ابن تیمیہ كے عقائد (2)
روضہٴ رسول دعا اور نماز كی حرمت كے بارے میں ابن تیمیہ كا نظریہ
ابن تیمیہ صاحب كھتے ھیں: ایسی كوئی حدیث نھیں ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت كے مستحب هونے پر دلالت كرے۔ ۱ اسی وجہ سے خلفاء (ظاھراً خلفائے راشدین مراد ھیں) كے زمانہ میں كوئی شخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نھیں جاتا تھا، بلكہ مسجد النبیمیں داخل هوتے وقت اور وھاں سے نكلتے وقت فقط آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو سلام كیا كرتے تھے، اس كے بعد ابن تیمیہ كھتے ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے نزدیك هوجانا بدعت ھے ۲ نیز آنحضرت كی قبر منور كی طرف رخ كر كے بلند آواز میں سلام كرنا بھی جائز نھیں ھے۔
ابن تیمیہ، ان باتوں كو نقل كرنے كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے بارے میں اس طرح كھتے ھیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا جسد حضرت عائشہ كے حجرہ میں دفن هوا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ازواج كے حجرے مسجد كے مشرق میں قبلہ كی طرف تھے اور حضرت عائشہ كے مرنے كے بعد ولید بن عبد الملك بن مروان كی خلافت كے زمانہ تك ان كے حجرے میں تالا لگا هوا تھا، ولید نے عمر بن عبد العزیز (مدینہ میںولید كا نائب)كو خط لكھا كہ پیغمبر (ص)كی ازواج كے تمام حجرے ان كے وارثوں سے خرید لئے جائےں اور ان كو گراكر مسجد النبی كا حصہ قرار دیدیا جائے۔
اس كے بعد ابن تیمیہ كھتے ھیں: جب تك عائشہ زندہ تھیں لوگ ان كے پاس احادیث سننے كے لئےجاتے تھے لیكن كوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نھیں جاتا تھا، نہ نماز كے لئے اور نہ دعا كے لئے، اس وقت قبر پر كوئی پتھر وغیرہ نھیں تھا بلكہ موٹی ریت كا فرش تھا۔ ۳
اور آپ (حضرت عائشہ) كسی كو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر والے حجرے میں نھیں جانے دیتی تھیں،اور كسی كو بھی یہ حق حاصل نھیں تھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس جاكر دعا كرے یا نماز پڑھے،۴
لیكن بعض جاھل او رنادان افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی طرف رخ كركے نماز پڑھتے تھے اور نالہ وفریاد كرتے تھے اور ایسی باتیں كھتے تھے جن كے بارے میں منع كیا گیاھے، البتہ یہ تمام چیزیں حجرے كے باھر هوتی تھیں، او ركسی كوبھی اتنی جراٴت نھیں هوتی تھی كہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزدیك هو، او روھاں نماز پڑھے یا دعا كرے، كیونكہ جناب عائشہ كسی كو بھی اتنی اجازت نھیں دیتی تھیں كہ كوئی قبر كے نزدیك جاكر نماز پڑھے یا دعا كرے، جناب عائشہ كے بعد تك اس حجرے كے دروازہ پر تالا تھا یھاں تك كہ ولید بن عبد الملك نے اس حجرہ كو مسجد النبیمیں شامل كروادیا، اور اس كے دروازے كو بند ركھا اور اس كے چاروں طرف ایك دیوار بنادی گئی۔ ۵
