اجتھاد اور مرجعیت
موضوعات كی اہمیت وضرورت
زندگی كے مختلف شعبوں میں وسعت اورنئے مسائل ومشكلات كا وجود میں آناكبھی بھی دین یاالہی مكتب كی نظرسے او جھل نہیں رہاہے۔ ایسادین جوہمیشہ رہنے والا اور آسمانی ہو، جوانسانی ضروریات كو آفاقی نظروں سے دیكھتاہواورانسان كوانتہائی گہرائی اورعمق عطاكرے توایسانہیں ہوسكتاكہ انسانی زندگی كے تحولات وتغیرات اس كے منظورنہ بوں۔
ایسے دین كی جاودانگی اوربقاؤودوام اس صورت میں ہے كہ اس كے قواعد كلی ہوں، اس كے اہداف دائمی اورروشن ہوں جوآنے والے ادواركے حالات اور شرائط اورنئے موضوعات پرمنطبق ہوتے ہوں۔ اس امركو ”تفقہ فی دین“ یااجتہاد كہاجاتاہے جودین كے بقا كی رمزہے۔ شہید مطہری فرماتے ہیں :
”خاتمیت (زمانہ ختم نبوت(ص)) كے زمانے میں اجتہادیاتفقہ فی الدین پرانتہائی حساس اور بنیادی فریضہ عائد ہوتاہے اوریہ اسلام كے زندہ و جاوید رہنے كے امكان كی شرائط میں سے ہے۔
اجتہاد كوجواسلام كی قوت محركہ كہاگیاہے بہت صحیح ہے
عالم اسلام كے عظیم فلسفی ابن سینا اس مسئلہ كویوں بیان كرتے ہیں ”اسلامی كلیات ثابت، غیر متغیر اور محدود ہیں لیكن حوادث اورمسائل لامحدوداور متغیرہیں ۔ ہرزمانے كے اپنے مخصوص تقاضے اورمخصوص مسائل ہوتے ہیں پس اسی لئے ہرزمانے میں كچھ ایسے متخصص افرادكی ضرورت ہے جواسلام كی كلیات سے واقف ہوں اورجدید مسائل وموضوعات سے آگاہ ہوں۔ یہ افراداجتہاداورجدیدمسائل كے احكام كی اسلامی كلیات سے استنباط كی صلاحیت ركھتے ہوں ۔
میری نظرمیں اسلام كے معجزات مین سے ایك اجتہادكی خصوصیت ہے … یہ اسلام كی خصوصیات میں سے ہے كہ بعض اموركوزمانے كی ضرورت كے مطابق بدل دیتاہے اورتبدیل شدہ ضرورت كومستقل غیر متغیر وثابت ضروریات سے متصل كردیتاہے گویاہرمتغیرحاجت ایك ثابت ضرورت كے ساتھ وابستہ ہے۔ فقط مجتہد اورفقیہ چاہتاہے كہ اس ارتباط كوكشف كرے اورپھرحكم اسلام كوبیان كرے یہی اسلام كی قوت محركہ ہے ۔
یہاں بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں:
اجتہاد كیسے حاصل ہوتاہے؟
ایك مجتہد كی كیاخصوصیات ہونی چاہئیں؟
دین سے باہركون سے عوامل ہیں جومجتہدكی ذہنیت پراثراندازہوتے ہیں؟
مجتہد كے فرائض اورمنصب كیاہیں؟
مجتہد كے متابل لوگوں كی كیاشرعی ذمہ داری بنتی ہے؟
عوام مجتہدكی شناخت كیسے كریں؟
لوگ مجتہدسے اپنی شرعی ذمہ داریوں كوكیسے معلوم كرتے ہیں؟
اور اسی قسم كے دسیوں سوالات ہیں ۔ تاریخ كے مختلف ادوارمیں ان سوالات میں اضافہ ہوتارہتاہے انہی سوالات نے اجتہاداورمرجعیت“ كی ابحاث كے لئے زمین ہمواركی ہے۔
یہاں ابتداء میں دونكتوں كی طرف توجہ كی ضرورت ہے۔
1۔ یہاں ہماری بحث شیعہ دائرہ تفكراورنكتہ نظرسے ہوگی۔ لہذااہل سنت كے ہاں اجتہاد كے مسائل وموضوعات اورمنابع كاذكرہم كسی اورمناسب فرصت میں كریں گے۔
