غیر خدا كی قسم كھانا
ابن تیمیہ كا كہنا یہ ھے كہ اس بات پر علماء كا اتفاق ھے كہ باعظمت مخلوق جیسے عرش وكرسی، كعبہ یا ملائكہ كی قسم كھانا جائز نھیں ھے، تمام علماء مثلاً امام مالك، ابوحنیفہ اور احمد ابن حنبل (اپنے دوقولوں میں سے ایك قول میں) اس بات پر اعتقاد ركھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھانا بھی جائز نھیں ھے اور مخلوقات میں سے كسی كی قسم كھانا چاھے وہ پیغمبر كی هو یا كسی دوسرے كی جائز نھیں ھے اور منعقد بھی نھیں هوگی، (یعنی وہ قسم شرعی نھیں ھے اور اس كی مخالفت پر كفارہ بھی واجب نھیں ھے) كیونكہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت هوتی ھے كہ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
خدا كے علاوہ كسی دوسرے كی قسم نہ كھاؤ، ایك دوسری روایت كے مطابق اگر كسی كو قسم كھانا ھے تو اس كو چاہئے كہ یا تو وہ خدا كی قسم كھائے یا پھر خاموش رھے یعنی كسی غیر كی قسم نہ كھائے، اور ایك روایت كے مطابق خدا كی جھوٹی قسم، غیر خدا كی سچی قسم سے بھتر ھے، چنانچہ ابن تیمیہ كھتا ھے كہ غیر خدا كی قسم كھانا شرك ھے۔ 1
البتہ بعض علماء نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كو استثناء كیا ھے اور آپ كی قسم كو جائز جانا ھے، احمد ابن حنبل كے دو قولوں میں سے ایك قول یھی ھے، اسی طرح احمد ابن حنبل كے بعض اصحاب نے بھی اسی قول كو اختیار كیا ھے۔
بعض دیگر علماء نے تمام انبیاء كرام كی قسم كو جائز جانا ھے، لیكن تمام علماء كا یہ قول كہ انھوں نے بلا استثنیٰ مخلوقات كی قسم كھانے سے منع كیا ھے صحیح ترین قول ھے۔ 2
ابن تیمیہ كا خاص شاگرد اور معاون ابن قیّم جوزی كھتا ھے : غیر خدا كی قسم كھانا گناھان كبیرہ میں سے ھے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ جو شخص بھی غیر خدا كی قسم كھاتا ھے وہ خدا كے ساتھ شرك كرتا ھے، لہٰذا غیر خدا كی قسم كھانا گناہ كبیرہ میں سر فھرست ھے۔ 3
غیر خدا كی قسم كے بارے میں وضاحت
مرحوم علامہ امین ۺ فرماتے ھیں كہ صاحب رسالہ (ابن تیمیہ) كا یہ قول كہ غیر خدا كی قسم كھانا ممنوع ھے، یہ ایك بكواس كے سوا كچھ نھیں ھے كیونكہ اس نے اپنی بات كو ثابت كرنے كے لئے صرف ابوحنیفہ، ابو یوسف، ابن عبد السلام اور قدوری كے اقوال كو نقل كئے ھیں، گویا تمام ممالك اور ھر زمانہ كے تمام علماء صرف انھیں چار لوگوں میں منحصر ھیں، اس نے شافعی، مالك اور احمد ابن حنبل كے اقوال كو كیوںبیان نھیں كیا اور اس نے عالم اسلام كے مشهور ومعروف بے شمار علماء جن كی تعداد خدا ھی جانتا ھے كے فتوے نقل كیوں نھیں كئے۔
حق بات تو یہ ھے كہ غیر خدا كی قسم كھانا نہ مكروہ ھے اور نہ حرام، بلكہ ایك مستحب كام ھے اور اس بارے میں بھت سی روایات بھی موجود ھیں، اس كے بعد مرحوم علامہ امین نے صحاح ستہ سے چند روایات نقل كی ھیں۔ 4
موصوف اس كے بعد فرماتے ھیں كہ غیر خدا كی قسم كھانا، رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب وتابعین كے زمانہ سے آج تك تمام مسلمانوں میں رائج ھے، خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنی مخلوقات میں سے بھت سی چیزوں كی قسم كھائی ھے، خود پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب رسول وتابعین میں ایسے بھت سے مواقع موجود ھیں جن میں انھوں نے اپنی جان یادوسری چیزوں كی قسم كھائی ھے، اور اس كے بعد مرحوم علامہ امین ۺنے ان بھت سے واقعات كو باقاعدہ سند كے ساتھ بیان كیا ھے جن میں مخلوق كی قسم كھائی گئی ھے۔ 5
ایك دوسری جگہ پر كھتے ھیں كہ وہ احادیث جو غیر خدا كی قسم سے منع كرتی ھیں یاتو ان كو كراھت پر حمل كیا جائے یا وہ احادیث اس بات پر دلالت كرتی ھیں كہ غیر خدا كی قسم منعقد نھیں هوتی اور اس میں نھی، نھی ارشادی ھے، اور اس طرح كی قسمیں مكروہ ھیں حرام نھیں، جبكہ وھابیوں كے امام احمد ابن حنبل نےپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كے جواز پر فتویٰ دیا ھے۔
شعرانی احمد بن حنبل كے قول كو نقل كرتے هوئے كھتے ھیں كہ اگر كسی نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھائی تو اس كی وہ قسم منعقد ھے بلكہ پیغمبر كے علاوہ بھی دوسروںكی قسم كھانا اس قسم كے منعقد هونے كا سبب بنتا ھے۔ 6
11۔ مقدس مقامات كی طرف سفر كرنا
ابن تیمیہ كاكہناھے: مقدس مقامات كی طرف سفر كرنا حج كے مانند ھے، ھر وہ امت جن كے یھاں حج كا تصور پایا جاتا ھے جیسے عرب كے مشركین لات وعزّیٰ ومنات اور دوسرے بتوں كی طرف حج كے لئے جایا كرتے تھے، لہٰذا اس طرح كے روضوں كی طرف سفر كرنا گویا حج كرنے كی طرح ھے جس طرح مشركین اپنے خداؤں كے پاس حج كے لئے جاتے تھے۔ 7