حجرے كے اندر قبر مطھر پر نہ تو كوئی پتھر ھے اور نہ ھی كوئی تختی اور نہ ھی كوئی گل اندود(ایسا مادّہ جس كو درودیوار پر ملا جاتا ھے تاكہ خراب نہ هوں)تھا بلكہ قبر مطھرموٹی ریت سے چھپی هوئی تھی۔ ۶
ان مطالب كے ذكر كرنے سے ابن تیمیہ كا مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے پاس نماز پڑھنا اور دعا كرنا بت پرستی كی مانند اور شرك كے حكم میں تھا، ابن تیمیہ نے ان باتوں كو ثابت كرنے كے لئے چند احادیث كا سھار ا بھی لیا ھے۔
روضہ رسول اكرم كے بارے میں وضاحت
طبری، قاسم ابن محمد سے روایت كرتے ھیں كہ میں جناب عائشہ كے پاس گیا، اور عرض كی اے اماں جان! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان كے پاس جو دو لوگ دفن ھیں، مجھے ان كی زیارت كرائےے، جناب عائشہ نے مجھے ان تینوں قبروںكو دكھایا، جو نہ زمین سے اونچی تھیں اور نہ ھی زمین كے برابر(یعنی تھوڑی سی بلند تھیں) اور ان پر لال رنگ كے سنگریزے یا لال رنگ كا ریت (بالو) بچھا هوا تھا، اور میں نے دیكھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك سب سے آگے تھی اور ابوبكر كی قبر ان كے پیچھےتھی اورعمر كی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پیروں كی طرف تھی۔ ۷
فاسی كھتے ھیں كہ جس وقت عمر بن عبد العزیز نے مسجد كی وسعت كے لئے حجرہ كو گرایا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك زمین سے چار انگشت بلند تھی اور اس كے اوپر ھلكے لال رنگ كے سنگریزوں كا فرش تھا۔ ۸
اسی طرح فاسی نے عبد اللہ بن محمد عقیل سے روایت كی ھے كہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس گیا اور كچھ دیر تك وھاں رھا،اور اس نے دیكھا كہ ابوبكر كی قبر رسول اكرم كے قدموں كے پاس ھے اور عمر كی قبر ابوبكر كے پیروں كی طرف ھے۔ ۹
اس بحث كے دوران یہ بات بھی قابل ذكر ھے كہ سمهودی كی نقل كے مطابق جناب فاطمہ بنت امام حسن مجتبیٰں اور ان كے شوھر حسن (حسن مثنیٰ)، حضرت فاطمہ دختر پیغمبر (ص)كے حجرے میں رھتے تھے، (جس وقت ولید نے حكم دیا كہ مسجد میں توسیع كی جائے) اس وقت ان دونوں كو مذكورہ حجرے سے نكالا گیا، اور اس حجرے كو گرادیا گیا۔ حسن بن حسن (یعنی حسن مثنیٰ) نے اپنے بڑے بیٹے جعفر كو حكم دیا كہ مسجدمیں جاكر بیٹھ جاؤ اور وھاں سے نہ اٹھنایھاں تك كہ یہ دیكھ لو كہ وہ پتھر جس كے اوصاف انھوں نے بتائے تھے قبرپر ركھتے ھیں یا نھیں؟جناب جعفر نے اپنے باپ كے كہنے پر عمل كیا توكیا دیكھاكہ ستون كو اونچاكردیا گیا اور پتھر كو باھر لایا گیا،انھوں نے جب یہ خبر جب اپنے والد محترم كو پهونچائی، تو وہ فوراً سجدے میں گئے اور كھا كہ یہ وہ پتھر تھا جس پر رسول اكرمنماز پڑھتے تھے، حضرت امام رضاںفرماتے ھیں كہ حضرت فاطمہ زھرا = كے دونوں بچوں حضرت امام حسن وامام حسین +كی ولادت اسی پتھر پر هوئی، اور حسین بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن الحسین جو آل علی (ع) میں بھتبلند علمی مقام ركھتے تھے، جب ان كے بدن كے كسی حصّے میں درد هوتا تھا تو اس پتھر سے سنگریزوں كو ہٹا كر اپنے بدن كو مس كرتے تھے، (اور ان كے اعضاء بدن كا درد ختم هوجاتا تھا) یہ پتھر حضرت رسول اكرمكی قبر كی دیوار سے متصل تھا۔ ۱۰