2۔ ہماری بحث كے عناوین كاتعلق اجتہادومرجعیت سے مربوط دین كی اندرونی بحاث سے ہوگا۔
لہذا بعض كلامی یاسماجیات سے مربوط موضوعات سے ہم صرف نظركریں گے اگرچہ ہم یقین ركھتے ہیں كہ ان كی اہمیت بھی دین كی اندرونی بحثوں سے كمتر نہیں ہے اورصاحبان فكرونظركوان كی طرف بھی توجہ كرنی چاہئے۔
اجتہاد و مرجعیت كاماضی
پیامبرگرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوآئمہ ہدی علیہم السلام كے زمانے میں كیااجتہادموجودتھا؟
اس كے بارے میں شك وتردیدكیاگیاہے لیكن بہت سارے شواہدوقرائن موجودہیں كہ اس زمانے كے مسلمانوں میں یہ مسئلہ موجودتھا۔
اس سلسلے میں قرآن كریم كی آیہ نفر كے علاوہ معصومین علیہم السلام كے قول اوران كی تقریر(معصوم كے سامنے كوئی عمل انجام دیاجائے تووہ سكوت اختیار فرمائیں جوان كی رضایت كی دلیل ہے) میں اس كے بہت سے نمونے ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم فقط بعض ارشارات پراكتفاكریں گے۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض اصحاب كے اجتہادكوصحیح قراردیتے ہیں اوران كی تائیدفرماتے تھے ۔
آئمہ ھدی علیہم السلام اپنے اصحاب كواس امركی طرف مختلف طریقوں سے ترغیب دلاتے تھے بطورمثال:
الف) ہمارافریضہ ہے كہ تمہارے لئے اصول بیان كریں اورتم پرہے كہ ان سے فروعات حاصل كرو ۔
ب) اصحاب كوفتوی دینے كاحكم دیاجیساكہ حضرت علی علیہ السلام نے قثم بن عباس كوفرمان دیا ۔
ج) لوگوں كومختلف فقہاء كی طرف رجوع كرنے كاحكم دیناجیساكہ ابوبصیراسدی۔ زكریابن آدم محمدبن مسلم یونس بن عبدالرحمن عبدالملك بن جریح زرارہ بن اعین حارث بن مغیرہ ۔
د) بعض احكام كے استنباط كی كیفیت قرآن حكیم سے بیان كرناجیسے سراورپاؤں كے مسح كاحكم 14 جبیرہ پر مسح كاحكم حیض كی عمركابیان
اس كے علاوہ بھی بعض دیگرشواہدوقرائن موجودہیں جواس زمانے میں اجتہادپردلالت كرتے ہیں مثلا:
الف) بغیرعلم كے فتوی دینے سے منع فرمایا
ما انزل اللہ“ كے علاوہ حكم دینے سے منع فرمانا ۔
ابن ندیم نے بھی اس زمانے كے بعض شیعہ فقہاء كاذكركیاہے ۔
اگرچہ اس زمانے تك شیعوں میں اجتہادتورائج تھا لیكن اس سلسلے میں كوئی تصنیف یاتالیف نظرنہیں آتی۔
غیبت صغری كے زمانے میں بعض احادیث كے مجموعوں كی تدوین كاسلسلہ شروع ہوا۔
اس زمانے سے اب تك اجتہادكے مسائل كی تفصیل یوں رہی ہے۔
سید مرتضی علم الہدی (436ه.ق) كی كتاب ”الذریعہ الی اصول الشریعة“ كسے لے كرآخوند محمد كاظم خراسانی (1329ه.ق) كی كتاب كفایة الاصول تك ان كتابوں میں اجتہاد تقلید پربحث ہوئی ہے۔
ب) استدلالی فقہ پركتابیں
ان كتابوں میں امربمعروف اورنہی ازمنكركی بحث اورقضاوت میں فقیہ جامع الشرائط پراختصارسے بحث ہوئی ہے اس سلسلے كی چندكتابیں یہ ہیں:
1۔الروضة البھیة فی شرح اللمعة الدمشقیة ج1كتاب القضا۔ص277، 278۔
