عدالت علی (ع)
عدالت علی (ع)
عدالت کی تعریف:العدل ماقام فی النفوس انہ مستقیم وھو ضد جور والظلم
عدل ایسی صفت ہے کہ جو نفس میںقائم یا نفس کے ساتھ راہ مستقیم پر چلے،یہ ظلم و جور کی ضد ہے۔(١)
فقہ کی کتب میں عدل کی تعریف:وضع کل شیٔ فی موضعہ یا فی محلہ
ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا، پھر عدالت کے متعلق مفسر کبیر مرحوم طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیںکہ عدالت کا مفہوم عام ہے کہ جو فردی واجتماعی امور کو شامل ہے،عدالت کا معنی سب اشیاء میں برابری و مساوات ایجاد کرنااور سب انسانوں کو مساوات کی منزل میں قرار دینا۔(٢)
١۔ مولائے کائنات عدل کے متعلق متعدد تعبیرات نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں
العدل ھوالانصاف والاحسان التفضل ،،عدل انصاف ہے اور احسان لطف وکرم ہے۔(٣)
٢۔مولائے کائنات کے کلام اقدس میں دوسری تعبیرکچھ اس طرح ہے:
العدل یضع الامور ہو مواضعھاوالجود یخرجھا: عدل یعنی تما م امور کوان کے موقعہ ومحل پر رکھنااور سخاوت ان کو ان کی حدود سے باہر کردیتی ہے۔(٤)
٣۔تیسری تعبیر یہ ہے کہ جب مولا سے توحید و عدل کی تعریف دریافت کی گئی تو فرمایا: التوحید ان لا تتوھمہ والعدل الّا تتمّہ(حکمت ٤٧٠) توحید یہ ہے کہ تم اس پر تہمت نہ باندھو یعنی خداپر الزامات نہ لگاؤ۔ جب بھی اس سے اپنے تصوراورخیال کے پابند بناؤ گے وہ خد اہی نہیں رہے گا اور عدل یہ ہے کہ ظلم و قبیح کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں ان کو ذات باری تعالیٰ سے نفی کی جائے اور اسے ان چیزوں سے متھم نہ کیا جائے،کہ جو بُری اور بے فائدہ ہیںاور جنہیں عقل اس کے لئے کسی طرح تجویز نہیں کرسکتی جیسے قدرت باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ”وتمت کلمة ربک صدقا رعدلالامبدل لکلمة” ان مذکورہ عدل کی تعریفوں سے یہ بات واضح و روشن ہوتی ہے کہ اگر عدل کے معانی پر غور وفکرکی جائے تو مجموعہ تعریفات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی پر اگرنگاہ دوڑائے تو زندگی کا ہر لمحہ عدل کا متقاضی ہو اپنی زندگی کے سب امور میں عدل سے کام لینا چاہیے جس طرح کہ اس کا بہترین نمونہ مولائے کائنات حضرت امیرالمؤمنین علی (ع) کی پُربرکت زندگی ہے دوسری چیز یہ کہ عدل کے مقابلے میں اس کی ضد ظلم ہے۔زندگی کے کسی ایک لمحہ میں ظلم نہ ہو کہ جس طرح حضرت علی (ع) اپنے خطبہ ٢٢١ میں مولا فرماتے ہیں :۔ خدا کی قسم!مجھے سعدان(ایک خاردارجھاڑی)کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا اور طوق زنجیر میں مقیدہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ و رسول سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پرظلم کیا ہویامال دنیامیںسے کوئی چیزغضب کی ہو میں اس نفس کی خاطر کیونکرکسی پر ظلم کرسکتاہوں جوجلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے بخدا میں نے(اپنے بھائی)عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے)گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فقر و بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ان کے چہرے پر نیل چھڑک کرسیاہ کردئیے گئے ہیں وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پا س آئے اور اسی بات کو باربار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کان