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے صندوق كے بارے میں
اسی طرح سمهودی تحریر كرتے ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے صندوق كی ابتداء كے بارے میں صرف یہ جانتا هوں كہ مسجد میں پھلی بار آگ لگنے ۱۱ سے پھلے(یعنی۶۵۴ھ) صندوق موجود تھا، كیونكہ جس وقت تعمیر مسجد كے متولی نے اس كو اس كی جگہ سے نكالا، اس كے نیچے صندوق عتیق كے ستون ظاھر هوئے تھے جس پر آگ كے نشان موجود تھے، گویا مسجد كی تجدید كے وقت اس عتیق كے صندوق كو نئے صندوق كے اندر ركھا گیا تھا، ابن سمهودی كی بات تائید چھٹی صدی كے مشهور ومعروف سیاّح ابن جبیر كے بیان سے هوتی ھے جیساكہ لكھتا ھے:
”وہ آبنوس كا صندوق (Apnus) جس پر صندل كی لكڑی كا كام تھااور چاندی كے ورق سے سجایا گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سرھانے موجود ھے، جس كی لمبائی پانچ بالشت، عرض تین بالشت اور اونچائی چار بالشت ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے سامنے چاندی كی ایك میخ (كیل) ھے، جس كے سامنے كھڑے هوكر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو سلام كیا كرتے ھیں۔
دروازے كے نزدیك تقریباً بیس عدد قندیل چھت میں لگی هوئی تھیں، جس میں سے دوعدد سونے كی اور باقی چاندی كی ھیں۔ روضہ مقدس كے اندر كا ایك حصہ پرسنگ مرمركا فرش ھے، اور قبلہ كی طرف ایك محراب نما جگہ ھے جس كو بعض لوگ حضرت فاطمہ زھر ا = كا گھر اور بعض لوگ اس كوحضرت فاطمہ زھرا= كی قبر مطھر كھتے ھیں، اسی طرح روضہ رسولكے سامنے ایك بڑا صندوق شمع اور چراغ جلانے كے لئے ھے اورھر شب میں اس میں چراغ جلائے جاتے ھیں۔ ۱۲
ابن بطوطہ، جس نے تقریباً ابن جبیر سے دوصدی بعد اورسمهودی سے دوصدی قبل مدینہ منورہ اورمسجد رسول كودیكھا ھے، وہ بھی تقریباًابن جبیر ھی كی طرح روضہ رسول اسلام كی توصیف كرتا ھے ۔
قبر مطھر كی چادر كو معطر كرنا
قبر كے اطراف قندیلیں لٹكانا اور قیمتی اشیاء ہدیہ كرنا
سمهودی حضرت رسول خداكے روضہ مطھر اور قبر منور چادراور اس كو معطّر كرنے كی بحث كے دوران چند روایت ذكركرنے كے بعد اس طرح رقمطراز ھیں كہ ھارون الرشید كے زمانہ میں خیزران (ھارون كی ماں) نے حكم دیا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو زعفران اور دوسرے بھترین عطریات سے معطّر كیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر پر حریر كے جالی داركپڑوں كی چادرڈا لی جائے ۔ ۱۳
سمهودی ایك دوسری جگہ لكھتے ھیں:پھلے رسول اكرمكی دو سوم قبر كو زعفران اور عطر لگایا جاتا تھا لیكن۱۷۰ھ میں خیزران كے حكم سے پوری قبر كو معطّر كیا جانے لگا۔
سمهودی كی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسكتا ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كو ڈھكنے كے بارے میں علماء كے درمیان اختلاف تھا، لیكن اس پر چادرڈالنے كا معمول تھا۔