بدعتی لوگ انبیاء اور صالحین كی قبور كی طرف بعنوان حج جاتے ھیں، ان كی زیارت كرنا شرعی جواز نھیں ركھتا، جس سے ان كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو، بلكہ اس زیارت سے ان كا مقصد صاحب قبر كی اھمیت كو اجاگر كرنا هوتاھے كہ وہ حضرات خدا كے نزدیك عظیم مرتبہ اور بلند مقام ركھتے ھیں اور ان كا مقصد یہ هوتا ھے كہ صاحب قبر كو نصرت اور مدد كے لئے پكارےں، یا ان كی قبروں كے پاس خدا كو پكاریں، یا صاحب قبر سے اپنی حاجتیں طلب كریں۔ 8
جو لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں (یا ابن تیمیہ كے بقول :قبروں پر حج كے لئے جاتے ھیں) تو ان كا قصد بھی مشركین كے قصد كی طرح (عبادت مخلوق، یعنی بتوں كی پوجا) هوتا ھے، اور وہ بتوں سے وھی طلب كرتے ھیں جو اھل توحید (مسلمان) خدا سے طلب كرتے ھیں۔
12۔ شیعوں كے بارے میں
ابن تیمیہ كا كہنا ھے: كفار ومشركین جو اپنے مقدس مقامات پر جانے كے لئے سفر كرتے ھیں، اور یھی ان كا حج ھے اور قبر كے نزدیك اسی طرح خضوع وتضرع كرتے ھیں جس طرح سے مسلمان خدا كے لئے كرتے ھیں، اھل بدعت اور مسلمانوں كے گمراہ لوگ بھی اسی طرح كرتے ھیں، چنانچہ ان گمراہ لوگوں میںرافضی بھی اسی طرح كرتے ھیںكہ اپنے اماموں او ربزرگوں كی قبور پر حج كے لئے جاتے ھیں، بعض لوگ ان سفروں كے لئے اعلان كرتے ھیںاور كھتے ھیںآئیے حج اكبر كے لئے چلتے ھیں، اور اس سفر كے لئے علمِ حج ساتھ لیتے ھیں اور ایك منادی كرنے والا حج كے لئے دعوت دیتا ھے اور اسی طرح كا علم اٹھاتے ھیں جس طرح مسلمان حج كے لئے ایك خاص علم اٹھاتے ھیں، یہ فرقہ مخلوق خدا كی قبور كو حج اكبر اور حج خانہ خدا كو حج اصغر كھتا ھے۔ 9
ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ پر ان موارد كا ذكر كرتا ھے جن میں بعض افراد كچھ مقدس مقامات كے سفر كو سفر حج كی طرح مانتے ھیں، لیكن وھاں یہ ذكر نھیں كرتا كہ یہ لوگ كس مذھب كے پیرو ھیں اور كس فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں، منجملہ ان كے ایك یہ ھے كہ وہ لوگ اس مقام پر جاتے ھیں جھاں پر كوئی ولی اللہ اس زمین پر نازل هوا ھے وھاں پر حج كے لئے جاتے ھیں اور حج كی طرح احرام باندھتے ھیں اور لبیك كھتے ھیں ،جیسا كہ مصر كے بعض شیوخ مسجد یوسف میں حج كے لئے جاتے ھیں، اور احرام كا لباس پہنتے ھیں، اوریھی شیخ زیارت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے لئے بعنوان حج جاتا ھے اور وھاں سے مكہ معظمہ بھی نھیں جاتا كہ اعمال حج بجالائے اور مصر واپس پلٹ جاتا ھے۔ 10
مذكورہ مطلب كے بارے میں وضاحت
بارھا یہ بات كھی جاچكی ھے كہ شیعوں كی نظر میں حج صرف خانہ خدا بیت اللہ الحرام كا حج ھے جو مكہ معظمہ میں هوتا ھے اور اس كے علاوہ كسی چیز كو حج كے برابر اور حج كی جگہ نھیں مانتے، اور یہ ان مسلم چیزوں میں سے ھے كہ اگر كوئی شخص ذرہ برابر بھی فقہ شیعہ سے باخبر هو، تو اس پریہ بات مخفی نھیں هوگی، اور دوسرے مقامات كو خانہ كعبہ كی جگہ قرار دینا اور وھاں حج كی طرح اعمال بجالانا ان لوگوں كے ذریعہ ایجاد هوا ھے جو شیعوں كے مخالف اور شیعوں كے دشمن شمار هوتے ھیں۔ ان میں سے تیسری صدی كے مشهور ومعروف مورخ یعقوبی كے مطابق عبد الملك بن مروان ھے كہ،جب عبد اللہ ابن زبیر كے ساتھ اس كی جنگ هوتی ھے تو وہ شام كے لوگوں كو حج سے منع كردیتا ھے كیونكہ عبد اللہ ابن زبیر شامی حجاج سے اپنے لئے بیعت لے رھے تھے، یہ سن كر لوگوں نے چلانا شروع كیا اور عبد الملك سے كھا كہ ھم لوگوں پر حج واجب ھے اور تو ھمیں حج سے روكتا ھے، ؟ تو اس وقت عبد الملك نے جواب دیا كہ یہ ابن شھاب زھری ھے جو آپ حضرات كے سامنے رسول اللہ كی حدیث سناتے ھیں:
” لاٰ تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلیٰ ثَلاٰثَةِ مََسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ وَمَسْجِدُ بَیْتُ الْمُقَدَّسْ (مسجد اقصیٰ)“
”ان تین مسجدوں كے علاوہ كسی دوسری مسجد كے لئے رخت سفر نھیں باندھا جاسكتا: مسجد الحرام، مسجد النبی، مسجد اقصیٰ، لہٰذا مسجد اقصیٰ مسجد الحرام كی جگہ واقع هوگی، اور یہ صخرہ (بڑا اور سخت پتھر) جس پر پیغمبر اكرم (ص)نے معراج كے وقت اپنے پیر ركھے تھے خانہ كعبہ كی جگہ ھے۔
اس كے بعد اس نے حكم دیا كہ اس پتھر پر ریشمی پردہ لگایا جائے (خانہ كعبہ كے پردہ كی طرح) اور وھاں كے لئے خادم اور نگھبان (محافظ) معین كردئے گئے اور جس طرح خانہ كعبہ كا طواف كیا جاتا ھے اسی طرح اس پتھر كا بھی طواف هونے لگا، اور جب تك بنی امیہ كا دور رھا یہ رسم برقرار رھی۔ 11
