حسینی انقلاب
حسینی انقلاب
اس بات کو سبھی مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ ۶۱ھ میں امام حسین – نے اپنی اور اپنے جاں نثاروں کی شہادت پیش کرکے اسلام کو بنی امیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچالیا (آپ پر لاکھوں درود و سلام )
واقعہٴ کربلا حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ تھا جس میں حکومت اسلامی کو ملوکیت سے محفوظ رکھنا بھی شامل تھاتاکہ بنی امیہ ایسے بدکارو نا اہل، حکومت اسلامی کو خرد برد نہ کرسکیں… اس راہ میں امام عالی مقام نے اپنا سب کچھ قربان کردیا،اور اسلامی حکومت و اس کے نااہل حاکم کے درمیان خط فاصل کھینچ دی …حکومت کا حق صرف خدا وند عالم کو ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
کیا تم نہیں جانتے آسمان و زمین کی سلطنت بے شبہ خاص خدا ہی کے لئے ہے(سورہٴ بقرہ ،آیت ۱۰۷)
اور آسمان و زمین سب خدا ہی کا ملک ہے اور خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے(سورہٴ آل عمران ،آیت ۱۸۹)
اور سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب خدا ہی کی سلطنت ہے (سورہٴ مائدہ ،آیت ۱۷۔۱۸)
سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب خدا ہی کی سلطنت ہے اوروہی ہر چیز پر قادر ہے(سورہٴ مائدہ ،آیت ۱۲۰)
بے شک سارے آسمان و زمین کی حکومت خدا ہی کے لئے خاص ہے… (سورہٴ توبہ،آیت ۱۱۶)
لہٰذاالٰہی حکومت کو صحیح طور پر چلانے کے لئے خداوند عالم نے اپنے خاص نمائندے بھیجے جو نبی یا امام کہلائے اور ساتھ میں کچھ قوانین بھی بھیجے جن کوہم شریعت کہتے ہیں…چونکہ خداوند عالم کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اس لئے اس کی طرف سے دنیا میں آنے والے حاکم (نبی یا امام ) بھی معصوم ہونے چاہئیں ،تاکہ قوانین الٰہی ہم تک صحیح و سالم پہنچ جائیں
پس معلوم ہوا کہ دنیا میں حکومت کا حق صرف اللہ کے نمائندوں کو ہے ،اِن کے علاوہ جو بھی حکومت اسلامی پر قابض ہو وہ غاصب ہے
یزید یا بنی امیہ کے دیگر افراد نے دھوکہ ،فریب ، ظلم اور لالچ کے ذریعہ لوگوں کی کچھ بھیڑ ضرور اکٹھا کرلی تھی لیکن وہ قطعی طور پر حکومت کے حق دار نہ تھے بلکہ غاصب تھے لہٰذا حکومت ملنے کے بعد پہلی فرصت میں حضرت علی -نے فاسد گورنروں کو معزول کرنے کے احکامات جاری کردیئے ، حالانکہ بعض اصحاب نے آپ کو مشورہ بھی دیا کہ اِن کے معزول کرنے میں جلدی نہ کریں لیکن آپ نے اسی نظریہ (کہ حکومت اسلامی اولیاء اللہ کا حق ہے ،لہٰذا ایسی حکومت کے گورنر وغیرہ بھی دین دار ہوں )کی بنیاد پر فاسد گورنروں کو فوراً معزول کردیا
اس کے علاوہ حضرت علی – نے معاویہ سے مطالبہٴ بیعت و اطاعت کے لئے بھیجے گئے اک خط میں بنی امیہ پر خلافت و حکومت کے ناجائز ہونے کو اس طرح بیان فرمایا تھاکہ:
اے معاویہ!تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا تعلق طلقاء (یعنی اسلام کے آزاد کردہ گروہ ) سے ہے جس کے لئے خلافت جائز نہیں ہے
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۳،صفحہ ۷۶، ناشر دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت ،لبنان ،دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۵ء)
اور ابن عباس نے معاویہ کے اک خط کا جواب دیتے ہوئے اس طرح مخاطب کیا تھا کہ:
”(اے معاویہ!) تم اور خلافت ؟تم اسلام کے آزاد کئے ہوئے ہو اور مشرکین کی پارٹی کے سرغنہ (ابوسفیان) اور شہید بدر (حضرت حمزہ) کا جگر چبانے والی (ہندہ ) کے بیٹے ہو
(الامامة والسیاسة، جلد۱،صفحہ ۹۸ ، مطبوعہ مصر ۱۳۲۸ھ)
