غير اسلامى علوم کا تعارف

258

 رياضيات:
ترجمہ كى تحريك كے دور ميں يونانى رياضى دانوں كى بہت سى كتابوں كو عربى ميں ترجمہ كيا گيا اوربہت جلد ہى اسلامى رياضى دانوں نے يونانى رياضى دانوں كى سطح علمى پرسبقت حاصل كرلى ،انكى كتابوں كى بہت سى شروحات لكھى گئيںاور انہوں نے علوم رياضى كو بہت وسعت بخشى اس دور ميں رياضى كى اہم ترين يونانى كتاب كہ جسكا عربى ميں ترجمہ ہوا اور اس كى بہت سى شروحات لكھى گئيں اقليدس كى كتاب ‘اصول’ تھي، ليكن مسلمان رياضى دانوں كا اہم ترين كردار علم رياضى كے فقط ارتقاء ميں ہى نہ تھا بلكہ يہ كردار مشرق و مغرب يعنى يونان و ہند كى رياضيات كے بہترين امتزاج يعنى اسلامى رياضيات كى شكل ميں سامنے آيا اور بنى نوع انسان كيلئے اسلامى رياضيات ايك قيمتى ترين دريافت كى حيثيت ركھنے لگى _
يہ اسلامى رياضيات كا ہى كارنامہ تھا كہ اس نے ہندسى رياضيات كى معلومات كو جس ميں اہم ترين يعنى اعشارى عدد نويسى كى روش كو رياضى كے ديگر يونانى قواعد كے ساتھ مخلوط كر كے ايك وحدانى شكل وصورت ميں ممكن كرتے ہوئے اہل مغرب كے سامنے پيش كيا، اگر چہ يونانى رياضيات اپنى چند ديگر شاخوں ميں مثلا مثلثات اوركروى علوم (spherical Seiences) ميں كافى ترقى كر چكى تھيں ليكن ايك سادہ عددنويسى كى روش نہ ہونے كى بناء پر يونان ميں علم اعداد ترقى نہ كرسكا تھا_
كلى طور پر اسلامى رياضى دانوں كے علم رياضى كى مختلف اقسام ميں ثمرات كو يوں بيان كيا جا سكتا ہے: اعشارى نظام كى تكميل كے ذريعہ ہندى عدد نويسى كے نظام كى اصلاح مثلاً اعشارى كسور كى اختراع ،اعداد كى تھيورى ميں جديد مفاہيم لانا،علم الجبرا كى ايجاد، علم مثلثات اور علوم كروي(spherical Sciences) ميں اہم اور جديد انكشافات كرنا، درجہ 2 اور 3 كے عددى معادلات اور مسائل كا جواب پانے كيلئے مختلف روشوں كى تخليق_

 
 
 

مسلمان ، مسلم رياضى دان رياضى دان محمد بن موسى خوارزمى كى كتاب’ الجمع و التفريق بالحساب الہند’ كے ذريعے ہند كى عددنويسى كى روش سے آشنا ہوئے ،خوارزمى كى يہ كتاب عالم اسلام ميں علم حساب پر لكھى جانے والى كتابوں ميںسے قديم ترين كتاب ہے اب صرف اسكا لاطينى زبان ميں ترجمہ باقى رہ گيا ہے ،خوارزمى كى اہميت كو اس لحاظ سے بھى جانچا جا سكتا ہے كہ يہ حساب كى پہلى كتاب ہے كہ جو عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي ، آج كے اہل مغرب رياضيات اور كمپيوٹر كے حوالے سے اشياء كے حساب و كتاب ميں معين روش بتانے كے ليے خوارزمى كا نام تحريف شدہ شكل ميں يعنى ‘ لاگر تھم (legarithms)’ كى صورت ميں ان پر اطلاق كرتے ہيں_
جناب خوارزمى نے علم الجبرا كو وجود ميں لانے ميں اہم كردار ادا كيا ، اگرچہ اسلامى دانشوروں سے پہلے يونان ميں علم الجبرا موجودتھا اور يونانى دانشورمثلا فيثاغورث ، ارشميدس اور ڈائفنٹس اپنى كتب ميں مسائل الجبرا كے حل كے قريب پہنچ چكے تھے مگر مسلمان علماء اور دانشور حضرات اپنى منطقى روش اور يونانى رياضى دانوں كى تنقيدى اصلاح كے سبب اس علم كے بانيوں ميں شمار ہوئے لہذا ، اسلامى دانشور حضرات كے نزديك علم الجبرا علم حساب كے فارمولوں كا دائرہ كار اعداد تك بڑھانے اور اعداد كى جگہ حروف كے استعمال كے ذريعے اعداد كے مابين تعلقات كى تحقيق شمار ہوتاہے ، بعض مقداروں كو متوازن كركے مجہول مقادير كو معلوم كرنا اور پھر انكو حل كرنا علم الجبرا كى اہم ترين دريافت شمار ہوتى ہے_
بلا شبہ علم الجبرا كى پہلى اور اسلامى دانشوروں كى اہم ترين كتاب ‘الجبر والمقابلہ’ جسے جناب محمد بن موسى خوارزمى نے تحرير كيا ، اس نام سے معنون كرنا بلا سبب نہيں ہے كيونكہ اس نام ميں علم الجبرا پر چھائي ہوئي كيفيت پنہا ن ہے يہاں ‘ جبر’ سے مراد ايك مسئلہ اور سوال كو منفى جملے كى صورت ميں استعمال كرنااور’ مقابلہ’ يعنى سوالات كو حل كرنے كيلئے مثبت جملات كو استعمال كرناہے ، اسلامى دانشوروں نے الجبراكو ايك علم كى شكل دى اور اسے ايك علم كى صورت ميں اور ايك علمى روش كے لحاظ سے مورد تحقيق قرار ديا ، مسلمان رياضى دانوں كا يہ گروہ كہ جسكا جناب خوارزمى سے آغاز ہوا تھا، خيام ، ماہانى ، ابوكامل شجاع بن اسلم ، ابوالوفاى بوزجانى ، خجندي، ابوسہل كوہى … و غيرہ ، كى كوششوں اور فعاليت سے اس كا م كو آگے بڑھا تا رہا_