اور جیسا كہ معلوم ھے كہ عبد الملك بن مروان كی یہ یادگار بنی امیہ كے ختم هونے كے بعد بھی صدیوں رائج رھی، چنانچہ ناصر خسرو پانچوی صدی كا مشهور ومعروف سیّاح شھر بیت المقدس كی اس طرح توصیف كرتا ھے: بیت المقدس كو اھل شام اور اس كے اطراف والے قدس كھتے ھیں اور اس علاقہ كے لوگ اگر حج كے لئے نھیں جاسكتے تو اُسی موقع پر قدس میں حاضر هوتے ھیںاور وھاں توقف كرتے ھیں اور عید كے روز قربانی كرتے ھیں، یھی ان كا وطیرہ ھے، ھر سال ماہ ذی الحجہ میںوھاں تقریباً بیس ہزار لوگ جمع هوتے ھیںاپنے بچوں كو لے جاتے ھیں اور ان كے ختنے كرتے ھیں۔ 12
ان ھی لوگوں میں متوكل عباسی بھی ھے (یہ وھی متوكل ھے جس نے روضہ امام حسین ں پر پانی چھوڑا تاكہ قبر كے تمام آثار ختم هوجائیں) اس نے شھر سامرہ (عراق) میں خانہ كعبہ بنوایا، اور لوگوں كو حكم دیا كہ اس كا طواف كریں اور وھیں دو مقامات كا ” منیٰ“ و”عرفات“ نام ركھا اس كا مقصد یہ تھا كہ فوج كے بڑے بڑے افسر حجپر جانے كے لئے اس سے جدانہ هوں۔ 13
یہ تھے دو نمو نے، اگر ان كے علاوہ كوئی ایسا مورد پایا جائے تو وہ بھی انھیں كی طرح ھے، اور كبھی كوئی ایسا واقعہ رونما نھیں هوا جس میں كسی شیعہ مذھب كے ماننے والے نے اس طرح كا كوئی كارنامہ انجام دیا هو۔
شیعوں كی نظر میںزیارت قبور، ایك اور وضاحت
پھلے بھی ذكر هوچكا ھے، یہ سب ناروا تھمتیں اور نادرست نسبتیں جو شیعوں كی طرف دی گئیں ھیں یہ اسی زمانہ كی ھیں جب گذشتہ صدیوں میں شیعوں سے دشمنی اور تعصب برتا جاتا تھا خصوصاً چوتھی، پانچوی اور چھٹی صدی میں كہ جب شیعہ اور سنی حكّام كے درمیان بھت زیادہ دشمنی اور تعصب پایا جاتا تھا، اسی وجہ سے بعض غرضی، كینہ پرور اور موقع پرست لوگوں نے موقع غنیمت جان كر شیعوں كے خلاف مزید تعصب اور دشمنی ایجاد كی اور متعصب حكّام كو مزیدبھڑكایا تاكہ شیعوں كے خلاف ان كی دشمنی اور زیادہ هوجائے۔
اگر كوئی شخص شیعوں كی فقہ اور اسی طرح زیارت مشاہد مقدسہ كے اعمال كے بارے میں جو قدیم زمانہ سے معمول اور رائج ھیں باخبر هو تو اس كو بخوبی معلوم هوجائے گا كہ كسی بھی زمانہ میں شیعوں كے نزدیك بزرگان دین كی قبور كی زیارت حج نھیں سمجھی گئی اور ان كا عقیدہ صرف یہ ھے كہ زیارت ایك مستحب عمل ھے، اس كے علاوہ اور كوئی تصور نھیں پایا جاتا، وہ قبور كے پاس دعا اور سلام كے علاوہ كوئی دوسری چیز نھیں كھتے، اور اس طرح كی زیارت كو اھل سنت بھی جائز جانتے ھیں۔
شیعوں كی فقھی اور حدیثی كتابیں بھت زیادہ ھیں اور ھر انسان ان كا مطالعہ كرسكتا ھے، اور یہ محال اور ناممكن ھے كہ كسی شیعہ عالم نے زیارت كے سفر كو حج كے برابر جانا هو، اگر كوئی شخص شیعہ فقھی كتابوں كا بغور مطالعہ كرے تو اس كو معلوم هوجائے گاكہ شیعوں كی نظر میں حج بیت اللہ كی كتنی عظمت اور اھمیت ھے، اور حج كے صحیح هونے كے لئے كہ حج سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مطابق انجام پائے كتنی دقت اور احتیاط كی جاتی ھے، اور یہ بات حج كے زمانہ میںاچھی طرح سے واضح و روشن هوجاتی ھے جب ایران اور دوسرے ممالك سے لاكھوں شیعہ حاجی حج كے لئے جاتے ھیں۔
یھاں پر ایك اھم نكتہ جس پر شیعہ مخالفین نے قدیم زمانہ سے توجہ نھیں كی وہ یہ ھے كہ شیعہ كون ھیں؟
ظاھراً ابن تیمیہ اور اس كے پیروكاروھابیوں نے غُلات (غلو كرنے والے) اور دوسرے فرقوں جن كو شیعہ بھی كافر سمجھتے ھیں ان سب كو شیعہ سمجھ لیا ھے اور افسوس كے ساتھ كھا جاتا ھے كہ بعض مذاھب اربعہ كے ماننے والے بھی اس غلطی كے مرتكب هوئے ھیں اور شیعوں كی حقیقت سے باخبر هوئے بغیر اپنے ذہن میں موجود نا درست افكار و خیالات كی بنا پر انھوں نے شیعوں پر مزید تھمتیں لگائیں، جبكہ حق وانصاف كا تقاضا یہ ھے كہ ان جیسے افراد كو اس مسئلہ پر توجہ كرنا چاہئے تھی كہ شیعوں نے اپنے تمام عقائد، احادیث اور وسیع فقہ كو ائمہعلیهم السلام كے ذریعہ خود رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل كیا ھے۔
دوسری بات یہ ھے كہ اھل سنت كے چاروں فرقوں كے امام، شیعوں كے ائمہ كے علم وكمال اور صدق وتقویٰ اور دوسرے بلند مراتب پر یقین ركھتے ھیں اور ان كو اپنے سے زیادہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے كسب علم میں نزدیك سمجھتے ھیں، یھاں تك كہ خود ابن تیمیہ نے بعض اوقات اپنے نظریات كو شیعوں كے ائمہ كے قول سے مستند كیا ھے اور شیعہ فقہ سے مدد لی ھے، جیسا كہ ھم نے پھلے بھی اس چیز كا ذكر كیا ھے ،ان تمام چیزوں كے پیش نظر ایك حق پسند اور بے غرض انسان پر حقیقت واضح اور روشن ھے كہ كس طرح ممكن ھے كہ ایسے مذھب كے تابع لوگ جن كے ائمہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب هوںاور دینی حقائق كو اچھی طرح جانتے هوں، كوئی ایسا عقیدہ ركھتے هوں جو اسلام كے مسلمات كے برخلاف اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی تعلیمات سے دور هو؟اور وہ بھی حج بیت اللہ الحرام كا ترك كرنا كہ شیعہ عقیدہ كے مطابق اگر كوئی حج بیت اللہ الحرام كے واجب هونے پر اعتقاد نہ ركھے تو وہ كافر ھے!!
