ترویج اذان؛ اھل سنت كی نظر میں
ابو داؤود راوی ھیں كہ مجھ سے عباد بن موسیٰ ختلی اور زیاد بن ایوب نے روایت كی ھے (جب كہ ان دونوں میں سےعباد كی روایت زیادہ مكمل ھے)یہ دونوں كھتے ھیں كہ ھم سے ھشیم نےابو بشیر سے روایت نقل كی ھے كہ زیاد راوی ھیں كہ ھم سے ابو عمیر بن انس نے اور ان سے انصار كے ایك گروہ نے روایت كی ھے، كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو یہ فكر ھوئی كہ نماز كے وقت لوگوں كو كیسے جمع كیا جائے۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا كہ نماز كے وقت ایك پرچم بلند كردیا جائے۔ جب لوگ اس كو دیكھیں گے تو ایك دوسرے كو نماز كے لئے متوجہ كردیں گے۔ آپ كو یہ مشورہ پسند نھیں آیا۔ بعض صحابہ نے كھا كہ سنكھ بجایا جائے۔ آپ كو یہ بات بھی پسند نھیں آئی، اور فرمایا كہ یہ یھودیوں كا طریقۂ كار ھے۔ كچھ لوگوں نے عرض كیا: گھنٹیاں بجائی جائیں۔ آپ نے فرمایا كہ یہ نصاریٰ كی روش ھے۔
اس كے بعد عبد اللہ بن زید (بن عبداللہ) اپنے گھر چلے گئے در حالیكہ ان كو وھی فكر لاحق تھی جو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو تھی۔ پس ان كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی؟۔
راوی كھتا ھے كہ وہ اگلے دن صبح كو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كی كہ یا رسول اللہ! میں خواب و بیداری كے عالم میں تھا كہ كوئی میرے پاس آیا اور مجھے اذان سكھائی۔ راوی كھتا ھے كہ عمر بن خطاب، ان سے پھلے خواب میں اذان دیكھ چكے تھے لیكن بیس دن تك انھوں نے كسی كو اس كی خبر نھیں كی، اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو بتایا، تو آپ (ص) نے فرمایا كہ تم نے پھلے كیوں نھیں بتایا؟ تو كھنے لگے كہ عبد اللہ بن زید نے مجھ سے پھلے آپ كو بتا دیا لھذا مجھے ذكر كرنے میں شرم محسوس ھوئی۔ اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے بلال! كھڑے ھوجاؤ اور جو تم سے عبد اللہ بن زید كھیں اس كو انجام دو۔ اس طرح بلال (رض) نے اذان دی۔ ابو بشیر كھتے ھیں: مجھے ابو عمیر نے خبر دی ھے كہ انصار یہ گمان كرتے تھے كہ اس دن اگر عبد اللہ بن زید مریض نہ ھوتے تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں كو مؤذن بناتے۔
2) محمد بن منصور طوسی نے یعقوب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبداللہ سے روایت نقل كی ھے كہ مجھ سے عبداللہ بن زید نے كھا كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس (گھنٹی) بجانے كا حكم دیا اور فرمایا كہ نماز كے وقت ناقوس بجایا كرو تاكہ لوگ جمع ھوجائیں تو میں نے خواب میں دیكھا كہ ایك شخص ھاتھ میں ناقوس لئے ھوئے میرے گرد چكر لگا رھا ھے، میں نے اس سے كھا: اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتے ھو؟ اس نے كھا كہ تم اس كا كیا كرو گے؟ میں نے كھا كہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے مطلع كروں گا۔ وہ كھنے لگا: كیا میں اس سے اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے كھا: ھاں، بتاؤ۔ اس نے كھا كہ (نماز كے وقت لوگوں كو جمع كرنے كے لئے) یہ كلمات كھا كرو:
"اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ، "
راوی كھتا ھے كہ پھر وہ تھوڑی دیر كے لئے خاموش ھوا اور كھا: جب نماز كے لئے كھڑے ھوجاؤ تو یہ كھو:
" اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ۔ "
جب صبح ھوئی تو میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔
آپ (ص) نے فرمایا: "انشاء اللہ یہ خواب سچا ھے۔ بلال كے ساتھ جاؤ اور جو كچھ خواب میں دیكھا ھے وہ ان كو سكھاؤ تاكہ وہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے بلائیں۔ كیونكہ وہ تم سے زیادہ خوش لحن ھیں۔" میں بلال كے ساتھ گیا، اور ان كو بتاتا گیا وہ اذان دیتے گئے۔ عمر بن خطاب اپنے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے، جیسے ھی انھوں نے اس آواز كو سنا، دوڑے ھوئے آئے۔ وہ اتنی عجلت میں تھے كہ ان كی ردا زمین پر گھسٹ رھی تھی، وہ آئے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھا: "اس خدا كی قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كیا ھے، میں نے بھی یھی خواب دیكھا ھے، جو عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد (تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ھیں۔) 1
یھی روایت ابن ماجہ نے مندرجہ ذیل دو سندوں سے ذكر كی ھے۔
3) ھم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے، ان سے محمد بن سلمہ الحرانی نے، ان سے محمد بن ابراھیم تیمی نے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز كے وقت لوگوں كو اكٹھا كرنے كے لئے ناقوس كے بارے میں حكم دینے كے لئے سوچ رھے تھے، اور اسی كی طرف مائل تھے كہ عبد اللہ بن زید كو خواب میں اذان سكھائی گئی…… الخ۔
