کیا آپ وھابیت کی حقیقت سے آگاہ ھیں ؟

191

خدا وند عالم نے فرمایا : “ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل الموٴ منین نولّہ ماتولّیٰ ، ونصلہ جھنّم وسائت مصیرا۔ ،، صدق الله العظیم ” اور جو شخص راہ ھدایت روشن ھو جانے کے بعد رسول خدا کی مخالفت کرے اور اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے تو ھم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور جھنم میں جلائیں گے اور یہ کتنا برا ٹھکانا ھے ،،۔ اور کیا آپ لوگ جانتے ھیں کہ ھمارے اھل سنّت علماء کی ایک بڑی جماعت نے آپس میں اختلاف مذاھب کے با وجود وھابی مسلک کے مو جد اور اس کے استاد اور امام ، ابن تیمیہ کی رد میں بھت سی کتابیں لکھی ھیں ۔اور وھابی مسلک کو باطل قرار دیا ھے ۔؟
محمد ابن عبدالوھاب نجدی اور اس کے عقائد
کیا آپ جانتے ھیں ؟کہ علماء مکہ نے محمد ابن عبد الوھاب کے ملحد ھو نے کا فتویٰ دیا ھے اور اسے خبیث ،بے شرم ،بے بصیرت اور گمراہ بتایا ھے۔ اور بتایا ھے کہ یہ شخص جھوٹا تھا ،قرآن و حدیث کے معنی میں تحریف کیا کرتا تھا خدا پر بھتان باندھتا تھااور قرآن کا منکر تھا اُنھوں نے اس پر بارھا لعنت کی ھے ۔ ھاں!یہ تمام باتیں حق کے حامی شاہ فضل رسول قادری نے اپنی کتاب “سیف الجبار المسلوک علیٰ اعداء الابرار ،،میں لکھی ھے ۔یہ کتاب ۱۹۷۹ءء میں ایک غیرت مند مسلمان حسین حلمی استانبولی نے تر کیہ میں شائع کی تھی ۔ عراق کی ایک مسلّم ومتفق علیہ عظیم علمی شخصیت شیخ جمیل آفندی زھاوی نے اپنی کتاب “الفجر الصادق ،،میں صفحھ،۱۷پر محمد ابن عبدالوھاب کے حالات میںتحریر فرمایا ھے :یہ محمد ابن عبد الوھاب شروع میںایک طالب علم تھا ،،علماء سے علم حاصل کرنے کی خاطر مکہ ،مدینہ آتا جاتا رھتا تھا۔مدینہ میںجن علماء سے اس نے تحصیل علم کیاوہ یہ ھیں :شیخ محمد ابن سلیمان کردی ،شیخ محمد حیاةسندی ،یہ دونوں استاد اور دوسرے جن علماء سے یہ پڑھتا تھا،وہ حضرات اس کے اندر گمراھی و الحاد کو بھانپ گئے تھے اور کھتے تھے کہ خدا عنقریب اسے گمراہ کرے گا اور اس کے ذریعہ دوسرے بدنصیب بندے بھی گمراہ ھوںگے چنانچہ ایسا ھی ھوا۔اور اسکے باپ عبد الوھاب جو علماء صالحین میں تھے،انھوںنے بھی اس کی بے دینی کا اندازہ لگا لیا تھا اور لوگوںکو اس سے دور رھنے کا حکم دیتے تھے۔اسی طرح اس کے بھائی شیخ سلیمان بھی اس کے خلاف تھے بلکہ انھوں نے تو محمدابن عبدالوھاب کی ایجاد کردہ بدعتوں اور منحرف عقیدوں کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔وہ اسی کتاب کے صفحھ۱۸میں لکھتے ھیں کہ اس(محمد ابن عبدالوھاب )پر خدا کی لعنت ھو یہ اکثر پیغمبر اسلام کی مختلف الفاظ میں توھین کرتا تھا ،ً آپ کو پیغمبر کے بجائے “طارش،،کھتا تھا جس کا مطلب عوام کی زبان میں وہ شخص ھے جسے کوئی کسی کے پاس بھیجے۔ حالانکہ عوام بھی صاحب عزت وقابل احترام شخصیت کے لئے یہ کلمہ نھیں استعمال کرتے ۔یھاں تک کہ اس کے بعض پیرو پیغمبر کی شان میں کھتے ھیں :”میرا یہ عصا محمد سے بھتر ھے ۔کیونکہ میں اس سے کام لیتا ھوںاور محمد مر گئے ھیں۔اب ان سے کوئی فائدہ حاصل نھیں ھوسکتا۔ محمد ابن عبد الوھاب یہ سب سن کر خاموش رھتا تھا اور اپنی رضا ظاھر کرتا تھا آپ جانتے ھیں یہ بات مذاھب اربعہ میں کفر مانی جاتی ھے۔ اسی طرح یہ پیغمبر اسلام پر درود بھیجنے کو برا سمجھتا اور شب جمعہ میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلّم پر درود پڑھنے سے روکتا تھا ۔