بارہ خلفاء سے مراد بارہ امام ہیں

186

 

بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اموی اورعباسی خلفاء نے پیغمبر اسلام کی عترت طاہرہ پر ہر قسم کے مظالم روا رکھے ۔
اورمنطقی سے بات ہے کہ ان حکام کے اشارے پر اور ان کے زیر سایہ لکھی گئی کتابیں کہ جہنوں نے آل رسول کو قتل کیا اورکربلا کی تپتی ہوئی ریت کو اصحاب کساء کے پانچویں گوہرتابناک کے خون سے رنگین کرکے اولاد بتول کو ختم کرنے کی کوشش کی ان میں بارہ اماموں پر نصوص اورواضح احادیث بہت کم ہوں گی
کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ظالم اپنے آپ کو ذلیل اورپست کرکے اس روایت کی اجازت دے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو حضرت امام حسین کانواں فرزند بتا رہی یا یہ کہ بارہ خلفاء سے مراد شیعوں کے بارہ امام ہیں۔

 
 
 

سوائے اس روایت کے جو اس کی نگرانی سے باہر ہو اورجس کی خبراس کے کانوں تک پہنچے لیکن ان ساری سختیوں اورپابندیوں کے باوجود وہ حدیثیں سورج کی روشنی کیطرح پھیل گئیں ۔
اب ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کو ذکر کررہے ہیں کہ جو "الخلفاء اثنا عشر " "خلفاء بارہ ہیں" کی وضحت کرتی ہیں ۔
۱۔قندوزی حنفی نے ینا بیع المودة: میں خوارزمی حنفی کی کتاب المناقب سے نقل کیا ہے انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت امام رضا سے انہوں نے اپنے آباء واجداد سے اورپھر پیغمبر سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں علی سے لیکر مہدی ک بارہ اماموں کے نام واضح طور پر موجود ہیں۔
قندوزی اس روایت کے بعد لکھتے ہیں کہ اسے حموینی نے بھی ذکر کیا ہے (ینا بیع المودت ۳:۱۶۱باب ۹۳)یعنی کتاب فرائد السمطین کے مولف جو ینی حموینی شافعی نے ۔
۲۔ نیز ینا بیع میں اس عنوان"بارہ اماموں کا بیان ان کے ناموں کے ساتھ "کے تحت فرائد السمطین سے اس نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے اورانہوں نے پیغمبر سے ایسی دوحدیثیں نقل کی ہیں جن میں آئمہ کا ذکر ان کے ناموں کے ساتھ ہے ان میں سے پہلے علی اورآخری مہدی (ہنابیع المودة ۳:۹۹)
اوربالکل یہی چیز اس باب میں بھی ذکر خلیفہ النبی مع اوصیاء (ینابیع المودت ۳:۲۱۲باب ۹۳)کہتے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا
" یا جابر ان اوصیائی وائمہ المسلمین من بعد ی ،اولھم علی ثم الحسن ، ثم الحسین۔۔۔"
"اے جابر میرے اوصیاء اورمیرے بعد مسلمانوں کے اماموں میں سے پہلے علی پھر حسن پھر حسین ۔۔۔"
پھر حضرت امام حسین کی اولاد میں سے نواماموں کا ذکر فرماتے ہیں کہ ان میں سے پہلے حضرت زین العابدین اورآخری حضرت امام مہدی بن حضرت امام حسن عسکری علیھما السلام ہیں (ینابیع المودت ۳:۱۷۰ باب ۹۴)
۴۔ کمال الدین میں ہے "ہمیں بیان کیا حسین بن احمد بن ادریس نے انہوں نے اپنے باپ سے اس نے احمد بن محمد بن عیسی ٰ سے اورابراہیم بن ہاشم سے ان دونوں نے حسن بن محبوب سے انہوں نے ابوالجارور سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر سے انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں کہ
"حضرت فاطمہ کے پاس آیا توآپ کے سامنے ایک تختی تھی جس میں اوصیاء کے نام تھے میں نے شمار کیے تووہ بارہ تھے آخری مہدی تھے تین محمد اورچار علی علیھم السلام تھے(کمال الدین ۱:۳۱۳۔۴باب ۲۸)