4) ھم سے محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی نے، ان سے ان كے والد نے، ان سے عبد الرحمان بن اسحاق نے، ان سے زھری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان كے والد نے روایت كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے مشورہ كیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كیا كیا جائے؟ كچھ لوگوں نے "سنكھ" كی پیشكش كی۔ آپ كو یہ رائے پسند نہ آئی۔ كیو نكہ سنكھ یھودیوں سے مخصوص ھے۔ بعض نے "ناقوس" كا تذكرہ كیا۔ مگر ناقوس نصاریٰ كی روش ھونے كی وجہ سے آپ كو یہ مشورہ بھی مناسب نھیں لگا۔ اسی رات عمر بن خطاب اور انصار كے ایك شخص عبد اللہ بن زید كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی۔
زھری كا بیان ھے كہ صبح كی اذان میں بلال نے "الصلاة خیر من النوم" كا اضافہ كردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنی رضا مندی كا اظھار بھی فرما دیا۔
ترمذی نے یہ روایت مندرجہ ذیل سند كے ذریعہ نقل كی ھے:
5) ھم سے سعد بن یحییٰ بن سعید اموی نے، ان سے ان كے والد نے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبد اللہ بن زید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ جب صبح ھوئی تو ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے، اور خواب كے بارے میں آپ سے بتایا…… الخ۔
6) ترمذی كھتے ھیں: اس حدیث كو ابراھیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے، زیادہ بھتر اور كامل طور پر نقل كیا ھے۔ اس كے بعد ترمذی كھتے ھیں: عبد اللہ ابن زید سے مراد ابن عبدر بہ ھیں، اور ھمارے نزدیك اس نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی روایت نقل كی ھیں، ان میں سے صرف یھی ایك حدیث، جو اذان كے بارے میں ھے، صحیح ھے۔
یہ روایتیں ھم نے "صحاح ستہ" اور بعض مخصوص "سبب صحاح" جیسے سنن دارمی یا دارقطنی، سے نقل كی ھیں، كیونكہ ان كتابوں كو جو اھمیت حاصل ھے وہ كسی دوسری سنن كو حاصل نھیں۔ مثلاً سنن دارمی یا دارقطنی یا وہ روایتیں جو ابن سعد نے اپنی طبقات یا بیھقی نے اپنی سنن میں نقل كی ھیں۔ ان كتابوں كی خاص اھمیت اور منزلت كی وجہ سے ھم نے ان كو دوسری مشھور سنن سے جدا ركھا ھے۔
اب ھم حقیقت كو واضح كرنے كے لئے ان روایات كے بارے میں متن اور سند كے اعتبار سے گفتگو كریں گے، اس كے بعد اس سلسلہ كی باقی روایات كا تذكرہ كریں گے۔
ھمارے نزدیك یہ تمام روایات كئی وجھوں سے اپنے مدعا پر دلیل بننے كی صلاحیت نھیں ركھتی۔
پھلی وجہ: ان روایات كا منصب رسالت سے سازگار نہ ھونا
خداوند عالم نے اپنے رسول كو مبعوث كیا تاكہ وہ لوگوں كے ساتھ نماز كو اس كے وقت میں قائم كریں اور اس كا لازمہ یہ ھے كہ خداوند عالم اس كو انجام دینے كی كیفیت سے بھی آگاہ كرے۔
لھٰذا نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اس سلسلہ میں بھت دنوں (یا ایك روایت كے مطابق بیس دن) تك حیران و پریشان رھنا كیا معنیٰ ركھتا ھے، كہ وہ اس ذمہ داری كو ادا كرنے كے طریقے سے نا واقف ھوں جو ان كے كاندھوں پر آچكی ھے؟؟ اور اپنے مقصود كو حاصل كرنے كے لئے ھر كس و ناكس سے مدد مانگتے پھریں۔ جب كہ نص قرآنی (كان فضل اللہ علیك عظیماً) 2 كے مطابق سب پر آپ كی فوقیت مسلم ھے۔ یھاں پر فضل سے مراد علمی برتری ھے جو سیاق آیت (و علّمك ما لم تكن تعلم) 3 سے واضح ھے۔ اور پھر نماز و روزہ عبادتی امور ھیں، جنگ و جدال كی طرح نھیں كہ جن كے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب سے مشورہ فرمایا كرتے تھے۔ اور یہ مشورہ بھی اس لئے نھیں ھوتا تھا كہ آپ بھتر طریقہ نھیں جانتے تھے، بلكہ یہ لوگوں كو متوجہ كرنے اور ان كی تشویق كے لئے ھوتا تھا۔ جیسا كہ خداوند عالم كا ارشاد ھے (ولو كنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولك فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوكل علی اللہ) 4 "اے رسول…… اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ كھڑے ھوتے۔ لھذا اب انھیں معاف كردو، اور ان كے لئے استغفار كرو اور جنگی امور میں ان سے مشورہ كرو اور جب ارادہ كرلو تو اللہ پر بھروسہ كرو۔"
كیا یہ شرم كی بات نھیں كہ دینی امور میں عوام كے خواب و خیالات كو مصدر قرار دیا جائے؟ اور وہ بھی اذان و اقامت جیسی اھم عبادتوں كے لئے!! كیا یہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی شان میں گستاخی اور ان پر بھتان نھیں ھے؟
معلوم ھوتا ھے كہ یہ روایت عبداللہ بن زید كے قبیلہ والوں نے گڑھی ھے، اور اس ۲۴
خواب كو خوب مشھور كیا، تاكہ فضیلت ان كے قبیلہ كے نام ھوجائے۔ لھذا ھم بعض مسندات میں دیكھتے ھیں كہ اس حدیث كے راوی وھی ھیں۔ اور اس سلسلہ میں جس نے بھی ان پر اعتماد كیا، وہ ان سے حسن ظن كی بنیاد پر كیا ھے۔
دوسری وجہ: روایات میں بنیادی اختلاف
وہ روایتیں جو اذان كی تشریع اور آغاز كے سلسلہ میں وارد ھوئی ھیں، ان میں سرے سے ھی اختلاف اور تضاد پایا جاتا ھے۔ جو مندرجہ ذیل ھے:
الف) پھلی یعنی "سنن ابو داؤد" كی روایت كے مطابق عمر ابن خطاب نے عبد اللہ ابن زید سے بیس دن پھلے خواب دیكھا، لیكن چوتھی یعنی "ابن ماجہ" كی روایت كے مطابق انھوں نے اسی رات خواب دیكھا جس رات عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔
ب) اذان، عبداللہ ابن زید كے خواب كے ذریعہ شروع ھوئی۔ اور عمر ابن خطاب نے جب اذان كو سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے اور كھا: میں نے بھی یھی خواب دیكھا تھا، لیكن شرم كی وجہ سے آپ سے تذكرہ نھیں كیا۔
ج) اذان كو عمر ابن خطاب نے رواج دیا، نہ كہ ان كے خواب نے۔ اس لئے كہ انھوں نے خود اذان كو ایجاد كیا جیسا كہ ترمذی نے اپنی سنن میں ذكر كیا ھے: مسلمان جب مدینہ آئے… (یھاں تك كہ وہ كھتے ھیں)… اور بعض لوگوں نے كھا: سنكھ سے استفادہ كیا جائے۔ جیسا كہ یھودی كرتے ھیں۔ عمر ابن خطاب نے كھا كہ كسی سے اذان دینے كے لئے كیوں نھیں كھتے؟ لھذا رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا بلال! قم فناد بالصلاة" اے بلال! اٹھو اور نماز كے لئے دعوت دو یعنی اذان كھو۔
ھاں ابن حجر نے "نداء بالصلاة" (نماز كے لئے اذان دینا) 5 سے اذان نھیں بلكہ "الصلاة جامعة" كی تكرار مراد لی ھے۔ لیكن ابن حجر كی اس بات پر كوئی واضح دلیل نھیں پائی جاتی ھے۔
د) اذان كو خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع كیا۔ بیھقی كی روایت ھے: … لوگوں نے ناقوس بجانے یا آگ روشن كرنے (كے ذریعہ نماز كی طرف بلانے) كا مشورہ دیا تو حضور (ص) نے بلال كو حكم دیا كہ اذان كو شفعاً (ھر فقرہ كو دوبار) اور اقامت كو وتراً (ھر فقرہ كو ایك بار) كھو۔ بیھقی كا بیان ھے كہ بخاری نے محمد بن عبد الوھاب اور مسلم نے اسحاق بن عمار سے یھی روایت نقل كی ھے۔ 6
ان تعارضات اور اختلافات كے ھوتے ھوئے بھلا ان روایات پر كیسے اعتماد كیا جاسكتا ھے؟
تیسری وجہ: خواب: ایك نھیں بلكہ چودہ اشخاص نے دیكھا
حلبی كی روایت سے یہ ظاھر ھوتا ھے كہ اذان كا خواب صرف عبد اللہ ابن زید یا عمر بن خطاب سے ھی مخصوص نھیں، بلكہ عبد اللہ بن ابوبكر نے بھی اسی طرح كے خواب دیكھنے كا دعویٰ كیا ھے۔ اور یہ بھی كھا جاتا ھے كہ انصار میں سے سات آدمیوں، اور ایك دوسرے قول كے مطابق چودہ لوگوں نے اذان خواب میں دیكھنے كا ادعا كیا ھے۔ 7
كیا كوئی صاحب عقل ان روایات، بلكہ خرافات كو قبول كرسكتا ھے؟؟ ارے بھائی! شریعت اور اسلامی احكام كوئی بازیچہ اطفال نھیں! جو خوابوں اور خیالوں سے تیار كر لئے جائیں۔ اور اگر اسلام كی یھی حقیقت ھے تو پھر ایسے اسلام كو سلام ھے۔ اس سلسلہ میں حقیقت یہ ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احكام شریعت كو وحی كے ذریعہ حاصل فرمایا كرتے تھے، نہ كہ ھر كس و ناكس كے خواب سے۔
چوتھی وجہ: بخاری سے منقول روایت اور دوسری روایات كے درمیان تعارض
بخاری نے صراحت كے ساتھ روایت نقل كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجلس مشاورت میں بلال (رض) كو یہ حكم دیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو بلاؤ، اور حضرت عمر اس وقت وھاں موجود نھیں تھے۔ خود ابن عمر راوی ھیں كہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز كے وقت، نماز كے لئے متوجہ كرنے اور اس كی طرف بلانے والے كی ضرورت كا احساس كر رھے تھے۔
ایك دن اس سلسلہ میں گفتگو كرنے لگے۔ بعض افراد نے "نصاریٰ" كی طرح ناقوس بجانے كا مشورہ دیا۔ بعض نے كھا كہ یھودیوں كی طرح قرن یا سینگ سے استفادہ كیا جائے۔ عمر بولے: كسی كو نماز كی دعوت دینے كے لئے كیوں نھیں بھیجتے؟ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور لوگوں كو نماز كے لئے بلاؤ۔ 8
اور وہ صریحی روایت جو خواب كے بارے میں ھیں ان كے مطابق نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال (رض) كو اذان كا حكم، فجر كے ھنگام اس وقت دیا جب كہ ابن زید نے اذان كے سلسلہ میں اپنا خواب حضور سے بیان كیا۔ اور عبد اللہ بن زید كا خواب مجلس مشاورت كے كم از كم ایك رات بعد قابل تصور ھے۔
اور جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال (رض) كو اذان كا حكم دے رھے تھے تو حضرت عمر وھاں موجود نھیں تھے، بلكہ جب اذان دی گئی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ دوڑتے ھوئے آئے اس حالت میں، كہ ان كے كپڑے زمین پر گھسٹ رھے تھے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھنے لگے كہ یا رسول اللہ! قسم ھے اس پروردگار كی جس نے حق كے ساتھ آپ كو مبعوث كیا، یھی خواب میں نے بھی دیكھا ھے۔
اور ھمارے پاس ایسا كوئی قرینہ نھیں جس كی روشنی میں یہ كھا جاسكے كہ بخاری كی روایت میں "نداء بالصلاة" سے مراد "الصلاة جامعہ" كی تكرار ھے اور خواب كی روایتیں اذان كے سلسلہ میں ھیں۔ اور اگر كوئی اس طرح كی بات كھے بھی تو یہ بغیر كسی دلیل كے ھوگا۔
دوسرے یہ كہ اگر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب بلال (رض) كو یہ حكم دیتے كہ الصلاة جامعہ كو با آواز بلند كھو تو مسئلہ ھی حل ھوجاتا، اور خصوصاً اگر اس كی تكرار كا حكم دیتے، تو حیرانی و پریشانی كی بات ھی نہ رہ جاتی۔
لھذا یہ اس بات كی دلیل ھے، كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز كی دعوت دینے كا جو حكم دیا اس سے مراد یھی معروف اذان شرعی تھی۔ 9