دیکر سنا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑکران کی کھینچ تان پران کے پیچھے جاؤںگا مگر میں نے کیایہ کہ ایک لوہے کے ایک ٹکڑے کو تپایااور پھران کے جسم کے قریب لے گیاتاکہ عبرت حاصل کریں چنانچہ وہ اسی طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے پھر میں نے ان سے کہا اے عقیل رونے والیاں تم پر روئیں کیا،تم لوہے کے اس ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جیسے ایک انسان نے ہنسی مزاق میں (بغیر جلانے کی نیت سے)تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہوکہ جس سے خدائے قھار نے اپنے غضب سے بھڑکایاہے تم اذیت سے چیخواور میں جہنم کے شعلوںسے نہ چلاوّں۔یہ صرف ادعا نہیں ہے ، انھوں نے عملی طور سے ثابت کردیا کی جو کچھ فرماتے ہیں منزل عملی میں اس سے زیادہ پابند ہیں۔(5)
اس سے عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ” ایک شخص رات کے وقت(شہدمیں) گندھا ہوا حلوہ ایک سربند برتن میں لئے ہوئے ہمارے گھرپرآیا کہ جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھاگیا ہے۔
میں نے اس سے کہا کہ یہ کس بات کا انعام ہے یازکات ہے یا صدقہ ہے کہ ہم اہلبیت ٪ پر حرام ہے؟
تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے
تو میں نے کہا کہ اے پسر مردہ عورتیں تم پر روئیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے آیا ہے ؟کیا تو بہک گیا ہے یا پاگل ہوگیاہے ؟
یا یوں ہی ہذیان بک رہا ہے، خدا کی قسم ! اگروہاں چیزیں جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دی جائیں صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جوکا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا یہ دنیا میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ حقیر اور بے قیمت ہے جس سے ٹڈی اپنے منہ میں رکھے ہوئے ہے کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔
علی (ع) کو دنیا کی فانی نعمت اور اس کی بے ثبات یامٹ جانے والی لذت سے کیا واسطہ؟ ہاں مولائے کائنات کی پوری زندگی سرچشمہ عدل تھی اور امام ایسے سلطان عادل تھے کہ عدل کو امام کے وجود پر ناز تھا عدل امام کے لباس میں ملبوس تھا،
امام علی (ع) عدل کی بہترین مکمل تصویر تھے۔ امام علی (ع)اپنے ایک فرمان میں بیان فرماتے ہیں ”الانصاف شیمة الاشراف” انصاف اشراف کا شیوہ ہے(6) پھرفرماتے ہیں ”مع الانصاف تدوم الاخوة” انصاف کے ساتھ ہی اخوت کودوام ملتا ہے(7) امام (ع) کلمات قصار(8)میں فرماتے ہیں: عدل کو بروئے کار لاؤ اور ناحق ظلم و شدت کی طرف میلان سے دور رہو کیونکہ شدت لوگوں کو ترک وطن پر اور ظلم انہیں تلوار کی طرف بلاتا ہے عدل لوگوں کے لئے استحکام کا باعث ہے عدل سلطان کی فضیلت ہے، امام عادل موسلادھار بارش سے بہتر ہے۔ لہٰذا مولائے کائنات ایک ایسے امام عادل تھے۔ کہ جس کے بارے میں ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ(9) پر لکھتا ہے سب سے افضل والی و حاکم وہ ہے جس کی یاد عدل کے ذریعہ باقی رہے اور اس کے بعد آنے والا اسی سے مدد حاصل کرے۔ امام (ع) نے اپنی زندگی کے آغاز سے آخری لمحاتِ زندگی تک عدل سے کام لیا کہ جب حضرت کو محراب مسجد میں ابن ملجم ملعون نے زہر سے بھیگی ہوئی تلوار سے وار کیا حضرت کا سراقدس شکافتہ ہوا گھر لے گئے ابن ملجم ملعون کو پکڑ کر لائے تو حضرت نے فرمایا ! دیکھو!