۷۶۰ھ میں یعنی سلطان اسماعیل بن ملك ناصر قَلاوُون كے زمانہ میں مصر میں بیت المال كے ذریعہ ایك دیھات خریدا گیا تاكہ اس كی آمدنی سے ھر پچاس سال كے بعد خانہ كعبہ كا غلاف اور حضرت رسول خدا كی قبر مطھر اور منبر كی چادر بدلی جاسكے۔
اس كے بعد سمهودی كھتے ھیں:
” آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو سونے چاندی كی قندیلوں اور فانوسوں اور شیشہ كی بھت قیمتی اشیاء سے زینت كی گئی تھی، جن كا حكم خانہ كعبہ كی قیمتی اشیاء كی طرح ھے۔ ۱۴
سُبْكی نے آنحضرت (ص)كی قبر مطھر اور روضہ اقدس كی قیمتی قندیلوں كے بارے میں ایك كتاب بنام ”تَنْزِلُ الْسَكِیْنَة عَلیٰ قَنَادِیْلِ الْمَدِیْنَة لكھی ھے۔ ۱۵
سمهودی حرم مطھر اور روضہ رسولپرلگی قندیلوں كے ذكر كے بعد كھتے ھیں كہ آنحضرت كے حجرہ شریف پر قندیلوں كا لگایا جانا ایك معمول كام تھا، اور یھاں پر اس طرح زینت كرنا دوسرے مقامات پر مقدم اوربھتر ھے۔
ھمیشہ بھت سے علمائے كرام اور زاہد حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے لئے آئے ھیں لیكن ھم نے نھیں سنا كہ كسی نے اس كام سے منع كیا هو، اور علماء كا منع نہ كرنا خود اس بات كی دلیل ھے كہ یہ كام جائز ھے۔ ۱۶
حرم مطھر اور روضہ رسول كی قندیلیں كبھی كبھی اتنی زیادہ هوجاتی تھیں كہ جو قدیم هوجاتی تھیں ان كو فروخت كردیا جاتا تھا اور ان كی قیمت كو حرم كی تعمیرات میں صرف كردیا جاتا تھا، چنانچہ۷۰۵ھ میں روضہ رسول (ص)كے خادمین كے رئیس نے بادشاہ سے اجازت مانگی كہ بعض قندیلوں كو بیچ دیا جائے اور ان كی درآمد سے باب السلام میں كچھ تعمیر كرا دی جائے، اور جب اس وقت كے بادشاہ نے اجازت دی تو ان قندیلوں كو فروخت كردیاگیا،ان میں سے دو عدد سونے كی قندیلیں تھیں وہ ایك ہزار درھم كی فروخت هوئیں۔ ۱۷
حجرے كے اوپر گنبد كے بارے میں
سمهودی جس كی كتاب تاریخ مدینہ اور مسجد النبی میں بھترین اور معتبر ترین كتاب مانی جاتی ھے گنبد روضہ نبوی كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھے: مسجد النبی میںلگنے والی پھلی آگ سے پھلے یعنی۶۵۴ھ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے حجرے پر كوئی گنبد یا قبّہ نھیں تھا بلكہ چھت كے اوپر قبر كے سیدھ میں نصف قد آدم اینٹوں كی دیوار تھی تاكہ اس حجرے كی چھت مسجد النبی كی دوسری عمارت سے الگ دكھائی دے، لیكن۶۷۸ھ میں ملك منصور قلاوون صالحی نے اس حجرے كے اوپر ایك قبّہ بنوایاجس كا نیچے والا حصہ مربع اور اوپر آٹھ گوشے تھے۔ ۱۸
حرم مطھر كے دروازے كس زمانہ میں بند كئے گئے؟
جس وقت۸۲۲ھ میں نجم الدین حجی شام كے قاضی نے اپنے كاروان كے ساتھ فریضہ حج انجام دیا اور روضہ رسول اكرم (ص)كی زیارت كی، اس وقت روضہ رسولكے اندر لوگوں كی بھیڑ دیكھی تو فتویٰ صادر كردیا كہ روضہ رسول كے دروازے بند كردئے جائیں،۸۲۸ھ میں مذكورہ قاضی نے اپنے فتوے كے بارے میں اس وقت كے سلطان سے حمایت چاھی چنانچہ اس نے بھی اس كی حمایت میں حكم صادر كردیا ،جس كی وجہ سے حرم كے دروازے بند هوگئے۔