حضرت علی -اور جناب ابن عباس /کے مذکورہ خطوط سے بنی امیہ کی حکمرانی ناجائز قرار پاتی ہے
حضرت علی -کے بعد امام حسن – خلیفہ ہوئے ،آپ نے بھی لوگوں کے درمیان حکومت اسلامی کا اپنے کو سب سے زیادہ حق دار بتایا ،آپ نے اپنی حکومت کا آغاز اس خطبہ سے فرمایا:
”ہم حزب اللہ ہیں، اور ہم ہی غالب ہیں ،ہم عترت رسول ہیں، آپ کے اقرباء ہیں ،ہم رسول کے اہل بیت ہیں اور تمام گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ،امت کے درمیان رسول خدا نے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں اور فرمایا ہے:میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ،کتاب خدا اور میرے اہل بیت
اور ہم ہی کو اللہ کے رسول نے قرآن کا ہم پلہ اور عدیل قرار دیا ہے اور ہمیں قرآن کی تنزیل و تاویل کے علم سے مالا مال کیا ہے ،قرآن کے بارے میں ہم جو کہتے ہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں ،تخمین و ظن (اندازے) سے آیات قرآنی کی تاویل نہیں کرتے ،لہٰذا تم ہماری اطاعت کر و کہ خدا کی طرف سے تم پر واجب کی گئی ہے ،ہماری اطاعت کو خدا نے اپنی و رسول ﷺ کی اطاعت سے مقرون کیا ہے:،ارشاد ہوتا ہے:اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور جو تم میں سے صاحبان ِ حکومت ہوں ان کی اطاعت کرو
(سورہٴ نساء ،آیت ۵۹)(جلا العیون ،صفحہ ۱۴۶، تالیف علامہ مجلسی ، مطبوعہ تہران ۱۳۱۴ھ)
ان تمام تاکیدوں کے باوجود بے دینوں نے آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کیں،مگر امام حسن -اپنے حق سے دستبردار نہ ہوئے ،جب دشمنوں کی جانب سے حالات بدتر کردیئے گئے اور آپ کی فوج کا شیرازہ بکھرنے لگا اُس وقت آپ نے امت کو عظیم فتنہ سے محفوظ رکھتے ہوئے صلح فرمائی،اسی لئے آپ اپنے لشکر کی سستی اور جنگ نہ کرنے کی وجہ سے بہت رنجیدہ تھے ایک روز خطبہ کے دوران فرمایا کہ:
”…اگر میرے ساتھی ایسے ہوتے جو دشمن خدا (معاویہ) سے جنگ کرتے تو ہرگز خلافت معاویہ کے ہاتھوں میں نہ جانے دیتا ، کیوں کہ خلافت بنی امیہ پر حرام ہے“
(جلا العیون ،علامہ مجلسی، جلد۱، صفحہ ۳۴۵،۳۴۶ ناشر مکتبہٴ بصیرتی قم)
اور جب انتقال معاویہ کے بعد یزید نے والی ٴمدینہ اپنے چچا زاد بھائی عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ اہل مدینہ بالخصوص امام حسین سے میرے لئے بیعت لے لے ،اگر انکار کریں تو سر قلم کرکے بھیج دے… جب عتبہ نے یہ خبر امام حسین – کو پہنچائی تو آپ نے اپنے فضائل و کمالات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ :
”میں نے اپنے نانا رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ابوسفیان کی اولاد پر خلافت حرام ہے
(بحار الانوار ،جلد ۴۴ ، صفحہ ۳۱۲، ناشر موسسة الوفا، بیروت، لبنان، دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۳ء)
امام حسن و امام حسین کے مذکورہ بیان کی روشنی میں بنی امیہ کا حکومت اسلامی پر قبضہ غاصبانہ تھا(لہٰذا اس غاصبانہ قبضہ کی مخالفت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی)
عالم اسلام کی اتنی معتبر اور عظیم شخصیات جب کسی حکومت کو ناجائز قرار دے دیں تو ایسی حکومت کو ایک لمحے کے لئے بھی قبول نہیں کیا جاسکتا اور مسلمانوں پر مذہبی و اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ بنی امیہ کو حکومت سے دور رکھتے ،اس ذمہ داری کو بھی سب سے زیادہ اہل بیت ہی نے محسوس کیا