حسن بیٹا اگر میں اس ضربت کی وجہ دنیا سے رخصت ہوگیا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا یہ ہے امام (ع) کے عدل کی دلیل کہ اپنے قاتل سے بھی عدل سے کام لیا اور امام باقر (ع) سے منقول ہے کہ مولائے کائنات نے جب قنبر کو دستور دیا کہ کسی پر حد جاری کرو تو غلطی سے تین کوڑے زیادہ لگائے تو مولائے کائنات امام عادل نے قنبرکو تین اضافی کوڑے لگائے ”ان امیرالمؤمنین امر قنبر ان یضرب جلًدا حدًا فغلط قنبر فزاد ثلاثہ اسواط فاقادہ علی من قنبر ثلاثہ اسواط”(10)”العدل خیر الحکم”عدل بہترین قضاوت ہے لہٰذا امام کا عدل زمانے بھر کی سرسبزی وشادابی سے بہتر ہوتا ہے۔
علی (ع) معلم عدالت تھے امام کے خطوط،خطبوں اور اپنے مددگاروں کو دئے گئے آپ کے فرامین میں ہمیشہ رعایا کی ایک ایک فرد کے ساتھ عدل سے پیش آنے کی بات کہی گئی ہے۔
مالک اشتر سے امام نے فرمایا: ولیکن احب الامور الیک اوسطہا فی الحق واعجمھا فی العدل واجمعہا نظر میں پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو زیادہ تر حق مشاہدہ پر ہو ،اس کا عدل عمومی ہو اور اس میں رعایا کی خوشنودی زیادہ سے زیادہ شامل ہو،
عدل کی اہمیت
جب زیادبن ابی کو عبداللہ بن عباس کی قائمقامی میں بھیجا تھا تو مولا نے فرمایا عدل کی روش پر چلوبے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں گھربار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا(11)
امام علی (ع) نے عدل کی اہمیت پر ایک علم کادریا بہادیا ہے یا جگہ جگہ پر عدل کی سفارش فرمائی ہے اور ظلم کی مذمت اور ظالم کے خلاف احتجاج امام کاا پنی زندگی میں ایک معمول تھا ۔
ایک مقام پر فرماتے ہیں عدل اسلام کے ستونوں میں سے چار شعبوں میں بٹا ہوا ہے:۔
عمیق فہم، ٍگہرائی علم، حسن قضاوت اور استحکام حلم،
لہٰذا جو سمجھ گیاوہ علم کی گہرائیوں سے روشناس ہوگیا اور جو علم کی گہرائیوں سے واقف ہوگیا وہ احکام کے سرچشموں سے سیراب نکل آتا ہے اور جو حلم اختیار کرتا ہے وہ کام میں کوتاہی نہیں کرتا اور اسی لئے وہ لوگوں کے درمیان قابل ستائش بن کررہتا ہے(12)
پھرفرماتے ہیں بالسیرة العادلة یقھر المناوئی ”عادلانہ روش کے ذریعہ مخالف کو شکست دی جاسکتی ہے(13) عدل کو سخت گیری پر مقدم رکھو گے تو محبت کی کامیابی سے ہمکنار ہوجاؤگے جو اپنے ماتحت افراد کے ساتھ عدل روا رکھتا ہے وہ اپنے سے بلندوالوں سے عدل پاتا ہے(شرح ابن ابی الحدید ج ٢٠ ص ٣٠٨) ”یوم العدل علی الظالم اشدّمن یوم الجور علی المظلوم”ظالم کے خلاف عدل کا دن مظلوم پر ظالم کے ظلم کے دن سے زیادہ شدیدوسخت ہوگا (1٤)
امام علی (ع) اپنی زندگی میں اس حد تک عدل کی رعایت کرتے تھے کہ حتی اپنے اصحاب پر بھی رعایت نہ کرتے۔ مصقلہ بن مبیرہ شیبانی جو امام کا کارندہ تھا چند قیدیوں کوپانچ لاکھ درہم پر خرید کیا اور دو لاکھ درہم بیت المال سے دئیے جب امام کو پتہ چلا تو امام نے اس کو کوفہ بلوایا اور اس سے بیت المال کا مطالبہ کیا اور اسے چند دن کی مہلت دی تو مہلت کے ایام میں رات میں امام کو چھوڑکر معاویہ کے پاس پناہ گزین ہوا تو امام نے دستور دیا کہ اس کے گھر کو ویران کردیا جائے تاکہ درس عبرت حاصل کرے(1٥) تو دیکھیں امام نے عدل کے معاملے میں ذرا برابر نرمی نہ برتی بلا شبہ حکام اور والیوں کی آنکھوں