یہ چار مذكورہ وجوھات، احادیث كے مضمون كی تحقیق كا تقاضہ كرتی ھیں۔ اور یہ اشكالات مذكورہ، احادیث كے غیر قابل قبول ھونے كے لئے كافی ھیں۔ لیكن پھر بھی ھم ان كی اسناد كے بارے میں گفتگو كرتے ھیں۔ (تاكہ ھماری بات كی اور وضاحت ھوجائے) ان میں سے بعض كی سندیں موقوف ھیں، اور ان كا سلسلہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتا۔ اور بعض، مسند تو ھیں مگر ان كے راوی یا تو مجھول ھیں یا غیر موثق ھیں یا ضعیف۔ اور اسی وجہ سے علم رجال میں انھیں كوئی اھمیت نھیں دی گئی ھے۔ اب ھم ان تمام چیزوں كو آپ كے سامنے ترتیب وار، وضاحت كے ساتھ بیان كر رھے ھیں۔
پھلی روایت
جس كو ابو داؤد نے نقل كیا ھے، ضعیف ھے۔كیونكہ :
1) یہ روایت ایك، بلكہ كئی نا معلوم افراد سے منقول ھے، كیونكہ اس كی سند میں بعض راویوں كے نام كے بجائے اس طرح كے كلمات آئے ھیں: "انصار میں سے ان كے بعض خاندان والے" یا "یا انصار كے ایك گروہ نے ان سے روایت كی ھے۔"
2) یہ روایت ابو عمیر بن انس كے كچھ خاندانی رشتہ داروں سے منقول ھے۔ جیسا كہ ابن حجر كھتے ھیں: "روایت ھلال اور اذان كی روایت" كو ابو عمیر كے خاندانی رشتہ داروں نے، جن كا تعلق انصار و اصحاب نبی (ص) سے تھا، نقل كیا ھے۔
اور ابن سعد كھتے ھیں كہ یہ موثق راوی تھا، لیكن اس سے كم احادیث نقل ھوئی ھیں۔ ابن عبد البر رقمطراز ھیں: یہ مجھول اور غیر معروف ھے، اور اس كا قول دلیل نھیں بن سكتا۔ 10 مروی كا بیان ھے كہ اس نے صرف دو عنوان كے تحت احادیث بیان كی ھیں۔ یا چاند دیكھنے كے سلسلہ میں یا اذان كے بارے میں۔
دوسری روایت
اس روایت كی سند میں ایسے راویوں كا تذكرہ ھے جن كا قول قابل قبول نھیں، وہ مندرجہ ذیل ھیں:
الف) محمد بن ابراھیم بن حارث خالد تیمی، ابو عبداللہ (سن وفات تقریباً ۱۲۰ ھجری): ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل كا قول نقل كیا ھے كہ وہ كھتے ھیں: میں نے اپنے والد سے سنا (انھوں نے محمد بن ابراھیم تیمی كا تذكرہ كرتے ھوئے فرمایا) كہ اس كی احادیث میں اشكال ھے، اس نے بھت سی غیر قابل قبول احادیث نقل كی ھیں۔ 11
ب) محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار: اھل سنت اس كی روایت پر اعتماد نھیں كرتے۔ (اگر چہ سیرۂ ابن ھشام كی اساس یھی ھے)
احمد بن ابی خیثمہ كھتے ھیں كہ یحییٰ بن معین سے اس (محمد بن اسحاق) كے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا كہ میرے نزدیك ضعیف اور غیر قابل قبول ھے۔
ابوالحسن میمونی كا بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین كو كھتے ھوئے سنا ھے كہ محمد بن اسحاق ضعیف ھے۔ اور نسائی كھتے ھیں كہ وہ قوی نھیں ھے۔ 12
ج) عبد اللہ بن زید: اس كے بارے میں اتنا ھی كھنا كافی ھے كہ اس نے بھت كم احادیث كی روایت كی ھے۔ ترمذی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں: حدیث اذان كے علاوہ جو بھی حدیث اس نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت كی ھے وہ صحیح نھیں ھے۔ حاكم كھتے ھیں: حقیقت یہ ھے كہ وہ جنگ احد میں قتل كردیا گیا تھا۔
اور اس كی تمام روایات منقطعہ (جس كی سند نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتی) ھیں۔ ابن عدی كا بیان ھے: حدیث اذان كے علاوہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی حدیث بیان كی ھے وہ صحیح نھیں ھے۔ 13 ترمذی نے بخاری سے روایت كی ھے كہ حدیث اذان كے علاوہ اس سے مروی اور كسی حدیث كے بارے میں ھم نھیں جانتے۔ 14
حاكم كا بیان ھے: عبداللہ بن زید وہ شخصیت ھیں، جنھیں خواب میں اذان سكھائی گئی۔ اور یكے بعد دیگرے فقھاء اسلام اسے قبول كرتے رھے لیكن صحیحین میں اس كو نقل نھیں كیا گیا۔ كیونكہ اس كی سند میں اختلاف پایا جاتا ھے۔ 15
تیسری روایت
اس كی سند "محمد بن اسحاق بن یسار، اور محمد بن ابراھیم تیمی، پر مشتمل ھے۔ اور آپ ان كے حالات سے واقف ھوچكے ھیں۔ نیز یہ بھی جان چكے ھیں كہ عبداللہ بن زید بھت كم روایت بیان كرنے والا تھا۔ اور اس كی تمام روایات منقطعہ ھیں۔
چوتھی روایت
اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی پائے جاتے ھیں:
1۔ عبد الرحمٰن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی: یحییٰ بن سعید قطان كھتے ھیں: میں نے مدینہ میں اس كے (عبدالرحمٰن بن اسحاق) كے بارے میں معلوم كیا تو مجھ سے كسی نے بھی اس كی تعریف نھیں كی۔ اس بارے میں علی بن مدنی كا بھی یھی كھنا ھے۔
بلكہ علی تو یھاں تك كھتے ھیں كہ جب سفیان سے عبدالرحمٰن بن اسحاق كے بارے میں سوال كیا گیا تو میں نے اس كو یہ كھتے ھوئے سنا كہ وہ فرقۂ قدریہ 16 میں سے تھا۔ مدینہ والوں نے اسے مدینہ سے باھر نكال دیا تھا، وہ ھمارے پاس "مقتل ولید" میں آیا تو ھم نے اس كو اپنا ھم نشین بنایا۔ ابوطالب كھتے ھیں: میں نے احمد بن حنبل سے اس كے بارے میں پوچھا تو انھوں نے كھا كہ اس نے ابو زناد سے بھت سی غیر قابل قبول روایات نقل كی ھیں۔
احمد بن عبداللہ العجلی كا بیان ھے: وہ ضعیف احادیث نقل كرتا تھا۔ ابو حاتم كا قول ھے: وہ ایسی احادیث نقل كرتا تھا جن كے اوپر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔ بخاری تحریر كرتے ھیں: اس كے حافظہ پر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔ اور مدینہ میں موسیٰ زمعی كے علاوہ اس كا كوئی شاگرد بھی نھیں تھا۔ موسیٰ زمعی نے اس سے ایسی روایت بھی نقل كی ھیں جن میں اضطراب پایا جاتا ھے۔