کیا کوئی مسلمان یہ تصور کر سکتا ہے کہ بغیر حکومت کی پشت پناہی کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا رواج سماج میں کما حقہ ہوجائے گا؟ کیا بغیر حکومت و طاقت کے شریعت کا نفاذ ممکن ہے؟ نہیں !ہر گز نہیں، ایک دین دار حاکم ہی صحیح طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نفاذ کرسکتا ہے ورنہ افراط و تفریط کا اندیشہ رہتا ہے،پاکستان میں شراب کی کھلے عام دکانیں اور جسم فروشی کے اڈے… افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں چوراہوں پر ٹیلی ویژن توڑنا اورلڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کرناافراط و تفریط کی زندہ مثالیں ہیں
حکومت اسلامی کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امام حسن کی حکومت کو معاویہ کی جانب سے خطرہ بڑھا تو آپ نے اس کو بچانے کی خاطر ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ آپ نے جنگ سے بھی دریغ نہیں کیا، یہ الگ بات ہے کہ آپ کے پاس معاویہ جیسی اطاعت گزار فوج کی کمی تھی
جنگِ صفین کے موقع پرلشکر کی نافرمانی کا تلخ تجربہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے ، امام علی کے لشکر کی نافرمانی کی وجہ سے صفین کی جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی
اس کے علاوہ لشکر یا فوج کی اطاعت گزاری کے باعث فتح و کامرانی کی شیرینی ایران ولبنان میں چکھی جاچکی ہے ،جس کی وجہ سے اپنے زمانے کی سُپر پاورامریکہ و اسرائیل بھی ایران و لبنان کا اپنے دعوں کے مطابق کچھ نہ بگاڑ سکے ،جب کہ ایران و لبنانی حزب اللہ کی قیادت غیر معصومین کے ہاتھوں میں ہے اور صفین میں شیر خدا ،امام معصوم کے ہاتھ میں لشکر کی کمان تھی ،لیکن فوج اطاعت گزار نہ تھی ،اسی طرح نخیلہ میں بھی قیادت امام معصوم، حسن مجتبیٰ -کے ہاتھ میں تھی ،اور بہادری و شجاعت آپ کو ورثہ میں ملی تھی لیکن آپ کی فوج بھی نافرمان تھی ،جس کا اعتراف خود امام حسن نے اس طرح فرمایاکہ:
میں نے حکومت و زمام داری کو اس لئے معاویہ کے حوالے کردیا کہ میرے پاس معاویہ جیسی (اطاعت گزار) فوج نہیں تھی …اور اگر ہوتی تو حکم خدا کے مطابق معاویہ سے رات دن فیصلہ کن جنگ کرتا …
(بحا رالانوار ،جلد ۴۴، صفحہ۱۴۷، علامہ مجلسی ،ناشر کتاب فروشی اسلامیہ ،تہران)
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عزت و کامرانی کا راز اپنے رہبر و قائد کی اطاعت ہی میں پوشیدہ ہے،لہٰذاہمیں اپنے رہبروں کی (جو کہ آج کل مراجع تقلید کی شکل میں ہیں )زیادہ سے زیادہ سے اطاعت کرنی چاہئے اسی صورت میں ہم دوسری قوموں سے ممتاز ہو سکتے ہیں
امام حسن مجتبیٰ کے مذکورہ بیان سے واضح ہے کہ آپ نے کاہلی یا سستی کی وجہ سے صلح کو ترجیح نہیں دی تھی،جیسا کہ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے رہتا ہے،بلکہ ایسی فوج کے ہوتے ہوئے فیصلہ کن جنگ کرنا ناممکن تھا ،کیونکہ آپ کا لشکر پانچ گروہوں پر مشتمل تھا:
حضرت علی -کے مخلص شیعہ
خوارج (جو ہر قیمت پر معاویہ سے جنگ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے اور یہ لوگ امام حسن کے لشکر میں صرف بغضِ معاویہ کی وجہ سے شامل ہوئے تھے امام کی محبت میں نہیں
مفاد پرست (جن کا مقصد صرف مال غنیمت تھا)
وہ لوگ جو امام حسن -کی عظمت میں شک کرتے تھے اور دوغلی پالیسی رکھتے تھے اور امام حسن -کو معاویہ پر ترجیح نہیں دیتے تھے
وہ لوگ جو دین کی خاطرنہیں بلکہ خاندانی تعصب کی بناء پر رئیس قبیلہ کی پیروی کرتے ہوئے امام حسن -کے لشکر میں شریک ہوئے تھے ،کیونکہ ان کے خاندانی مخالف و حریف معاویہ کے لشکر میں تھے
حضرت علی -کے شیعہ جنگ صفین و نہروان کے تھکے ہوئے تھے اور باقی چار گروہوں کی نظر میں حکم امام -کی کوئی اہمیت نہ تھی ،اور یہ لوگ عین جنگ کے وقت معاویہ سے جا ملے تھے اور بعض غیر جانبدار ہوکر امام -سے علیحدہ ہوگئے تھے اور کچھ نے معاویہ سے سازش کرلی تھی کہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیں گے یا شہید کردیں گے
