ختم نبوت بارےمسلمان اور بہائی کے مابین مناظرہ
پیغمبراسلام (ص) آخری نبی
ضروریات دین میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری پیغمبر ماننا ہے جس کے بعد خدا وند متعال کی طرف سے نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی شریعت ،اس بات کے اثبات میں قرآن میں بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جیسے سورہٴ احزاب آیت ۴۰،سورہٴ فرقان آیت۱، سورہٴ فصلت آیت ۴۱۔۴۲۔سورہٴ انعام آیت ۱۹ ،سورہٴ سبا ، آیت ۲۸ وغیرہ ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایتیں آپ کے خاتم الانبیاء ہونے پر صریحی ور سے دلالت کرتی ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے والے زمانوں میں فریبی اور چالباز لوگوں نے نیا پیغمبر بنا کر آپ کی خاتمیت کو مخدوش بنانا چاہا۔ تاکہ اس طرح سے خود ساختہ ادیان جیسے قادیانیت، بابی گری اور بہائیت معاشرہ میں اپنا اثر ورسوخ پیدا کرسکیں۔
اب درج ذیل مناظرہ جو ایک مسلمان اور بہائی کے درمیان ہوا ملاحظہ فرمائیں:
مسلمان: ”تم اپنی کتابوں اور تقریروں میں اسلام اور قرآن کو اس فرق کے ساتھ قبول کرتے ہو کہ اسلام نسخ ہو گیا ہے اور اس کی جگہ دوسری شریعت آ گئی ہے اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن نے تو اپنی متعدد آیتوں میں اسلام کو ایک عالمی اور قیامت تک باقی رہنے والا مذہب کہا ہے اور ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاتمیت کا اعلان کرتے ہوئے آنے والے نئے دین کا باطل قرار دیا ہے۔
بہائی: ”مثلاً کون سی آیت یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں ؟“
مسلمان: ”سورہٴ احزاب کی ۴۰ ویں آیت میں۔
”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا “
”محمد ، تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر شئے کا علم رکھنے والا ہے“۔
آیت میں جملہ ”خاتم النبیین“ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں،کیونکہ لفظ خاتم کو جس طرح بھی پڑھا جائے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے ،لہٰذا اس آیت سے صریحی طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی پیغمبر اور شریعت نہیں آئے گی“۔
بہائی: ”خاتم انگوٹھی کے معنی میں بھی آیا ہے جو زینت کے لئے استعمال ہوتی ہے اس طرح اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انبیاء کی زینت ہیں“۔
مسلمان: ”لفظ خاتم کا رائج اور حقیقی معنی ختم کرنے والے کے ہیں اور کہیں پر یہ نہیں آیا کہ لفظ خاتم کسی انسان کے لئے آیا ہو جس سے زینت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہی ہیں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کچھ سیاق وسباق رکھتا ہو،ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرینہ یا کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائیں۔
یہاں پر لفظ خاتم کے بارے میں چند لغات آپ ملاحظہ فرمائیں فیروز آبادی ”قاموس اللغة“ میں کہتے ہیں ”ختم“مہر کرنے کے معنی میں آتا ہے اور ”ختم الشئی“یعنی کسی چیز کا آخر۔
جوہری ”صحاح“میں کہتے ہیں کہ ختم یعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ یعنی اس چیز کا آخر۔
ابو منظور ”لسان العرب“میں کہتے ہیں کہ” ختام القوم“ یعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبیین“ یعنی انبیاء کی آخری فرد۔
راغب ”مفردات“میں کہتے ہیں کہ خاتم النبیین یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود آ کر سلسلہ نبوت کو منقطع کر دیا اور نبوت کو تمام کر دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ لفظ خاتم سے زینت معنی مراد لینا ظاہر کے خلاف ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور یہاں پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے“۔
بہائی: ”لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہر ہے جس کے معنی تصدیق شدہ کے ہیں لہٰذا اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبیاء کی تصدیق کرنے والے تھے۔
مسلمان: ”غرض پہلے سوال کے جواب سے یہ واضح ہو گیا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہیں اور یہ کہیں پر نہیں سنا گیا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصدیق مراد لی گئی ہو،اتفاق سے اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خاتم یعنی آخر میں مہر لگانا یعنی خاتمہ کا اعلان کرنا“۔
بہائی: ”آیت کہتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین،یعنی پیغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہیں ،آیت یہ نہیں کہتی کہ مرسلین کے ختم کرنے والے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے کی نفی ہوتی ہے“۔
مسلمان: ”اگرچہ قرآن میں رسول اور نبی میں فرق پایا جاتا ہے مثلاً خداوند متعال نے قرآن میں جناب اسماعیل علیہ السلام کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے
(سورہٴ مریم آیت ۵۴)
اور اسی طرح جناب موسیٰ کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے (سورہٴ مریم آیت ۵۱) لیکن یہ چیز کسی بھی طرح لفظ خاتم میں شبہ نہیں پیدا کرتی ہے کیونکہ نبی یعنی ایسا پیغمبر جس پر خداوند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کی تبلیغ کرنے والا ہو یا نہ ہو، لیکن رسول وہ ہے جو صاحب شریعت اور صاحب کتاب ہو لہٰذا ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔
نتیجہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خاتم انبیاء کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پیغمبر ہے بس رسول بھی نہیں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی مثال انسان اور عالم دین (منطق کی زبان میں عموم خصوص مطلق )کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہیں کہ آج ہمارے گھر کوئی انسان نہیں آیا یعنی عالم دین انسان بھی نہیں آیا، اور ہماری بحث میں اگر کہا جائے گیا کہ کوئی پیغمبر ،رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد نہیں آئے گا یعنی کوئی رسول بھی نہیں آئے گا“۔
بہائی: ”نبی اور رسول کے درمیان تباین (جدائی ) پایا جاتا ہے جو نبی ہوگا وہ رسول نہیں ہوگا اور جو رسول ہوگا وہ نبی نہیں ہوگا لہٰذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔
مسلمان: ”لفظ رسول ونبی میں اس طرح کا فرق ،علماء اور مفکرین اور آیات وروایات کے خلاف ہے اور یہ ایک مغالطہ ہے کیونکہ تمہارا یہ مسئلہ خود آیت میں ذکر ہوا ہے“۔
”وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ“
”اور لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں“۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:”وکان رسولا ”نبیا““موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی
(سورہٴ نساء آیت ۱۷۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی
(سورہٴ نساء آیت ۱۷۱میں)
رسول کہہ کر پکارے گئے اور سورہٴ مریم آیت ۳۰،میں نبی کہہ کر پکارے گئے ہیں اگر لفظ نبی اور رسول آپس میں ایک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے، اس کے علاوہ اور بہت سی روایتیں اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں جس میں پیغمبر اکرم کو خاتم المرسلین کہا گیا ہے جن میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہیں“۔
بہائی: ”جملہ خاتم النبیین سے ممکن ہے خاص پیغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پیغمبر اس آیت میں شامل نہیں ہوں گے“۔
مسلمان: ”اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ جو شخص بھی عربی قواعد سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہوگا وہ اس طرح کے جملے میں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور یہاں اس الف اور لام سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس سے عموم ہی مراد لیا جائے گا“