منبروں پر بلند آواز سے درود پڑھنے سے منع کرتا اور اگر کوئی شخص ایسا کر تا تو اسے سخت سزا دیتا تھا یھاں تک اس نے ایک نابینا موٴذن کواسی بات پر قتل کردیا تھا کہ اسے اذان کے بعد درود پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن وہ باز نھیں آیا تھا ۔ آپ کو جان کر بھی حیرت ھوگی اسماعیل پاشا بغدادی نے “ھدیةالعا رفین ،،میں جو پھلے استانبول ،ترکیہ میں ۱۹۵۱ئئمیں طبع ھوئی پھر دوبارہ بیروت میں ۱۴۰۲ھئمیں آفسیٹ سے طبع ھوئی ،کی ج۲صفحہ ۳۵۰پرذکر کیا ھے :محمد ابن عبدالوھاب نے ایک کتاب ان مسائل سے متعلق لکھی ھے جس میں اس نے پیغمبر کی مخالفت کی تھی ،اور پیغمبر کی مخالفت کا مطلب آپ سے دشمنی کرنا ھے جس کے متعلق خدا نے فرمایا ھے :”ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل الموٴ منین نولّہ ماتولّیٰ ، ونصلہ جھنّم وسائت مصیرا۔ جوراہ ھدایت روشن ھوجانے کے بعد پیغمبرکی مخالفت کرے اس کا ٹھکانا جھنّم ھے۔ محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھی گئی کتابیں
قارئین کرام جانتے ھیں کہ شیخ سلیمان ابن عبدالوھاب ،محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی نے سب سے پھلے اس بد عت ایجاد کرنے والے کی رد میں کتاب لکھی جس کا نام ” فصل الخطاب فی الرد علیٰ محمد ابن عبدالوھاب ،، رکھا تھا ۔ اس کا اسماعیل پاشا نے ” ایضاح المکنون ج ۲ ص ۱۹۰ طبع بیروت دار الفکر ۱۴۰۲ ئ اور عمر رضا کحالہ نے ” معجم الموٴ لفین ،، ج ۴ ص ۲۶۹ طبع بیروت ” دارا حیاء الترات العربی ،، میں ذکر کیا ھے اور محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک شیخ عبدالله بن عیسیٰ صغانی ھیں ۔ انھوں نے جو کتاب لکھی اس کا نام ” السیف الھندی فی ابانة طریقةالشیخ النجدی ،، ھے۔ اس کا ذکر بھی اسماعیل پاشا نے ” ھدیة العارفین ،، ج ۱ ص ۴۸۸ میں کیا ھے اس کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک سید علوی ابن حداد بھی ھیں جنھوں نے کتاب “مصباح الانام ،،و “جلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بھا العوام،،یہ کتاب مطبع عامر کے توسط سے ۱۳۲۵ھئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ابو حامد ابن مرزوق نے اپنی کتاب “التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میںکیا ھے۔ یہ کتاب بھی ابن عبد الوھاب کے عقائد کی رد میں لکھی گئی ھے ۔موصوف نے ایک اور کتاب بھی بنام “السیف الباتر لعنق المنکر علی الاکابر ،،لکھی ھے اس کا ذکر بھی کتاب “التوسل بالنبی وبالصالحین ،،صفحھ۲۵۰پر ھے ۔ محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میںسے ایک احمد ابن علی البصری ھیں جو قبائی کے نام سے مشھورتھے۔ انھوں نے اس کے ایک رسالہ کی رد میں “فصل الخطاب فی رد ضلا لات ابن عبد الوھاب ،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے۔ اس کا تذکرہ بھی ابو حامد مرزوق نے” التوسل بالنبی وبالصالحین،،میں صفحھ۲۵۰پرکیا ھے اور اسماعیل پاشا بغدادی نے “ایضاح المکنون،،میں ج۲صفحھ۱۹۰پراس کتاب کا نام “فصل الخطاب،، ذکر کیا ھے۔ محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک بزر گوار سید احمد ابن زینی دحلان ،مفتی مکہ مکرّمہ بھی ھیں۔ انھوں نے “فتوحات اسلامیھ،،کی ج۲طبع مصر ۱۳۵۴ھئمطبع مصطفی محمد میں اس کی رد کی ھے اوراس پر طعن کیا ھے (صفحھ۲۵۱سے ۲۶۹تک دیکھئے ) مر حوم زینی دحلان نے لکھا ھے کہ محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں بھت سی کتابیں اوررسالے لکھے گئے ھیں لیکن موصوف نے ان کتابوں کے نام نھیں ذکر کئے ۔ شیخ یوسف نبھانی نے بھی اس کی رد میں “شواھدالحق فی التوسل بسید الخلق،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے جوایک جلد میں طبع ھوئی ھے ۔اس کا ذکر بھی “التوسل بالنبی وبالصالحین،،صفحھ۲۵۲پر ھے۔ اس کتاب کے ص۱۵۱پر سید احمد ابن دحلان کی کتاب “خلاصةالکلام فی امراء البلد الحرام ،،سے نقل ھے۔ ان شبھات کا ذکر جن سے وھابیت نے تمسک کیا مناسب یہ ھے کہ پھلے ان شبھات کا ذکر کریںجن سے محمد ابن عبد الوھاب نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تمسک کیا۔ پھر ان کی رد پیش کریں گے اور یہ بیان کریں گے کہ جن باتوں کو اس نے دلیل بنایا ھے وہ سب جھوٹ ،افتراء اور عوام فریبی ھے ۔ پھر “شواھد الحق،،کے ص۱۷۶میں لکھاھے۔
محمد ابن عبدالوھاب کے پاس اس کے استاد کردی کا خط
محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والوں میں سے ایک اس کے استاد شیخ محمد ابن سلیمان کردی شافعی ھیں انھوں نے منجملہ ان باتوں کے جو خط میں اس کی رد کرتے ھوئے لکھا تھا یہ باتیں بھی لکھی تھیں : عبدالوھاب کے بیٹے !سلام ھو اس پر جس نے راہ راست کی پیروی کی، میں تمھیں الله کے لئے نصیحت کرتا ھوں کہ اپنی زبان کو مسلمانوں کی ایذا رسانی سے باز رکھو ! چنانچہ اگر کسی شخص کے بارے میں سنو کہ وہ غیر خدا جس سے مدد مانگی جائے اس کے موثر ھونے کا عقیدہ رکھتا ھے تو اسے حق پھچنواؤ اور دلیل پیش کرو کہ غیر خدا میں تاثیر نھیں ھے ۔ اب اگر وہ انکار کرے تو صرف اسے کافر قرار دو ۔ تمھیں مسلمانوں کے سواد اعظم کو کافر قرار دینے کا کوئی حق نھیں ھے جبکہ تم خود سواد اعظم سے منحرف ھو اور جو شخص سواد اعظم سے منحرف ھو اس طرف کفر کی نسبت دینا زیادہ مناسب ھے ،کیوں کہ اس نے اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کی ھے خدا وند عالم نے فرمایا ھے : ” ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدی ویتّبع غیر سبیل المو منین نولّہ ما توّلّیٰ و نصلّہ جھنّم و سائت مصیرا ،، ” کہ جو شخص راہ ھدایت روشن ھو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کرے تو ھم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور اسے جھنم میں جلائیں گے اور یہ برا ٹھکانا ھوگا ،، اور بھیڑ یا گلہ سے الگ ھو جانے والی بکری کو ھی کھاتا ھے ۔ انتھیٰ۔ اس کے بعد لکھتے ھیں کہ : مذا ھب اربعہ میں سے جن لوگوں نے اس کی رد کی ھے ۔ خواہ مشرق کے رھنے والے ھوں یا مغرب کے ، بے شمار ھیں ۔ کسی نے مبسوط کتاب کی صورت میں رد لکھی اور کسی نے مختصر اور بعض نے صرف امام احمد ابن جنبل کے نصوص سے اس کی رد کی ھے تاکہ یہ واضح ھو جائے کہ وہ جھوٹا ھے ، اپنے کو امام احمد بن جنبل کے مذ ھب کی طرف نسبت دینے میں فریب دھی سے کام لے رھا ھے اور اپنے کلام کو اس طرح تمام کیا ھے کھ”ھم نے جو کچہ ذکر کیا اس سے وہ تمام باتیں باطل ھو جاتی ھیں جو محمد ابن عبدالوھاب نے گڑھی ھیں اور جن کے ذریعہ مومنین کو دھوکہ دے رھا ھے اور خود اس نے اور اس کے پیروؤںنے ان کی جان ومال کو مباح قرار دے رکھا ھے ،،۔ (خلاصہ کلام سید احمد دحلان ) کچہ اور افراد جنھوں نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں شیخ عطاء مکی بھی ھیں ، انھوں نے ” انصار الھند ی فی عنق النجدی ،، نام کی کتاب لکھی ۔ اس کا تذ کرہ ” التوصل بالنبی و بالصا لحین ،، میںص ۲۵۰ پر ھے ۔ اسی طرح اس کی رد میں لکھنے والوں میں بیت المقدس کے ایک عالم ھیں جنھوں نے ” السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاو لیا ، بعد الا نتقال ،، لکھی اس کا تذ کرہ بھی “التوسل بالنّبی و با لصالحین ،،میں ص ۲۵۰ پر ھے ۔ ایک اور بزرگ شیخ ابراھیم حلمی قادری اسکندری نے بھی اس کی رد کی ھے ، انھوں نے جو کتاب لکھی ھے اس کا نام ” جلال الحق فی کشف احوال اشرار لخلق ،، ھے۔ یہ کتاب اسکندریہ میں ۵۵ ۱۳ء ہ میں طبع ھوئی ھے اس کا تذ کرہ ” التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میں ص ۲۵۳ پر ھے ۔ شیخ مالکی جزائری نے بھی اس کی رد کی ھے۔ انھوں نے ” اظھار العقوب ممن منع التو سلّ با لنّبی والو لی الصدوق ،، نام کی کتاب لکھی ھے۔ اسے صاحب کتاب ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، نے ص ۲۵۲ پر ذکر کیا ھے ۔شیخ عفیف الدین عبدالله ابن داؤد جنبلی نے بھی اس کی رد میں ” الصّواعق والر عود ،، نام کی کتاب لکھی۔ اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، کے ص ۲۴۹ پر ھے اور سید علوی ابن احمد حداد کا قول نقل کیا ھے کہ ‘ بصرہ ، بغداد ، حلب ، اور احساء کے بزرگ علماء نے بھی اس کتاب کی تائید کی ھے اور اپنی تفریظوں میں بھی اس کی تعریف کی ھے ۔اور اس کی رد لکھنے والوں میں ایک شیخ عبدالله ابن عبد اللطیف شافعی ھیں ۔ انھوں نے ” تجرید الجھاد لمدی الا جتھاد ،، ص ۲۴۹ پر ھے ۔ اس کی رد کرنے والوں میں شیخ محقق محمد ابن الرحمن بن عفالق الحنبلی ھیں انھوں نے کتاب تحکم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین ،،لکھی ۔اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںص۲۴۹پرھے اور یہ بھی ذکر ھے کہ انھوں نے ھر اس مسئلہ کی جسے محمد ابن عبد الوھاب نے گڑھا ھے خوب رد کی ھے۔ اسی طرح طائف کے ایک عالم شیخ عبد الله ابن ابراھیم میر غینی ھیں انھوں نے “تحریض الاغبیاء علی الاستغاثہ بالانبیاء والاولیاء ،،نامی کتاب لکھی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔ شیخ طاھر سنبل حنفی انھوںنے “الانقصار للاولیاء الابرار ،،نام کی کتاب لکھی اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔ شیخ مصطفی حمامی مصری نے بھی اس کی رد میں “غوث العباد ببیان الرشاد ،،نام کی کتاب لکھی جو طبع ھو چکی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۳ پرھے ۔ اس کی رد لکھنے والوں میں علامہ محقق شیخ صالح کواشی تونسی بھی ھیںانھوں نے اس کی ردمیں “رسالہ مسجعہ محکمة،،لکھا اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۱ پرھے اور لکھا ھے کہ علامہ موصوف نے اس رسالہ کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی رد کی ھے ۔علامہ مذکور کا یہ رسالہ “سعادة الدار ین فی الرد علی الفریقین ،،کے ضمن میں طبع ھواھے نیز اس کی رد تونس کے شیخ الاسلام اسماعیل تمیمی مالکی نے بھی لکھی ھے ۔انھوں نے رد علی محمد ابن عبدالوھاب کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،صفحھ۲۵۱ پرھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر کیا ھے کہ مذکورہ کتاب کافی محققانہ اور ٹھوس ھے اس کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی ردکی گئی ھے یہ کتاب تونس میں شائع ھوئی ھے ۔ علامہ مفتی فاس الشیخ مھدی وزّانی نے بھی اس کی رد کی ھے انھوں نے جواز توسل کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ھے،اس کاذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۲ پرھے ۔ اور ابو حامد ابن مرزوق نے ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،کے صفحھ۱ پرذکر کیا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں:ائمہ اربعہ کے بعض پیروٴوں نے اس کی اور اس کے مقلدین کی بھت سی عمدہ تالیفات کے ذریعہ ردکی ھے۔ اور حنبلوں میں اس کی رد کرنے والوں میںسے اس کے بھائی سلیمان ابن عبدالوھاب ھیں اور شام کے حنبلیوں میں سے آل شطیٰ اور شیخ عبداللهقدومی نابلسی ھیں جنھوں نے اپنے سفرنامہ میں اس کی رد لکھی اوریہ سب کتابیں”زیارةالنبّی صلی الله تعالی علیہ وسلم والتوسل بہ وبالصا لحین من امتھ،،کے حاشیہ پر شائع ھوئی ھیں اور کھا کہ محمد ابن عبدالوھاب اپنے مقلدین سمیت خوارج میں سے ھے ۔ جن لوگوں نے اس مطلب پہ نص کی ھے ان میں سے علامہ محقق سیّد محمد امین بن عابدین بھی ھیں جنھوں نے اپنے حاشیہ ” ردالمختار علیٰ الدر المختار ،، میں باغیوں کے باب میں اور شیخ صاوی مصری نے جلالین کے حاشیہ میں صریحاً لکھا ھے کہ یہ اور اس کے مقلدین خوارج میں سے ھیں کیوں کہ یہ ” لاالھٰ الّا الله محمدرسول الله ،،کھنے والوں کو اپنی رائے سے کافر کھتے ھیں اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ مسلمانوں کو کافر کھنا خوارج اور دوسرے بدعت کاروں کی علامت ھے جو اھل قبلہ میں سے اپنے مخالفین کو کافر قرار دیتے ھیں ۔ محمد ابن عبدالوھاب اور اس کے ماننے والوں کی بنیادی عقائد فقط چار ھیں ۔ خدا وند عالم کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دینا ، الوھابیت اور ربوبیت دونوں کی توحید کو ایک ماننا ، نبی صلیٰ الله علیہ وآلہ وسلّم ،کی عزت نہ کرنا ، اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا ، اور یہ ان تمام عقائد میں احمد ابن تیمیہ کا مقلد ھے اور احمد ابن تیمیہ پھلے عقیدہ میں کرامیہ اور مجسمیہ جنبلیہ ( جو خدا کے لئے ھاتہ پاؤں وغیرہ اعضائے جسم کے قائل ھیں ) کا مقلّد ھے اور چوتھے عقیدہ میں ان دونوں فرقوں اور فرقئہ خوارج کا پیرو ھے ۔ اور وھابیوں کے نزدیک نقل دین کے سلسلہ میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد افراد ابن تیمیھ، اس کے شاگرد ابن قیم اور محمد ابن عبدالوھاب ھی ھیں ۔ چنانچہ علماء مسلمین میں سے کسی عالم پر وہ اعتماد نھیں کرتے اور اس کی کوئی قدر نھیں جانتے جب تک کہ اس کے کلام میں کوئی ایسا شبہ نہ پایا جاتا ھو جو ان کی رائے اور خواھش کی تائید کرے چنانچہ یہ وسیع دین اسلام ان کے نزدیک تین مذکورہ بالا افراد میں محصور ھے ۔نیز کتاب التوسل النبّی ص۲۴۹ پراس عنوان کے تحت “محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والے علماء خواہ اس کے ھم عصر ھوں یا اس کے بعد میں آنے والے ان کی ایک جماعت کا تذکرہ کیا ھے جن میںمندرجہ ذیل نام گنائے ھیں :علامہ عبدالوھاب ابن احمد برکات شافعی احمدی مکّی ،علامہ سید منعمی ،جب محمد ابن عبدالوھاب نے ایک ایسی جماعت کو جنھوں نے اپنے سر نھیں منڈائے تھے قتل کردیا تو موصوف نے ایک قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی تھی ۔ علامہ سید عبدالرحمن جو احساء کے بزرگ ترین علماء میں سے ھیں ،انھوں نے ایک زور دار قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی اس قصیدہ میں سرسٹہ (۶۷)اشعار ھیںجس کا مطلع یہ ھے : بدت فتنة اللیل قدغطّت الافق وشاعت فکادت تبلغ الغرب والشرقا (فتنہ شب ظاھر ھوا جس نے افق کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور پھیلاتو مغرب اور مشرق تک پھونچ گیا۔) شیخ عبد الله ابن عیسیٰ مویسی ،شیخ احمد مصری احسائی ،شیخ محمد ابن شیخ احمد ابن عبد الطیف احسائی اور ص۱۰۵پر اس عنوان کے تحت کھ” محمد ابن عبدالوھاب پیغمبر پر درود بھیجنے سے منع کرتا تھا ،،لکھا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں اور “صاحب کتاب “مصباح الانام وجلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بِھَا الْعَوام ،،سید علوی ابن احمد ابن حسین ابن سید عارف بالله عبد الله ابن علوی حداد نے اپنی کتاب میں اس کا ذکرکیا ھے ،پھرسید احمد بن زینی دحلان نے اپنے رسالہ “الدررالسنیةفی الرد علی الوھابیة،،میں لکھا ھے کہ محمد ابن عبدالوھاب پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پرصلوات پڑھنے سے روکتا تھا اور منبروں پر بلند آواز سے صلوات پڑھنے کو روکتا تھا اور ایسا کرنے والے کو اذیّت اور سخت سزا دیتا تھا حتی کہ اس نے ایک نابینا کو جو ایک صالح اور خوش آوازموٴذن تھا قتل کردیا ۔اسے اذان کے بعد منارہ پر صلوات پڑھنے سے روکا تھا لیکن وہ باز نھیں آیا نتیجہ میںاسے جان سے مار ڈالا اور کھا کہ طوائف کے گھر باجہ بجانے والے کا گناہ اس شخص کی بہ نسبت کم ھے جو منارہ پر پیغمبر اسلام پر درود پڑھے۔ اورصفحھ۲۵۰پر لکھا ھے کہ سید علوی ابن احمد حداد نے فرمایا میں نے مذاھب اربعہ کے بے شمار بڑے بڑے علماء کے جوابات دیکھے ھیں یہ علماء حرمین شریفین ،احساء ،بصرہ بغداد ،حلب ،یمن اور دوسرے اسلامی شھروں کے رھنے والے تھے جنھوں نے نثر ونظم دونوں میں جوابات لکھے ۔میرے پاس ابن عبدالرّزاق حنبلی کی اولاد میں سے ایک شخص کا مجموعہ لایا گیا اس میں بھت سے علماء کی جانب سے لکھی گئی رد موجود تھیں ۔ اس کے بعد لکھا ھے :اور میرے پاس شیخ محدث صالح فلانی مغربی ضخیم کتاب لائے جس میں علماء مذاھب اربعہ حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ ،اور حنبلیہ کے خطوط اور جوابات تھے جو محمد ابن عبدالوھاب کے جواب میں لکھے گئے تھے ۔اورص۲۴۸پر ھے۔ محمد ابن عبدالوھاب کی رد بھت سے علماء نے کی ھے ۔اس کے ھم عصر علماء نے بھی اور بعد میں آنے والے علماء نے بھی اور اب تک علماء اسلام کے اعتراضوں کے تیر اس کو نشانہ بناتے رھتے ھیں ۔ اس کے ھم عصر رد کر نے والوں میں پیش پیش احساء کے حنبلی تھے اور درحقیقت تمام اعتراضات ابن تیمیہ کو نشانہ بنارھے تھے ۔ موٴلف کھتا ھے :ابوالفضل قاسم محجوب مالکی نے بھی ایک رسالہ کے ذریعہ جس کا تذکرہ احمد ابن ضیاف کی کتاب “اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان ،،میں ملتا ھے ،محمد ابن عبدالوھاب کی رد کی ھے اور اس کے آراء اور فتاوی کو باطل قرار دیا ھے ۔ اس رسالہ کا ایک حصّہ حاج مالک داوٴد کی کتاب “الحقائق الاسلامیةفی الرد علی المز اعم الوھابیةبادلّةالکتاب والسنة النبویة ،،سے ملحق کرکے ۱۴۰۳ ئمیں طبع ھوا تھا اور دوبارہ آفسٹ سے ترکیہ میں ۱۴۰۵ ئمیں طبع ھوا ۔ جھاںمیری واقفیت میں علماء مذاھب اربعہ کی جانب سے رد اور طعن محمد ابن عبدالوھاب پرکی گئیں وہ میں نے درج کردیں ۔ 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.