2۔شرائع الاسلام ج1ص344۔
3۔قواعدالاحكام ج1 ص119۔
4۔جامع المقاصد ج3ص490اور۔۔۔۔
البتہ بعض اوقات كتاب كے مقدمہ (پیش لفظ) میں اجتہاداورفتوی كے بعض مسائل كی طرف اشارہ ہواہے اس سلسلے كی ایك كتاب بطورمثال”ذكری الشیعہ“ شہیداول كی تالیف ہے۔
ج) "عروة الوثقی" پراستدلالی شرحیں
سید محمد كاظم طباطبائی یزدی(1337) كی تالیف عروة الوثقی جب سے فقہ میں تدریس وتالیف كامحوربنی ہے فقہ كی بحثوں میں ”اجتہادتقلید“ كی بحث اولین قرار پائی ہے اس كی مثالیں مندرجہ ذیل كتابیں ہیں:
آیت اللہ العظمی سیدمحسن حكیم 1390كی كتاب” مستسمك العروة الوثقی“
آیت اللہ العظمی خوئی 1412كامجموعہ دروس التنقیح فی شرح العروة الوثقی اور
آیت اللہ علی صافی گلبائگانی كی كتاب ”ذخیرة العقبی فی شرح العروة الوثقی“ یہ چنداہم اورنمایاں شرحیں ہیں ۔
د) مستقل عنوان كے طورپر
دسویں صدی ہجری كے بعدسے ”الاجتہاد التقلید“ كے موضوع پرمستقل كتابیں نظرآتی ہیں۔ شیخ آغابزرگ تہرانی نے الذریعہ میں انیس كتابوں كاذكر كیاہے۔
ھ) رسالہ عملیہ (توضیح المسائل)
”رسالہ ہای عملیہ“ جن میں مراجع عظام كے فتوے ہوتے ہیں ان میں جناب شیخ اعظم انصاری سے مابعد”اجتہادتقلید“ كے مسائل كاآغازہوابطورمثال:
رسالہ سراج العباد“ شیخ جعفرشوشتری (م1303)
و) مرجعیت كے موضوع پرمستقل كتاب
گذشتہ عشروں میں مرجعیت كے موضوع پربعض ایسی تحقیقی كتابیں سامنے آئی ہیں جن میں فقہی اوراستدلالی كی بجائے معاشرتی رنگ غالب ہے۔
بطورمثال یہ كتابیں ہیں: ”المعالم الجدیدة المرجعیة الشیعة“ ”بحوث فی خط المرجعیة“ وغیرہ۔
اجتہادومرجعیت كے باب مین یہ مختصری تاریخ اس كے تكامل كی طرف اشارہ ہے ۔
تحقیق كی ضرورت
اس مئلے كی تاریخ بتاتی ہے كہ علمائے علم اصول اورفقہاء كی توجہ اس مئلے پررہی ہے لیكن پھربھی بعض ابہامات كی وجہ سے اس میں جدیداورسنجیدہ تحقیق كی ضرورت ہے یہاں ہم بعض مسائل كاذكركرتے ہیں۔
الف) بعض فقہاء اورمحققین كی نظرمیں ”اصطلاحی اجتہاد“ جدیدضروریات كاوسیع سطح پرحل پیش نہیں كرتاپس مطلوب اجتہادكی تفسیروتشریح كی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں امام خمینی فرماتے ہیں”یہی وجہ ہے كہ حوزہ علمیہ میں اصطلاحی اجتہادكافی نہیں ہے بلكہ اگرچہ ایك شخص حوزہ علمیہ كے رائج علوم میں اعلم ہو(تسلط ركھتاہو) لیكن معاشرے كی مصلحتوں كی تشخیص نہ دے سكتاہو، اسی طرح صالح انسانوں كی غیرصالح افرادسے تشخیص نہ دے سكتاہو، كلی طورپراگریہ شخص صحیح بصیرت نہ ركھتاہواورفیصلے كی صلاحیتواستعدادبھی نہ ركھتاہوتویہ شخص حكومتی اورمعاشرتی مسائل میں مجتہدنہیں ہے اورنہ ہی معاشرے كی زمام امورسنبھال سكتا ہے“
