عدالت اميرالمومنين عليہ السلام

175

 
 
 
 

 

 
 
 

علي عليہ السلام کي دعا اور توجہ و استغفار:
اميرالمومنين عليہ السلام کي خصوصيات ميں سے آپکي ايک خصوصيت بارگاہ خداوندي ميں خود انکا استغفار کرنا اور طلب مغفرت ہے کہ اس خطبہ کے آخري حصہ ميں آپکي اسي خصوصيت کے بارے ميں چند جملے بيان کرنا چاہتا ہوں۔
آپکي زندگي ميں توبہ و استغفار نہايت اہميت رکھتا ہے آپ ذرا تصور کريں ايک ايسي ذات جو ميدان جنگ کے بے مثل بہادرہيں جنگ کے ميدان ميں صف آرائي کرتے ہيں (اگر آج کے زمانے ميں اميرالمومنين عليہ السلام کي حکومت پرنظر دوڑائيں تو اس زمانے ميں آپکي حکومت تقريباً دس١٠ ممالک کو اپنے حدود اربعہ ميں سميٹے ہوئے نظر آئے گي) اور اس جيسے وسيع و عريض مملکت کے حاکم ہوتے ہوئے ان ساري فعاليّتوں اور تلاش کو شش کے باوجود ايک منجھے ہوئے ماہر سياست دان ہيں وہ انکي ماہرانہ سياست، ميدان جنگ کي ، معاشرے کے نظم و نسق کي ذمہ داري مسند قضاوت پر آکر لوگوں کے حقوق کي بازدہي اور انساني حقوق کي حفاظت جيسے عظيم اور بزرگ امور انسان کي مصروفيات بڑھا دينے کے علاوہ ہر کام اپنے ليے خصوصي انتظام چاہتا ہے يہي وہ مقام ہے جہاں ايسے لوگ جو فقط ايک زاويہ سے نگاہ کرتے ہيں اپني انہيں مصروفيات کو دعا و عبادت کہہ کر ، دعا و عبادت سے دور ہو جاتے ہيں اسلئے کہ انکے خيال ميں يہ سب راہ خدا ميں کام ہي تو ہے مگر اميرالمومنين عليہ السلام اسطرح نہيں فرماتے بلکہ حکومتي اصرار اپني جگہ اور عبادت وبندگي اپني جگہ اسي طرح سے جاري رہتے ہيں، بعض روايات ميں ہے۔البتہ ذاتي طور پر خود ميں نے اس روايت کي چھان بين نہيں کي ہے کہ آپ روز و شب ميں ايک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضرت دوران جواني سے ہي اسي طرح تھے يہ جو دعائيں آپ ديکھتے ہيں يہ آپکا روزانہ کا وتيرہ تھا۔آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي آپ ايک انقلابي جوان کي حيثيت سے ہر ميدان ميں پيش پيش تھے کبھي آپ بیکار نہيں بيٹھے اور آپکے پاس کبھي خالي وقت نہيں تھا۔
ليکن اسي دوران جب اصحاب ميں گفتگو چلي اور آپس ميں پوچھا کہ سب سے زيادہ عبادت کس کي ہے تو ’’ابو دردائ‘‘نے علي عليہ السلام کا نام ليا سوال کيا کس طرح؟ تو انہوں نے دوران جواني اور اسکے بعد پھر خلافت کے زمانے کي مثال پيش کر کے سب کو قانع کر ديا مختلف واقعات ہیںجيسے نوف بکائي کا واقعہ۔آپکي عبادت کے سلسلے ميں نقل ہوئے ہيں يہ صحيفہ علويہ جسے بزرگوں نے جمع کيا ہے وہي اميرالمومنين عليہ السلام سے ماخوذدعاؤں کا مجموعہ ہے اور دعائے کميل اسکا ايک نمونہ ہے جسے آپ ہر شب جمعہ پڑھتے ہيں، ايک مرتبہ ميں نے امام خميني ۲سے سوال کیاکہ آپ موجودہ دعاؤں ميں سے کس دعا کو سب سے زيادہ پسند کرتے ہيں اور باعظمت سمجھتے ہيں تو انھوں نے تھوڑا سا سوچنے کے بعد فرمايادو٢ دعائيں ہيں ايک دعائے کميل جسے ميں زيادہ پسند کرتا ہوں اور با عظمت سمجھتا ہوں ،دوسري مناجات شعبانيہ، ميرا قوي گمان ہے کہ مناجات شعبانيہ بھي اميرالمومنين عليہ السلام ہي سے ماخوذ ہے کيونکہ روايت ميں آيا ہے کہ تمام آئمہ اس مناجات سے مانوس تھے اور اسکے مضامين بھي دعائے کمیل کے مضمون سے ملتے جلتے ہیں۔