الجبرا كے قواعد اور سوالات كى درجہ بندى بالخصوص درجہ اول ، دوم اور سوم كے كى مساواتوںكى تنظيم اسلامى دانشوروں كا علم الجبرا كو منظم كرنے اور اسے سائنس كا نام عطا كرنے ميں اہم قدم تھا، بالخصوص جناب خيام كہ جنہوں نے تيسرے درجہ كى مساواتوں كو حل كرنے ميں اہم كردار ادا كيا اور چونكہ اس حوالے سے پہلى بار انہوں يہ قدم اٹھا يا لہذا انكا كام كافى مركز توجہ قرار پايا، اسى طرح اسلامى رياضى دان وہ پہلے افراد ہيں كہ جنہوں نے الجبرا كو جيوميٹرى ميں داخل كيا اور الجبرا كى مساواتوںكے ذريعے جيوميٹرى كے مسائل كو حل كيا اس علم كى آشنائي اور تشريح كے حوالے سے اسلامى رياضيات كے مغرب ميں گہرے اثرات ہيں اور سب سے اہم يہ كہ الجبرا (algebra) كا لفظ مغرب ميں پايا جاتاہے جو كہ عربى كے كلمہ كى لاطينى شكل ہے (1)
خوارزمى كے كچھ عرصہ كے بعد ابوالحسن احمد بن ابراہيم اقليدسى جو كہ دمشق كے رياضى دان تھے وہ اپنى ہندسى رياضيات (geometric math) كے حوالے سے كتاب ‘ الفصول فى الحساب الہندسي’ ميں اعشارى نظام كو وجود ميں لائے، علم اعداد كى دنيا ميں ايك اور بہت اہم قدم عالم اسلام ميں پہلى دفعہ ابوالوفا بوزجانى نے اپنى بہت اہم كتاب ‘ كتاب فى مايحتاج اليہ الكتاب و العمال’ كے دوسرے حصہ ميں منفى اعداد كو وضع كرتے ہوئے اٹھايا،انہوں نے اس قسم كے كلمات كو ‘ دين ‘ كے نام سے استعمال كيا_
علم رياضى كے ديگر ابواب مثلا مثلثات اور ہندسہ (geometry) و غيرہ ميں بھى اسلامى دانشوروں نے انتہائي قيمتى آراء يادگار كے طور پر چھوڑيں ، ان ابواب ميں اسلامى دانشوروں نے مثلثات پر يونانى سليقہ سے بڑھ كہ جديد حقائق كو دريافت كيا كہ ان ميں سے كچھ انكشافات خواجہ نصير الدين طوسى كى كتاب’ شكل القطاع’ ميں موجود ہيں ، اس كتاب ميں جناب طوسى نے اپنى ذہانت سے علم مثلثات كے دونوں حصوں كے تقابل سے صحيح فائدہ اٹھايا ہے _
علم مثلثات كے دونوں حصوں ميں سے ايك تومثلثاتى جدولوں كا زاويوں كى تبديلى اور ہندسى اشكال كے سائز ميں كردار سے اور دوسرا ان مفروضوں ہے جو كہ يونانى مثلثات سے ہے ماخوذ تھے، ان ہندسى اشكالshapes geometricalكى وضاحت كے حوالے سے خواجہ نے ‘ شكل القطاع’ ميں اپنے پيش رو رياضى دانوں كى كوششوں اور كام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندسى اشكال ميں زاويوں كے با ہمى روابط پر قوانين كى دقيق وضاحت كرتے ہوئے، ان مثلثات كے جدولوں كو ترقى دي_
مثلثات كى پيش رفت كا بہترين نمونہ ، بالخصوص علوم كروى spherical Seiences ميںجنكے بارے ميں خواجہ نصير نے بھى اپنى كتاب’ شكل القطاع’ كا كچھ حصہ خاص كياہے، سہ بعدى جيوميٹرى كے اوصاف كو دوبعدى جيوميٹرى ميں تبديل كرنے ميں نظرآتاہے اور يہ كام بالخصوص مختلف اقسام كے اصطرلاب asterlabe كے بنانے ميں بہت اہميت كا حامل ہے_(۲)
رياضياتى اسلامى تاريخ (دوسرى صدى ہجرى سے اب تك)نے بہت سے رياضى دانوں كو كائنات كى علمى تاريخ كو ہديہ ميںديے ہيں ان افراد كے ناموں كى ايك بڑى فہرست پيش كى جاسكتى ہے مثلاً:
احمد بن عبداللہ مروزى جنكا لقب ‘ حبش حاسب ‘تھا صاحب كتاب فى معرفة الكرة و العمل ، ابوالعباس فضل بن حاتم نيريزى معروف كتاب’ شرح اصول اقليدس ‘ كے مضف ، موسى بن شاكر ان تين بھائيوں ميں سے ايك كہ جو ‘ بنو موسى ‘ كے نام سے مشہور ہيں كتاب’ معرفہ مساحة الاشكال البسيطة والكروية كے مصنف ، ابوالحسن ثابت بن قوة حرانى كہ جنكى رياضيات ميں بہت سى تاليفات ہيں مثلا كتاب ‘فى الاعداد المتحابة’، ابوالفتح محمدبن قاسم اصفہانى كى كتاب ‘تلخيص المخروطات ، ابوجعفر محمد بن حسين صاغانى خراسانى صاحب تفسير’ صدر المقالہ العاشرة من كتاب اقليدس’، ابوسعيد احمد بن محمد بن عبدالجليل سجزى صاحب كتاب فى مساحة الاكر بالاكر ، ابوالحسن على بن احمد نسوى صاحب كتاب ‘ الاشباع فى شرح الشكل القطاع، ابوحاتم مظفر بن اسماعيل اسفزارى صاحب كتاب اختصار فى اصول اقليدس ، غياث الدين جمشيد كاشانى بہت بڑے محقق اور بہت سى تصنيفات كے مالك مثلا مفتاح الحساب و رسالہ محيطيہ ، علاء الدين على بن محمد سمرقندى كہ جو ملا على قوشجى كے نام سے مشہور تھے رسالہ محمديہ كے مصنف ہيں … اور بہت سے افراد ہيں كہ جنكا نام اختصار كے پيش نظر ذكرنہيں كيا گيا_
2) نجوم
اسلامى علم نجوم كے حوالے سے اسلامى دانشوروں كى معلومات كا آغاز يونانى علم نجوم كى كتب كے ترجمہ بالخصوص بطليموس كى تاليفات كے ترجمہ سے ہوا، اسكى تاليفات كى شروحات لكھنے سے يہ معلومات بڑھتى رہيں پھر اسكے نظريات پر تنقيد شروع ہوئي اور آخر كار اسكے نظريے اور رائے كے خلاف كئي نظريات پيش ہوئے_ ان اسلامى دانشوروں كے يہ نظريات بعد ميں پيش كوپرينك كے نظريات كى شكل ميں شہرت پاگئے كيونكہ اس پولينڈ كے دانشور كوپرينك كى بطليموس كى تھيورى پر تنقيد سے كئي صديوں قبل يہ تمام اعتراضات اسلامى دانشور پيش كرچكے تھے_