شہید مطہری فرماتے ہیں”اتفاقااجتہادان مسائل میں سے ہے جن كے بارے میں یہ كہاجاسكتاہے كہ اپنی روح كھوچكے ہیں لوگوں كاخیال یہ ہے كہ اجتہادكامعنی اورمجتہدكافریضہ یہ ہے كہ وہ ان مسائل میں لوگوں كی راہنمائی كرین جن كاحكم ہرزمانے میں ایك ہی رہاہے مثلایہ كہ تیمم كے لئے زمین پرایك ضرب لگاناكافی ہے یاد ومرتبہ ایساكرناضروری ہے؟ ایك مجتہدكہے”اقوی“ ایك ضرب لگاناہے جب كہ دوسراكہے”احوط“ دوضرب لگاناہے یااسی طرح كے دیگرمسائل جب كہ ان كی كوئی خاص اہمیت نہیں ہے جوچیزاہمیت ركھتی ہے وہ نئے اورجدیدمسائل ہیں جوہرروزپیداہوتے ہیں یہ دیكھناچاہئے كہ یہ مسائل كن اسلامی اصولوں سے مطابقت ركھتے ہیں ۔
جناب محمد رضا حكیمی نے بھی اصطلاحی اجتہاداورمطلوب میں تفكیك وامتیاز پرزوردیاہے ۔
یایہ كہ اجتہاد كے لئے ضروری ہے كہ دین كے اہداف كی طرف توجہ كی جائے اوراس سلسلے میں اس نكتے كوانتہائی زیادہ اہمیت دیتے ہیں
ب) اجتہادومرجعیت كے باب میں نئے موضوعات كانمودارہوناجیسے اجتماعی فتوی(فتوی میں مجتہدین كی مشاورت) اقتداراورمرجعیت میں رابطہ، مرجعیت كی مركزیت یاتعدادیااس طرح كے دیگرمسائل۔
ج) گذشتہ آراء ونظریات پربعض شبہات كاوجودجیسے كیاكیامرجع تقلیدكے لئے مرد ہونا شرط ہے توضیح المسائل لكھنے كی روش پربعض اعتراضات وغیرہ۔
د) موجودہ زمانے كے سیاسی وسماجی حالات اورارتباطات كی دنیامیں انتہائی تیزی وسرعت یہ وہ چیزیں جوقابل انكارنہیں ہیں ایسے حالات مین ضرورت ہے كہ حوزہ ہای علمیہ میں ایك انتہائی متعادل اورتحقیقی فضاقائم كی جائے۔
مختلف ابواب میں تقسیم
پہلاحصہ : كلیات
الف: مختلف اصطلاحات كی تشریح وتفسیرمثلافقہ، تفقہ، فتوی، افتا، اجتہاد، تقلید، مرجعیت، استنباط وغیرہ۔
ب: ان اصطلاحات كی شیعہ لغت میں آنے كی تاریخ :
ج: اجتہاد كی تاریخ :
د: اجتہاد و تقلید كی بنیادی بحثیں جیسے عقلاكی سیرت یاشریعت اورعقل۔
دوسراحصہ: اجتہاد
الف: اجتہاد كی ضرورت۔
ب: اجتہاد كے لئے لازمی علوم۔
ج: اجتہاد میں مؤثرعوامل۔
د: اجتہاد مطلق یا ہرشعبے میں جدااجتہاداورتخصص۔
ھ: مجتہد اور مختلف موضوعات كاتخصص۔
تیسراحصہ: مرجعیت
الف: مرجعیت كی شرائط جیسے اعلم ہو، مردہو۔ وغیرہ۔
ب: مرجع كے بعض عہدے اوراختیارات۔
1۔ افتا۔
2۔ قضاوت ۔
3۔ رہبری
4۔ وجوہات (خمس) ۔
5۔ مرجعیت كی مركزیت یاتعدد ۔
6۔ مرجعیت اور رہبری
7۔ مرجع تقلید كی شناخت كے راستے۔
ج: توضیح المسائل
1۔ اس كی تاریخ وماضی۔
2۔ توضیح المسائل كے موجودہ روشیں۔
3۔ حقیقی یامطلوب روش 4۔حاشیہ یاتعلیقہ نویسی شوری
د: افتا (فتوی میں مشاورت)
1۔ اس كی ضرورت
2۔ ركاوٹیں
3۔ دارالافتا
چوتھاحصہ : تقلید
تقلید كا جوازیاضروری ہونا۔
اس سلسلے میں تین طرح كے ماخذكاذكركر یں گے:
الف۔ اس باب میں مستقل كتابیں
ب۔ علم اصول كی كتابوں میں اجتہاد و تقلیدپربحث۔
ج۔ مقالات۔
الف ۔ مستقل كتابیں