میں (سمهودی)نے قول مجد پرحافظ جمال الدین بن الخیاط یمنی كے ھاتھ كا حاشیہ دیكھا، جس میں اس طرح لكھا تھا كہ ملك اشرف بَر سْبای،جوكہ مصر وشام كا حاكم تھا اس كے زمانہ میں حرم اور روضہ مطھركے اطراف میں جالیوں والے درلگائے گئے، اور۸۳۰ھ كے بعد سے لوگ ان جالیوں كے پیچھے سے كھڑے هوكر زیارت رسول اكرمكیا كرتے تھے، اور كوئی بھی اندر داخل نھیں هوتا تھا۔
اس موقع پر سمهودی اپنی رائے كا اظھار كرتے هوئے كھتے ھیں كہ بھتر تو یہ تھا كہ حرم مطھر كے بعض دروازوں كو كھلا ركھتے اور بعض جاھل اور بے ادب لوگوں كے لئے دروازوں پر نگھبان كھڑا كردیتے، تاكہ وہ بے ادب اور جاھل لوگوں كو حرم مطھر میں داخل نہ هونے دیں، نہ یہ كہ بالكل ھی دروازے بند كردئے جائیں،اور دوسرے لوگوں كو بھی زیارت سے محروم كردیا جائے، جبكہ آنحضرتكی زیارت سے لوگوں كو روكنا یعنی تمام مسجد كی تعطیل كرنا ھے۔ ۱۹
لیكن شوكانی قبر رسولكے اطراف كے دروازہ بند هونے كے سلسلہ میں یوں رقمطراز ھیں كہ اصحاب اور تابعین نے جب یہ دیكھا كہ مسلمانوں كی تعداد میں اضافہ هوتا جا رھا ھے تو مسجد النبی میں توسیع كی ضرورت كو محسوس كیا اور مسجد میں توسیع كی گئی، ا ور اس توسیع میں امھات المومنین (ازواج رسول (ص))كے حجرے یھاں تك كہ جناب عائشہ كا وہ حجرہ جس میں رسول اللہدفن تھے، وہ بھی شامل هوگیا، قبر مطھر كے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں ھیں تاكہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور دكھائی نہ دے، اس وجہ سے كہ كھیں ایسا نہ هو كہ عوام الناس آپ كی قبر كی طرف نماز پڑھنے لگیں، اور ممنوعہ كام (غیر خدا كی عبادت) نہ هوجائے۔ ۲۰
مسجد النبی كے فرش كے سنگریزوں كے بارے میں
اس بحث كے اختتام پر بھتر ھے كہ اس بات كی طرف بھی اشارہ كیا جائے كہ مسجد النبیكا لال رنگ كے سنگریزوں سے فرش حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ سے ھے اور اب بھی اسی رنگ كا ھے، ابوداود نے اپنی سنن میں ابو ولید سے روایت كی ھے كہ ابن ولید نے ابن عمر سے سوال كیا كہ مسجد النبی كے فرش كی جگہ سنگریزے ڈالنے كی وجہ كیا ھے؟ تو ابن عمر نے اس طرح جواب دیا كہ ایك رات جب بارش آئی تو دوسرے روز صبح كو زمین گیلی تھی، چنانچہ جو شخص بھی مسجد میں آتا تھا اپنے ساتھ ایك مقدار سنگریزے لاتا تھا اور ان كو مسجد میں ڈال كر پھیلادیا كرتا تھا اور انھیں كے ا وپر نماز پڑھا كرتا تھا، نماز كے تمام هونے كے بعد حضرت رسول اكر م (ص)نے فرمایا كہ یہ كام كتنا اچھا ھے، اور اب كسی كو اپنے لائے هوئے سنگریزوں كو مسجد سے باھر لے جانے كا كوئی حق نھیں ھے۔ ۲۱
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور بوسہ لینے كے سلسلے میں ایك اور وضاحت
