آئمہ(علیہم السلام) اور سیاست
آئمہ(علیہم السلام) کی روشن زندگی میں ایک قطعی اور مشترک اصول جو کہ تمام زاویوں سے نظر آتاہے وہ سیاست میں شرکت کرنا ہے اور آئمہ(علیہم السلام)کا سیاست میں شامل ہونا اس طرح ہے کہ اس کو ان کی زندگی سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اس رکن کی طرف زیادہ اہمیت دیں ، کیونکہ دنیادار لوگوں نے مسلمانوں کی دنیا اور دین کو ختم کرنے کیلئے ہمیشہ یہ نعرہ لگایاہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اس صدی میں اسلام کو زندہ کرنے والی شخصیت حضرت امام خمینی (رحمۃاللہ) فرماتے ہیں:
"خدا کی قسم اسلام پورے کا پورا سیاست ہے، اسلام کو غلط طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے"۔
حضرت امام خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں فرماتے ہیں کہ:
اسلام کے فلسفے سے بے خبر کچھ لوگ آئمہ(علیہم السلام) کے کچھ اقوال کو نہ سمجھتے ہوئے اس نظرئیے کی تائید کرتے ہیں کہ اسلام اور سیاست الگ الگ ہیں اور دلیل کے طور پر آئمہ(علیہم السلام) کے اقوال کو پیش کرتے ہیں جیسے کہ امام علی- نے فرمایا :
تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کے بلغم سے زیادہ بے وقعت ہے۔
یا ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
اے دنیا! تو میرے علاوہ کسی اور کو جاکر دھوکہ دے ۔ میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکاہوں جن کے بعد پلٹنے کی گنجائش نہیں ہے۔
مندرجہ بالا جملات میں حضرت امیر المومنین- نے دنیا سے دوری کا اظہار کیا ہے اور یہ دوری اس بات پر دلیل ہے کہ آئمہ(علیہم السلام) دنیا کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس بنا ء پر آئمہ(علیہم السلام)کس طرح سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں جب کہ سیاست کا دوسرا نام دنیا ہے۔
فلسفہ دنیاداری
دنیا کی دو قسمیں ہیں:۱۔مذموم ۲۔مدوح
جب بھی دنیا حلال طریقے سے حاصل کی جائے اور معنوی اہداف کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے تو یہ خدا کی نظر میں پسندیدہ ہے۔
اور جب بھی دنیا غلط راستے سے حاصل کی جائے اور خود دنیا ہدف ہو تو وہ خداکی نظر میں ناپسند ہے۔
حضرت امیر المومنین- کی سرزنش یا دوری اس دنیا سے مربوط ہے جو کہ خدا کی نظر میں ناپسند ہے جوکہ دین بیچنے کیلئے استعمال کی جائے۔
پہلا قول: ان منافقین سے تعلق رکھتا ہے کہ جنہوں نے اس دنیا کی خاطر یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دنیا نے ان کو رسول اکرم کی وفات کے بعد رہبری اور قیادت کے مقام کو غصب کرنے پر اکسایا۔ مولا نے یہ جملہ "خطبہ شقشقیہ "میں فرمایا جو کہ اسی سلسلہ میں ہے۔
دوسرا قول :اس دنیاسے متعلق ہے کہ جس میں دنیا کیلئے بیت المال سے غلط فائدہ اٹھایا جائے یہ قول مولا نے بیت المال کی تقسیم کے دوران فرمایا۔
خود قرآن کے اندر ہمیں سرمایہ دار افراد کی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔
سرمایہ دار قرآن میں
۱۔ قارون ۔گناہ کا سبب اور برایہ کا نمونہ
ہم نے قارون اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسادیا۔
(سورئہ قصص :آیت ۸۱)
۲۔سلیمان-۔انسان کی نجات کا سبب اور سعادت کا نمونہ
یہ محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں۔
(سورئہ نمل:آیت ۴۰)
نتیجہ :
اگر دنیا کے امکانات اور دولت سلیمان- جیسے افراد کے ہاتھوں میں آجائے تو نعمت ہے اور اگر قارون جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے تو عذاب ہے۔ حضرت امیر المومنین- کی دنیا سے مراد قارون والی دنیا ہے نہ کہ حضرت سلیمان- کی دنیا۔
آئمہ اطہار(علیہم السلام) اور سیاسی حکمت عملی
سیاست ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے یو ں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست کا لفظ قابل بحث ہے ہر کوئی اپنی نظر کے مطابق اسکی تعریف کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن یہاں پر ہم سیاست کے لفظ یا موضوع کو آئمہ(علیہم السلام) ک نظر سے دیکھیں گے(کیونکہ ہر امام سیاست دان تھے )اور پھر ان کی زندگی میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کو بیان کریں گے۔
حضرت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- نے اپنے اقوال زریں میں سیاست کی تعریف کچھ یوں کی ہے۔
"سِیَاسَةُ الْعَدْلِ ثَلاَثٌ لِیْنٌ فِیْ حَزْمٍ وَ اِسْتِقْصَاءٌ فِیْ عَدْلٍ وَ اِفْضَالٌ فِیْ قَصْدٍ"(غرر الحکم جلد ۱ ، صفحہ ۴۳۴)
عادلانہ سیاست تین چیزوں میں ہے
۱۔ اپنے کاموں میں میانہ روی اختیا ر کرنا ۔
۲۔عدالت کے اجراء میں تحقیق کرنا۔
۳۔مدد کے وقت میانہ روی اختیار کرنا۔
سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ- سے کسی نے پوچھا کہ سیاست کیا ہے امام نے جواب میں فرمایا:
سیاست خدا کے حقوق ،زندہ لوگوں کے حقوق اور مردہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے۔ خدا کے حقوق یہ ہیں کہ جس بات کا حکم دے اس کو انجام دیا جائے اور جس سے منع کرے اس سے پرہیز کیا جائے، زند ہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ لوگوں سے متعلق جو فرائض ہیں ان کو انجام دیا جائے ان کی خدمات کی جائے قائد اسلامی سے مخلص رہا جائے جب تک کہ وہ خدا سے مخلص ہے اور جب وہ منحرف ہوجائے تو اسکے خلاف آواز بلند کرنا اور مردہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرنا اور ان کی برائیوں کو یاد نہ کرنا کیونکہ خدا انکے اعمال کی باز پرس کیلئے موجود ہے۔(حیاة الحسن باقر شریف قرشی جلد ۱ صفحہ ۴۲)
مولائے کائنات ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"بِئْسَ السِّیَاسَةِ الْجَوْرِ"
ظلم کرنا بری سیاست ہے۔(غرر الحکم جلد ۱ صفحہ ۴۳۴)
اگر ہم مندرجہ بالا ارشادات سے نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ چند باتیں ہمارے سامنے آئیں گی کہ:
سیاست دو طرح کی ہے۔
۱۔مثبت سیاست ۲۔منفی سیاست
۱۔مثبت سیاست وہی ہے جو کہ احادیث میں بیان ہوئی اور اگرہم لغت کی طرف رجوع کریں تو بھی سیاست کے معنی یہی نظر آتے ہیں:
"سیاست یعنی کسی چیز کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا"۔
۲۔منفی سیاست یعنی ظلم کرنا ،ہرکام کو اسکے صحیح طریقے سے انجام نہ دینا یا آج کل کی دنیا میں سیاست کے رائج الوقت معنی دھوکہ بازی کے ہیں جسے "میکیاولی" کی سیاست کہا جاتاہے۔
گذشتہ باتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آئمہ(علیہم السلام)سیاست دان تھے کیونکہ انہوں نے ہمارے سامنے سیاست کے معنی بیان کئے۔
ایک اور دلیل کے ذریعے بھی ہم اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں سیاست کا عمل دخل تھا اور تمام آئمہ(علیہم السلام) سیاست دان تھے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا مشن اور مقصد فقط معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کو کمال کی منزل تک پہنچانا تھا اور یہی سیاست کے معنی بھی ہیں۔
قرآن انبیاء کے اس مقصد کی کچھ اس طرح نشاندہی کرتاہے۔
۱۔"لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ"
ہم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اوران کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔(سورئہ حدید :آیت ۲۵)
۲۔"الٓراٰوقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنہُاٰا اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ لا۵ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ"(سورئہ ابراھیم : آیت ۱)
(اے رسول یہ قرآن وہ)کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لئے نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو انکے پروردگار کے حکم سے کفر کی تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو سب پر غالب اور سز ا وار حمد ہے۔
۳۔ "اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنجِیْلِز یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثاَا وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ"(سورئہ اعراف :آیت ۱۵۷)
یعنی :"جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھاہواپا تے
ہیں ( وہ نبی )جو اچھے کام کا حکم دیتاہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں تو ان پر حلال اور ناپاک گندی چیزیں ان پر حرام کردیتاہے اور وہ (سخت احکام کا )بوجھ جو ان کی گردن پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر ( پڑے ہوئے) تھے ان سے ہٹادیتاہے۔"
ان آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء کی نبوت کا مقصد عدالت کا اجراء لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف ہدایت کرنا ، ظالم حکمرانو ں سے نجات دلانا اور ان کو ایمان کے پرچم تلے جمع کرنا تھا ، اور یہ بات واضح ہے کہ ان مقاصد کو حکومت (اقتدار) کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔
نتیجہ کے طورپر ہمارے سامنے تین چیزیں آتی ہیں:
۱۔ اسلام ایک کامل نظام حیات ہے اورسیاست اس کا ایک اہم حصہ ہے۔
۲۔ انبیاء اور آئمہ(علیہم السلام) اس سیاست کو (جو کہ ایک کامل نظام حیات کا اہم حصہ ہے)رائج کرنے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔
۳۔ اسلام نے غیبت کے زمانے میں ہم پر بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ڈالی ہے