اوراپنے طرق سے بھی ذکر کیا ہے احمد بن محمد بن یحییٰ عطار نے اپنے باپ سے انہوں نے محمد بن حسین بن ابو الخطاب سے انہوں نے حسن بن محبوب سے اس کے بعد وہی سابقہ سلسلہ سند ہے۔بعض لوگوں کا کہتے ہیں یہ روایت دووجہ سے صحیح نہیں ہے
اول:۔ پہلی سند میں حسین بن احمد بن ادریس ہے اوردوسری میں احمد بن محمد یحییٰ عطار ہے اوردونوں موثق نہیں ہیں۔
لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں مشایخ اجازہ ہیں اورصدوق نے اپنی جس کتاب میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ساتھ "رضی اللہ عنہ کہا ہے اورواضح ہے کہ یہ جملہ ایک فاسق شخص کے لیے نہیں کہا جاتا بلکہ کسی بزرگ شخص کے لیے کہا جاتا ہے اوراگر ہم تسلیم کرلیں کہ یہ جملہ وثاقت پر دلالت نہیں کرتا توبھی بہت بعید ہے کہ دونوں شخص اپنے باپ پر جھوٹ بولیں کیونکہ دونوں نے یہ حدیث اپنے اپنے باپ سے روایت کی ہے
ان کے صدق کی یہ بھی دلیل ہے کہ کلینی نے صحیح سند کے ساتھ ابوالجارود سے حدیث ذکر کی ہے اور سند کی ابتداء شیخ صدوق کے والد محمد بن یحییٰ عطار سے کی ہے انہوں نے محمد بن حسین سے انہوں نے ابن محبوب سے انہوں نے ابی الجارود سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر سے اورانہوں نے عبداللہ انصاری سے(اصول کافی ۱:۵۳۲حدیث۹باب ۱۲۶)
الخلفاء اثناعشر
خلفاء بارہ ہیں
ابو الجارود مطعون ہے پس سند حجتہ نہیں ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ ابوالجارود ایک تابعی ہے اور تابعی کو کہاں معلوم ہوسکتا ہے کہ اوصیاکے ناموں میں تین کا نام محمد اورچارکا نام علی ہے؟جب کہ یہ واقع کے مطابق ہے اورابو الجارود اس سلسلے کے مکمل ہونے سے دسیوں سال پہلے انتقال کرچکے تھے۔
علاوہ ازیں شیخ مفید نے اپنے رسالہ عددیہ میں انہیں موثق قرارد یا ہے( سلسلہ مولفات شیخ مفید (الرسالة الددیہ )جوابات اہل الموصل فی العددو الرویة طبع بیروت ۹:۲۵، اس میں انہیں حضرت امام محمد باقر کے صحابی فقہا میں شمار کیا ہے۔
اوران اعلام میں سے کہ جن سے حلا ل وحرام فتوے اوراحکام حاصل کئے جاتے ہیں اوران پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی جاسکتی اوران میں کسی کی کوئی مذمت نہیں کی جاسکتی)
اورپھر صدوق نے تختی والی حدیث کو باب کے اول میں اس کے ساتھ ذکر کیا ہے مجھے بیان کیا میرے باپ ااورمحمد بن حسن رضی اللہ عنہما)انہوں نے کہا ہمیں بیان کیا سعد بن عبداللہ بن جعفر حمریی نے انہوں نے ابو الحسن صالح بن حماد اورحسن بن طریف سے انہوں نے بکر بن صالح سے اوردوسری سند یہ ہے :۔
ہمیں بیان کیا مریے باپ محمد بن موسی متوکل ، محمد بن علی ماجیلویہ ، احمد بن ابراہیم ۔ حسن بن ابراہیم ناتانہ اوراحمد بن زیاد ہمدانی نے (رضی اللہ عنھم)انہوں نے کہا ہم نے بیان کیا علی بن ابراہیم نے اپنے باپ ابراہیم بن ہاشم سے انہوں نے بکر بن صالح سے انہوں نے عبدالرحمن بن سالم سے انہوں نے ابو بصیر سے اورانہوں نے ابو عبداللہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں سند یں بکر بن صالح تک صحیح ہیں لیکن بکر بن صالح کو ضعیف قرارد یا گیا ہے اوراس کا ضعیف ہونا یہاں مضر نہیں ہے کیونکہ معقول نہیں ہے کہ ایک ضعیف شخص ایک شئی کے بارے میں اس وقت سے پہلے خبر دے پھر وہ شئی اس کی خبر مطابق واقع ہوجائے اورپھر مخبر کو اس کے بعد سچا شمار نہ کیا جائے