جناب سمهودی جن پر تمام اھل سنت اور وھابی حضرات بھی اعتماد كرتے ھیں، انھوں نے بھت سے ایسے موارد ذكر كئے ھیں كہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك جاتے تھے اور قبر مطھر كے اوپر ھاتھ ركھتے تھے، یھاں تك كہ لوگ (تبرك كے لئے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی مٹی اٹھالیتے تھے اور جب سے جناب عائشہ كے حكم سے دیوار بنادی گئی اس كے بعد بھی لوگ دیوار میں موجود سوراخوں كے ذریعہ قبر مطھر كی مٹی اٹھالیا كرتے تھے۔ ۲۲
سمهودی انس بن مالك سے روایت كرتے ھیں كہ ایك شخص جو قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ ركھے هوئے تھا میں نے اس كو منع كیا، اس كے بعد بعض علماء كا قول نقل كرتے ھیں كہ اگر صاحب قبر سے مصافحہ كرنے كے قصد سے قبر پر ھاتھ ركھا جائے تو كوئی حرج نھیں ھے۔
اسی طرح سمهودی ”تحفہٴ ابن عساكر“ سے نقل كرتے ھیں كہ مقدس قبور كو مس كرنا یا ان كو بوسہ دینا اور ان كاطواف كرنا جیسے جاھل ونابلد لوگ ان كا طواف كرتے ھیں، ان سب كا سنت نبوی سے كوئی تعلق نھیں ھے بلكہ مكروھات میں سے ھے۔
اس كے بعد وہ ابی نُعیم سے روایت كرتے ھیںكہ ابن عمر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ ركھنے كو مكروہ جانتے تھے، اس كے بعد كھتے ھیں كہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے باپ سے سوال كیا كہ لوگ رسول اسلام كے منبر پر ھاتھ پھیر تے ھیں، اس كو چومتے ھیں اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو مس كرتے ھیں اور بوسہ دیتے ھیں، اس سوال كے جواب میں احمد نے كھا كہ كوئی حرج نھیں ھے، اسی طرح جناب سُبكی نے ابن تیمیہ كی ردّ كرتے هوئے كھا ھے كہ رسول اكرم كی قبر مطھر كو مس نہ كرنے كا مسئلہ اجماعی نھیں ھے كیونكہ مطلّب بن عبد اللہ سے مروی ھے كہ مروان بن الحكم نے جب ایك شخص كو دیكھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر سے چمٹا هواھے، تو مروان نے اس شخص كی گردن كو پكڑكر كھا كہ معلوم ھے توكیا كر رھا ھے؟ اس شخص نے اس كی طرف اپنا رخ كركے كھا: میں لكڑی اور پتھر كے پاس نھیں آیا هوں بلكہ پیغمبر اكرم (ص)كے پاس آیا هوں، اس وقت دین پر ماتم كیا جانا چایئے جب دین كی باگ ڈور نااھلوں كے ھاتھ میں هو، یہ مذكورہ شخص ابوایوب انصاری تھے، اس موقع پر سُبكی كھتے ھیں كہ اگر اس روایت كی سند كو صحیح مان لیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو مس كرنا مكروہ بھی نھیں ھے۔
ایك دوسری روایت كے مطابق جناب بلال جب شام سے آنحضرت (ص)كی زیارت كے لئے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور كے نزدیك روتے هوئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر اپنے رخساروں كو مَل رھے تھے، اور ایك دوسری روایت كے مطابق جب حضرت علیںنے رسول اكرم (ص)كو دفن كیا توجناب فاطمہ زھرا = تشریف لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے سامنے كھڑی هوئیں اور قبر سے ایك مٹھی خاك اٹھائی اور اپنی آنكھوں سے مس كركے رونا شروع كیا، اور ایك دوسری روایت كے مطابق ابن عمر اپناداہنے ھاتھ قبر منور پر ركھتے تھے اور اسی طرح جناب بلال اپنے رخساروں كو قبر مطھر پر ركھتے تھے، عبد اللہ ابن احمد حنبل نے كھا كہ یہ سب چیزیں بھر پور محبت كا ثبوت ھیں اور یہ تمام چیزیں ایك طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا احترام اور تعظیم ھیں۔ ۲۳
