من الحق واظہار من الجور،یفرح لخروجہ اھل السماء وسکانھا ویملاٴ الارض عدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً۔“(۸)
” وہ اس وقت ظاہر ہوگاجب لوگ اقامہٴ حق کے سلسلہ میں خواب غفلت میں پڑے ہوں گے ظلم و جور عام ہوگااس کے ظہور سے اہل آسمان اور اس کے ساکنین میںخوشی کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔“
دوسری روایت میں ہے:”یملاٴ الاٴرض عدلاً وقسطا،کما ملئت ظلماً وجوراً“(۹)زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔“
میرے خیال میں ”یملاٴ الاٴرض ظلماً وجورا“کے معنی یہ ہیں کہ ظلم وجور اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ ہر طرف سے لوگوں کی چیخ وپکاراورفریاد شروع ہو جائے گی ۔ظلم کے چہرے سے نقاب ہٹ جائے گاجس کے باعث وہ لوگوں کی نگاہوں میں خوبصورت جلوہ گرہوتا ہے بہ الفا ظ دیگر ظلم کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور ان تمام نظاموں کا شیرازہ بکھر جائے گا جنہیں لوگ بظاہر اچھا سمجھتے ہیں۔اور اس وسیع وعریض تباہی وبربادی کے بعد لوگوں کو ایسے الٰہی نظام کی تلاش وجستجو ہوگی جو انہیں تباہی وبربادی سے نجات دے سکے۔ اور انہیں ایسے الٰہی قائدو رہنما کی تلاش رہے گی جو ان کے ہاتھ تھام کر انہیں ان کے خدا تک پہنچا دے۔اس طرح کی تباہیاں دنیا میں یکے بعد دیگرے شروع ہوچکی ہیں ان تباہیوں میںسودیت یونین کی تباہی سر فہرست ہے اور آخری چند برسو ں میں امریکہ کو جو جھٹکے لگ رہے ہیں ان تمام باتوں سے خود بخود الٰہی نظام اور خدائی نجات دہندہ کی طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے۔
ظہور میں تاخیر کی وجہ کے بارے میں پہلے نظریہ کے بارے میں یہ مختصر سا تنقید ی جائزہ تھا اور اب دوسری رائے کے بارے میں گفتگو کا آغاز کر تے ہیں۔
دوسرے نظریہ کا کل دار ومدار امام زمانہ کے ظہورمیں تاخیر کا باعث بننے والے اسباب کی شناخت پر ہے۔ان اسباب میں سر فہرست بقدر کافی انصار کا نہ ہونا ہے اور دوسرے یہ کہ امام کے انصار بننے والوں کے اندر لازمی لیاقت وصلاحیت (کیفیت) موجود نہیں ہے کیونکہ امام زمانہ کی حکومت ہمہ گیروآفاقی حکومت ہے جس میں قیادت اورکمزور، محروم و مستضعف لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی :
< وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمْ الْوَارِثِینَ > (۱۰)
مستضعف اور محروم مومنین اس سلطنت اور مال ودولت کے وارث قرار پائیں گے جس پر اس سے پہلے کافروں اور ظالموں کا قبضہ ہوگا۔< ونجعلھم اٴئمّةً و نجعلھم الوارثین>اور روئے زمین پر ان کی حکومت قائم ہو جائے گی < وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاٴَرْضِ >(۱۱)اس مرحلہ میں امام زمانہ -زمین کو شرک اور ظلم کی گندگی سے پاک وصاف کردیں گے ۔”یملاٴ الاٴرض عدلاً کما ملئت ظلماً وجورا“اور ان کا نام ونشان باقی نہ رہ جائے گا جیساکہ متعدد روایات میں ہے زمین کے مشرق ومغرب میں کوئی ایسی جگہ باقی نہیں رہ جائے گی جہاںصدائے ”لا الٰہ الا اللّٰہ “نہ پہنچے۔
اس ہمہ گیر انقلاب وحکومت کامحور ”توحید“اور ”عدل“ہوگا لہٰذا ایسے انقلاب کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت ہے اور کیفیت وکمیت دونوں اعتبار سے اعلیٰ سے اعلیٰ تیاری درکارہے ورنہ اس قسم کی تیاری اور راہ ہموار کئے بغیر ایسا ہمہ گیر انقلاب ممکن نہیں ہے اور سنت الٰہیہ کی تاریخ یہی ہے۔
حوالہ جات
(۱)کتاب مقدس،سفر مزامیر داوٴد مزمور/۳۷
(۲)انبیاء/۱۰۵
(۳)مقدمہٴ ابن خلدون،ص/۳۱۱
(۴)رسالہٴ الجامعة الاسلامیہ شمارہ ،۴۵
(۵)زخرف /۶۱
(۶)صواعق محرقہ،ابن حجر،ج/۱،ص/۲۴۰
(۷)معجم احادیث امام مہدی ،تالیف :ادارہٴ معارف اسلامی کی علمی کمیٹی :زیر نظر شیخ علی کورانی ،ناشر:موسسہ معارف اسلامی ،طبع اول ( ۱۴۱۱ ئھ )قم
(۸)بحار الانوار،ج/۵۱،ص/۱۲۰
(۹)منتخب الاثر ،ص/۱۶۲
(۱۰)قصص/۵
(۱۱)قصص/۶
منبع الشیعہ ڈاٹ کام