دارقطنی رقمطراز ھیں: وہ ضعیف ھے اور اس پر "قدری" ھونے كا الزام ھے۔
ابن عدی كھتے ھیں: اس كی احادیث میں بعض ایسی چیزیں ھیں جو نادرست ھیں۔ اور غلط بیانی پر مشتمل ھیں۔ 17
2۔ محمد بن عبداللہ واسطی: جمال الدین مزی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں كہ ابن معین نے اس كو "لاشی" (جس كی كوئی اھمیت نھیں) سے تعبیر كیا ھے۔ اور اس كی ان روایتوں كا انكار كیا ھے جو اس نے اپنے باپ سے نقل كی ھیں۔ ابو حاتم كا بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین سے اس كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے كھا: وہ بھت برا اور جھوٹا آدمی ھے۔ اس نے بھت سی ناقابل قبول اور جھوٹی روایتیں نقل كی ھیں۔ ابو عثمان سعید بن عمر بردعی كھتے ھیں كہ میں نے "ابازرعہ" سے محمد بن خالد كے بارے میں سوال كیا۔ وہ بولے: برا انسان ھے۔ ابن حیان نے كتاب "الثقاة" میں ذكر كیا ھے: وہ خطا كار اور مخالف حق تھا۔ 18
شوكانی نے اس كی روایت كو نقل كرنے كے بعد تحریر كیا ھے كہ اس روایت كی اسناد بھت ضعیف ھیں 19
پانچویں روایت
اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی ھیں:
1) محمد بن اسحاق بن یسار۔
2) محمد بن حارث تیمی۔
3) عبد اللہ بن زید۔
ان میں سے پھلے اور دوسرے راوی كے بارے میں بحث گزر چكی ھے كہ وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ھیں۔ اور ان دونوں نے جو روایت بھی تیسرے راوی (عبد اللہ بن زید) سے نقل كی ھے اس كی سند منقطعہ ھے۔ اور یھیں سے چھٹی روایت كا ضعف بھی ثابت ھوجاتا ھے۔ (چونكہ اس كاراوی محمد بن اسحاق ھے۔)
یہ وہ روایتیں ھیں جو بعض صحاح میں وارد ھوئی ھیں۔ ان كے علاوہ اس (اذان كے) سلسلہ میں امام احمد، دارمی، دارقطنی نے اپنی مسانید، امام مالك نے اپنی موطاء، ابن سعد نے طبقات اور بیھقی نے اپنی سنن میں روایات نقل كی ھیں۔ جن كا تذكرہ ذیل میں كیا جارھا ھے:
الف) امام احمد كی روایت جو انھوں نے اپنی مسند میں ذكر كی ھے
امام احمد نے اذان كے خواب كی روایت اپنی مسند میں عبداللہ بن زید سے تین سندوں كے ذریعہ نقل كی ھے۔ 20
پھلی سند میں زید بن حباب بن ریان تمیمی (م/ ۲۰۳ ھجری) موجود ھے۔ اس كو علماء نے بھت زیادہ خطا كرنے والا كھا ھے۔ اس نے سفیان بن ثوری سے ایسی احادیث نقل كی ھیں جو سند كے لحاظ سے عجیب و غریب ھیں۔
ابن معین كھتے ھیں: اس كی ثوری سے نقل كردہ احادیث تحریف شدہ ھیں۔ 21 اسی طرح اس روایت كے راویوں میں سے ایك عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ ھے۔ اور تمام صحاح اور مسندوں میں اس كی صرف یھی ایك روایت ھے اور اس میں بھی اس كے قبیلہ كی فضیلت كا تذكرہ ھے، اسی وجہ سے اس پر اعتماد اور بھی كم ھوجاتا ھے۔
دوسری روایت محمد بن اسحاق بن یسار سے مروی ھے۔ اس كے بارے میں آپ گذشتہ بحث میں جان چكے ھیں۔
تیسری حدیث كا راوی محمد بن ابراھیم حارث تیمی ھے۔ اور ساتھ ھی ساتھ محمد بن اسحاق بھی۔ اور روایت كی سند، عبداللہ بن زید پر منتھی ھوتی ھے، جس نے بھت كم روایتیں بیان كی ھیں۔
جب كہ دوسری روایت میں اذان كے خواب، اور پھر جناب بلال كو اذان سكھائے جانے كے تذكرہ كے بعد مذكور ھے كہ جناب بلال (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں گئے۔ آپ (ص) سو رھے تھے۔ تو جناب بلال (رض) نے چلا كر "الصلاة خیر من النوم" كھا۔ لھذا یہ كلمہ نماز صبح كی اذان میں داخل كردیا گیا۔
ب) وہ روایت جس كو دارمی نے اپنی مسند میں ذكر كیا
دارمی نے اپنی مسند میں اذان كے خواب كی روایت كو ایسی سندوں سے ذكر كیا ھے جو سب كی سب ضعیف ھیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
1) ھمیں محمد بن حمید نے خبر دی ھے كہ ھم سے مسلم نے حدیث بیان كی كہ مجھ سے محمد بن اسحاق نے روایت كی ھے كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے… الخ۔
2) یہ روایت بھی مندرجہ بالا سند كے ساتھ ھے۔ محمد بن اسحاق كے بعد یہ اضافہ ھے: ھم سے یہ حدیث محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی نے، محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ سے اور انھوں نے اپنے باپ سے نقل كی ھے۔
3) ھمیں محمد بن یحییٰ نے خبر دی كہ ھم سے یعقوب بن ابراھیم بن سعد نے ابن اسحاق سے حدیث بیان كی ھے… بقیہ وھی راوی ھیں جو دوسری حدیث كی سند میں مذكور ھیں۔ 22
پھلی روایت كی سند منقطع ھے، دوسری اور تیسری روایت محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی پر مشتمل ھے۔ اور قارئین گذشتہ صفحات میں اس كی حقیقت سے آگاہ ھوچكے ھیں۔
اسی طرح ابن اسحاق كی حقیقت بھی واضح ھوچكی ھے۔
ج) وہ روایت جس كو امام مالك نے موطاء میں ذكر كیا ھے
امام مالك نے اپنی موطاء میں اذان كے خواب كی روایت یحییٰ سے، انھوں نے مالك سے اور انھوں نے یحییٰ بن سعید سے نقل كی ھے۔ وہ كھتے ھیں: رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارادہ ركھتے تھے كہ دو لكڑیوں سے استفادہ كیا جائے۔ 23