اسلامى نجوم ميں ابتدائي اہم ترين معلومات چاہے نظرى ہوں يا رصد گاہوں كے ذريعہ حاصل شدہ بطليموس كى كتاب ‘ مجسطى ‘كے ترجمہ سے حاصل ہوئيں عالم اسلام ميں اس كتاب كے كم از كم تين تراجم اور متعدد شروحات سے ہم واقف ہيں كتاب مجسطى كا عالم اسلام ميں مطالعہ ايسے مكتب كو وجود ميں لانے كا باعث بنا كہ جسكا كام ستاروں كا جائزہ لينے كيلئے رصد گاہوں ميں فعاليت كرنا اور علم نجوم كے مخصوص جدول (فلكياتى جنتري) كہ جنہيںعربى ميں ‘زيج’ كہا جاتاہے تيار كرنا تھا، عالم اسلام ميں دوسرى صدى سے بارہويں صدى ہجرى تك لكھى جانے والى فلكياتى جنتريوںكى تعداد 220 تك ہے، علم نجوم كے ان تمام اسلامى ماہرين نے ان جنتريوںميں كوشش كى ہے كہ دقيق انداز سے ستاروں كى خصوصيات اور انكے متعلقہ حقائق كو دريافت كريں ان كى كوششوں كى بدولت فلكى اجرام كے متعلق دقيق و عميق معلومات سامنے آئيں ،ان ميں ايك اہم ترين فعاليت شمسى سال كى مدت كو معين كرنا تھا _
شمسى سال كى مدت كے تعين كے ليے اسلامى ماہرين فلكيات كے بہت زيادہ فلكياتى مشاہدات كے باعث ‘كبيسہ’ يعنى سال كے آخرى ماہ ميں ايك دن كے اضافے سے متعلق مختلف محققانہ طريقے اور روشيں سامنے آئيں ، جو كہ عالم اسلامى ميں بنائي جانے والى انواع و اقسام كى تقاويم اور جنتريوں ميں استعمال كے ليے تجويز كى گئيں_
اسلامى ماہرين كے فلكياتى تقاويم كى تيارى كے ليے مسلسل فلكياتى مشاہدات كى بدولت ‘ تقديم اعتدالين’ كے مفہوم تك رسائي ممكن ہوئي تقديم اعتدالين يعنى كئي سالوں ميں زمين كى محورى حركت كى بدولت ہر سال دائرة البروج كے طول ميں 50 سيكنڈ قوسى كا اضافہ ، اسلامى ماہرين فلكيات نے بتدريج اپنے مشاہدات كے دوران ستاروں كے دائرة البروج كى خصوصيات كے بارے ميں اپنى حاصل كردہ معلومات اور بطليموس كى فراہم كردہ معلومات ميں فرق كو محسوس كرليا اور تقريبا سبھى نے اپنى اپنى فلكياتى تقويم ميں تقديم اعتدالين كے فرق كو تحرير كيا ہے ، ان سے سے ايك اہم ترين كوشش جابر بن عبداللہ بتّانى نے انجام دى انہوں نے تقديم اعتدالين كى مقدار2/50 سكينڈ قوسى تك دريافت كى _ (۳)
بطليموس كى زمين كو محور او ر مركز عالم قرار دينے والى تھيورى كہ جسے اسلامى ماہرين فلكيات كى پہلى نسل نے بھى قبول كيا تھا اسكى اساس يہ ہے كہ زمين جہان كے مركز ميں ہے اور سورج و چاند اور ديگر چارسيارے زمين كے گرد دائروں ميں چكر لگارہے ہيں ليكن اس تھيورى كے مطابق زمين كے نزديك دو سيارے يعنى عطارد اور زہرہ قدماء كے مشاہدات فلكى كے مطابق سورج سے كچھ معين مراتب دور ہوچكے ہيں اور 360 درجہ كا راستہ ‘ دايرة البروج’ كے خطوط پر طے نہيں كرتے ، بطليموس كى زمين كو مركز قرار دينے والى تھيورى كے مطابق يہ دونوں سيارے ان خاص خطوط پر رواں ہيں كہ جو سورج كے مركز سے خارج ہوكر ان سياروں كے مركز كو اپني لپيٹ ميں لے ليتے ہيں اور سورج كے ساتھ زمين كے گرد حركت كرتے ہيں، اس روش سے بظاہر يہ ہوا كہ آسمان ميں ان دو سياروں كى حركت نظام شمسى كے حقائق سے مطابقت كر جائے ليكن اسلامى ماہرين فلكيات كے دقيق مشاہدات نے اس تھيورى ميں شك و ترديد كا بيچ بوديا ، ان مشاہدات فلكى كا اہم ترين ثمرہ ابن سينا كى ‘مجسطي’ پر شرح ہے_
ساتويں صدى ہجرى ميں خواجہ نصيرالدين طوسى نے كتاب ‘مجسطي’ پر نئے سرے سے تجزيرو تحليل ميں ذكر كياہے كہ :ابن سينا نے تحرير كيا ہے كہ ‘سيارہ زہرہ سورج كى سطح پر تل كى مانند ديكھا گيا ہے’ ابن سينا كى اس تحرير نے بطليموس كے زمين كو مركز قرار ديے نظريہ ميں بہت زيادہ شكوك و شبہات پيدا كيے، كيونكہ اس نظريہ كے مطابق زہرہ سيارے كا سورج كى سطح پر ديكھا جانا يعنى گويا اسكا سورج كى سطح سے عبور كا ممكن نہ ہونا ہے، يہيں سے خواجہ نصيرالدين طوسى نے بعنوان شارح كتاب مجسطى بطليموس كے زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ پر بہت اہم اعتراضات كيے، انكى نگاہ ميں گويا بطليموس كى نظر كے مطابق ستاروں كازمين كے گرد گھومنا حقائق سے مطابقت نہيں ركھتا تھا جب جناب طوسى عالم اسلام كے مشرقى علاقے ميں ان شبہات كا اظہار كر رہے تھے تو اسى زمانہ ميں جناب بطروحى اشبيلى اندلس كے مسلمان ماہر فلكيات ، عالم اسلام كے مغربى علاقے يعنى ہسپانيہ كى اسلامى مملكت ميں ايسے ہى اعتراضات اور ترديد كا اظہار فرما رہے تھے _
اس كے علاوہ ديگر بہت سے اسے موارد ہيں كہ جن ميں ہم ديكھتے ہيں كہ اسلامى ماہرين فلكيات نے بطليموس كے نظريات پر ترديد اور شك و شبہہ كا اظہار كيا _
فلكيات اور فزكس كے مشہور اسلامى د انشور جناب ابن ہيثم نے اپنى كتاب ‘ الشكوك على بطليموس’ ميں بطليموس كى زمين كے گرد سيارات كى حركت كو ثابت كرنے كى رياضياتى روش اور اسكے ان حركات كى وضاحت كيلئے بنائے گئے پيچيدہ سيسٹم پر حقائق كو ديكھتے ہوئے تفصيلى اعتراضات اور تنقيد كى ہے_