کا بہترین نور ملکی سطح پر عدالت کا قیام اور قوم کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرنا ہے اور رعایاکے دلوںکی سلامتی کے بغیر ان کی محبت ظاہر نہیں ہوسکتی لہٰذا اگر ملک کے ذمہ دار افراد قوم کے سلسلہ میں عدل کی روش اختیار کریں تو دل ان کی طرف راغب ہوں گے امام علی (ع) اپنی حکومت کے دوران جنگ نہروان کے بعد اپنے ایک خط میں فرمایا :”الذلیل عندی عزیز حتی اخذ الحق لہ والقوی عندی ضعیف حتی اخذ الحق منہ” پست و ذلیل میرے نزدیک عزیز ومحترم ہے یہاں تک میں لوگوں سے اس کا حق لے لوں اور قوی میری نظر میں کمزور ہے یہا تک کہ میں اس سے حق لے لوں۔
امام کو خبر دی جاتی ہے کہ اہل مدینہ کا ایک گروہ معاویہ سے مل گیا ہے تو آپ نے مدینہ میں اپنے عامل و گورنر سہیل بن حنیف انصاری کو اس مضمون کا ایک خط لکھا”مجھ تک خبر پہنچی ہے کہ کچھ لوگ مل گئے ہیں ان لوگوں کا ہاتھ سے کھودینا تمہیں غمگین نہ کرے ان کی گمراہی اور تمہارے دل کی تسلی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق سے گریزاں ہو کر ردی اور جہالت کی طرف بھاگے ہیں یہ لوگ اہل دنیا ہیں اور دنیا کے پیچھے بھاگے ہیں۔
”وقد عرفوا العدل ورأوة و سمعوہ وعوہ ان الناس عندنا فی الحق اسوة فغربو الی الاثرة فبھٰذا لہم و سحقًا انّہم واللہ لہم ینفروا من جور ولم یلحقو العدل ” (١6) ان لوگوں نے عدل کو پہنچانا،دیکھا،سنا اور سمجھاہے اور یہ اچھی طرح جان لیا ہے کہ ہماری نظر میں حق کے اعتبار سے سب برابر ہیں اس کے بعد بھی وہ طبقہ بندی اور غلط کاری کی طرف گئے ہیں ! لعنت ہو ان پر۔
خدا کی قسم ان لوگوں نے ظلم و جور سے فرار نہیں کیا اور عدل کے سایہ میں پناہ نہیں لی ہے۔
امام کے ماننے والے اگر کماحقہ امام سے اپنا رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی میں عدل کو اہمیت دیں حق کا ساتھ دیں اور باطل سے سازش نہ کریں۔
امام عادل کی فریاد
مؤلائے کائنات حضرت امیرالمؤمنین علی (ع)کو پے در پے یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے اصحاب آپ کے مقْبوضہ شہروں پرتسلط جمارہے ہیں اور اس کے عامل عبیداللہ بن عباس اور سپہ سالار لشکر سعیدبن نمران ،بسر بن ارطات سے مغلوب ہوکر حضرت کے پاس پلٹ آئے تو آپ نے اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بددل ہوکر منبرپر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا: یہ عالم رہا اس کوفہ کا جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے(اے شہر کوفہ)اگر تیرا یساہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تجھے غارت کرے پھر آپ نے شاعر کا یہ شعر بطور تمشیل پڑھا”اے عمرو! تیرے اچھے پاپ کی قسم میں تو اس برتن(خلافت)سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی لی ہے جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے۔
مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسربن ارطاة یمن پر چھاگیا ہے بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگاہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیالیں گے اس لئے کہ وہ (مرکز)باطل پر متحد ویکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز)سے پراکندہ و منتشرہو، تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے(ظالم)امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں وہ اپنے ساتھی(معاویہ)کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اورتم شورش برپا کرتے ہو میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا امین بناؤں تو یہ ڈررہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑکر لے جائے گا ۔ اے اللہ وہ مجھ سے تنگ دل ہوچکے ہیں اور میں ان سے ، وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے……