اس كی سند منقطع ھے اور یھاں پر اس سے یحییٰ بن سعید بن قیس مراد ھے جو ۷۰ ھجری میں پیدا ھوئے اور ھاشمیہ میں ۱۴۳ ھجری كو انتقال كرگئے۔ 24
د) وہ روایت جس كو ابن سعد نے طبقات میں ذكر كیا ھے
محمد بن سعد نے اپنی طبقات میں ایسی سندوں سے یہ روایت كی ھے جو موقوفہ ھیں اور ان كے ذریعہ حجت قائم كرنا ممكن نھیں۔
پھلی روایت نافع بن جبیر تك پھونچتی ھے، جو نوے كی دھائی میں اس دنیا سے اٹھ گیا اور ایك قول كے مطابق اس نے ۹۹ ھجری میں وفات پائی۔
دوسری روایت عروہ بن زبیر پر منتھی ھوتی ھے، جو ۲۹ ھجری میں پیدا ھوا اور ۹۳ ھجری میں فوت ھوگیا۔
تیسری روایت زید بن اسلم پر ختم ھوتی ھے، جس كی وفات ۱۳۶ ھجری میں ھوئی۔
چوتھی روایت سعید بن مسیّب، جس نے ۹۴ ھجری میں انتقال كیا اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ جو ۸۲ ھجری یا ۸۳ ھجری میں فوت ھوا، پر تمام ھوتی ھے۔
ذھبی نے عبداللہ بن زید كے سلسلہ میں كھا ھے كہ اس سے سعید بن مسیّب اور عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے احادیث بیان كی ھیں لیكن اس نے كبھی راوی كو دیكھا بھی نھیں ھے۔ 25
ابن سعد نے مندرجہ ذیل سند كے ذریعہ بھی یہ روایت نقل كی ھے:
احمد بن محمد بن ولید ازرقی نے مسلم بن خالد سے، انھوں نے عبدالرحمٰن بن عمر سے، انھوں نے ابن شھاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے اور انھوں نے عبد ابن عمر سے روایت كی ھے كہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ كیا كہ ایسا راستہ نكالا جائے جس سے لوگوں كو اكٹھا كیا جاسكے…… یھاں تك كہ انصار میں سے عبداللہ بن زید نامی ایك شخص كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی اور اسی رات عمر بن خطاب كو بھی خواب ھی میں اذان سكھائی گئی … اس كے بعد وہ كھتے ھیں: پھر بلال (رض) نے نماز صبح كی اذان میں "الصلاة خیر من النوم" كا اضافہ كردیا۔ اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اذان میں شامل كرلیا۔ یہ سند مندرجہ ذیل راویوں پر مشتمل ھے:
الف) مسلم بن خالد بن قرة: جس كو ابن جرحہ بھی كھا جاتا تھا۔ یحیٰی بن معین نے اس كو ضعیف قرار دیا ھے۔ علی بن مدینی نے اسے لاشی (كچھ بھی نھیں) كھا ھے۔ بخاری نے اسے حدیث كا انكار كرنے والال بتایا ھے۔ نسائی كا كھنا ھے كہ یہ قوی نھیں ھے۔ ابو حاتم نے بھی كھا ھے كہ یہ قوی نھیں ھے حدیث كا انكار كرنے والا ھے اور یہ ایسی حدیثیں نقل كرتا ھے جو دلیل بننے كے قابل نھیں ھیں۔ یہ اچھی بری سبھی باتیں نقل كرتا رھا ھے۔ 26
ب) محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبداللہ بن شھاب زھری مدنی (۵۱۔ ۱۲۳ ھجری)۔
انس بن عیاض، عبیداللہ بن عمر سے روایت كرتے ھیں كہ میں نے بارھا دیكھا كہ زھری كو كتاب دی جاتی تھی تو وہ اس كو نہ تو خود پڑھتے تھے اور نہ ھی كوئی دوسرا پڑھ كر سناتا تھا۔ پھر بھی جب كبھی ان سے پوچھا جاتا تھا كہ كیا ھم تمھارے حوالے سے یہ روایت نقل كردیں؟ تو وہ كہہ دیتے تھے: "ھاں"۔
ابراھیم بن ابی سفیان القیسر انی نے فریابی كے حوالہ سے نقل كیا ھے كہ میں نے سفیان ثوری كو كھتے ھوئے سنا ھے: میں زھری كے پاس گیا۔ وہ میرے ساتھ اس طرح پیش آیا جیسے میرا آنا اس پر گراں گذرا ھو۔ میں نے اس سے كھا كہ اگر تم ھمارے بزرگوں كے پاس آتے اور وہ تمھارے ساتھ اسی طرح كا برتاؤ كرتے تو تم پر كیا گذرتی؟ وہ بولا: تمھاری بات صحیح ھے۔ پھر وہ اندر گیا اور كتاب لاكر مجھے دی اور كھا كہ اس كو لے لو اور اس كی روایتوں كو میرے نام سے نقل كرو۔ ثوری كھتے ھیں: میں نے اس میں سے ایك حرف بھی نقل نھیں كیا ھے۔ 27
ھ۔) وہ روایت جو بیھقی نےا پنی سنن میں نقل كی ھے
بیھقی نے اذان كے خواب كی روایت ایسی اسناد كے ذریعہ نقل كی ھے جن میں بھت سی كمزوریاں پائی جاتی ھیں۔ اس كے ضعف كی طرف ھم یھاں اشارہ كر رھے ھیں۔
اول) روایت، ابو عمیر بن انس پر مشتمل ھے، جنھوں نے انصار میں سے اپنے خاندان كے لوگوں سے روایت كی ھے۔ اور آپ ابو عمیر بن انس كے بارے میں یہ جان ھی چكے ھیں كہ ابن عبدالبر نے اس كے بارے میں كھا ھے كہ یہ مجھول ھے، اس كی روایت قابل استفادہ نھیں۔ انھوں نے اپنی روایت، گمنام اور نامعلوم اشخاص سے نقل كی ھے اور انھیں "عمومہ" سے تعبیر كیا ھے 28۔ اگر ھم تمام صحابہ كی عدالت كے قائل بھی ھوجائیں تو اس پر كوئی دلیل نھیں كہ یہ افراد صحابی تھے۔ اور اگر یہ بھی فرض كرلیں كہ یہ اصحاب تھے تب بھی اصحاب كی موقوفہ روایات حجت نھیں ھیں، اس لئے كہ یہ نھیں معلوم كہ اس صحابی نے بھی یہ روایت كسی صحابی ھی سے نقل كی ھے یا نھیں۔
دوم) یہ روایت ایسے افراد پر مشتمل ھے جو قابل اعتماد نھیں ھیں۔ وہ مندرجہ ذیل میں:
1) محمد بن اسحاق بن یسار۔
2) محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی۔
3) عبداللہ بن زید۔
ان تمام افرا دكے ضعیف ھونے كے بارے میں بحث كی جاچكی ھے۔
سوم: روایت، ابن شھاب زھری پر مشتمل ھے۔ جس نے سعید بن مسیّب (م/ ۹۴ھجری)، اور اس نے عبداللہ بن زید سے روایت كی ھے۔ اور آپ جان چكے ھیں كہ اس نے عبداللہ بن زید كو دیكھا بھی نھیں تھا 29