اس سازش سے امام حسن -بخوبی واقف تھے ،آپ فرماتے ہیں کہ:
”بخدا اگر میں معاویہ سے بر سر پیکار ہوا تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیروں کی طرح مجھے معاویہ کے حوالے کردیں گے“
(ترجمہ الامام الحسن ،تالیف ابن عساکر،متوفی ۵۷۱ھ، تحقیق الشیخ محمد باقر محمودی، ناشر مطبعة للطباعة والنشر ،بیروت ،لبنان، پہلا ایڈیشن ۱۹۸۰ء)
اگر آپ گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیئے جاتے تو دو حال سے خالی نہ تھا :
یا تو معاویہ آپ کو بے دردی اور نہایت چالاکی سے شہید کر ڈالتے اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو اس خون سے بری الذمہ قرار دیتے ،اس طرح خون امام رائیگاں چلا جاتا
یا آپ پر احسان کرتے ہوئے مشروط طور پر آزاد کرادیتے اور بنی امیہ سے ”طلقاء“ (یعنی آزاد کئے ہوئے)کے دھبہ کو دھونے کی کوشش کرتے اور اس طرح اپنے اُن بزرگوں کا انتقام لے لیتے جن کو رسول خدا نے قیدی بنائے جانے کے بعد آزاد کردیا تھا
امام حسن -نے معاویہ سے صلح ضرور کی مگر اپنی اور اپنے شیعوں کی عزت کو مقدم رکھا اور صلح کے شرائط خود معین کئے جن میں سے ہم صرف ایک شرط کو ذکر کررہے ہیں تاکہ قارئین پریہ بات واضح ہوجائے کہ امام حسن – کی نگاہ میں حکومت اسلامی کے قیام و دوام کی کتنی اہمیت تھی، وہ شرط یہ ہے:
معاویہ کے بعد (امام) حسن خلیفہ ہوں گے اور اگر (امام) حسن کوکوئی حادثہ پیش آجائے تو (امام )حسین خلیفہ ہوں گے
(صلح امام حسن ، صفحہ ۳۵۸،تالیف شیخ راضی آل یاسین ،مطبوعہ ایران)
اس شرط میں امام حسن نے واضح کردیا کہ حکومت اسلامی پر حق صرف ہمارا ہے فتنہ فروکش کرنے کی خاطر اگر معاویہ کو حکومت واگزار کردی تو کیا ہوا،معاویہ یا اُن کا خاندان اس کے بعد حکومت کی آس نہ لگائیں اور یہ بھی واضح کردیا کہ یہ حکومت آلِ رسول ہی میں رہے گی، اسی لئے آپ نے اپنے بعد امام حسین کو حکومت اسلامی کے لئے نامزد فرمایا
اس صلح نامہ کی رو سے امیر معاویہ کا یزید کو حکومت کے لئے معین کرنا غیر قانونی ،غیر شرعی اور غیر اخلاقی تھا کیونکہ معاویہ مذکورہ شرط پر راضی تھے اور انہوں نے اس پر دستخط بھی کئے اور شام کے روٴوسا و بزرگ اس پر گواہ تھے
امام حسن -کی شہادت کے بعد مذکورہ صلح نامہ کی رو سے امام حسین -حکومت اسلامی کے بلا اختلاف حق دار تھے
یوں تو آپ نے اپنے اس حق کی بازیابی کی تیاریاں امیر معاویہ کے زمانے سے ہی سے شروع کردی تھیں اور قیام کا زمینہ ہموار کرنا شروع کردیا تھا
حالانکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے اہل کوفہ کے خطوط کی وجہ سے مدینہ سے ہجرت فرمائی ،یا یہ کہ اگر یزید آپ سے بیعت کا مطالبہ نہ کرتا تو آپ اس سے کوئی سروکار نہ رکھتے اور خاموشی سے ایام حیات پورے کرتے،ایسا سوچنا صحیح نہیں ہے،کیوں کہ:
آپ نے ۲۸ /رجب المرجب ۶۰ھ کو مدینہ سے ہجرت فرمائی اور آپ مکہ تشریف لے گئے ،اہل کوفہ کا پہلا خط آپ کو مکہ میں ۱۰/رمضان ۶۰ھ کو موصول ہوا
(الارشاد،شیخ مفید ،جلد۲،باب۳،فصل۲ صفحہ ۳۵، ترجمہ و شرح آقای حاج سید ہاشم رسولی محلاتی ،مطبوعہ تہران )
اگر امام عالی مقام کے قیام کا اصل سبب اہل کوفہ کے خطوط ہوتے تو آپ مدینہ سے ہجرت کوفہ سے خط ملنے کے بعد ہی فرماتے اور کوفہ کے حالات سے آگاہ ہونے کے بعد اپنا سفر جاری نہ رکھتے
اسی طرح امام حسین -کی امیر معاویہ کے زمانے میں کی گئی جد و جہد سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر یزید مطالبہٴ بیعت نہ کرتا تب بھی آپ بنی امیہ کی اس فاسد حکومت کے خلاف قیام فرماتے