بھر حال جیسا كہ معلوم هوتا ھے اسی زمانہ سے كہ جب شیعہ اور سنی حاكموں كے درمیان سخت عناد اور دشمنی اپنے اوج پر تھی، اس بحرانی دور میں اگر كوئی شخص دین كے خلاف كوئی كام كرتا تھا تو اھل غرض افراد اس كو شیعہ كہنے لگتے تھے، اس طرح لوگوں كے ذہن شیعوں كی طرف سے بھر دئے گئے، چنانچہ شیعوں كے معمولی كاموں كو بھی الٹا كركے پیش كرنے لگے مثلاً اسی موضوع كولے لیں جسے ابن تیمیہ نے نقل كیا ھے كہ رافضی زیارت كے سفر كے لئے حج كی طرح علم بلند كرتے ھیں اور لوگوں كو حج كی طرف دعوت دیتے ھیں، اس بات كو تقریباً یقین سے كھا جاسكتا ھے كہ اس كی وجہ شاید وھی رسم تھی جو زمانہٴ قدیم میں رائج تھی كہ جب كوئی كاروان زیارت كے لئے جاتا تھاتوایك منادی كے ذریعہ اعلان كرایا جاتا تھاكہ جو سفر كا ارادہ ركھتا هو چاھے تجارت كے لئے هو یا زیارت كے لئے یا كسی اور كسی كام كے لئے وہ تیار هوجائے، اور یہ رسم موٹر گاڑیاں وغیرہ چلنے سے پھلے شاید تمام ھی دنیا میں رائج تھی، اور اس كی وجہ بھی معلوم ھے كہ اس زمانہ میں اكیلے سفر كرنا بھت خطرناك هوتا تھا۔
اسی معمولی اور سادہ كام كو شیعہ دشمنوں نے اس طریقہ سے بیان كیا كہ جو لوگ شیعہ علاقوں سے دور زندگی بسر كرتے ھیں اور شیعوں سے اختلاف نظر ركھتے ھیں اس كو حقیقت اور صحیح سمجھ لیں۔
حق بات یہ ھے كہ اگر كسی مذھب كو پہچاننا ھے تو اس مذھب كی صحیح اور مستند كتابوں سے یا ان كے ساتھ زندگی كرنے یا اس فرقہ كے علماء اور بابصیرت لوگوں سے سوال وجواب كے ذریعہ پہچانے، نہ كہ ان تھمتوں اور ذہنی تصورات كے ذریعہ جو خود غرض یا بے اطلاع لوگوں كے ذریعہ لگائی گئی ھیں۔
یہ بات مسلم ھے كہ شیعوں كے نزدیك بزرگان دین كی قبور كی زیارت ایك مستحب عمل ھے اور ان زیارتوں میں دعائیں هوتی ھیں جن كا مضمون توحید خداوندعالم اور صاحب قبر پر سلام اور اس كے فضائل هوتے ھیں، ھم یھاں پر زیارت كے چند نمونے پیش كرتے ھیں تاكہ ان لوگوں پر حقیقت واضح هوجائے جو شیعوں كے بارے میں زیارت سے متعلق بدگمانیاں ركھتے ھیں،ھم یھاں پر زیارت كے موقع پرجو دعا یا ذكر زبان پر جاری كرتے ھیں بیان كرتے ھیں، جب زائرین كرام امام علی ابن موسی الرضاںكی زیارت كے لئے مشہد مقدس جاتے ھیں اور روضہ مبارك میں وارد هوتے ھیں تو یہ دعا پڑھنا مستحب ھے:
”بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِرَسُوْلِ اللّٰہِ (ص) اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاّٰاللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَرِیْكَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ اَللّٰهم صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمّدٍ۔ “
”شروع كرتا هوں اللہ كے نام اور اسی كی مددسے نیزاسی كے راستہ اور ملت رسول اللہ میں قدم بڑھاتا هوں، اور گواھی دیتا هوں كہ اللہ كے علاوہ كوئی خدا نھیں، وہ وحدہ لا شریك ھے، اورشھادت دیتا هوں كہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا كے بندے اور رسول ھیں، بار الہٰا ! محمد وآل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما“۔
اور وھاں پڑھی جانے والی دعاؤں میں سے زیارت اھل قبور بھی اس طرح سے ھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُوٴمِنِیْنَ مِنْ اَہْلِ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ رَحِمَ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَاِنَّا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بَكُمْ لاٰحِقُوْنَ اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَكَاتُہُ“۔
”سلام هو مسلمانوں اور لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے والوں كے شھر (خموشاں) پر، خدا رحمت كرے اس دیار میں ھم سے پھلے آنے والوں اور بعد میںآنے والوں پر، انشاء اللہ ھم بھی اسی دیار سے ملحق هونے والے ھیں، تم پر سلام اور خدا كی رحمت وبركات هو“۔
اسی طرح وھاں پڑھی جانی والی دعائے استغفار اس طرح ھے:
”اَسَتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ هو الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْم ذُوْالْجَلاَلِ وَالاِكْرَام وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ وَاَسْئَلُہُ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَنْ یَتُوْبَ عَلَیَّ تَوْبَةَ عَبْدٍ ذَلِیْلٍ خَاضِعٍ خَاشِعٍ فَقِیْرٍ مِسْكِیْنٍ مُسْتَكِیْنٍ، لاٰیَمْلِكُ لِنَفْسِہِ نَفْعاً وَلاٰ ضَراً وَلاٰ مَوْتاً وَلاٰ حَیٰوةً وَلاٰنُشُوْراً۔ “