و) دارقطنی كی روایت
دارقطنی نے اذان كے خواب كی روایت مندرجہ ذیل اسناد سے كی ھے:
1) ھمیں محمد بن یحییٰ بن مراد نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عثمان بن ابی شیبہ نے، ان سے حماد بن خالد نے، ان سے محمد بن عمرو نے، ان سے محمد بن عبداللہ نے اور ان سے ان كے چچا عبداللہ بن زید نے بیان كیا ھے……
2) ھم سے محمد بن یحییٰ نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عبید اللہ ابن عمر نے، ان سے عبدالرحمان بن مھدی نے اور ان سے محمد بن عمرو نے روایت كی ھے كہ میں نے عبداللہ بن محمد كو كھتے ھوئے سنا: میرے جد عبداللہ بن زید اس خبر كے بارے میں…۔ 30
یہ دونوں سندیں محمد بن عمرو پر مشتمل ھیں، جس كے بارے میں یہ نھیں معلوم كہ آیا یہ وہ انصاری ھے، جس سے مسانید اور صحاح میں صرف یھی ایك روایت منقول ھے اور اس كے بارے میں ذھبی كھتا ھے كہ یہ پھچانا نھیں جاسكا، یعنی یہ مجھول الحال ھے، یا وہ محمد بن عمر و ابو سھل انصاری ھے جس كو یحییٰ قطان، ابن معین اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ھے۔ 31
3) ھم سے ابو محمد بن ساعد نے، ان سے حسن بن یونس نے، ان سے اسود بن عامر نے، ان سے ابوبكر بن عیاش نے، ان سے اعمش نے، ان سے عمر و بن مرہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے، اور ان سے معاذ بن جبل نے روایت كی ھے كہ انصار میں سے ایك آدمی (عبداللہ بن زید) نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس آیا اور كھا: میں نے خواب میں دیكھا ھے…… ۔ 32
یہ سند منقطع ھے۔ كیونكہ معاذ بن جبل ۲۰ ھجری یا ۱۸ ھجری میں فوت ھوئے اور عبدالرحمٰن بن ابو لیلیٰ ۱۷ ھجری میں پیدا ھوئے۔ یھی نھیں بلكہ دارقطنی نے عبدالرحمٰن كو ضعیف قرار دیا ھے اور كھا ھے كہ یہ ضعیف الحدیث اور برے حافظہ والا ھے۔ اور یہ ثابت نھیں كہ ابن ابی لیلیٰ نے یہ روایت عبداللہ بن زید سے سنی ھے۔ 33
یھاں تك كہ بحث سے یہ ثابت ھوجاتا ھے كہ اذان كی مشروعیت كی بنیاد عبداللہ بن زید، عمر بن خطاب یا كسی اور كے خواب كو كسی بھی صورت میں نھیں قرار دیا جاسكتا اس كے علاوہ ان احادیث میں تعارض بھی پایا جاتا ھے اور ان كی سند بھی كامل نھیں ھے۔ لھذا ان سے كوئی بھی بات ثابت نھیں ھوتی۔ اور ان كے علاوہ یہ باتیں عقل قبول نھیں كرتی۔ جیسا كہ ھم اول بحث میں عرض كرچكے ھیں۔
اھل بیت اور ترویج اذان كی كیفیت
جب ھم اذان كی مشروعیت كے بارے میں اھل بیت علیھم السلام كی روایتوں كو دیكھتے ھیں تو وہ مقام و منزلت نبوت سے سازگار نظر آتی ھیں۔ جب كہ گذشتہ احادیث، مقام رسالت سے میل نھیں كھاتی تھیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: "جب جبرئیل علیہ السلام اذان لے كر نازل ھوئے تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا سر اقدس علی علیہ السلام كی آغوش میں تھا۔ جبرئیل نے اذان اور اقامت كھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوجہ ھوئے تو امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا: "اے علی (ع)! تم نے سنا؟ آپ نے فرمایا: جی ھاں، یا رسول اللہ! رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: كیا تم نے حفظ كرلیا؟ فرمایا: جی ھاں۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلال (رض) كو بلاؤ اور ان كو سكھاؤ۔ آپ نے بلال (رض) كو بلایا اور اذان و اقامت كی تعلیم دی۔" 34
مذكورہ روایت اور وسائل الشیعہ كی پھلی روایت (عن ابی جعفر علیہ السلام قال لما اسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی السماء فبلغ البیت المعمور و حضرت الصلاة فاذن جبرئیل علیہ السلام واقام فتقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصف الملائكة والنبیون خلف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 35 میں اختلاف صرف یہ ھے كہ پھلی روایت میں جبرئیل علیہ السلام نافلہ بجا لانا چاھتے تھے لیكن دوسری روایت كے مطابق جبرئیل علیہ السلام نافلہ، رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان كرنا چاھتے تھے۔ اسی لئے ھم دیكھتے ھیں كہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا كہ بلال كو بلاؤ اور اذان و اقامت كی تعلیم دو۔
اس نظریہ كی تائید وہ روایتیں بھی كرتی ھیں جن كو عسقلانی نے ذكر كیا ھے۔ اور ان كی سندوں كے بارے میں مناقشہ كیا ھے۔ وہ كھتا ھے: ان احادیث كے مطابق، اذان مكہ میں ھجرت سے پھلے شروع ھوئی۔ انھیں روایتوں میں سے طبرانی كی روایت بھی ھے جو سالم بن عبداللہ بن عمر بن ابیہ كی سند سے مروی ھے۔ انھوں نے كھا: جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو معراج ھوئی تو خدا نے آپ (ص) پر كلمات اذان كی وحی كی۔ جب آپ (ص) معراج سے واپس آئے تو بلال كو اس كی تعلیم دی۔ اس كی سند میں طلحہ بن زید ھے جو كہ متروك ھے۔ وہ روایات جنھیں عسقلانی نے نقل كیا ھے، اذان كی تشریع كے سلسلہ میں اھل بیت علیھم السلام كے موقف (نظریہ) كے صحیح ھونے اور اذان كی بنیاد عبداللہ بن زید یا عمر بن خطاب كے خواب كو قرار دیئے جانے كے نادرست ھونے پر دلالت كرتی ھیں۔ جیسا كہ چھٹے امام علیہ السلام سے روایت ھے كہ آپ (ع) نے ان لوگوں پر لعنت كی ھے جو یہ خیال كرتے ھیں كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان عبداللہ بن زید سے لی۔ آپ (ع) نے فرمایا كہ وحی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ھوتی تھی پھر بھی تم یہ گمان كرتے ھوكہ آپ (ص) نے اذان كو عبداللہ بن زید سے لیا ھے؟ 36