پھر امام باطل متحد لوگوں اور حق سے منتشر لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں پھر عادل امام کے ماننے والے اور ظالم امام کے ماننے والوں میں کتنا فرق ہے۔
امام عادل کی یہ فریاد کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جسے ایک لکڑی کے پیالے کا امین بناؤں، امام انتہا ہی کرب و درد کا اظہار فرماتے ہیں اب امام اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہے ہیں اگر اس کا کوئی ساتھی ہے ،کوئی غم خوارہے کوئی ہمدم ہے تو صرف اور صرف اس کا احساس ذمہ داری جو اسے معاشرے سے منسلک کئے ہوئے ہے اس کی امامت ہے جو لوگوں سے ملنے پرمجبور کرتی ہے ! ورنہ جب وہ اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں تو پھر وہی نظرآتا ہے اور یہ تنہا ہے تنہائی کی تلاش کرتے ہیں اور آبادیوں سے دور دور ان اجنبیوں سے دور، بہت دور،کسی تاریک کنویںمیں منہ ڈال کر اپنا حال دل کہتے ہیں صرف اس لئے کہ اس کی یہ فریاد ،اس کی سرد آہیں کسی پست فطرت اور کم ظرف کانوں تک نہ پہنچیں کوئی کوتاہ نظر اسے نہ دیکھ سکے یہ سرد آہیں کیوں؟ان کی یہ سسکستی ہوئی آواز کیوں بلندہوتی ہے؟افسوس کہ یہ سرد آہیں سب کے لئے عقدہ لاینحل ہیں ! یہ سسکیاں سب کے لئے معمہ ہیں حتی کہ اُن کے چاہنے والے ان کے شیعہ یہ نہیں جانتے کیوں؟کیا اس لئے کہ خلافت چھن گئی؟! یا اس لئے کہ فدک غصب کیاگیا؟ کیا اس لئے کہ منصب کسی اور نے چھین لیا ؟کیا اس لئے کہ اس منزلت کو ۔۔، یا خدا جانے۔کیاوجہ ہے؟ ایک تنہا عدل پرور روح۔
اس دنیا میں جو ان کے لئے اجنبی ہے اس معاشرے میں جس میں وہ زندگی گزاررہے ہیں لیکن وہ اپنے کو ان کی سطح پر نہیں لاسکتے وہ سطح جو جہالت و ظلم کی سطح ہے وہ سطح جو قبائلی نظام و لوٹ مار کی پیداوار ہے وہ اپنی اس بلندوبالا منزلت سے اس قدر نہیں نیچے اترسکتے کہ ان کے ساتھ نظر آئیں وہ جو خود خواہشوں میں لگے ہوئے ہیں وہ جو لوٹ مارکوایمان بنائے ہوئے ہیں !وہ جو دنیا میں غرق ہوئے جارہے ہیں !وہ جو ظلم و ستم میں اپنے ہاتھ رنگیں کئے جارہے ہیں !مولائے کائنات اپنے آپ کو اس سطح پرہرگز نہیں لاسکتے اس وقت کے معاشرے میں کیا قدرت وایمان کی کمی تھی ؟ نہیں بلکہ عدم معرفت کی ان مسائل سے کہ جن پر ہمارا اعتقاد ہے امام کے ساتھ رہ کر امام کی معرفت نہیں رکھتے تھے یعنی اگر امام آجائیں یہ ہزار عیب نکالنے پر تل جائیں گے عدل وانصاف کا جنازہ صرف ان لوگون نے نہیں پڑھا کہ جو اس وقت تھے اب بھی عدل کہاں ہے ۔
اگر امام علی (ع) نہیں لیکن نہج البلاغہ میں مولا کے اصول و دستورات تو ہیں کتنا ان پر ہم عمل پیر اہیں خود یہ کتاب شریف
(نہج البلاغہ)کتنے لوگوں نے خریدکر اپنے گھرمیں رکھی ہوئی ہے اور قرآن کے بعد اسے پڑھتے ہیں نہج البلاغہ کے بارے میں تمام دانشور اور مصنفیں اور ادیبوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہترین کتاب ہے!