”میں توبہ او راستغفار كرتا هوں اس اللہ سے جس كے علاوہ كوئی معبود نھیں جو حیّ وقیّوم، رحمن و رحیم اور صاحب عظمت و جلالت ھے، اور میں اسی كی بارگاہ میں تو بہ كرتا هوں، اور اسی سے سوال كرتا هوں كہ محمد و آل محمد پر درود وسلام بھیج، او راپنے اس خاضع، خاشع، فقیر، مسكین بندے كی توبہ قبول كر، جو خود اپنے نفس كے لئے كسی نفع ونقصان اور موت وحیات نیز حشر ونشر كا مالك نھیں ھے“۔
قارئین كرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ شیعہ حضرات قبور كی زیارت كے موقع پر اس طرح كی دعائیں پڑھتے ھیں، شیعہ حضرات كی دعاؤں او ر اذكار كی كتابوں میں سب سے اھم كتاب صحیفہ سجادیہ ھے كہ اگر كوئی شخص اس كتاب میں موجود ہ دعاؤں میں صحیح غور وفكر كرے تو اس كو معلوم هوجائے گا كہ حقیقت توحید كیا ھے ؟
خدا كے سامنے حقیقی خضوع وخشوع كیسے كیا جاتا ھے اس كتاب میں ایسے مطالب موجود ھیں جو دوسری كتابوں میں بمشكل تمام پائے جاتے ھیں، شیعہ حضرات خصوصاً علمائے كرام مقدس روضوں پر صحیفہ سجادیہ سے اس طرح كی دعائیں پڑھتے ھیں:
”اِلٰہِیْ مَنْ حَاوَلَ سَدَّ حَاجَتِہ. مِنْ عِنْدَكَ فَقَدْ طَلَبَ حَاجَتَہُ فِیْ مَظَاٴنِّها وَاِنِّیْ طَلَبْتُہُ مِنْ جِہَتِها وَمَنْ تَوَجَّہَ بِحَاجَتِہ. اَلیٰ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ اَوْ جَعَلَ سَبَبَ نَجْحِها دُوْنَكَ فَقَدْ تَعَرَّضَ لِلْحِرْمَانِ وَاسْتَحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَوَاتَ الإحْسَاْنِ“۔
” بار الٰھا ! جس نے تجھ سے اپنی حاجت طلب كرنے كا ارادہ كیا اس نے اپنی حاجت كو صحیح جگہ سے طلب كیا لہٰذا میں تیرے در كا سوالی هوں اور جس نے اپنی حاجت كو كسی غیر سے طلب كیا یا كامیابی كو تیرے علاوہ كسی غیر كے در پر تلاش كیا وہ محروم رھا اور تیرے احسان كے فوت هونے كا سبب بنا“۔
اسی طرح صحیفہ سجادیہ كی ایك دوسری دعا:
”اِلٰہِیْ خَابَ الوَافِدُوْنَ عَلٰی غَیْرِكَ وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ اِلاَّ لَكَ وَضَاعَ الْمُلِمُّوْنَ اِلاَّ بِكَ وَاَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُوْنَ اِلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ“۔
”پالنے والے تیرے علاوہ دوسرے سے رغبت ركھنے والا انسان ذلیل ھے اور تیرے علاوہ دوسروں كی طرف توجہ كرنے والا خسارہ میں ھے، نیز تیرے علاوہ كسی دوسرے سے لَو لگانے والا نقصان میں ھے، اور تیرے علاوہ كسی كی ذات سے امید ركھنے والادھوكے میں ھے“
صحیفہ سجادیہ كی ایك اور دعا: ”تَبَارَكْتَ وَتَعَالَیْتَ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، صَدَّقْتُ رُسُلَكَ وَآمَنْتُ بِكِتَابِكَ وَكَفَرْتُ لِكُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاكَ وَبَرِئْتُ مِمَّنْ عَبَدَ غَیْرَكَ“
”خداوندا!تیری ذات، گرامی اور بابركت ھے، اور ھر برائی سے پاك و پاكیزہ ھے تیرے علاوہ كوئی معبود نھیں میں تیرے انبیاء كی تصدیق كرتا هوں، ان پر ایمان ركھتا هوں نیز تیری كتاب (قرآن) پر بھی ایمان ركھتا هوں، اور تیرے علاوہ دوسرے تمام معبودوں كا انكار كرتا هوں، نیز تیرے علاوہ كسی غیر كی عبادت كرنے والوں سے برائت اور دوری كا اعلان كرتا هوں“۔
شیعوں كے نزدیك مقدس روضوں پر قرآن پڑھنا مستحب ھے كھاور اس كا ثواب صاحب قبر كو ہدیہ كرنا مستحب ھے اور اگر زیارت كرتے وقت نماز كا وقت هوجائے اور قریب كی مسجد میں نماز جماعت هورھی ھے تو اس زیارت كو روك كر نماز جماعت میں حاضر هونا مستحب ھے، اور اسی طرح یہ بھی مستحب ھے كہ روضوں كے اندر بے هودہ الفاظ اور ناشائستہ كلمات زبان پر جاری نہ كرے اور دنیاوی امور كے بارے میں باتیں نہ هوں، اور زائر كو چاہئے كہ فقیروں كو صدقہ دے او ر محتاجوں كی مدد اور نصرت كرے، اور وھاں پر زیادہ نہ ٹھھرے۔
روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كی كیفیت، شیعوں كی نظر میں
مستحب ھے جب انسان مسجد النبی میں وارد هو تو دوركعت نماز تحیت مسجد بجالائے اور داہنی طرف كے ستون كے نزدیك اس طرح روبقبلہ كھڑا هوكہ بایاں شانہ قبر مطھر كی طرف هو اور داہنا شانہ منبر كی طرف كركےاس طرح كھے:
”اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلٓہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُلاٰ شَرِیْكَ لَہْ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مَُحَمّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَاَشہَدُ اَنّكَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وانَّكَ مُحَمّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ وَاَ شْہَدُ اَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالاٰ تِ رَبِّكَ وَنَصَحْتَ لِاٴمَّتِكَ وَجَاہَدْتَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَبَدْتَ اللّٰہَ حَتّٰی اَتیٰكَ الْیَقِیْنُ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَادَّیْتَ الَّذِیْ عَلَیْكَ مِنَ الْحَقِّ وَاَنَّكَ قَدْ رَوٴُفْتَ بِالْمُوٴْمِنِیْنَ وَغِظْتَ عَلٰی الْكٰافِرِیْنَفَبَلَّغَ اللّٰہُ بِكَ اَفْضَلَ شَرَفِ مَحَلِّ الْمُكّرَ مِیْنَ،اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اِسْتَنْقَذْ نَا بِكَ مِنَ الشِّرْ كِ وَالضَّلاٰ لَةِ۔