چنانچہ جس وقت ۵۶ھ میں معاویہ مدینہ پہنچے تاکہ اہل مدینہ خصوصاً امام حسین – سے یزید کی بیعت لیں ،مدینہ پہنچ کر معاویہ نے امام حسین -اور عبداللہ ابن عباس سے ملاقات کی اور اپنی گفتگو کے دوران یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ کو بیان کیا تاکہ ان حضرات کی موافقت بھی حاصل ہوجائے ،تو امام حسین -نے معاویہ کی باتوں کا اس طرح جواب دیا:
(اے معاویہ)!… جو کچھ تم نے یزید کے کمالات اور امت محمدی کا نظم و نسق چلانے کی اس کی لیاقت کو بیان کیا ہے،میں سمجھ گیا ! تم نے یزید کی تعریف اس طرح کی ہے … گویا اس کی زندگی لوگوں پر پوشیدہ ہے…نہ! یزید نے جس طرح اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے باطن کو آشکار کیا ہے…اس کے بارے میں وہی کہو! یزید ایک ایسا جوان ہے جو کتوں اور کبوتروں سے کھیلتا ہے،بوالہوس ہے کہ اپنی عمر کو گانے بجانے اور عیش پرستی میں بسر کررہاہے ،یزید کی اِن رذائل کے ساتھ تعریف کرو اور بے فائدہ کوشش کو بالائے طاق رکھ دو،اس امت کے بارے میں جو گناہ تم نے اپنے اوپر لادے ہیں (تمہاری بربادی کے لئے)وہی کافی ہیں، ایسے کام نہ کرو جس سے پروردگار سے ملاقات کے وقت گناہوں کا بوجھ اس سے زیادہ ہوجائے ،تم نے اپنی باطل اور ظالمانہ روش کو جاری رکھا اور احمقانہ ظلم کے مرتکب ہوئے ہو،لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ،تمہارے اور موت کے درمیان چشم زدن سے زیادہ وقت باقی نہیں ہے ،آگاہ ہو کہ تمہارے اعمال پروردگار کے پاس محفوظ ہیں اور روز حساب جواب کے لئے تمہیں آمادہ رہنا چاہئے…
( الامامة والسیاسة ، تالیف ابن قتیبہ دینوری،مطبوعہ مصر ۱۳۲۸ھ)
امام حسین – کے اس جواب سے بنی امیہ کی فاسد حکومت کے خلاف آپ کی جد و جہد بخوبی آشکار ہے… آپ حکومت اسلامی پر بنی امیہ کے قبضے سے ایک لمحہ کے لئے بھی راضی نہ تھے،چنانچہ آپ نے اعلانیہ طور پر معاویہ اور یزید کی آئندہ حکومت کی مخالفت کی اور یزید کے خلاف ایک مسلح قیام کے لئے زمین ہموار کرنا شروع کردی، اس مقصد کے لئے عمومی و خصوصی جلسوں میں بنی امیہ کے مظالم سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے…معاویہ کے جاسوس اس سلسلہ میں معاویہ کو بڑھا چڑھا کر خبریں بھیجتے رہے جس سے معاویہ نے یہ سمجھا کہ امام حسین -کی تیاریاں اس کے خلاف ہیں ،ان خبروں سے فکر مند ہوکر معاویہ نے امام حسین – کو اس مضمون کا خط لکھاکہ :
”تمہاری سرگرمیوں اور فعالیت کے بارے میں مجھے خبریں مل رہی ہیں ،اگر یہ صحیح ہیں تو میں تمہاری شایان شان نہیں سمجھتا،خدا کی قسم ہر شخص جو عہد و پیمان کرے اس کو نہ توڑے… اگر میری مخالفت کروگے تو میں بھی تمہاری مخالفت کروں گا اور اگر بدی کروگے تو بدی دیکھو گے،امت کے درمیان اختلاف پھیلانے سے پرہیز کرو…
(الامامة والسیاسة، جلد۱ ، صفحہ ۱۴۸، مطبوعہ مصر و بحارالانوار جلد۴۴،صفحہ ۲۱۲، مطبوعہ تہران)
امام حسین – نے معاویہ کو اس خط کا تنبیہ آمیز جواب لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے:
”(اے معاویہ!) تمہیں جو خبریں مل رہی ہیں وہ چند بے بنیاد باتیں ہیں جو چاپلوسوں ،چغل خوروں ،تفرقہ پھیلانے والوں اور جھوٹے لوگوں نے اپنی طرف سے گڑھی ہیں ،یہ گمراہ و بے دین لوگوں نے جھوٹ بولا ہے ،میں نے تمہاری مخالفت میں نہ کوئی جنگی تیاری شروع کی ہے اورنہ مسلح قیام کا ارادہ رکھتا ہوں …اے معاویہ ! تم نے لکھا ہے کہ میں اس امت کے درمیان اختلاف اور فتنہ نہ پھیلاوٴں ،میری نظر میں اس امت کے درمیان تمہاری حکومت سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے، جس وقت اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں اور دین و امت محمدی پر نظر کرتا ہوں تو اس سے بڑی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ تم سے جنگ کروں اور یہ جنگ راہ خدا میں جہاد ہوگا…