1۔ اجتہاد والفتوی فی عصرالمعصوم وغیبتہ، محی الدین موسوی غریفی، دارالتعارف، بیروت، 1398قمری 135ص، عربی۔
2۔ اجتہاد والتقلید، ابوالقاسم بن زین العابدین، چاپ دوم، چاپ خانہ سعادت، كرمان، 293ص۔
3۔ الاجتہاد والتقلید، سیدرضاصدردارالكتب، بیروت، 1976م، 501ص عربی۔
4۔ الاجتہاد والتقلید، احمدآذری قمی، 2ج، دارالعلم، قم، 1373، 314۔399ص، عربی۔
5۔ اجتہاد والتقلید، علی رحمانی سبزواری، كنگرہ شیخ اعظم انصاری، قم، 1373، 36ص۔
6۔ الاجتہاد والتقلید، مرتضی اردكانی یزدی، مولف، قم، 1370 ش، 116ص، عربی۔
7۔ الاجتہاد والتقلید، ازنظرشیخ اعظم انصاری، عبدالجوادابراہیمی، كنگرہ شیخ انصاری، قم، 1373، 47ص۔
8۔ الاجتہاد والتقلید، دراسلام وشیعہ علامہ سیدمحمدحسین طباطبائی، رسالت، 45ص۔
9۔ الاجتہاد والتقلید وشئون الفقیہ، محمدمہدی الاصفی، التوحید، قم، 1410، 99ص۔عربی
10۔ الاجتہاد والمنطق الفقیہ فی السلام، مہدی فضل اللہ، دارالطلیعة، بیروت، 1987م، 340ص، عربی۔
11۔ ادوار اجتہاد، محمدابراہیمی جناتی، كیھان، تہران، 1372، سیزدہ۔523ص۔
12۔ اسلام ومقتضیات زمان، شہیدمرتضی مطہری، صدراقم، ج1، ص299۔242، ج2، ص33و93۔
13۔ الاسلام یقود الحیات، محمدباقرالصدر، دارالتعارف، بیروت، 1410ق، 1990 م، ص13۔25، عربی
14۔ امام راحل وفقہ سنتی، محمدمحمدی گیلانی، موسسہ تنظیم ونشرآثارامام خمینی، تہران، 193ص۔
15 ۔ بینش وروش اجتہاد درمكتب شیخ انصاری، مہدی ہادوی، كنگرہ شیخ انصاری، قم، 1373، 44ص۔
16۔ تاریخ الفقہ والاجتہاد من وجھة النظرالشیعہ، محمدصادق الجعفری، كنگرہ شیخ انصاری، قم، 1373، 43ص، عربی
17۔ تفصیل الشریعہ فی شرح تحریرالوسیلہ، محمدفاضل، مطبعہ مہر، قم، 1399ق، 299 ص، عربی۔
18۔ تقلید، حسن طاہری خرم آبادی، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، 40ص۔
19۔ التقلید، شیخ مرتضی ا نصاری، كنگرہ شیخ انصاری، قم، 1415ق، 96ص، عربی۔
20۔ تقلید چیست؟، علی مشكینی، یاسر، قم، 103ص،
21۔ التنقیح فی شرح العروة الوثقی، سیدابوالقاسم الخوئی، مقرر، مرزاعلی غروی تبریزی، موسسہ آل البیت، قم، ج1، ص440، عربی۔
22۔ التنقید الاحكام التقلید، مرزاابوطالب، تہران، 1316ق
23ـ الراي السديد في الاجتهاد و التقليد، السيد ابوالقاسم الخوئ، مقرر: غلام رضا عرفانيان اليزدى، چاپ دوم: المطبعه العلميه، قم، 1411، 7 22 ص، عربى.
24ـ الرسائل، الامام الخمينى، ج 2، چاپخانه مهر، قم، ص94-172، عربى.
25ـ رساله علميه (تقليد، مرجعيت، رهبري) ، احمد آذري قمى، ج 1، مكتبه ولايت فقيه، 1373، 204ص.
26ـ شوراي الفقهاء، مرتضي شيرازى، مؤسسه الفكر الاسلامى، بيروت، 1411 ق، 510 ص، عربى.
27ـ فلسفه اجتهاد و تقليد، علي دشتى، مؤسسه امام صادق(ع) ، قم، 126ص.
28ـ مسائل الاجتهاد و التقليد، حسين نوري همدانى، مكتب المؤلف، قم، 1415ق، 176 ص، عربى.