قبر اورروضہ مقدسہ كے بارے میں ابن تیمیہ كی باقی گفتگو
ابن تیمیہ كے دلیلوں میں سے سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر) اور تابعین كا عمل بھی ھے، لیكن عجیب بات یہ ھے كہ یھی ابن تیمیہ زیارت كے بارے میں سلف صالح كے عمل كو قبول نھیں كرتے، اور كھتے ھیں كہ سلف صالح كا عمل كافی نھیں ھے بلكہ كسی دوسری دلیل كا هونا بھی ضروری ھے۔ ۲۴یھاں تك كہ ابن تیمیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كو دیكھنا بھی ممنوع قرار دیا۔ ۲۵
وہ قبر مطھر اور روضہ مبارك كے بارے میں اس طرح كھتا ھے كہ كوئی بھی زائر كسی بھی طریقہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كرسكتا، اور قبر كے چاروں طرف بھی اتنی گنجائش نھیں ھے كہ تمام زائرین وھاں جمع هوسكیں، اور جس حجرے میں حضرت رسول اللہ كی قبر مبارك ھے اس میں كوئی جالی وغیرہ نھیں ھے كہ اس سے آپ كی قبر كو دیكھا جاسكے، اور لوگوں كو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو دیكھنے سے ممانعت كی گئی ھے،خداوندعالم نے جن چیزوں كے ذریعہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر منّت ركھی ھے ان میں سے سب سے بڑی چیز یہ ھے كہ آپ كو آپ كے حجرے میں دفن كیا گیا جو مسجد النبیكے قریب ھے اور جو شخص نماز پڑھنا چاھتا ھے اس كو چاہئے كہ مسجد میں نماز ادا كرے جھاں نماز پڑھناجائز ھے۔ ۲۶
اس كے بعد ابن تیمیہ صاحب كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نہ كوئی قندیل لٹكی هوئی ھے اور نہ ھی كوئی پردہ ھے، اور نہ ھی كسی شخص كے لئے یہ ممكن ھے كہ آپ كی قبر كو زعفران یا عطر كے ذریعہ معطر كرے یا كوئی شخص نذر كے لئے شمع یا چادر وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر چڑھائے، 126 یھی ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر اوردوسری قبروں میں كوئی فرق نھیں ھے، صرف آپ كی مسجد دوسری مسجدوں سے افضل ھے۔ ۲۷
حواشی
۱. درحالیكہ اھل سنت كے نزدیك احادیث كی صحیح ترین كتاب صحیح بخاری كے موٴلف نے خود فرمایا ھے كہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے پاس بیٹھ كر تاریخ لكھی ھے۔ (ابو الفداء جلد ۲ص ۶۱)
۲. فاسی، شفاء الغرام(ج۲ ص ۳۹۱) میں تحریر ھے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبركا فرش لال سنگریزوںسے تھا۔ شوكانی كھتے ھیں: علماء كھتے ھیں كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وجہ سے كہ كھیں ان كی یا كسی دوسرے كی قبر كو مسجد كانہ قرار نہ دیں لوگوں كو منع فرمایا ھے كہ كھیں لوگ آپ كی تعظیم میں مبالغہ كی وجہ سے كفر میں مبتلا نہ هوجائیں، اور كھیں یہ تعظیم گذشتہ امتوں كی طرح باعث گمراھی و ضلالت نہ هوجائے۔ (نیل الاوطار ج۲ ص ۱۳۹)