ابوريحان بيرونى نے كتاب قانون مسعودى ميں ‘ مجسطي’ كے پيش كردہ فلكى قواعد اور قوانين پر تتفيد كى ، اور بطروحى اشبيلى نے سرے سے زمين كے گرد سيارات كى گردش كے نظم و ترتيب كے حوالے سے بطليموس كى رائے كى مخالفت كى _ زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ بطليموس پر تنقيدات اور اعتراضات خواجہ نصير كے زمانہ ميں عروج پر پہنچ گئے ، جناب طوسى نے اپنى شہرہ آفاق كتاب’ التذكرة فى الہيئة ‘ ميں بطليموس كى رائے پر دقيق انداز سے اپنے اساسى ترين اعتراضات بيان كيے ہيں_
يہ اعتراضات زمين كے گرد سيارات كى گردش كى ترتيب كے علاوہ سيارات كى گردش كى رياضياتى كيفيت كے اثبات كے طريقے پر بھى كيے گئے ہيں،جناب طوسى بطليموس كے زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ كى بناء پر سيارات كى حركت كے بارے ميں ديے جانے دلائل كى كمزورى سے آگاہ تھے، لہذا انہوںنے تہہ در تہہ كرات كى صورت ميں سياروں كى حركت كے مختلف ماڈلز پيش كر كے كہ جو علم نجوم كى تاريخ ميں ‘ جفت طوسي’ كے نام سے معروف ہوئے ، بطليموس كى رائے پر قوى ترين اعتراضات اٹھائے ، طوسى كے كچھ مدت بعد ابن شاطر نے بھى طوسى كى مانند بطليموس كے نظريہ ميں سيارات كى رياضياتى حركت كو ثابت كرنے كے طريقہ پر تنقيد كى ، انكے بعد مويد الدين عرضى دمشقى نے بھى بطليموس پر نقادانہ نگاہ ڈالي_
آج تقريباً ثابت ہوچكا ہے كہ كپلر اور كوپرنيك كہ جنہوں نے علم فلكيات كے اہم ترين انكشاف يعنى سورج كو نظام شمسى كا محور قرار دينے كے نظريہ كى بنياد ركھى وہ اسلامى دانشوروں كى آراء بالخصوص خواجہ نصير كے نظريات سے بہت زيادہ متاثرتھے، يہ چند افراد كہ جنكا نام ليا گيا ہے ان كے علاوہ بھى اسلامى علم فلكيات نے بہت سے ماہرين عالم بشريت كو عطا كيے ہيں، مثلا محمدبن موسى خوارزمى كہ جنكى تاليف زيج السند ہے ، بنو صباح تين ماہرين فلكيات كہ جنكا نام ابراہيم ، محمد اور حسن ہے انہوں نے كتاب’ رسالة فى عمل الساعات المبسوطة بالہندسة فى ايّ اقليم اردت’ تحرير كى ، ابن يونس كہ جو’ زيج كبير حاكمى ‘كے مصنف ہيں الغ بيگ كہ جو مشہور دانشور اور سياست دان تھے اور كتاب زيج الغ بيگ كے مصنف ہيں اور نظام الدين عبدالعلى بيرجندى كہ جو فاضل بير جندى كے عنوان سے معروف ہيں اور كتاب ابعاد و اجرام كے مصنف ہيں_
3_ فزكس اور ميكانيات:
ميكانيات كا علم مسلمانوں كے ہاں ‘ علم الحيل’ كہلاتا تھا ‘ علم حيل’ قديم علماء كے نزديك آلات كا علم ہے اور ان تمام آلات كا تعارف كرواتا ہے جو كہ جو مختلف كام انجام ديتے ہيںاگر چہ بعض نظريات جو كہ علم الحيل سے متعلقہ كتب ميں ملتے ہيں ان كى جڑيں مشرق بعيد (چين جاپان و غيرہ ) اور ايران كے خطے ميں پائي جاتى ہيں_
يہ بات قطعى طور پر كہى جاسكتى ہے كہ اسلامى انجي نرنگ مشرق وسطي( عرب ممالك ، ايران، و افغانستان …) اور بحيرہ روم كے خطے كے نقش قدم پر رواں دواں تھى ، مصرى اور روميوں نے ميكانيات ميں بہت ترقى كى تھى ليكن اس حوالے سے يونانى لوگوں كا كردار سب سے زيادہ تھا ، بغداد ميں بنى عباس كے بڑے خلفاء كے دور ميں بہت سى يونانى اور كچھ سريانى كتب كا عربى ميں ترجمہ ہوا تھاكہ جن ميں فيلون بيزانسى (بوزنطى ) كى كتاب پيونميٹك، ہرون اسكندرانى كى كتاب مكينكس اور پانى والى گھڑيوں كے بارے ميں ارشميدس كے رسالے كا نام ليا جاسكتا ہے _
مسلمان انجينئروں كى استعداد و لياقت كا تجزيہ كرنا سادہ كام نہيں ہے، مسطحہ ہندسہ plane geometry ميںآلات كو بنانے اور انكى تنصيب كے ليے ، حساب اور پيمائشے ميں مہارت ضرورى تھي، اگر چہ آلات كو جوڑنے اور انكى تنصيب كے ليے كوئي منظم معيار موجود نہيں تھا، مگر اسكے باوجود مسلمان انجينرز كا جديد آلات ( جيسے خودكار مجسمہ اور مكينكل فوارہ) كو بنانے ميں كاميابى كى وجہ يہ تھى كہ وہ ان آلات كو بنانے كے ليے statics كے علم سے استفادہ كرتے تھے اور اسى وجہ سے مطلوبہ پارٹس كو كاٹ بھى سكتے تھے اور انكى ڈھلائي كے بعد انكى تنصيب بھى كرليتے تھے(۴)
عالم اسلام كے سب سے پہلے انجنيرحضرات تين بھائي بنام احمد، محمد اور حسن كہ جو موسى بن شاكر كے بيٹے تھے اور بنو موسى كے عنوان سے مشہور تھے ،بنو موسى كى كتاب الحيل سب سے پہلى تدوين شدہ كتاب تھى كہ جو عالم اسلام ميں مكينك كے حوالے سے جانى پہچانى تھى ، اس كتاب ميں سوكے قريب مشينوں كى تفصيل بيان ہوئي ہے كہ جن ميں سے اكثر خودكار سيسٹم اور سيال مكينكى خواص كے ساتھ كام كرتى تھيں، ان مشينوں ميں مختلف انواع كے خودكار فوارے ، پانى والى گھڑياں ، مختلف انواع كے پانى كو اوپرلانے وا لے وسائل، كنويں كے رہٹ اور خودكار لوٹے و غيرہ شامل ہيں ، ان تين بھائيوں كى تحقيقات كے حوالے سے قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ ان لوگوں نے يورپ سے پانچ سو سال پہلے اور فنى علوم كى تاريخ ميں پہلى بار crank shaft پہيے كے دھرے (كا وہ پرزہ جو اسكو عمودى اور دورى دونوں حركتيں دے سكتاہے) كو استعمال كيا (۵)