29ـ مسأله اجتهاد و تقليد، مدرسه الامام اميرالمؤمنين قم، 37 ص.
30ـ مطارح الانظار، تقريرات الشيخ الاعظم الانصارى، مقرر: ابوالقاسم كلانترى، مؤسسه آل البيت، قم، ص 252، 307، عربى.
31ـ منابع اجتهاد، محمد ابراهيم جناتى، كيهان، تهران، 1370، 415 ص.
32ـ النظره الخاطفه في الاجتهاد، محمد اسحاق الفياض، مؤسسه دار الكتاب، قم 1413، 93 ص، عربى
33ـ نقش علوم تجربي در اجتهاد، محسن غرويان، كنگره شيخ انصارى، قم، 1373، 16ص.
34ـ همراه با تحول اجتهاد، شهيد محمدباقر صدر، انتشارات روزبه، تهران، 36ص.
ب۔ اجتهاد و تقليد كي بحث علم اصول كي كتابوں میں
1ـ الذريعه الي اصول الشريعه، سيد مرتضى، ج2، دانشگاه تهران، تهران، 1363، ص 792، عربى.
2ـ عدہ الاصول، محمد بن الحسن الطوسى، ج 2، بمبئى، 1312ق، ص113-177، عربى
3ـ معارج الاصول، المحقق الحلى، مؤسسه آل البيت، قم، 1403ق، ص177، عربى.
4ـ مبادي الوصول الي علم الاصول، علامه حلى، مكتب الاعلام الاسلامى، قم، 1403، ص239، عربى.
5ـ تهذيب الوصول الي علم الاصول، علامه حلى، تهران، ص99، 107، عربى.
6ـ القواعد و الفوائد، ج1، شهيد اول، مكتبه المفيد، قم، ص 315، عربى.
7ـ ذكري الشيعه، شهيد اول، مكتبه بصيرتى، قم، ص2.
8ـ تمهيد القواعد، شهيد ثانى، مكتبه بصيرتى، قم، ص45.
9ـ رساله اصول فقه فارسى، ابوالفتح شريفي گرگانى، شركت انتشارات علمي و فرهنگى، تهران، 1367، ص233.
10ـ معالم الدين، جمال الدين الحسن بن زين الدين، مطبعه الاداب، نجف، 1391، ص455، عربى.
11ـ زبده الاصول، بهاء الدين محمد العماملى، تهران، 1319ق، ص115-124، عربى.
12ـ الوافيه، فاضل التونى، مجمع الفكر الاسلامى، قم، 1412، ص241-308، عربى.
13ـ هدليه الابرار الي طريق الائمه الاطهار، حسين بن شهاب الدين الكركى، بغداد، 1396، ص298، عربى، (محقق كركي كے علاوه ہیں) .
14ـ الاصول الاصلية، محمد محسن الفيض الكاشانى، دانشگاه تهران، 1390ق، ص147، عربى.
15ـ سفينه النجاه، محمد محسن فيض كاشانى، ترجمه محمد رضا تفرشى، ص70-124.
16ـ الدره النجفيه، يوسف البحرانى، 1314ق، ص255-258، عربى.
17ـ تجريد الاصول، مولي مهدي النراقى، 1317ق، ص230، عربى.
18ـ كشف الغطاء، جعفر كاشف الغطاء، انتشارات مهدوى، اصفهان، ص41، عربى.
19ـ الحق المبين، جعفر كاشف الغطاء، ص61، عربى.
20ـ قوانين الاصول، ميرزا ابوالقاسم القمى، ج2، انتشارات الاسلاميه، تهران، ص93، عربى.
21ـ مفاتيح الاصول، السيد محمد الطباالطبايى, موسسه آل البيت، قم، ص 634-569، عربى.
22ـ الاصول الاصليه، عبدالله الشبر، مكتبه المفيد، قم، 1404ق، ص228-284، عربى.
23ـ مناهج الاصول، مولي احمد النراقى، 1262 (صفحه نمبر نہيں ہے) ، عربى.
24ـ هدليه المستر شدين، محمد التقي الاصفهانى، مؤسسه آل البيت، قم، ص463، عربى.
25ـ الفصول، محمد حسين بن عبدالرحيم الاصفهانى، 1305، ص385-431، عربى
26ـ ضوابط الاصول، سيد ابراهيم قزوينى، 1275، عربى.