چنانچہ وہ شخص حضرت امام موسی کاظم سے روایت کرتا ہے اسے مہدی تک ان کی اولاد کا علم کیسے ہوسکتا ہے؟
جبکہ ان کے طبقے سے ظاہرہوتا ہے کہ انہوں نے (حضرت امام ہادی علیہ السلام حضرت امام عسکری اورحضرت امام مہدی )کو نہیں پایا اوراس کی یہ مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پہلی سند میں بکر بن صالح سے روایت کرنے والے حسن بن ظریف کے مشایخ بن ابی عمیر (متوفی ۲۱۷ہجری)اوران کے طبقے والے لوگ ہیں ۔
۵۔ کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ الاثنی عشر"میں اس کے مصنف خزازنے کہ جو چوتھی صدی ہجری کے جید علماء میں سے ہے صرف وہ احادیث لکھی ہیں جو بارہ اماموں کے بارے میں ان کے نام کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ان سب روایات کو توذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔
لیکن کتاب کے مقدے میں جو کچھ ہے اسے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ کہتے ہیں "میں نے سب سے پہلے آئمہ علیھم السلام کو معین کرنے والی ان نصوص کو ذکر کیا ہے جن کی روایت پیغمبر اسلام کے مشہور صحابہ نے کی ہے جیسے عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن مسعود ، ابو سعید خدری ، ابوذرغفاری ، سلمان فارسی ۔ جابر بن سمرہ ، جابر بن عبداللہ ، انس بن مالک ، ابوہریرہ ، ایوب انصاری عمار بن یاسر ،حذیغہ بن اسید، عمران بن حصین ،سعد بن مالک ، حذیفہ بن یمان ،ابو قتادہ انصاری ، علی بن ابوطالب اورآپ کے دوفرزند حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین ۔
پھر آئمہ علیھم السلام سے وارد ہونے والی ایسی ہی روایات کو ذکر کیا ہے اور ہر امام کی بعد والے امام پر نص کو ذکر کیا ہے تاکہ انصاف پسند لوگ جان لیں اوراس پر ایمان لے آئیں اوراس طرح نہ ہو جیسے اللہ تعالی فرماتا ہے:۔
فما الختلفو الا من بعد ما جائھم العلم بغیابینھم
ان لوگوں نے علم آجانے کے بعد آپ میں ضد کی بنا پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا(کفایہ الاثر خزاز :۸۔۹مقدمہ)
۶۔ اورکمال الدین "میں محمد بن علی بن ماجیلویہ اورمحمد بن موسی بن متوکل سے انہوں نے محمد بن یحییٰ عطار سے انہوں نے محمد بن حسن صفار سے اورمحمد بن احمد بن ولید سے انہوں نے ابو طالب عبداللہ بن صلت قمی سے انہوں نے عثمان بن عیسی سے انہوں نے سماعة بن مہران سے ذکرکیا ہے کہتے ہیں عمران مکہ میں ایک گھر میں تھے
محمد بن عمران نے کہا میں نے حضرت امام صادق سے سنا تھا وہ فرمارہے تھے "ہم بارہ ہدایت یافتہ ہیں"۔
ابو بصیر نے ان سے کہا :قسم تونے یہ حضرت امام صادق سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے ایک یا دومرتبہ قسم اٹھاکر کہا میں نے ان سے سنا ہے توابوبصیر نے کہا میں نے تویہ حضرت امام محمد باقر سے سنا تھا(کمال الدین ۲:۳۳۵۔۶، اس کے ذیل میں بھی یہی ذکر ہے۔)
کلینی نے اسے محمد بن یحییٰ سے انہو ں نے احمد بن محمد سے انہوں نے محمد بن الحسین سے انہوں نے ابو طالب سے انہوں نے عثمان بن عیسی ٰ سے انہوں نے سماعة بن مہران سے انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے(اصول کافی ۱:۵۳۴۔۵۳۵۔۲۰باب ۱۲۶، اورمجلسی نے مرةآة العقول ۶:۲۳۵میں اسے حدیث مجہول شمار کیا ہے لیکن یہ قطعی اشتباہ ہے کیونکہ کافی والی سند کے تمام راویوں کو شیخ نجاشی اوران کے بعد والے سارے علماء نے ثقہ قرار دیا ہے اورظاہر ابو جعفر کے غلام محمد بن عمران کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کہ جس کی وثاقت پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی لیکن اس کا وجود مضر نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے ساتھ ایک ثقہ موجود ہے اورابو بصیر کی طرف سے حضرت امام محمد باقر سے حدیث کا سننا معلوم ہے توکیا عجب یہی حدیث امام صادق سے بھی سنی گئی ہو)
اورجیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کی سند میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے موثق ہونے میں شک وتردید کیا جائے اوراگر صدوق کی سند میں ممدوح ہے تواس کے پہلو میں ثقہ مامون بھی ہے جو بارہ خلفا والی حدیث کی وضاحت کرتی ہے کہ اس سے مراد کون ہیں
۷۔کافی میں انتہائی صحیح سند کے ساتھ مذکورہے :ہمارے کئی علما نے احمد بن محمد برقی سے انہوں ابو ہاشم داود بن قاسم جعفری سے انہوں نے ابوجعفر ثانی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں امیرالمومنین آئے اورحسن بن علی آپ کے ہمراہ تھے آپ سلیمان کے بازو کا سہاری لئے ہوئے تھے اوراس روایت میں سب بارہ اماموں یعنی علی سے لیکر مہدی بن حسن عسکری تک کا ذکر ہے(اصول کافی ۱:۵۲۵۔۱باب ۱۲۶)
ابو ہاشم سے بالکل اس طرح کی روایت کی ہے محمد بن یحییٰ کہتے ہیں میں نے محمد بن حسن سے کہا اے ابو جعفر اچھا یہ ہوتا کہ یہ خبر احمد بن ابو عبداللہ کے بغیر آئی ہوتی توانہوں نے کہا مجھے اس نے حیرة سے دس سال پہلے بیان کی تھی(اصول کافی ۱: ۵۲۶۔۲باب۱۲۶))
اورحیرة سے یہاں مراد امام مہدی کی ۲۶۰ئھ میں غیبت ہے،اوریہ وہی سال ہے جس میں امام عسکری نے وفات پائی اورمحمد بن یحییٰ نے جو کچھ کہا ہے یہ احمد بن ابی عبداللہ برقی پر تنقید نہیں کیونکہ یہ بالا تفاق ثقہ ہے
دراصل محمد یحیٰی کا خیال تھا کہ ان کے شیخ صفار کو جنہوں نے حدیث بیان کی ہے وہ امام عسکری یا امام ہادی کے زمانے میں فوت ہو چکے تھے اوروہ برقی نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ ۲۷۴ھئیا ۹۰ ۲ئتک زندہ رہے۔
کیونکہ ایک شئی نے واقع ہونے سے پہلے اس بارے میں خبر دینا پھر اس خبر کے مطابق شئی کا موجود ہوجانا یہ ایسا اعجاز ہے کہ جو اپنے ثبوت کے لیے اس کا محتاج نہیں ہے کہ اس کی روایت مشہور ہو اورراوی زیادہ ہوں کیونکہ اسے کسی بھی صورت میں جھٹلایا نہیں جا سکتا اگرچہ صرف ایک سند کے ساتھ دوسری ہو۔
پس صفار نے جوا ب دیا کہ جلیل القدر اورموثق روای برقی اسے غیبت سے دس سال پہلے حدیث بیان کی تھی۔
اورکسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایک غیر موثق شخص جو کسی شئی کے واقع ہونے کے بارے میں خبر دے رہا ہے تواس کی بات قبول کرنے کے لیے زیادہ وہی شرائط ہیں جو ایک خبر ضعیف کو قبول کرنے کیلئے ہوتی ہیں یا اس شئی کا خبر کے مطابق وقوع پذیر ہوجانا یہ بھی اس کے صدوق کی علامت ہے اگرچہ کتب رجال نے اسے ثقہ قرار نہ دیا ہو(اوراگر مخبر موثق ہو تو پھر بالاتفاق یہ شرط نہیں ہے کیونکہ فرض یہ ہے کہ وہ سچا ہے اورصدق کے بعد یہی ہوتا ہے کہ خبر واقع کے مطابق ہوجیسے عیسیٰ کے نازل ہو نے والا مسئلہ ، مہدی کا ظاہر ہونا ، دجال ک افتنہ وغیرہ اگرچہ ابھی تک ان میں کوئی رونما نہیں ہوا )