اَللّٰھُمَّ فَاجْعَلْ صَلَوَاتكَ وَصَلَوَاتِ مَلاٰئِكَتِكَ الْمُقَرَّ بِیْنَ وَاَنْبِیَائِكَ الْمُرْسَلِیْنَ وَعِبَادِكَ الصَّا لِحِیْنَ وَاَھْلَ السَّمٰوٰتِ وَالاٴرْضِیْنَ وَمَنْ سَبَّحَ لَكَ یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ مِنَ الاٴوَّلِیْنَ وَالآٰخِرِیْنَ عَلیّٰ مُحَمَّدٍعَبْدِكَ وَرَسُوْلِكَ وَنَبِیْكَ وَاَمِیْنِكَ وَنَجِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ وَصَفِیِّكَ وَخَاصَّتِكَوَصَفْوَتِكَ وَخَیْرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ۔
اَللّٰھُمَّ اَعْطِہِ الدَّرَجَةَ الرَّفِیْعَةَ،وَآتِہِ الْوَسِیْلَةَ مِنَ الْجَنَّةِ وَابْعَثْہُ مُقَاماً مَحْمُوْداً یَغْبِطُہُ بِہِ الاٴوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ۔ اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ:
< وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > (سورہ نساء ۶۴)
وَاِنِّیْ اَتَیْتُكَ مُسْتَغْفِراً تٰائِباً مِنْ ذُنُوْبِیْ، وَاِنِّیْْ اَتَوَجَّہُ بِكَ اِلٰی اللّٰہِ رَبِّی وَ رَبِّكَ لِیَغْفِرلی ذُنُوْبی“۔
ترجمہ زیارت:
”میں گواھی دیتا هوں كہ اس اللہ كے علاوہ كوئی معبود نھیں، وہ وحدہ لا شریك ھے، اور شھادت دیتا هوں كہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كے بندے اور رسول ھیں، میں گواھی دیتا هوں كہ آپ اللہ كے رسول اور جناب عبد اللہ كے فرزند ھیں۔
میں گواھی دیتا هوں كہ آپ نے اپنے پرور دگار كے تمام احكام كو كما حقہ پهونچایا، اپنی امت كی اصلاح فرمائی، خدا كی راہ میں جھاد كیااور خدا كی عبادت كی یھاں تك كہ حكمت وموعظہ حسنہ كے ذریعہ یقین كے بلند درجات تك پهونچ گئے، آپ نے اپنے تمام حقوق ادا كردئے، آپ مومنین پر بڑے مھربان اور رحم دل ھیں جس طرح كفار اور مشركین پر غضب ناك اور سخت دل ھیں، تمام تعریفیں اس اللہ كے لئے ھیں جس نے آپ كی بدولت ھمیں شرك وگمراھی سے نجات دی۔
بار الہٰا!ان پر درود و رحمت نازل فرما، نیز تمام ملائكہ مقربین، انبیاء مرسلین، بندگان صالحین، اھل سماوات وزمین، اور تیری تسبیح كرنے والی تمام مخلوق كا دردو وسلام هو تیرے بندہ اور تیرے رسول پر، تیرے ھم راز اور امین پر، تیرے حبیب وصفی پر، تیرے خاص اور منتخب پراور مخلوقات میں سب سے بلندوبھتر پر۔
بار الہٰا!اپنے رسول كو بلند وبالا درجات عنایت فرما، اور آپ كوھمارے لئے جنت تك پہنچنے كا وسیلہ قرار دے، نیز آپ كو اس مقام محمود پر فائز فرماجس پر تمام مخلوقات رشك اور ناز كریں، خداوندا! تو نے فرمایا ھے :
< وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً ۔ >
”اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے“۔
بتحقیق میں آپ كی بارگاہ میں اپنے گناهوں سے توبہ اور استغفار كے لئے آیا هوں، اور آپ كے ذریعہ خدا كی بارگاہ میں متوجہ هوتا هوں تاكہ میرا اور آپ كاپرور دگار میرے گناهوں كو بخش دے“۔
شیعوں كی دوسری زیارتیں بھی اسی طرح كی ھیں، جو دعاؤں او راذكار كی كتابوں میں تفصیلی طور پر بیان كی گئی ھیں ،اور جن میں سے چند جملے ھم پھلے بھی ذكر كرچكے ھیں۔
13۔ صالحین كی قبور كے بارے میں
ابن تیمیہ كاكہنا ھے: بعض لوگ گمان كرتے ھیں كہ جن شھروں میں انبیاء وصالحین كی قبور ھیں وہ اس زمین سے بلاء اور خطرات كو دور كرتے ھیں مثلاً اھل بغداد قبر احمد ابن حنبل، بشر حافی اور منصور بن عماركی وجہ سے، اھل شام قبور انبیاء (منجملہ خلیل خداجناب ابراھیم ں) 14، اسی طرح اھل مصر قبر نفیسہ اور دیگر چند قبر وں كے ذریعہ، نیز اھل حجاز مرقد پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اور اھل بقیع كی وجہ سے بلاء اور مصیبتوں سے محفوظ ھیں، جبكہ یہ تمام غلط اور اسلام وقرآن، سنت اور اجماع كے خلاف ھے، كسی جگہ كسی كی قبر هوناكسی حادثہ سے امان میں رہنے كے لئے كوئی تاثیر نھیں ركھتا، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا وجود مقدس آپ كی زندگی میں امان كا سبب تھا، آپ كی وفات كے بعدنھیںھے۔ 15
جو لوگ یہ عقیدہ ركھتے ھیں كہ ھمیں قبور سے فائدہ پہنچتا ھے اور شھر میں قبور كا هونا دفع بلا كا سبب بنتا ھے، ایسے لوگ گویا قبور كو بتوں كی جگہ مانتے ھیں، ان كا قبور كی طرف سے نفع ونقصان كا عقیدہ بالكل كفار كے عقیدہ كی طرح ھے جو بتوں كو نفع ونقصان پہنچانے والا مانتے ھیں۔ 16