دوسرے مشہور اسلامى انجنيئركہ جو ميكانيات ميں شہرہ آفاق تھے جناب ‘جزرى ‘تھے وہ چھٹى صدى ہجرى كے دوسرے اواخر يا ساتويں صدى كے آغاز ميں شہر’ آمد’ جسے آج كل ‘ ديار بكر’ كہا جاتاہے، ميں رہا كرتے تھے انكى ميكانيات كے بارے ميں مشہور كتاب كا نام ‘كتاب فى معرفة الحيل الہندسية يا الجامع بين العلم و العمل النافع فى ضاعة الحيل’ ہے كہ جسے انہوں نے دياربكر كے امير كى درخواست پر لكھا، جزرى كى كتاب علم و عمل كا مجموعہ ہے يعنى يہ كتاب نظرى ہونے كے ساتھ ساتھ عملى ہونے كے ناطے سے بھى پہچانى جاتى ہے _
جناب جزرى ‘ رئيس الاعمال’ يعنى انجنيرؤں كے سر براہ كے مقام پر بھى فائز تھے اوررسم فنى ( مختلف اشياء كے قطعات اور تصاوير كے ذريعے رياضياتى قواعد كى روشنى ميں خوبصورتى اور آرائشے كا فن ) كے ہنر ميں مہارت ركھتے تھے اسى طرح وہ اپنے ذہن ميں آنے والے تمام موضوعات كى تشريح اور آسان يا پيچيدہ ہر قسم كے آلات كى توصيف كرنے ميں استاد تھے، انكى كتاب مكينيكل اورہائيڈرولك (Hydroallque) وسائل و آلات كے حوالے سے قرون وسطى كى بہترين تاليف ہے ،اس ميں انہوں نے واقعا علم و عمل كے مابين نظرى مباحث اور عملى طريقوں كو بيان كيا ہے يہ كتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے :
(1) آبى اور شمعى گھڑياں (2) تفريحى آلات (3) ہاتھ پاؤں دھونے اور وضو كرنے كے وسائل (4) دائمى چلنے والے فوارے (5) پانى كو اوپر كى طرف كھينچے والى مشينيں(6) ديگر مختلف اقسام كے وسائل اور آلات جو روزمرہ كے معمولى كاموں ميں استعمال ہوتے ہيں ،اس كتاب كى قدرو قيمت صرف اس ميں بيان شدہ مختلف روشوں اور طريقوں كى اہميت كے پيش نظر نہيں ہے بلكہ ہر آلے كى ايجاد كا طريقہ تمام تفصيلات كے ساتھ اور ايك ماہر شخص كى زبان سے بيان ہوا ہے(۶)
ابوالفتح عبدالرحمان خازى ايك اور اسلامى ماہر ميكانيات اور طبيعيات ہيں وہ شہر ‘مرو ‘ميں پيدا ہوئے سلجوقى حكمرانوں كے اداروں ميں امور علمى ميں مشغول تھے، انكى مشہورترين تاليف’ ميزان الحكمة ‘ ( 515 ہجرى قمرى ميں لكھى گئي) ہے كہ جو علم الحيل كى اہم ترين كتابوں ميں سے ہے ہايڈورلك ، ہايڈروسٹيٹك بالخصوص مركز ثقل كے بارے ميں انكے نظريات، اجسام كا توازن اور مخصوص كثافت پيمائي (كسى چيز كے گاڑھے پن كى پيمائشے) اوپر اٹھانے كے آلات ، ترازو، وقت كى پيما ئشے كے آلات ، چيزوں كے بنانے اور ان سے بہتر استفادہ كرنے كے تمام فنون ميں انكى آراء و نظريات انكى مكانيات ميں بے پناہ مہارت و استعداد كو ظاہر كرتے ہيں _
اس حوالے سے ديگر دانشوروں ميں سے ابن ہيثم بصري، جيانى قرطبى اور ابوريحان بيرونى كا نام ليا جاسكتا ہے كہ ابوريحان كى پانچ مواد اور معدنيات كى مخصوص كثافت سمجھنے كيلئے تحقيقات اس قدر بيسويں صدى كے قواعد و معيار كے قريب ہے كہ سب حيرت زدہ رہ گئے ہيں _
جب بھى ہم اسلامى انجنيروں كى اختراعات پر ايك محققانہ نگاہ ڈاليں توكھيل، شعبدہ بازى اور پانى كو اوپر لانے والے انواع و اقسام كے آلات كے علاوہ علم حيل كے ميدان ميں مسلمانوں كا اہم ترين كارنامہ يورپ والوں كو بارود اور آتشى اسلحہ سے آشنا كرواناہے، آتشى اسلحہ كے استعمال كا ذكر چھٹى صدى ہجرى ميں خصوصاً شہروں كے محاصرہ كے دوران ملتاہے، ابن خلدون نے كتاب ‘ العبر’ ميں آتشى اسلحہ كى مختلف اقسام كے استعمال اور وہ بھى تو پوں اور ابتدائي دستى توپوں يا بندوقوں كے استعمال كى حد تك نہيں بلكہ افريقا كے مسلمان بادشاہوں كے دور ميں مختلف انواع كى پھينكنے والى مشينوں كا بھى ذكر كيا ہے_
اس قسم كے مشينوں كے حوالے سے بعض اسلامى دانشوروں كى تحقيقى آراء مثلاً ، شہاب الدين بن فضل اللہ العمرى ، ابن ارنبخاء اور حسن الرماح كى تاليفات ہميں آتشى اسلحہ كى عجيب و غريب دنيا سے آشنا كرواتى ہيں(۷)
4 ) طب