الف) عسقلانی نے بزار كے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت كی ھے كہ آپ (ع) نے فرمایا: جس وقت خداوند عالم نے یہ ارادہ كیا كہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو اذان كی تعلیم دے تو جناب جبرئیل علیہ السلام ایك سواری كے ذریعہ آپ (ص) كے پاس آئے، جس كو براق كھا جاتا ھے۔ آپ (ص) اس پر سوار ھوئے… ۔ 37
ب) ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث معراج كے سلسلہ میں روایت ھے كہ … پھر آپ نے جبرئیل علیہ السلام كو حكم دیا اور انھوں نے اذان اقامت كھی۔ اور اذان میں "حی علٰی خیر العمل" پڑھا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے اور قوم كے ساتھ نماز پڑھی۔ 38
ج) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو معراج ھوئی اور اذان كا وقت ھوا تو جناب جبرئیل علیہ السلام نے اذان كھی۔ 39
د) عبد الرزاق نے معمر سے، انھوں نے ابن حماد سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے اپنے دادا سے اور انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث معراج كے سلسلہ میں روایت كی ھے كہ… پھر جبرئیل كھڑے ھوئے اور اپنے داھنے ھاتھ كی انگشت شھادت كو اپنے كان پر ركھ كر دو دو فقرے كر كے اذان كھی۔ آخر میں دوبار "حی علیٰ خیر العمل" كھا۔ 40
حوالہ جات
1. السنن، ابو داؤد: ۱/ ۱۳۴، حدیث نمبر ۴۹۸ و ۴۹۹
2. آپ پر خدا كا بھت بڑا فضل ھے۔ (سورۂ نساء: ۱۱۳)
3. اور آپ كو ان تمام باتوں كا علم دے دیا ھے جن كا علم نہ تھا۔ (سورۂ نساء: ۱۱۳)
4. سورۂ آل عمران: ۱۵۹
5. فتح الباری، ابن حجر: ج/۲، ص۱۸۱، دار المعرفہ
6. السنن، بیھقی: ۱/ ۶۰۸
7. السیرة النبویہ؛ حلبی: ۲/ ۹۵
8. صحیح بخاری: ۱/ ۳۰۶، باب اذان كی ابتداء، مطبع: دار القلم لبنان۔
9. النص و الاجتھاد، شرف الدین عاملی: ص ۲۰۰، مطبع: اسوہ
10. تھذیب التھذیب، ابن حجر: ۱۳/ ۸۸، حدیث نمبر: ۸۶۷
11. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۲۴/ ۳۰۴
12. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۲۴/ ۴۲۳، اس كے علاوہ ملاحظہ ھو تاریخ بغداد: ۱/ ۳۲۱، ۲۲۴
13. السنن، ترمذی: ۱/ ۳۶۱۔ تھذیب التھذیب، ابن حجر: ۵/ ۲۲۴
14. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۱۴/ ۵۴۱، مطبع: موسسہ رسالت
15. مستدرك الحاكم، حاكم نبشابوری: ۳/ ۳۳۶
16. وہ فرقہ جو تقدیر كا منكر ھے اور ھر شخص كے مختار ھونے كا قائل ھے۔ المنجد اردو، ص/۷۸۲ (مترجم)
17. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۱۶/ ۵۱۵، حدیث نمبر: ۳۷۵۵
18. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۲۵/ ۱۳۸، حدیث نمبر: ۵۱۷۷
19. نیل الاوطار، الشوكانی: ۲/ ۴۲
20. المسند، امام احمد: ۴/ ۶۳۲، ۶۳۳، حدیث نمبر: ۱۶۰۴۱، ۱۶۰۴۲، ۱۶۰۴۳۔
21. میزان الاعتدال، ذھبی: ۲/ ۱۰۰، حدیث نمبر: ۲۹۹۷
22. السنن، دارمی: ۱/ ۲۸۷، باب: بدء اذان (اذان كی ابتدا)
23. الموطاء، ابن مالك: ۴۴، باب: نماز كے لئے صدا دینے كے بارے میں۔ حدیث نمبر: ۱
24. سیر اعلام النبلاء، ذھبی ۵/ ۴۶۸، حدیث نمبر: ۲۱۳
25. طبقات الكبریٰ، ابن سعد: ۱/ ۲۴۶، ۲۴۷
26. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۲۷/ ۵۰۸، حدیث نمبر: ۵۹۲۵
27. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی ۲۶/ ۴۲۹، ۴۴۰
28. تھذیب التھذیب، ابن حجر ۱۱۸/۱۲، حدیث نمبر: ۸۶۷
29. السنن، بیھقی: ۱/ ۵۷۵، حدیث نمبر: ۱۸۳۷
30. السنن، دارقطنی: ۱/ ۲۴۵، حدیث نمبر: ۵۷
31. میزان الاعتدال، ذھبی ۳/ ۶۴۷، حدیث نمبر: ۸۰۱۷، ۸۰۱۸۔ تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: ۲۶/ ۲۲۰، حدیث نمبر: ۵۵۱۶۔ تھذیب التھذیب، ابن حجر: ۹/۳۷۸ ، حدیث نمبر: ۶۲۰، مطبع: دار صادر۔
32. السنن، دارقطنی: ۱/ ۲۴۲، حدیث نمبر: ۳۱
33. السنن، دارقطنی: ۱/ ۲۴۲، حدیث نمبر: ۳۱
34. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ۴/ ۶۱۲، باب اذان و اقامت، حدیث نمبر: ۲
35. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ۵/ ۳۶۹، ابواب الاذان والاقامة، حدیث نمبر: ۱ (مترجم
36. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ج۴، ابواب الاذان والاقامہ، حدیث نمبر /۳
37. فتح الباری فی شرح البخاری: ۲/ ۸۷، مطبع: دار المعرفہ لبنان
38. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ج۴، باب اذان و اقامت، باب /۹، ص/۳
39. مصدر سابق، ج
40. سعد السعود: ۱۰۰، بحار الانوار: ۸۱/ ۱۰۷، جامع الاحادیث الشیعہ: ج/۲، ص۲۲۱
41. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ج4، باب اذان و اقامت، باب /9، ص/3
42. مصدر سابق، ج10
43. سعد السعود: 100، بحار الانوار: 81/ 107، جامع الاحادیث الشیعہ: ج/2، ص221 ۱۰