دعائے کميل بھي کيا عجيب دعا ہے، آغاز سخن استغفار سے ہے کہ خدا کو دس١٠ چيزوں کي قسم دي ہے ’’اللھم اني اسئلک برحمتک التي وسعت کل شئي‘‘ خدا کو اسکي رحمت قدرت اور صفت ،جبروتیت کي قسم دي ہے يہاں تک کہ پروردگار کوانہي عظيم صفات کي قسم ديکر فرماتے ہيں ’’اللھم اغفرلي الذن التي تھتک العصم ، اللھم اغفرلي الذنوب التي تنزل النعم،اللھم اغفرلي الذنوب التي تحبس الدعائ‘‘يہاں پر حضرت پانچ قسم کے گناہوں کو بارگاہ خداوندي ميں شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہيں ۔ايک وہ گناہ جو دعاوں کو باب اجابت تک پہونچنے سے روک ديتے ہيں دوسرے وہ گناہ جو نزول عذاب کا سبب بنتے ہيں وغيرہ يعني ان میں دعاؤں کي ابتدائ استغفارسے ہے اور اس دعا کا اکثر وبيشتر مضمون طلب مغفرت ہي ہے ۔بارگاہ رب العزت ميں بخشش و طلب مغفرت کے لئے دل ميں آگ لگا دينے والي سوزوگذار سے بھري ہوئي ايک مناجات ہے يہ ہيں اميرالمومنين عليہ السلام اور يہ ہے انکي مناجات اور راہ خدا ميں استغفار…
ميرے عزيزوں : ايک کامل اور عالي مرتبت انسان وہي ہے جو خواہشات و ہويٰ نفس سے اپنے آپ کو خالص کر کے راہ خدا ميں چلنے کي کوشش کرتا ہے اور اپنے معبود کي خوشنودي کے لئے قدم بڑھاتا ہے، وہ شخص جو اپني خواہشات کا غلام ہے جو اپنے غيض و غضب او ر شہوت ہي سے نہ نکل سکے وہ ظاہري طور پر چاہے کس قدر عظيم کيوں نہ ہو جائے لیکن درحقیقت ايک پست و حقير انسان ہے۔
دنيا کے بڑے بڑے وزرائے اعظم ،صدرہاي جمہوريہ جو دنيا کي بڑي بڑي ثروتوں پرقبضہ جمائے ہوئے ہيں وہ کب اپني خواہشات اورہويٰ نفساني سے جدا ہو سکتے ہيں اور وہ کب اسکي اسارت و غلامي سے نجات پا سکتے ہيں؟وہ تو اپني خواہشات کے اسير ہيں اور حقير و پست انسان ہيں۔
ليکن ايک وہ فقير و غريب جو اپني خواہشات پر قابو رکھ سکتا ہے اور اپنے نفس کو اپنے اختيار ميں کر سکتا ہے اور صحيح راستے پر راہ کمال انساني اور راہ خدا ميں چل سکتا ہے اپني جگہ ايک بزرگ وعظيم انسان ہے۔
استغفار کا اثر:
استغفار اور طلب مغفرت انسان کو حقارت و پستي سے نجات دلاتا ہے خدا سے استغفار ہميں اور آپکو ساري نفساني و شہواني زنجيروں سے رہائي عطا کرتا ہے استغفار دل کي وہ نورانيت ہے جسے خدا نے آپکو عطا کيا ہے۔
دل يعني جان، روح،يعني وہي حقيقت انسان ، يہ ايک نہايت نوراني شي ہے ہر انسان اپني اپني جگہ نوراني وجود کا حامل ہے چاہے خدا سے اسکا تعلق بھي نہ ہو اور وہ اسکي معرفت بھي نہ رکھتا ہو۔
البتہ لوگ اپني شہوت پرستي،خواہش نفس کي پيروي اور عدم شناخت کي وجہ سے اپنے قلب کو زنگ آلودکر ليتے ہيں اور استغفار اس زنگ کو مٹا کر اسے پھر سے نوراني کر ديتا ہے۔