علم طب ان سب سے پہلے علوم ميں سے ہے كہ جو مسلمانوں ميں رائج ہوئے اس علم كى اہميت اس حد تك تھى كہ ابدان كے علم كو اديان كے علم كے ہم پلہ شمار كيا جاتا تھا، اسلامى تمدن ميں طبى علوم كے تجزيہ و تحليل ميں ايك اہم نكتہ علم طب كا بہت جلد علاقائي رنگ اختيار كرنا ہے ، اسميں شك نہيں كہ ميڈيكل اور طب كے حوالے سے كلى حيثيت كى نظرى معلومات مسلمانوں تك يونانى تاليفات كے ترجمہ بالخصوص بقراط اور جالينوس كى تاليفات كے ترجمہ سے پہنچيں، ليكن بہت سے ايسے مسائل كہ جنكا مسلمان اطباء كو اپنے مريضوں كے حوالے سے سامنا كرنا پڑتا تھا وہ اسلامى مناطق اور انكى خاص آب و ہوا سے متعلق تھے كہ ان مسائل كا ذكر يونانى كتابوں ميں موجود نہيں تھا اور يہ واضح سى بات ہے كہ گذشتہ لوگوں كى كتابوں ميں انكے ذكر كى عدم موجودگى كى بنا پر اسلامى اطباء ہاتھ پر ہاتھ ركھ كر نہيں بيٹھ سكتے تھے، لہذا ان مسائل كے حوالے سے نئي آراء اور روشيں سامنے آئيں_
رازى كى كتاب ‘الحاوي’ ميں جن بيماريوں كا تجزيہ كيا گيا ہے ان بيماريوں كى تعداد كى نسبت كہيں زيادہ ہے كہ جنكا تذكرہ جالينوس اور بقراط اور ديگر يونانى دانشوروں كى تاليفات ميں موجود ہے اسلامى طبى تاريخ ميں ايك اور اہم اور برجستہ سنگ ميل ابن سينا كى كتاب ‘قانون ‘ہے_
اہل مغرب كى تمام طبى تاريخ ميں اسطرح طب كے تمام موضوعات پر مشتمل جامع اور انسائيكلوپيڈيا طرز كى كتاب ابھى تك وجود ميں نہيں آئي تھى بلادليل نہيں ہے كہ كتاب قانون لاطينى زبان ميں ترجمہ كے بعد بہت ہى سرعت سے اہل غرب كے دانشوروں اور ڈاكٹروں كى مورد توجہ قرار پائي اور انكے ميڈيكل كالجوں ميں ايك درسى مضمون كے عنوان سے تدريس ہونے لگي_ (۸)
ليكن اسلامى طب ميں ترقى اور نئي اختراعات صرف يہيں نہيں رك گئيں اسلامى طب ميں اہم ترين نتائج اسوقت سامنے آئے كہ جب كچھ اسلامى اطباء نے جالينوس كے آراء اور اپنے تجربات كے نتائج ميں اختلاف كا مشاہدہ كرنے كے بعد اسے بيان كيا لہذا اسلامى دانشوروں ميں سب سے پہلے ابونصر فارابى نے جالينوس پر تنقيد كي، انہوں نے اپنے رسالہ بہ عنوان ‘الرد على الجالينوس فيما نقض على ارسطا طالين لاعضاء الانسان’ ميں كلى طور پر انسانى بدن كے اعضاء كى تشكيل و ترتيب كے حوالے سے جالينوس اور ارسطو كى آراء ميں موازنہ كيا اور اپنى رائے كو ارسطو كے حق ميں ديا ، احتمال ہے كہ فارابى كى يہ طرز فكر ان تمام اعتراضات كا سرچشمہ بنى كہ جنہيں انكے بعد بوعلى سينا نے جالينوس پر تنقيد كرتے ہوئے پيش كيے _
اسى طرح جناب رازى كہ جو طب ميں عظيم مقام كے حامل تھے اور طب ميں جامع نظر ركھتے ہوئے صاحب رائے تھے انہوں نے بھى طب ميں جالينوس كے نظريات پر اہم تنقيد كى ہے ،رازى كے جالينوس كى آراء پر اہم ترين اعتراضات ديكھنے ، سننے اور نورانى سايوں اور لہروں كا جسم سے آنكھ تك پہنچے كے حوالے سے سامنے آئے جناب رازى ديكھنے كے عمل كو جالينوس كى رائے كے بالكل برعكس سمجھتے تھے كہ نورانى سايے آنكھ تك پہنچتے ہيں نہ يہ كہ آنكھ سے نور پھوٹتاہے جيسا كہ جالينوس نے كہا اسى تنقيد و اعتراض كے سلسلے ميں بو على سينا نے جالينوس كى طبى آراء كو واضح طور پر مہمل اور بے معنى كہا _
ليكن جالينوس كى طبى آراء پر سب سے اہم اعتراضات كہ جو مشہور ہونے كہ ساتھ ساتھ اسلامى طب ميں قابل فخر مقام ركھتے ہيںوہ ابن نفيس دمشقى نے چھٹى صدى ہجرى ميں پيش كيے جناب ابن نفيس اہل تجربہ اور صاحب نظر تھے اور اسلامى طب ميں ايك عظيم ترين انكشاف كا باعث بنے اسى ليے گذشتہ صديوں ميں انہيں اسلامى مصنفين كے درميان جالينوس عرب (اسلامي)كا لقب ملاكر جو مختلف جگہوں پر رازى كو بھى ديا گيا ہے ، انہوں نے اپنى دو كتابوں (1) ‘شرح تشريح قانون ‘كہ جوكہ كتاب قانون كے پہلے سے تيسرے باب كى كى شرح كے عنوان سے لكھى گئي (2) شرح قانون كہ جو قانون ميں پيش كيے گئے تمام موضوعات كى شرح ہے ان دو كتابوں ميں اپنے اہم ترين انكشاف يا دريافت :بہ عنوان ‘گردش ريوى خون ‘Pupmonary blood circupationكى تشريح كى ہے، انيسوں صدى ميں آكرجديد سائنس ابن نفيس كى اس اہم دريافت سے آشنا ہوئي ، جالينوس كى رائے كے مطابق خون كى گردش كى صورت يہ ہے كہ خون شريان كے ذريعے دل كى دائيں حصے ميں داخل ہوتاہے اور دل كى دائيں اور بائيں سائيڈوں كے درميان پائے جانے والے سوراخوں سے خون دل كے بائيں حصے ميں داخل ہوكر پھر بدن ميں گردش كرتاہے ليكن ابن نفيس نے يہ لكھاكر خون دل كے دائيں حصے سے اور وريدكے ذريعے پھيپھڑوں ميںجاتاہے كہ اور جب وہ پھيپھڑوں ميں ہوا كے ساتھ مخلوط ہوتاہے پھر ايك اور وريدكے ذريعے دل كے بائيں حصے ميں جاتاہے اور وہاں سے پورے بدن ميں پہنچتاہے، بلا شبہ ابن نفيس نے يہ معلومات انسانى بدن كى چيرپھاڑ كے بعد سے حاصل كيں ،قبل اسكے كہ اٹلى كے طبيب ‘ ميگل سروٹو’ اسى بات كى وضاحت كرتے وہ تين صدياں قبل ہى سب كچھ روشن كرچكے تھے لہذا ضرورى ہے كہ اس انكشاف كو سروٹوسے منسوب كرنے ميں شك و ترديد كى جائے _
