جن گناھوں کی وجہ سے بلائیں نازل ھوتی ھیں

272

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔“۔
”ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں“۔
جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھیں
جس گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھے وہ تین گناہ ھیں:
۱۔ دل سوز اور پریشان حال کی فریاد پر بے توجھی کرنا۔
۲۔ مظلوم کی مدد نہ کرنا۔
۳۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو ترک کرنا۔
دل سوز اور صاحب حزن و ملال کی فریاد پر بے توجھی کرنا
جس انسان کا مالی نقصان ھوجاتا ھے، یا اس کا کوئی عزیز مرجاتا ھے، یا کسی دوسری مصیبت اور رنج و غم میں گرفتار ھوجاتا ھے،اور اگر وہ اپنے دینی برادران سے اپنی مشکلات کو دور کرنے میں مدد و فریاد کرتا ھے، تو انسانی شرافت اور محبت کا تقاضا یہ ھے کہ اس کی مددکے لئے قدم بڑھائے، اور حتی الامکان اس کے رنج و غم کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
جو لوگ درد مندوں کے درد اور دل سوز لوگوں کی آہ و فریاد سن کر ان کی مدد کے لئے قدم نھیں اٹھاتے تو ایسا شخص نہ یہ کہ مسلمان نھیں ھے بلکہ آدمیت و انسانیت کے دائرہ سے(بھی) خارج ھے۔
تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی
(اگر تجھے کسی دوسرے کے رنج و غم میں کا کوئی درد نھیں ھے تو پھر تجھے آدمی کھلانے کا بھی حق نھیں ھے)
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:
”مَنْ اٴَصْبَحَ لَایَہْتَمُّ بِاٴُمُورِ المُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ“[1]
”جو شخص صبح اٹھے لیکن مسلمانوں کے مسائل و حالات پر اھمیت نہ دے وہ مسلمان نھیں ھے“۔
ایک دوسرے کی امداد کرنا اور مسلمانوں کے مسائل پر توجہ کرنا خصوصاً فریادیوں کی فریاد رسی کرنا، خدا و رسولاور ائمہ علیھم السلام کا حکم ھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے: جو کسی مرد مومن کے رنج وغم کو دور کرے، خداوندعالم اس کی آخرت کے رنج وغم کو دور کرے گا، اور مطمئن طور پر قبر سے نکلے گا۔ اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی بھوک مٹائے،تو خداوندعالم اس کو بھشتی پھلوں سے نوازے گا، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کو ایک گلاس پانی پلائے تو خداوندعالم اس کو رحیق مختوم سے سیراب فرمائے گا۔[2]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جو شخص کسی غم زدہ اور پیاسے مومن اور پریشانی کے وقت مدد کرے اور اس کاحزن و الم دور کرے اور اس کی حاجت روائی میں اس کی مدد کرے تو خداوند عالم اپنی طرف سے ۷۲ رحمتیں لکھ دیتا ھے جن میں سے ایک رحمت کے ذریعہ اس کی دنیا کے مسائل بہتر ھوجائیں گے اور ان میں کی ۷۱ رحمتیں قیامت کے ھولناک ماحول اور خوف و وحشت سے بچانے کے لئے محفوظ رھیں گی۔[3]
مظلوم کی مدد نہ کرنا
اسلامی نقطہ نظر سے مظلوم کی مدد کرنا اس قدر اھمیت رکھتا ھے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی آخری عمرمیں (شب ۲۱ رمضان المبارک) میں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیھما السلام کو وصیت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَلِلْمُظْلُومِ عَوْناً“[4]
”ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گاررھو“۔
جی ھاں! ظلم و ظالم اور مظلوم کے سلسلہ میں یہ اسلامی بہترین عملی شعار ھے ۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
مَنْ اٴَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَالِمِ کاَنَ مَعی فِی الجَنَّةِ مُصاحِباً“[5]
”جو شخص ظالم سے کسی مظلوم کا حق دلائے وہ جنت الفردوس میں میرا ھم نشین ھوگا“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”اگرکسی پر ظلم ھوتے دیکھو تو ظالم کے خلاف اس کی مدد کرو“۔[6]
نیز آپ ھی کا فرمان ھے:
” اٴَحْسَنَ العَدْلِ نُصْرَةُ المَظْلُومِ“[7]
”بہترین عدل مظلوم کی مدد کرنا ھے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”کسی مومن کا ؛مظلوم کی مدد کرنا ایک ماہ کے روزے اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے بہتر ھے، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ھو اس کی مدد کرے تو خداوندعالم اس کی دنیا و آخرت میں مدد کرے گا، لیکن اگر کوئی شخص برادر مومن کی مدد کرسکتا ھو اور وہ مدد نہ کرے تو خداوندعالم بھی دنیا و آخرت میں اس کی مدد نھیں کرے گا“۔[8]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے کہ خداوند عز وجل فرماتا ھے:
”اپنی عزت و جلالت کی قسم! میں دنیا و آخرت میں ظالم و ستمگر سے انتقام لوں گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مظلوم کو دیکھے اور اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ھو اور اس کی مدد نہ کرے تو اس سے بھی انتقام لوں گا۔[9]

امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا ترک کرنا
امر بالمعروف و نھی عن المنکرالٰھی فرائض میں سے دو اھم فریضے ھیں،اور دینی واجبات میں سے دو واجب ھیں جن کو انجام دینے کے اگر شرائط پائے جاتے ھیں تو واجب ھے یعنی امر بالمعروف کرنے والا معروف ونیکی کو جانتا ھو اور خود بھی اس پر عمل کرتا ھو اور برائیوں سے دور ھو،اور ان دونوں فریضوں کو ترک کرنا گناہ عظیم اور سبب نزول بلاء ھیں۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر دین کا اھم ترین محور اور اس کی واضح حقیقت ھے جس کو برپا کرنے کے لئے انبیاء علیھم السلام مبعوث برسالت ھوتے تھے۔
اگر یہ دونوں فرائض (امر بالمعروف و نھی عن المنکر ) ختم ھوجائیں اور ان دونوں کے سلسلہ میں علم و عمل نہ ھو، تو پھرتحریک نبوت کا خاتمہ ھوجائے گا،اور دین تباہ و برباد ھوجائے گا، سب لوگ گمراہ ھوجائیں گے، اور ھر طرف جھل و نادانی پھیل جائے گی، لوگوں کے مسائل میں برائیاں جڑ پکڑ لیں گی، آبادی میں تباھی پھیل جائے گی اور انسانیت؛ ھلاکت کے گڑھے میں گرجائے گی۔
اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ھے:
۱۔” وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ“[10]
”اور تم میں سے ایک گرو ہ کو ایسا ھونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،بُرائیوں سے منع کرے اور یھی لوگ نجات یافتہ ھیں “۔
۲۔” وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ۔۔۔“[11]
”مومن مرد اور مومن عورتیں سب آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ھیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ھیں اور بُرائیوں سے روکتے ھیں “۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
”لَتَاٴمُرُنَّ بِالمَعروفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ اٴَو لَیُسَلِّطَنَّ اللهُ عَلَیْکُم شِرارَکُم ثُمَّ یَدعُو خِیارُکم فلا یُستَجَابُ لَہُم“[12]
”اے لوگو! (یا)تم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو، ورنہ دشمن تمھارے اوپر مسلط ھوجائیں گے، اور تم سے اچھے لوگ (بھی) دعا کریں گے لیکن دعا مستجاب نھیں ھوگی“۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: تم لوگ آنے جانے والوں کے راستہ پر نہ بیٹھا کرو، لوگوں نے کھا: ھم وھاں بیٹھ کر باتیں کرنے کے لئے مجبور ھیں۔ تو آپ نے فرمایا: اگر تم لوگ مجبور ھو تو راستہ کے حق کا لحاظ رکھو۔ لوگوں نے سوال کیا: (یا رسول اللہ) راستہ کا کیا حق ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: نامحرم کو نہ دیکھو، لوگوں کو اذیت نہ دو، سلام کرنے والوں کو جواب دو، امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو۔[13]
اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں: امر بالمعروف ، نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے علاوہ انسان کی تمام باتیں اس کے نقصان میں ھیں۔[14]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: خداوندعالم نے (حضرت) شعیب پر وحی فرمائی: تمھاری قوم کے ایک لاکھ افراد پر جن میں سے چالیس ہزار برے لوگوں پر اور ساٹھ ہزار اچھے لوگوں پرعذاب کروں گا، (جناب شعیب(ع) نے) کھا: پالنے والے! برے لوگوں پر عذاب کرنا تو صحیح ھے، لیکن اچھے لوگوں پر کیوں؟ تو خداوندعالم نے فرمایا: (کیونکہ) نیک لوگوں نے برے لوگوں کے لئے بھلائی نھیں چاھی، ان کو برائیوں سے نھیں روکا، ان پر اعتراض نھیں کیا اور میرے خشم و غضب کی وجہ سے ان پر غضبناک نھیں ھوئے۔[15]
قبیلہ ”خثعم“ کا ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں پھنچا اور کھا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام کی بہترین چیز سے باخبر فرمائیں؟
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: صلہ رحم۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: امر بالمعروف و نھی عن المنکر۔
اس نے سوال کیا: کونسا عمل خدا کے نزدیک سب سے بُرا ھے؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:خدا کا شریک قرار دینا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: قطع تعلق کرنا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: برائیوں کا حکم دینا اور نیکیوں سے روکنا۔[16]

حواشی

[1] کافی ج۲ص۱۶۳،باب اہتمام باٴمور المسلمین ، حدیث ۱ ۔
[2] کافی ج۲ص۱۶۳،باب تفریح کرب الموٴمن ، حدیث ۳۔
[3] کافی ج۲ص۱۶۳،باب تفریح کرب الموٴمن ، حدیث ۱۔
[4] نہج البلاغہ :۴۲۱،حکمت ۴۷۔
[5] بحارالاٴنوار :ج۷۲ ص ۳۵۹ ،باب۸۱،حدیث۷۴۔
[6] غر ر الحکم :۴۵۰ ، ۱۰۳۶۴؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۲۔
[7] غر ر الحکم :۴۴۶ ، ۱۰۲۱۰؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۰۔
[8] ثواب الاعمال ص ۱۴۷، ثواب معاونة الاخ، میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۴۔
[9] کنز العمال ۷۶۴۱؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۷۰، الظلم ، حدیث ۱۱۸۲۲۔
[10] سورہ آل عمران آیت ۱۰۴۔
[11] سورہ توبہ آیت ۷۱۔
[12] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۹۹،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔
[13] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۹۹،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔
[14] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۱۰۰،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔
[15] اصول کافی ج۵ ص ۵۵ باب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکرحدیث ۱۔
[16] اصول کافی ج۵ ص ۵۵ باب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکرحدیث ۹۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.