اسی طرح کلینی اورصدوق نے صحیح سند کے ساتھ ابان بن عیاش سے انہوں نے سلیم بن قیس ہلالی سے انہوں نے عبداللہ بن جعفرطیار سے انہوں نے پیغمبر سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں علی کے امام ہونے پر نص ہیان کے بعد ان کے فرزند حسن بھی آپ کے فرزند حسین پھر علی بن حسین پھر محمد باقر پھراس نے کہا کہ بارہ امام مکمل کیے ہیں اوران میں نوامام حسین کی اولاد میں سے ہیں(اصول کافی۱۔۵۶۹:۴باب ۱۲۵، کمال الدین ۱۔۲۷۰:۱۵باب ۲۴خصال ۴۷۷باب ۴۱ازابواب اثنی عشر)
اوران میں عبان بن عیاش کے ضعیف ہونے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکی اس نے ایسی شئی کے بارے میں خبر دی ہے جو اس وفات کے کئی سال بعد اس کی خبر کے مطابق وقوع پذیر ہوئی اورشیخ صدوق نے کمال الدین میں ایسی بہت سے روایات ذکر کی ہیں
لیکن غیر محقق لوگ کہتے ہیں کہ یہ احادیث معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کی سندضعیف ہے حالانکہ یہ ضعف ان راویوں میں ہے جو بارہ اماموں کے تاریخی تسلسل کے مکمل ہونے سے سالہا سال پہلے فوت ہو چکے ہیں ۔
اوریہ اعجاز امام زمانہ کے متعلق کثیر روایات میں ہے جیسا کہ شیخ صدوق نے لکھا ہے کہ آئمہ نے ا ن کی غیبت کی خبر دی ہے اوراسے اپنے شیعوں کو بتایا ہے اوریہ ساری باتیں ان رسالوں اورکتابوں میں محفوظ ہیں جو غیبت سے دوسو سال یا س سے کم وبیش پہلے لکھی گئی ہیں ۔
حضرت آئمة علیھم السلام کا کوئی ایسا پیروکا رنہیں ہے جس نے انہیں اپنی کتابوں اورتصنیفات میں ذکر نہ کیا ہو اوریہ کتابیں جنہیں اصول کے نام سے پہچانا جاتاہے یہ شیعوں کے یہاں غیب سے پہلے لکھی گئی ہیں ۔
جیساکہ میں نے اوپرذکر کیا ہے اورمجھے غیبت سے متعلق جو راویا ت ملی ہیں انہیں میں نے اس کتاب میں ذکر کردیا ہے۔
لہذاآئمة علیھم السلام کے یہ پیروکار جنہوں نے کتابیں لکھی ہیں یا توانہیں غیبت کے متعلق علم غیب تھا جسے انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے تویہ اہل عقل وعلم کے یہاں محال ہے یا انہوں نے اپنے کتابوں میں جھوٹ لکھا ہے۔
لیکن اتفاقا جو انہوں نے کہا تھا ویسا ہی ہو گیا اوران کی گھڑی ہوئی بات واقعیت اختیار کرگئی جب کہ ان کے نظریات مختلف اوران کے علاقے دور دور تھے یہ بھی محال ہے
پس یہی احتمال بچتا ہے کہ انہوں نے آئمہ علیھم السلام سے سن کے یاد کیا تھا جنہوں نے پیغمبر اکرم کی فرمائشات کی حفاظت کی تھی کہ جن میں انہوں نے غیبت اوراس کے بعد کے واقعات کا ذکر کیا تھا اوروہ ان کی کتابوں اوران کے اصول میں موجود ہیں ان ہی جیسی چیزوں سے حق غالب ہو گیا اورباطل شکت کھا گیا بیشک باطل شکست کھانے والا ہے (کمال الدین ۱۹:۱مصنف کا مقدمہ۔)
یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ جن اصول کی طرف شیخ صدوق نے اشارہ کیا ہے ان کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف شیخ صدوق کی نظر میں متواتر ہے جیسا کہ ہمارے لئے کمال الدین کی نسبت شیخ صدوق کی طرف متواتر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اخبار غیبت میں اگر پہلے ضعف تھا بھی تووہ ان کی صحت کیلئے مضر نہیں ہے کیونکہ یہ بلاواسطہ طور پر ان کتابوں سے نقل کی گئی ہیں۔
بہر حال ہمیں شیعہ روایات میں وہ چاہئے کہ جس کی سند امام تک پوری صحیح ہے یااس تک کہ جس نے امامت والے تسلسل کے مکمل ہونے سے پہلے اس کی خبر دی ہے چاہے خود اس کی وثاقت معلوم نہ بھی ہو۔

 
 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.