14۔ قبروں پراوران كے اطراف عمارت بنانا، اور ان كو مسمار كرنے كی ضرورت
ابن تیمیہ كا كہنا ھے:مسجد، صرف خدا كی عبادت كے لئے بنائی جاتی ھے، اور مخلوق كی قبروں كے اطراف میں مسجد بنانا صحیح نھیں ھے، اسی طرح ان مخلوقین كے لئے مسجد بنانا یا مخلوق كے گھروں (یعنی ان كی قبروں) كی طرف سفر كرنا جائز نھیں ھے۔ 17
چنانچہ بقیع اور دیگر قبور كے بارے میں ابن تیمیہ كھتا ھے كہ اگر وھاں دعا، تضرع، طلب حاجت، استغاثہ اور اس طرح كی دوسری چیزیں انجام دی جائیں تو ان كاموں سے روكنا ضروری ھے، اور جو عمارتیں ان قبور كے اطراف میں بنائی گئی ھیں ان كو ویران او رمسمار كرنا ضروری ھے، اور اگر پھر بھی وھاں مذكورہ كام انجام دئے جائیں تو قبروں كو اس طرح سے مسمار كردیا جائے كہ نام ونشان تك باقی نہ رھے۔ 18
15۔ نماز كے لئے مصلّیٰ بچھانا
ابن تیمیہ كا كہنا ھے:اگر نماز پڑھنے والے كا قصد یہ هو كہ مصلّے كے اوپر نماز پڑھی جائے تو یہ سَلَف مھاجرین، انصاراور تابعین كی سنت كے خلاف ھے كیونكہ وہ سب لوگ زمین پر نماز پڑھتے تھے اور كسی كے پاس بھی نماز كے لئے مخصوص مصلّیٰ نھیں هوتا تھا، جیسا كہ امام مالك نے بھی كھا ھے كہ نماز كے لئے مصلّیٰ بچھانا بدعت ھے۔ 19
اسی طرح موصوف كاكہنا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی نماز پڑھنے كے لئے مصلّیٰ نھیں بچھاتے تھے اور صحابہ بھی یا ننگے پیر یا جوتے پہن كرنماز پڑھتے تھے اور ان كی نماز زمین پر یا چٹائی یا اسی طرح كی چیزوں پر هوتی تھی۔ 20
16۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كرنا، ان سے حاجت طلب كرنا اور ان كو شفیع قرار دینا
ابن تیمیہ كامذكورہ امور كے بارے میں كہنا ھے كہ اگر كوئی زیارت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے لئے جاتا ھے لیكن اگر اس كا قصد دعا اور سلام نھیں ھے بلكہ اس كا مقصد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاجت طلب كرنا ھے اور ا س كے لئے وھاں پر اپنی آواز بلند كرناھے تو ایسے شخص نے گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو اذیت دی ھے اور خود اپنے اوپر ظلم وستم كیا ھے۔
اس بحث كے ضمن میں ابن تیمیہ نے ان احادیث پیغمبر كو بھی بیان كیا ھے جن كا مضمون یہ ھے كہ جس شخص نے میری وفات كے بعد میری زیارت كی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كیاور انھوں نے ان تمام احادیث كو باطل، جعلی اور ضعیف شمار كیا ھے۔ 21
كسی اھل قبر سے توسل (اس كے وسیلہ سے دعا) كرنے كے بارے میں ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ بعض زائرین قبور ایسے هوتے ھیں جن كا قصد یہ هوتا ھے كہ ان كی حاجت پوری هو، كیونكہ وہ صاحب قبر كو خدا كی بارگاہ میں صاحب عظمت سمجھتے ھیں اور اس كو بارگاہ خداوندی میں واسطہ قرار دیتے ھیں اور اس كے لئے نذر اور قربانی كرتے ھیں اور ان كو صاحب قبر كے لئے ہدیہ كرتے ھیں اور بعض زائرین اپنے مال كا ایك حصہ صاحب قبر كے لئے معین كرتے ھیں، اسی طرح بعض گروہ صاحب قبر سے محبت اور اس كے دیدار كے شوق میں اس كی زیارت كے لئے جاتے ھیں اور اس كی قبر كی طرف سفر كوایسا سمجھتے ھیں جیسے صاحب قبركی زندگی میں اس كی طرف سفر كیا هو، اور جب اس صاحب قبر كی زیارت كرلیتے ھیں جس سے وہ محبت ركھتے ھیں تو اپنے دل میں سكون وآرام اور اطمینان محسوس كرتے ھیں، اس طرح كے لوگ ایسے بت پرست ھیں جو بتوں كو خدا كی طرح مانتے ھیں۔ 22
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كے بارے میں وضاحت
سمهودی سُبكی كے قول كو نقل كرتے هوئے كھتے ھیں كہ محبوب كا ذكر كرنا دعا كی قبولی كا سبب بنتا ھے، چنانچہ اسی كام كو توسل كھا جاتا ھے، اوراستغاثہ، شفیع قرار دینا اور توجہ كرنا بھی۔
توسل كا یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زندگی میں متعدد بار رونما هوا ھے چنانچہ نسائی اور ترمذی نے عثمان بن حُنیف سے روایت نقل كی ھے كہ جب ایك نابینا شخص رسول اسلام (ص)كی خدمت میں اپنی شفا كے لئے حاضر هوا تو رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نابینا كو حكم دیا كہ یہ دعا پڑھو:
”اَللّٰهم اِنِّیْ اَسْئَلُكَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرِّحْمَةِ،یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّہْتُ بِكَ اِلٰی رَبِّیْ فِی حَاجَتِیْ لِتَقْضِیَ لِیْ، اَللّٰهم شَفِّعْہُ لِیْ“
”خدا وندا!میں تجھ سے سوال كرتا هوں تیرے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے واسطہ سے جو نبی رحمت ھیں، او رمیں تیری طرف متوجہ هوتا هوں، اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میںاپنی حاجت كی قبولی میں آپ كے وسیلہ سے خدا كی بارگاہ میں متوجہ هوتا هوں تاكہ میری حاجت روا هو، اے خدائے مھربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو میرا شفیع قرار دے“۔