۳. فاسی، اسی طرح كھتے ھیں كہ حضرت عائشہ كے زمانہ میں لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی مٹی تبرك كے طور پر اٹھالیتے تھے، (شفاء الغرام ج۲ص ۳۹۱)
۴. دروازے كے بند هونے كی علت كے بارے میں سمهودی كھتے ھیں: امام حسن ابن علی ں نے چونكہ وصیت كی تھی كہ ان كے جنازے كو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس دفن كریںاور جب امام حسنں كا انتقال هوا، اور امام حسینں نےاپنے بھائی كی وصیت كے مطابق عمل كرنا چاھا تو ایك گروہ اس كام میں مانع هوا، اور امام حسینں سے جنگ كی، اسی وجہ سے عبد الملك بن مروان (یا كسی دوسرے خلیفہ) كے حكم سے اس حجرہ كو چاروں طرف سے بند كردیا گیا، (وفاء الوفاء جلد اول ص ۳۸۸) لیكن امام حسنں كی شھادت اور خلافت عبد الملك كے درمیان جو فاصلہ ھے اس كے پیش نظر دروازہ كے بند هونے كی یہ وجہ معلوم نھیں كہ صحیح بھی هو، مگر یہ كہ دروازہ كو معاویہ كے حكم سے بند كیا گیا هو۔
۵. الجواب الباھر فی زوّار المقابر تالیف ابن تیمیہ ص 10- 13.
۶. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱(حلقہٴ اول)
۷. شفاء الغرام ج۲ ص۳۹۱۔
۸. شفاء الغرام ج۲ ص۳۹۳۔
۹. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۱ص ۴۰۸۔
۱۰. آگ لگنے كی تفصیل وفاء الوفا جلد اول ص ۴۲۷ میں موجود ھے۔
۱۱. رحلہٴ ابن جبیر ص ۱۴۸ اوراس كے بعد۔
۱۲. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۱۵۔
۱۳. وفاء الوفا ء بہ اخبار دار المصطفیٰ جلد اول ص ۴۱۶۔
۱۴. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۲۲۔
۱۵. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۲۴، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی پوشش كے بارے میں یہ كھا قابل ذكرھے كہ اس وقت بھی آپ كی قبر مطھر پر ایك ضخیم (بھاری)كپڑا پڑا هوا ھے، جس كو ضریح مبارك كی جالیوں سے دیكھا جاسكتا ھے ،گویا ملك سعود كے زمانہ سے دس پندرہ سال پھلے سے ھی یہ چادرپڑی هوئی تھی
۱۶. ابن كثیر البدایة والنھایہ ۳۸۔ ج۱۴ ص
۱۷. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۳۵۔
۱۸. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۴۱، اس وقت بھی روضہ مطھر كے دروازے بند ھیں اور صرف روضہ مبارك كی جالی نما چاروں طرف كی دیواروں كے ذریعہ اندر دیكھا جاسكتا ھے، لیكن چونكہ اندر اندھیرا ھے لہٰذا بھت ھی كم دكھائی پڑتا ھے۔
۱۹. نیل الاوطار ج۲ص۱۴۰۔
۲۰. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۷۲، فتاوی الكبریٰ ج۲ ص ۳۳۔
۲۱. وفاء الوفاء جلد اول ص ۳۸۵۔
۲۲. وفاء الوفاء ج۲ ص ۱۴۰۲ سے۔
۲۳. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۱۴۔
۲۴. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۹۹۔
۲۵. ابن قیم جوزی ،(ابن تیمیہ كا مشهور ومعروف شاگرد) كھتا ھے:قبور كے پاس نماز میت كے علاوہ دوسری نمازیں پڑھنا ممنوع ھے اور جائز نھیں ھے۔ (اعلام الموقعین ج۲ص ۳۴۷)
۲۶. الرد علی الاخنائی ص ۱۰۲۔
۲۷. الرد علی الاخنائی ص 145