27ـ نتايج الافكار، سيد ابراهيم قزوينى، بمبئى، ص216-235، عربى.
28ـ القواعد الشريفه، محمد شفيع، ص 359، 1377، عربى.
29ـ حقائق الاصول، عبدالرحيم النجفي الاصفهانى، عربى.
30ـ حل العقود و لعقد الفحول، محمد باقر بن مرتضي الطباالطبائى، 1291، ص54، عربى.
31ـ هدليه الاصول، محمد باقر الموسوي الاصفهانى، مطبعه علميه، قم، 1384، ص 159-206، عربى.
32ـ درر اللئالى، محمدرضا الموسوي الشيرازى، 1274ق، عربى.
33ـ قوامع الاصول، محمد العراقی النجفى، ص518-567، عربى.
34ـ الرسائل، محمد بن ابراهيم الكلباسى، عربى.
35ـ تشريح الاصول، ملاعلي النهاوندى، 1316ق، ص285، عربى.
36ـ مقاصد اصول، محمد حسن شريعت، تهران، 1317ش، ص96.
37ـ حاشيه القوانين، جواد الطارمى، ج2، 1306 ق، ص232، عربى.
38ـ كفايه الاصول، محمد كاظم الاخوند الخراسانى، مؤسسه آل البيت، قم، 1409ق، ص463، عربى.
39ـ العناوين، محمد مهدي الكاظمي الخالصى، ج 2، مطبعه دارالسلام، بغداد 1342، ق، ص81، عربى.
40ـ مقالات الاصول، ضياء الدين العراقى، ج2، مكتبه المصطفوى، تهران، 1349ق، ص201، عربى.
41ـ نهايه الافكار، ضياء الدين العراقى، ج4، مؤسسه النشر السلامى، قم، 1405، ص215، عربى.
42ـ نهايه الدرايه محمد حسين الاصفهانى، ج 3، انتشارات مهدوى، اصفهانى، ص22-191، عربى.
43ـ بحوث في الاول، محمد حسين الاصفهانى، مؤسسه النشر الاسلامى، قم، 1409، رساله سوم، عربى.
44ـ ملاك اصول استنباط، محسن شفائى، ج3، دارالكتب الاسلاميه، تهران، 1383، ص94.
45ـ اصول معتبره، محمد حسين الرضوي الكاشانى، شركه طبع الكتاب، تهران، 1383، ص299.
46ـ منتهي الاصول، حسن البجنوردى، ج2 بصيرتى، قم، ص618، عربى.
اس سلسلے میں جوشر حيں لكهي گئی ہیں ان سے هم صرف نظر كررهے ہیں.
ج۔ مقالات
1ـ اجتهاد در تشيع، حوزه، ش5، ص23-11.
2ـ الاجتهاد في الشريعه، محمدعلي الطباطبائى، رساله الاسلام، سال2، ص428، عربى.
3ـ الاجتهاد في نظر الاسلام، محمد جواد مغنيه، رساله الاسلام، سال4، ص28، عربى.
4ـ اجتهاد و تاريخ آن عليرضا فيض، مقالات و بررسيها، ش41-42، ص53-98.
5ـ اجتهاد و منابع آن، مشكاه، ش9، ص69-95.
6ـ آزادي تفكر(اجتهاد در فروع) ، حوزه، ش27، ص97.
7ـ بازنگري اجتهاد و فقه، حوزه ش27، ص3-17.
8ـ بانگ رحيل، حوزه، ش28، ص3.
9ـ تاريخ تطور اجتهاد، عباس مخلصى، فقه، كتاب اول، ص122.
10ـ تحقيق در نظريه اجتهاد، علي عابدي شاهرودی، كيهان انديشه، ش24، 26، 27، 30، 31، 32، 33، 34، 36..
11ـ حول الاجتهاد في الاسلام، عبدالعزيز الخياط، التوحيد، ش69.
12ـ السمات المطلوبه للمجتهد في الحكومه الاسلاميه، محمد ابراهيم جناتى، الفكر الاسلامى، ش6، ص41، عربى.
13ـ سيرتاريخي تقليد از علم، محمد ابراهيم جناتى، كيهان انديشه، ش6، ص17.
14ـ مصاديق اعلام از آغاز غيبت كبري تاكنون، محمد ابراهيم جناتى، كيهان انديشه، ش7، ص10.