طبرانی نے بھی اسی طرح كی حدیث ایسے مرد كے بارے میں نقل كی ھے جو وفات پیغمبراكرمكے بعد عثمان بن عفان كے زمانہ میں ایك حاجت ركھتا تھا او رعثمان بن حنیف نے اس كو مذكورہ دعا پڑھنے كے لئے كھا، (اور جب اس نے بھی مذكورہ دعا كو پڑھا تو اس كی حاجت پوری هوگئی)
اسی طرح بیہقی نے ایك روایت نقل كی ھے كہ جب جناب عمر كے زمانہ میں قحط پڑاتوسب لوگوں نے مل كر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر سے توسل كیا اور ان میں سے ایك شخص نے پیغمبر اكرم كی قبر كے سامنے كھڑے هوكر كھا:
”یَاْ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْتَسْقِ لِاٴُمَّتِكَ فَاِنَّهم قَدْ ہَلَكُوْا“
”اے پیغمبر اكرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی امت كے لئے خدا سے بارش طلب كریں كیونكہ آپ كی امت پانی نہ هونے كی وجہ سے ھلاك هوئی جاتی ھے“
اسی طرح امام مالك كا مسجد النبی میںابوجعفر كے ساتھ ایك مناظرہ هوا، اس میںانھوں كھا) كہ قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرف رخ كركے كھڑے هو اور ان كو اپنا شفیع قرار دو۔ 23
اسی طرح جناب عمر خشك سالی اور قحط كے زمانہ میں حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا جناب عباس سے توسل كرتے ھیں اور اس طرح بارگاہ خداوندی میں عرض كرتے ھیں:
”اَللّٰهم كُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَتُسْقِیْنَا، وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا“ 24
”خدا وندا! ھم قحط كے زمانہ میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كرتے تھے اور تو ھمیں سیراب كردیتا تھا ،اور اب پیغمبر كے چچا سے توسل كرتے ھیں، بارِ الہٰا تو ھمیں سیراب فرما“
ایك دوسری روایت كے مطابق، عمر نے لوگوں سے كھا كہ جناب عباس كو خدا كی بارگاہ میں وسیلہ قرار دو، خود ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اصحاب پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں آپ سے توسل كرتے تھے اور آپ كی وفات كے بعد جس طرح آپ سے متوسل هوتے تھے اسی طرح آپ كے چچاجناب عباس سے بھی توسل كرتے تھے،ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ امام احمد ابن حنبل اپنی دعاؤں میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متوسل هوتے تھے، اور امام احمد ابن حنبل كا بھی (ان كے دو نظریوں میں ایك) یھی نظریہ تھاكہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھانا اور ان سے توسل كرنا، جائز ھے۔ 25 یہ اور اس طرح كی بھت سی مثالیں جو اھل سنت كے چار مذاھب كی صحاح ستہ اور دوسری معتبر كتابوں میں موجودھیں ان سے معلوم هوتا ھے كہ پیغمبر اكرم (ص)سے توسل كرنا ان سے شفاعت كرنا اورپیغمبر كے علاوہ دوسروں مثلاً آنحضرتكے چچا سے توسل كرنا بھی سلف كی سیرت رھی ھے۔
1. الجواب الباھر ص ۲۲۔
2. الرد علی الاخنائی ص ۱۶۴، والفتاویٰ الكبریٰ جلد اول ص ۳۵۱۔
3. اعلام الموقعین ج۴ ص ۴۰۳۔
4. كشف الارتیاب ص ۳۳۰۔
5. كشف الارتیاب ص ۳۳۶۔
6. كشف الارتیاب ص ۳۴۲۔
7. الرد علی الاخنائی ص ۵۷۔
8. الرد علی الاخنائی ۵۹۔
9. الجواب الباھر فی زوار المقابر ص ۳۷، ۳۸۔
10. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۵۹، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص ۴۹۹) بعض لوگ جو قبور كا حج كرتے ھیں اپنے حج كو كامل كرنے كے لئے تقصیر كرتے ھیں اور اپنا سر منڈواتے ھیں، لیكن موصوف نے بھی یہ نھیں بیان كیا كہ یہ كون لوگ ھیں كس فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں اور كھاں كے رہنے والے ھیں۔
11. تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۶۱۔
12. سفر نامہ ناصرخسرو، ص ۲۴۔
13. احسن التقاسیم ص ۱۲۲۔
14. ھلی جنگ عظیم تك شام كا علاقہ میں سوریہ لبنان اور فلسطین بھی شامل تھے، یہ تینوں ملك پھلی جنگ عظیم كے بعد الگ الگ هوئے ھیں۔
15. الجواب الباھر ص ۸۳۔
16. الرد علی الاخنائی ص ۵۶۔
17. الجواب الباھر ص ۳۸، ۳۹۔
18. الرد علی الاخنائی ص ۹۹۔
19. الفتاویٰ الكبریٰ ج ۲ ص ۳۳۔
20. الفتاویٰ الكبریٰ جلد اول ص ۱۳۱۔
21. الجواب الباھر ص ۵۰۔
22. الرد علی الاخنائی ص ۵۹، ابن تیمیہ نے ایك دوسری جگہ كھا ھے كہ اگر كوئی شخص كسی مُردے كو پكارے تو پھلے اس كو توبہ كرائی جائے اوراگر توبہ قبول نہ كرے تو اس كی گردن اڑادی جائے، (مجموعة الرسائل جلد اول ص ۳۱۵)
23. وفاء الوفاء ج۴ ص ۱۳۷۱۔
24. صحیح بخاری ج۲ ص ۳۳۔
25. الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص ۳۵۱۔