سروٹونے اسلامى طب كى تاليفات كے لاطينى زبان ميں ترجمہ كے ذريعے ابن نفيس كى آراء سے آگاہى حاصل كى يا پہلے سے اس كشف سے بے خبر خود وہ اس راز تك پہنچے اس حوالے سے دنيا كى طبى تاريخ ميں بہت سى مباحث ہوئيں ابن نفيس، فارابي، ابن سينا اور چند ديگر اسلامى دانشوروں كے نظريات كو اكٹھا كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلامى طب ، طب كے غير جالينوسى ماڈل كو بنانے ميں بہت سنجيدہ تھى (۹)
طب سے وابستہ علوم كى اقسام ميںبنيادى اور تخليقى ترين تحقيقات آنكھ كى طبى حيثيت كے متعلق ہے آنكھ كے مسلمان اطباء نے آنكھ كى بيماريوں اور انكے علاج كے حوالے سے يونانى ڈاكٹروں اور آنكھ كے يونانى طبيبوں كى آراء ميں اضافے كےساتھ ساتھ خود بھى بہت سى بيماريوں كى تشخيص اور انكے علاج كى مختلف صورتيں پيش كيں ، آنكھ كے مختلف اقسام كے آپريشن، موتيا نكالنا يا آنكھ كے قرينہ ميں اكھٹا ہونے والا اضافى پانى نكالنا اسى طرح آنكھ كيلئے مختلف قسم كى نباتاتى ، معدنياتى اور حيواناتى ادويات و غيرہ انہى تخليقات كا حصہ ہيں_
آنكھ كے علاج كے حوالے سے تمام مسلمان اطباء ميں دو افراد كا كردار سب سے زيادہ اور واضح ہے ان ميں سے ايك حنين بن اسحاق كہ جو كتاب ‘ العشر مقالات فى العين’ كے مصنف ہيں اور دوسرے على بن عيسى جو كتاب ‘ تذكرة الكحالين ‘ كے مصنف ہيں_
ان دونوں ميں سے ہر ايك كتاب آنكھ كے علاج ميں بہت سى اختراعات اور جدت كا باعث بنى اور ان كتابوں كے مصنفين آنكھ كے علاج كے سب سے پہلے مسلمان اطباء ميں سے كہلائے ،اس بات كو مان لينا چاہيئے كہ اسلامى دنيا ميں آنكھ كے علاج رائج ہونے كے سات صديوں كے بعد يورپ اس قابل ہوا كہ آنكھ كے مسلمان اطباء كى تمام اختراعات كو كراس كرسكے_
جڑى بوٹيوں كى تشخيص اور نباتاتى ادويات كے ميدان ميں بھى كم و بيشى يہى كيفيت ہے كہ يونان كى اس حوالے سے اہم ترين كتاب كہ جو جڑى بوٹيوں كے اسلامى ماہرين كے ہاتھوں پہنچى وہ كتاب ‘الحشائشے’ تھى كہ جيسے وسطى ايشاء كے ايك مصنف ڈيوسكوريڈس نے پہلے صدى عيسوى ميں تحرير كيا يہ كتاب حنين بن اسحاق اور تحريك ترجمہ كے كچھ دوسرے مترجمين كے قلم سے عربى ميں ترجمہ ہوئي اس سارى كتاب ميں تقريبا پانچ سو جڑى بوٹيوں كے ادوياتى خواص بيان ہوئے تھے، حالانكہ رازى كى كتاب ‘ الحاوي’ ميںنباتاتى دوائيوں كے باب ميں تقريباًسات سوكے قريب جڑى بوٹيوں ادوياتى خواص بيان ہوئے ہيں يہ تعداد ايك اور اہم ترين طبى كتاب كہ جو اسلامى اطباء كى دواشناسى كا واضح ثبوت ہے ،يعنى ابن بيطار كى كتاب ‘ الجامع لمفردات الادوية والاغذية’ ميں يہ تعداد چودہ سو تك جا پہنچى ہے، گويا ڈپو سكوريڈس كى كتاب سے تين گنا زيادہ جڑى بوٹيوں كااسميں تذكرہ ہوا ، جڑى بوٹيوں كى تعداد كے حوالے سےبے مثال ترقى اور سرعت كيساتھ تحقيق بتاتى ہے كہ اطباء اور اسلامى ماہرين نباتات بجائے اسكے كہ وہ ڈپوسكو ريدس كى پيروى تك محدود رہتے بذات خود نئي دريافتوں اور نباتات كے ادوياتى خواص كو جاننے ميں مصروف عمل تھے(۱۰)
5_ كيميا
كيميا كا مقولہ علم، فن اور جادو پر اطلاق ہوتا تھا كہ بتدريج كميسٹرى پر اطلاق ہونے لگا كيميا كا موضوع ايك روحانى قوت كے جسے غالباً ‘ حجر الفلاسفہ’ كا نام ديا گيا ہے كى موجودگى ميں مواد كو تبديل كرنے سے متعلق تھا، كيميا ان پنہان علوم كى ايك قسم ہے كہ جنہيں اصطلاحاً ‘كلُّہ سر ‘كہا جاتاہے يہ اصطلاح پانچ علوم كے پہلے حروف سے بنائي گئي ہے وہ پانچ پنہانى علوم يہ ہيں كيميا ، ليميا، ہيميا، سيميا، ريميا _
كيميا ميں اس مادہ كے بارے ميں گفتگو كى جاتى تھى كہجسے استعمال كرنے سے معمولى دھاتيں جيسے لوہا و پيتل و غيرہ كا سونا چاندى ميں تبديل ہوجانا ممكن ہوجاتاہے، اس مادہ كو كيميا گر ‘ اكسير ‘ كہتے تھے، اسلامى علم كيميا ميںجو ظہور اسلام كے بعد پہلى صدى ہجرى ميں بہت سرعت سے پيدا ہوا اور آج روايتى طور طريقے كا حامل ہے ان بارہ صديوں ميں بہت سى كتابيں اس حوالے سے تاليف ہوئي ہيں كہ جن ميں اس ہنر پر بحث ہوتى رہى ہے ان ميں سے سب سے اہم ترين مجموعہ جابر بن حيان سے متعلق ہے كہ جو نہ صرف يہ كہ عالم اسلام بلكہ مغربى دنيا ميں بھى علم كيميا كے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے ميں انكى ہى وجہ سے مسلمانوں ميں علم كيميا توہماتى ہنر سے تجرباتى سائنس كى صورت ميں سامنے آيا _
جناب جابر خالص مايعات مثلا پانى ، شيرہ ،گھى اور خون و غيرہ كى تقطير (۱۱) كيا كرتے تھے اور وہ يہ سمجھتے كہ ہر بارجب بھى پانى كى تقطير كريں تو سابقہ خالص مادہ پر تازہ مادے كا اضافہ ہوجاتاہے يہانتك كہ يہ عمل تقطير سات سو بارتك جاپہنچے، انكى نظر ميں سونے كو حرارت دينے اور عمل تقطير كے ايك ہزار مراحل سے گزارنے كے بعد اكسير تك پہنچا جاسكتاتھا_