(الامامة والسیاسة ،جلد ۱،صفحہ ۱۴۹ ۔۱۵۰، بحار الانوار ،جلد ۴، صفحہ ۲۱۳، مطبوعہ تہران )
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی مثالیں ہیں جن سے تاریخ کا دامن بھرا ہوا ہے ،اگر ہم امام حسین – کے اس جواب پر دقت سے نگاہ کریں تو اُس پروپیگنڈے کی حقیقت خود بخود سامنے آجائے گی جس کو اکثر مورخین نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے ،اور بعض شیعہ حضرات بھی اس سے متاثر نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ:
”معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ امام حسین – سے کچھ نہ کہنا بلکہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا “
معاویہ !جن کی نظر میں دین یا مذہب کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ وہ صرف حکومت کے خواہش مند تھے کس طرح یزید کی حکومت کے لئے امام حسین – کو خطرے کی صورت میں برداشت کرسکتے تھے؟
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں معاویہ نے یزید کو اہل مدینہ کے بارے میں اس طرح وصیت کی تھی :
”اگر (تمہیں اپنی حکومت کے زمانے میں )اہل مدینہ کی بے چینی ،شورش یا بغاوت کا احساس (یا شک) ہوجائے تو ”بنی مرہ“ کے شریر(کانے) مسلم بن عقبہ کو (ان کی سرکوبی کے لئے) بھیج دینا “(الامامة والسیاسة،صفحہ ۱۷۲)
یزید نے معاویہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مسلم بن عقبہ کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے بھیجا ،مسلم بن عقبہ مدینہ میں داخل ہوا اور وہ انسانیت سوز اعمال انجام دیئے جس سے آسمان کو بھی زلزلہ آجائے ،مروان لشکر کی راہنمائی کررہاتھا اور مسلم بن عقبہ کا لشکر اس کے احکام کو نافذ کرکے بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام ،مسلم عورتوں کی آبرو ریزی اور ان کے اموال کو غارت کررہا تھا ،معاویہ ابن ابی سفیان کی وصیت پر عمل درآمد کا مختصر نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ میں :
اصحاب نبی سے ۸۰/ افراد قتل ہوئے
اہل بدر کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا
قریش اور انصار کے ۷۰۰ /افراد کا قتل ہوا
عوام الناس سے دس ہزار افراد قتل کئے گئے
(الامامة والسیاسة ،جلد ۱،صفحہ ۱۷۸،مطوعہ مصر ۱۹۰۸ء)
اور تین دن تک عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی جس سے چار ہزار ناجائز بچے پیدا ہوئے
(بحار الانوار،جلد ۱۳۸،صفحہ ۱۹۳، مطبوعہ بیروت،لبنان۔ الطرائف ،جلد۱، صفحہ ۱۶۶، تالیف سید علی بن طاوٴس حلی،مطبوعہ قم ۱۴۰۰ھ)
یہاں صرف شک کی بنیاد پر اہل مدینہ کو تاراج کرنے کی وصیت کی جارہی ہے ، جبکہ امام حسین – تو علی الاعلان یزید کی آئندہ حکومت کی مخالفت کررہے تھے ،تو پھر کس طرح معاویہ یزید کو یہ وصیت کرسکتے ہیں کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا، بلکہ معاویہ ہی نے یزید کویہ وصیت کی ہوگی کہ پہلی فرصت میں امام حسین – کا کام تما م کردینا
امیر معاویہ ایسی وصیتیں اس لئے کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنا اور اپنے خاندان ”بنی امیہ“ کا اقتدار بہت عزیز تھاجس کے آگے وہ کسی بھی قانونی ،شرعی اور اخلاقی برائی کو جرم نہیں سمجھتے تھے،جس کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب انہوں نے امام حسن سے صلح کرنے کے بعد (جس پر بڑی شدید قسمیں کھائی تھیں اور عہد و پیمان کیا تھا) حکومت کی لالچ و محبت میں اس طرح بیان دیتے ہیں:
اے اہل عراق! میں نے نماز روزہ اور حج و زکوٰة ادا کرنے (کرانے ) کے لئے تم سے جنگ نہیں کی ہے… بلکہ تم سے میری جنگ فقط حکومت کے لئے تھی اور خدا نے مجھے میرے اس مقصد میں کامیاب کردیا ،اس کے باوجود کہ تم ایسا نہیں چاہتے تھے ،آگاہ ہوجاوٴ صلح نامہ کی تمام شرطیں جو حسن بن علی + سے کی ہیں میرے پیروں کے نیچے ہیں
(صلح امام حسن ،صفحہ ۱۰۸،تالیف شیخ راضی آل یاسین ،مطبوعہ ایران)
بعض لوگ ائمہ معصومین کے اسم مبارک کے ساتھ لفظ حکومت کو اُن کی شان میں گستاخی تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام کو حکومت سے کیا مطلب !دنیا کے مال دولت اور حکومتیں تو ان کی ٹھوکروں میں رہتی ہیں ،یہ جذباتی نظریہ غلط ہے ،اگر ایسا مان لیا جائے تو غصب حکومت و خلافت کرنے والوں کی مذمت کیوں کی جاتی ہے؟
ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں لفظ حکومت آتے ہی ،مکر و فریب ،ظلم و تشدد اور ہر قسم کی بے راہ روی آتی ہو ،لیکن امام عالی مقام کے ہوتے ہوئے حکومت میں یہ تمام بدعنوانیاں تصور بھی نہیں کی جاسکتیں کیونکہ آپ و دیگر ائمہ ملوکیت کے شدید مخالف تھے… آپ حضرات حکومتی طاقت کے ذریعہ اصلاح معاشرہ چاہتے تھے اور جس حکومت کی آپ بات کررہے تھے وہ الٰہی حکومت تھی جو اس قسم کی کثافتوں سے پاک و صاف ہوتی ہے
ایسی ہی حکومت اور اس کے حکمرانوں سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا …(سورہٴ حج،آیت ۴۱)
یزید اِس پاک و صاف الٰہی حکومت ہی کو داغ دار کر رہا تھا تب ہی تو امام نے قیام فرمایا
آپ نے اپنے قیام کی وجہ بتاتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو اک وصیت میں اس طرف اشارہ فرمایا تھا :
میں خود خواہی اور سرکشی و ہوسرانی کی بناء پر مدینہ سے نہیں جارہاہوں ، بلکہ میرا مقصد اپنے نانا کی امت کی اصلاح ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت کو زندہ کرنا چاہتا ہوں…“
امام نے اپنی وصیت کے پہلے حصہ میں ملوکیت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کی نفی فرمائی ہے جو اکثر حکمران حکومت ملنے کے بعد انجام دیتے ہیں یعنی خود خواہی،سرکشی ،ہوسرانی ،فساد اورظلم و تشدد کویہ حکمران اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں ،اسی وجہ سے حکومت کو اہل دین و تقویٰ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں… اپنی وصیت کے دوسرے حصہ میں امام نے اُن پسندیدہ صفات و کمالات کو اپنے لئے بیان فرمایا ہے جو ایک حاکم اور اس کی حکومت کے لئے ضروری ہے یعنی امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ، سیرت نبی و علی کو زندہ رکھنا اور اصلاح معاشرہ …امام عالی مقام کو حکومت کی ضرورت انہیں کمالات کو معاشرے میں رواج دینے کے لئے تھی
وادیٴ تبلیغ میں قدم رکھنے والے حضرات اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ،اگر دیندارحکومت کی پشت پناہی ہوتی ہے تو نفاذ شریعت بہت آسان ہوجاتا ہے
یزید کی حکومت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اٹھ چکا تھا ،سنت رسول اور سیرت علی – کو لوگ بھلا چکے تھے،اور رفتہ رفتہ دور جاہلیت کی طرف قدم بڑھ رہے تھے ،اس طرف سنی دانشور مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی نے اس طرح اشارہ کیا ہے:
” دنیا کی بد قسمتی تھی کہ خلفائے راشدین کے بعد دنیا کی راہنمائی کے منصبِ جلیل پر وہ لوگ حاوی ہوگئے تھے جنھوں نے اس کے لئے کوئی حقیقی تیاری نہیں کی تھی …ارکانِ حکومت یہاں تک کہ بذاتِ خود خلفاء،دین و اخلاق کا کامل نمونہ نہیں تھے ، بلکہ ان میں سے بعض اشخاص میں جاہلی جراثیم اور میلانات پائے جاتے تھے،قدرتی طور پر ان کی روح اور نفسیات کا اثر قومی زندگی پر پڑ رہا تھا اور لوگ عموماً انھیں کے اخلاق و عادات و رجحانات کی تقلید کر تے تھے ،دین کی نگرانی ختم ہوچکی تھی،احتساب اٹھ چکاتھا ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا زور ختم ہوچکا تھا اس لئے کہ اس کی پشت پر کوئی طاقت اور حکومت کی حمایت نہیں تھی
( ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر“ تالیف مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ،صفحہ ۱۶۳ ۔ ۱۶۵ ، گیارہواں ایڈیشن ۱۹۹۲ ء، ناشر مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ،پوسٹ بکس ۱۱۹ ،لکھنو ، ہند )
لہٰذا امام حسین نے مذکورہ سماجی برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کربلا کے میدان میں انتہائی مصائب و آلام کے ساتھ اپنی اور اپنے اعزا و اقرباء کی قربانیاں پیش کردیںاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اگر ہم بھی اپنے سماج سے ایسی برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے جدو جہد کرتے رہیں تو حسینی کہلائیں گے …اس کے برخلاف اگر اپنے سماج کی ایسی حالت دیکھ کر ہم تماشائی بنے رہیں اور اصلاح کی کوئی تدبیر نہ کریں ،لوگوں کو اچھائی کا حکم نہ دیں ،انہیں برائی سے نہ روکیں تو ہم حسینی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں
ہر سال ایام عزا میں چندرسومات کو بجالانا حسینی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ! مجلس و ماتم برپا کرکے ہم عزادار یا ماتم دار تو ہوسکتے ہیں لیکن حسینی نہیں، عزادار اور ماتم دار کا درجہ بھی اُس وقت ملے گا جب ہمارا یہ عمل خیر خلوص کے ساتھ ہو ،ریا کاری (دکھاوے)کی صورت میں کوئی اجرو ثواب نہ ہوگا
امام حسین -نے اپنی اور اپنے بیش بہا اقرباء و اصحاب کی قربانیاں اس لئے نہیں پیش کی تھیں کہ ہم پورے سال غفلت کی نیند سوئیں اور ایام عزا میں چند رسوماتب جالائیں اور بس! ،بلکہ امام عالی مقام کا مقصد مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ متحرک و فعال بنانا تھا تاکہ ایک مسلمان ہمیشہ اور ہر وقت اپنے سماج سے خبردار رہے
نوگانواں سادات میں مومنین ایام عزامیں امام حسین – کے نام پر تقریباً دو کروڑ روپئے خرچ کر ڈالتے ہیں ،ایسا ہی خرچ دوسری شیعہ بستیوں میں بھی ہوتا ہوگا ،لیکن سچ بتایئے ہم نے اس رقم سے کتنے لوگوں کوحسینی بنایا؟…امام کے مشن کو کتنا آگے بڑھایا؟ …امام کے نام پر کتنے رفاہی کام کئے ؟…اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود! مقصد ِامام سے کوسوں دور !!اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صحیح خرچ نہیں کرتے ! کیا یہ ہمارے لئے لمحہٴ فکریہ نہیں ہے؟
اور یہ بھی یاد رکھئے ! اگر ایام عزا کی رسومات برپا کرتے وقت کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جس سے حقوق انسانی کے تلف ہونے کا خطرہ ہو تو بھی اشکال سے خالی نہیں ہے، مثلاً شب بیداری کے دوران ایسے طاقتور لاوٴڈ اسپیکر استعمال کرنا جس سے عزا خانے کے ہمسایہ یا اہل محلہ بے چین رہیں ،باعث گناہ ہوسکتا ہے
آیئے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اپنے سماج کی بھلائی کی خاطر سچے حسینی بن کر امام حسین کے مشن کو آگے بڑھائیں گے،تاکہ دکھی سماج کو سکون میسر ہو جائے