15ـ منابع اجتهاد در فقه شيعه و اهل سنت، ناصر مكارم شيرازى، نور علم، ش10، 12، 13، 15.
16ـ نامه، محمد رضا حكيمى، آينه پژوهش، ش9، 10، 11.
17ـ ندوه الاجتهاد في الشريعه الاسلاميه، مهدي محقق، علي موسوى، التوحيد، ش69، عربى.
18ـ نظريه تعين تقليد از مجتهد اعلم، محمد ابراهيم جناتى، كيهان انديشه، ش51، ص101.
19ـ نظريه شوري مرجعيت، رهنمون، ش7، ص116.
20ـ نقد متدهاي فقهي و آموزشي حوزه، كيهان انديشه، ش22، ص6.
21ـ نقد نظريه عدم تعين تقليد از اعلم، عباس ظهيرى، كيهان انديشه، ش55، ص51.
22ـ نقد و نظر(ويژه مباني اجتهاد) ، سال اول، شماره اول.
23ـ نقش دو عنصر زمان و مكان، دراستنباط. عباس حسينى، كيهان انديشه، ش32. ص36.
24ـ نگاهي ديگر به اجتهاد، حوزه، ش42، ص27.
25ـ ويژگيهاي اجتهاد و مرجع تقليد در پيامهاي امام خمينى، پاسدار اسلام، ش62، ص10.
مرجعيت
یہاں جن ماخذكا ذكر كیا جارہاہے ان میں فقہی ابحاث كم ہیں اور مرجعیت كو بحیثت ایك عظیم ادارے(institution) كے بحث كیا گیا ہے۔
الف۔ كتب
1ـ بحوث في خط المعرجيه، صدر الدين القبانچى، چاپ دوم: 1405ق/1983م، 159ص، عربى.
2ـ بحثي درباره مرجعيت و روحانيت، سيد محمد حسين طباطبايي و ديگران، چاپ دوم: تهران، شركت سهامي انتشار، 8+261ص.
3ـ تشكيلات مذهب شيعه، ابومحمد وكیلي قمى، تهران 1345، 172ص.
4ـ الحياه، محمدرضا حكيمي و ديگران، چاپ سوم، قم، انتشارات جامعه مدرسين، 1360، ج2، ص370-349، عربى.
5ـ مرجع كيست و اختيارات او چيست؟ ، احمد آذري قمى، 1372، 32ص.
6ـ المرجعيه الدينيه العليا عند الشيعه الاماميه، حسين معتوق، بيروت دارالهدى، 1390ق، 1970م، 59ص، عربى.
7ـ المعالم الحديده للمرجعيه، سليم الحسينى، نشر توحيد، 1413ق/1992م، 208ص، عربى.
8ـ چگونگي مرجعيت و نشر فتاوي شيخ اعظم انصارى، سيد محمدعلي روضاتى، قم، دبيرخانه كنگره و شيخ انصارى، ، 16ص.
ب۔ مقالات
1ـ اجتهاد و مرجعيت زنان، مينا يادگار آزايد، زنان، سال اول، ش8، ص24.
2ـ اسس المرجعيه الدينيه والمقترحات حولها، التوحيد، ش71.
3ـ بررسي مسايل مرجعيت و رهبري در جهان اسلام، حوزه، ش45، ص185.
4ـ حوزه(ويژه مرجعيت) ، ش56-57.
5ـ حوزه و مرجعيت، آئينه پژوهش، سال چهار، ش22، ص2.
6ـ رهبري و مرجعيت، محمدعلي موحدي كرمانى، پاسدار اسلام، ش22، 1362، ص24.
7ـ زن و مرجعيت، محمد حسين نجفى، فقه(كتاب اول) ، 1372، ص29.
8ـ لزوم مرجعيت واحد براي جامعه اسلامى، امامي مقدم، حوزه، ش45، ص181.
9ـ مرجعيت بعد از فوت حضرت آيه الله بروجردى، ياد، ش11، ص47.
10ـ نقدتیوری تفكيك مرجعيت از رهبرى، سيدكاظم حائرى، كيهان انديشه، ش22، ص33.
11ـ نقش امام خميني در مرجعيت عامه آيه الله بروجردى، محمد دهقاني آرانى، حضور، ش1، ص38.
12ـ مرجعيت و تشكيلات حوزه، انٹرويو آيه الله سيد ابوالقاسم كاشانى، حوزه، ش42، ص44.