ماہ رمضان دعا و استغفار کا ايک بہترين موقع ہے ۔ انيسويں اور اکيسويں کي راتیں کہ جسکے شب قدر ہونے کا احتمال پايا جاتا ہے گذر چکي ہے مگر ابھي تيسويں کي شب باقي ہے اسکي قدر کريں غروب کے بعد تيسويں شب کے آغاز ہي سے سلام الہيٰ ’’ سلام ھي حتيٰ مطلع الفجر‘‘کا آنا شروع ہو جاتا ہے يہاںتک کہ صبح کي اذان کا آغاز ہو جاتا ہے درميان کي يہ گھڑياں سلامتي و امن الہيٰ کي برکتيں ليکر ساري مخلوقات کو رحمت کے سايہ ميں لے ليتیںہيں۔يہ ايک عجيب و غريب شب ہے،ہزار ماہ سے بہتر ’’خير من الف شھر‘‘ہزار ماہ سے بہتر، برابر نہيں انسان کي ہزار مہينہ کي زندگي کس قدر بابرکت ثابت ہو سکتي ہے کس قدرانسان رحمت و برکت الہيٰ کو اپني ذات کے لئے مخصوص کر سکتا ہے اسلئے يہ شب بہت اہميت رکھتي ہے اسکي قدر و منزلت کو پہچانيں اور دعاو مناجات ، ميں سرگرم عمل رہيں خلقت اور آيات الہيٰ ميں تفکر و تعقل کريں انسان کي سرنوشت اور جو کچھ خدا نے اس سے چاہا ہے اسکے بارے ميں غور و خوض کريں ياد رکھيں يہ سب مادي اسباب وسائل زندگي سب کے سب اس عالم ملکوت کے لئے دريچہ کي حيثيت رکھتے ہيں جومرنے کے فوراً بعد انسان پر کھل جائيں گے اور ياد رکھيں دنيا کو کوئي ثبات و دوام حاصل نہيں ہے۔
معزز حاضرين !جان کني کے وقت ہم لوگ ايک دوسري دنيا ميں پہنچ جاتے ہيں اس دن کے لئے پہلے سے ہي ہميں اور آپکو تيار رہنا چاہئے يہ ساري کائنات،يہ دولت و ثروت ،يہ قوت و طاقت جسے خدا نے ہمارے وجود ميں حرکت و تحريک عمل پيدا کرنے کیلئے وديعت فرمايا ہے اور وہ تمام چيزيں جس کا خدا نے ہم سے مطالبہ کيا ہے ۔ جيسے عدل و انصاف کي حکومت اچھي زندگي وغيرہ۔سب کے سب صرف اس لئے ہيں تا کہ انسان اس دنيا ميں جانے کے لئے پوري طرح تيار ہو سکے، لہذا خود کوآمادہ کيجئے، خدا سے مانوس ہوجائیے ، خدا سے مناجات کيجئے،ذکر و درود کيجئے توبہ و استغفار کيجئے۔
ايسے لوگ جو اپنے کو خدا سے نزديک کرتے ہيں، اپنے قلب کو پاک وپاکيزہ رکھتے ہيں گناہوں سے دوري کرتے ہيں اعمال خير انجام دينے کا مصمم ارادہ رکھتے ہيں وہي دنيا کے عظيم انسان ہيں۔ جو دينوي مشکلات کے مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہيں جسکا ايک نمونہ قائد انقلاب اسلامي حضرت امام خمیني ۲ ہيںاور ہمارے اس معاشرے کے مومنين بھي ہيں، وہ مومن و مخلص انتھک جوان، يہ عورتيں اور مرد ،وہ حضرات جو شہيد ہوگئے، جو زخمي ہوئے اورغازيِ میدان کہلائے ،جنہوں نے دشمن کے شکنجے برداشت کيے اور قيد و بند کي مصيبتيں جھيليں،ميدان جنگ کي سختياں برداشت کيں، يہ سب اسي کا ايک دوسرا نمونہ ہيں۔آج آپ انہيں شہداميں سے ايک ہزار شہيدوں کو سپرد خاک کر رہے ہيں اسميں سے ہر ايک اپني اپني جگہ ايک عالي رتبہ، اورنمونے کي حيثيت رکھتا ہے ا ور کتنا اچھا ہوتا کہ ہر قوم وملت ميں ایک دو نمونے ديکھنے کو ملتے،مناسب ہے کہ آپکي تجليل اور احترام کيا جائے اور انہيں اسوہ نمونہ کے طور پر پيش کيا جائے۔
مختلف حالات و شرائط کا سامنا:
شايد دنيا کے مشہور و معروف لوگوں خاص طور پر اسلامي شخصيتوں کے درميان اميرالمومنين عليہ السلام کے علاوہ (یہاں تک کہ خود آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)ايسا کوئي اور نظر نہيں آتا جو مختلف دين و مذہب کے ماننے والوں اور مختلف قوم و ملت ميں زيادہ محبوبيت رکھتا ہو، جب آپ انکي شخصيت پر نظر ڈاليں گے تو آپکو معلوم ہوگا کہ اگرچہ آپکے زمانے ميں کچھ سرکش اور خود غرض لوگ آپکي شمشير عدالت اور شدّت عدل و انصاف کي وجہ سے آپ سے بيزار نظر آتے ہيںاورآپکے بدترين دشمن ہيں مگر وہي لوگ جب اپنے دل کي گہرائيوں ميں جھانک کر ديکھتے ہيں تو علي عليہ السلام کي نسبت اپنے دل میں تعظيم و تکريم اور محبت کا احساس بھي کرتے ہيں اور يہي صفت بعد کے زمانے ميں بھي ديکھائي ديتي ہے جہاں علي عليہ السلام کے دشمن بہت ہيں وہيں آپکے مداح بھي بکثرت موجود ہيں حتي وہ لوگ بھي آپکے مداح ہيں جو آپکے مذہب و مسلک پر اعتقاد بھي نہيں رکھتے۔
پہلي صدي ہجري ميں زبير کا خاندان بني ہاشم خصوصاً آل علي سے بغض و عداوت کے لئے مشہور رہا ہے اور يہ عداوت زيادہ تر عبداللہ بن زبير کي وجہ سے تھي، ايک دن زبير کے پوتوں ميں سے ايک نے اپنے باپ سے دريافت کيا
کہ آخر کيوں دشمن کے پروپگنڈے کے باوجود روز بروز علي کا خاندان اور انکا نام لوگوں ميں زيادہ محترم ہوتا جا رہا ہے اورانکے خلاف پروپگنڈے کا کوئي اثر نہيں ہوتا؟ اسکے باپ نے تقريباً اس طرح سے جواب ديا: ان لوگوں نے خدا کے لئے حق کي طرف لوگوں کو دعوت دي يہي وجہ ہے اوران کے دشمنوں نے لوگوں کو باطل کي طرف بلاياکہ آج تک کوئي اس شرف و فضيلت کو چھپانے کي کوششوں کے باوجود بھي نہيں چھپا سکا۔
طول تاريخ ميں يہي ديکھا گيا آپ دنيا کے بڑے بڑے متفکرين ، (چاہے وہ مسلمان ہوں یاغير مسلمان) کو ديکھيں وہ لوگ اميرالمومنين عليہ السلام کي نسبت اظہار محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہيں دنيا کے وہ بزرگ جنہوں نے اپني قوم و ملت کے حق کو حاصل کرنے کے لئے پرچمِ بغاوت بلند کيا ان سب کي نگاہوں ميں اميرالمومنين عليہ السلام معزّزہيں،شعرا ئ ادیبوں،فنکاروںاور بشر دوست حضرات کو ديکھيں تو وہ بھي آپکا کلمہ پڑھتے ہوئے دکھائي ديتے ہيں۔المختصر وہ جوان ہو يا بوڑھا عالم ہو يا جاہل اگر تاريخ اسلام سے آشنا ہے يا اميرالمومنين عليہ السلام کا نام اسکے کانوں سے ٹکرايا ہے اُنکے حالات زندگي سے واقفيت رکھتا ہے تو وہ آپ سے محبت و مودّت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔
خود ہمارے زمانے ميں کئي مصنفين اور مصري اديبوںکے ذريعہ کئي کتابيں امير المومنين عليہ السلام کي شخصيت کے بارے ميں منظر عام پر آئي ہيں۔کہ اسميں سے دو٢يا اس سے زيادہ کتابيں عيسائي مذہب رکھنے والے مصنفين کي لکھي ہوئي ہيں جو اسلام کو تو قبول نہيں رکھتے مگر وہ علي عليہ السلام کو مانتے ہيں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.