جناب جابر سے منسوب كتابوں كى تعداد اسقدر زيادہ ہے كہ ان ميں بعض كى انكى طرف نسبت مشكوك ہے بعض اہل مغرب كے دانشوروں اور محققين كے نزديك ايسى كتابيں اسماعيلى فرقہ كے پيروكاروں نے چوتھى صدى ہجرى ميں تاليف كيں_
جابر كے بعد مشہور اسلامى كيمياگر بلاشبہ محمد بن زكريا رازى ہيں جناب رازى علم طب سيكھنے سے قبل كيمياگر تھے منقول ہے كہ حد سے زيادہ كميكل تجربات كى بناء پر انكى نظر كمزور ہوگئي تھى اسى ليے مايوس ہوكر انہوں نے كيمياگرى چھوڑ دى ، جناب رازى اپنے آپ كو جابر كے شاگرد شمار كرتے تھے انہوں نے اپنى بيشتر كتب جو كيميا كے حوالے سے تحرير كيںانكے نام بھى جابر كى كتب كى مانند ركھے ہوئے تھے ، ليكن جابر كا علم كيميا فطرت كو بعنوان كتاب تكوين جانتے ہوئے اسكى باطنى تفسير و تاويل پر مبنى تھا كہ يہ چيز شيعہ اور صوفى مذہب ميں عقيدے كا ايك ركن ہے _
جابر كے نزديك ہر علم بالخصوص كيميا كے تمام اشياء كے باطنى معنى كى تاويل كى روش كا استعمال اسكى ظاہرى نمود سے بھى ربط ركھتاہے اور اسكے رمزى و باطنى پہلو سے بھى مربوط ہے ، رازى نے روحانى تاويل كا انكار كرتے ہوئے كيميا كے رمزى پہلو سے چشم پوشى كى اور اسے كميسٹرى كى صورت ميں پيش كيا ، رازى كى كيميا ميں اہم ترين كتاب ‘ سرّ الاسرار’ اصل ميں ايك كيمسٹرى كى كتاب ہے كہ جو كيميا كى اصطلاحات كے ساتھ بيان ہوئي ہے(۱۲) اس كتاب ميں كيمسٹرى كے طريقہ كار اور تجربات كا ذكر ہوا ہے كہ جسے خود رازى نے انجام ديا ہے ان كو كيميكل كى جديد صورتوں مثلا تقطير،تكليس (ہوا كے ساتھ گرم كرنے كا عمل (calcination) تبلور (كسى مايع يا گيس ميں شيشہ بنانے كا عمل (crystalization)كے مطابق سمجھا جاسكتاہے رازى نے اس كتاب اور اپنى ديگر كتب ميں بہت سے آلات مثلا قرع (Retort) بڑے پيٹ والا شيشے كا ظرف تقطير جيسے اعمال كے ليے(۱۳) ، انبيق (مايعات كى تقطير اور عرق نكالنے كا آلہ يا ظرف) (۱۴) ديگ اور تيل سے چلنے والے چراغ كے بارے ميں تشريح كى ان ميں سے بعض چيز يں ابھى تك استعمال ہورہى ہيں_
چوتھى صدى ہجرى ميں بوعلى سينا اور فارابى نے اكسيرات اور كيميا سے مربوط بعض موضوعات پر لكھا، ليكن ان دونوں ميں سے كسى نے كيميا كے حوالے سے جدا كوئي رسالہ يا كتاب نہيں لكھى ، اس دور اور اسكے بعد كے ادوار ميں ديگر كيمياگران ميں سے جناب ابوالحكيم محمد بن عبدالمالك صالحى خوارزمى كہ جنكى كتاب كا نام ‘ رسالہ عين الصنعة و عون الصناع’ ہے انكے بعد ابوالقاسم عراقى كہ جو ساتويں صدى ہجرى ميں موجود تھے انہوں نے كتاب ‘ المكتب فى زراعة الذہب ‘ كو تحرير كيا اسى طرح ساتويں صدى ہجرى اور آٹھويں صدى ہجرى كے آغاز كے كيميا دان جناب عبداللہ بن على كاشانى بھى معروف ہيں _
اسلامى ادوار ميں آسمان كيميا پر آخرى درخشندہ ستارہ جناب عز الدين جلد كى ہيں كہ انكى تاليفات انكے زمانہ اور بعد ميں درسى مضمون اور معلومات كا منبع شمار ہوتى تھيں كتاب ‘ المصباح فى اسرار علم المفتاح اور البدر المنيرفى اسرار الاكسير ‘ انكے كيميا كے حوالے سے كتابوں كے چند نمونے ہيں(۱۵)
1) ابوالقاسم قربانى ، زندگينامہ رياضيدانان دورہ اسلامى ، تہران ، ص 246 ، 238_
۲) زندگينامہ رياضيدانان دورہ اسلامى ، ص 508 ، 486_
۳) كرلو آلفونسو ناليف، تاريخ نجو م اسلامي، ترجمہ احمد آرام، تہران 1349 ص 220_200_
۴) ڈونالڈر ہيل، ملينك انجيڑنگ مسلمانوں كے درميان ص 5،4_
۵) دانشنامہ جہان اسلام ،ج 4 ذيل بنى موسي_
۶) ابوالعز جزرى ، الجامع بين العلم و العمل ، النافع فى ضاعة الحيل، ترجمہ محمد جواد ناطق ،ص 43،41_
۷)دانشنامہ جہان اسلام ج 1 بارود كے ذيل ميں_
۸)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 4 ابن نفيس كے ذيل ميں_
۹)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 4 ابن نفيس كے ذيل ميں_
۱۰)كيميا بمعنى سونا بنانے كا علم اور كميسٹرى بمعنى اشياء كے اجزا اور انكى بناوٹ كا علم _
۱۱)تقطير ايك كيميائي عمل ہے كہ جسميں حرارت كے ذريعے قطرہ قطرہ نكالا جاتاہے_
۱۲)كسى چيز كو 950 درجہ پر حرارت دينا _
۱۳)كوٹ كوٹ كر زرہ زرہ كرنے والا آلہ_
۱۴)عرق نكالنے والا آلہ_
۱۵)سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ،ترجمہ احمد آرام ، ج2 ص 234 تہران ،على اصغر حلبى ،تاريخ تمدن اسلام ،ج 1، ص 213 ، 323، 233_

اقتباس از اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي مترجم: معارف اسلام پبلشرز

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.