قرآن کے بارے میں مولا کافرمان ہے :
”وریاض العدل وغدرانہ علما لمن وعاو حدیثا لمن روی حکما لمن قضی ”
”یہ قرآن عدل کا باغیچہ ہے اس میں مختلف مقامات پر عدل کے تالاب ہیں ”
تو جو قرین قرآن ہے ”القرآن مع العلی والعلی مع القرآن” وہ بھی تو عدل کا باغ ہے اور اس کی رفتار عدل کے تالاب ہوں گے اور ہیں امام الکلام کلام الامام کے تحت اگر ہم اس کتاب کو امام کا کلام سمجھ کر امام بنالیں اور اس پر عمل کریں تو شاید امام کی فریاد اور شکوہ دعا میں بدل جائے اور ان کا یہ جملہ کہ مجھے ایسے لوگ عطا کر وہ ہم ہوں یا جاریہ ابن قدامہ کہ جس نے امام کی آواز پر لبیک کہی اور دو ہزار لشکر کے ساتھ امام کے مقبوضہ علاقے کو ان سے ملایا کہ آج بھی ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مولا کے نام لیوا ہیں لیکن جاریہ بن قدامہ کی طرح بہت کم ہیں کہ عادل امام کے کلام پر عمل کریں اسے اپنی زندگی کا اصول بنالیں۔
قرآن کی تلاوت کے بعد امام کے کلام نہج البلاغہ کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔
اجراء عدالت پر امام عادل کا اہتمام
مولائے کائنات امام عادل نے جگہ جگہ پر عدل و عدالت کا مرکزو محور رہے توحید کے بعد عدل کو اس قدر اہمیت دی کہ جان بھی عدل پر دے دی اپنے ایک فرمان میں فرماتے ہیں ”میں نے اپنے نفس کیلئے عدل کو لازم قرار دیا ہے اور اس کے عدل کی پہلی منزل یہ ہے کہ خواہشات کو نفس سے دور کیا اب حق ہی کو بیان کرتا ہے پھر فرمایا میں اپنے عدل کی بنا پر تمہیں لباس عافیت پہنایا اور اپنے قول و فعل کی نیکیوں کو تمہارے لئے فرش کردیا ہے(17)
عدل کی ایک شکل اور ظلم کئی صورتوں والا ہے اسی لئے ظلم کرنا آسان ہے اور عدل کرنا مشکل یہ دونوں تیر اندازی میں صحیح اور غلط نشانے کی طرح ہیں یقینا تیر کے ٹھیک نشانے پر بیٹھ جانے کے لئے بڑے زمانے اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے جب نشانہ خطا ہوجانے کے لئے ان سب میں کسی ایک کی ضرورت نہیں ہے(18)
جب مال کی تقسیم میں آپ کے برابری اور مساوات کا اصول برتنے پر کچھ لوگ بگڑ پڑے تو آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کرکے کچھ لوگوں کی امداد حاصل کروں خدا کی قسم جب تک یہ دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے اس چیز کی ترتیب میں بھی نہیں بھٹکوں گا اگر خود میرا مال ہوتا جب بھی میں اسے سب میں برابرتقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے،
دیکھو بغیر کسی حق کے دادو دہش کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے(خ ١٢٦) عدل کی روش پر چلو بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انھیں گھربار چھوڑناپڑے گا اور ظلم انھیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا(19)
دنیا میں ظلم سہہ لینا آسان ہے مگر آخرت میں اس کی سزا بھگتنا آسان نہیں کیونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہے اور ظلم کی پاداش جہنم ہے جس کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو یہ ہے کہ وہاں زندگی ختم نہیں ہوگی کہ موت دوزخ کے عذاب سے بچالے جائے چنانچہ ایک ظالم اگر کسی کو قتل کردیتا ہے توقتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی اور اب کی گنجائش نہ ہوگی اور اس پر مزید ظلم کیا جاسکے مگراس کی سزا یہ ہے کہ اسے ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے کہ جہاں وہ اپنے کئے ہوئے کی سزا ہمیشہ بھگتتا رہے گا(20)
پنداشت ستمگر کہ جفابرجاکرد درگردن اوبماندوبربگذشت
للظالم البادی غدایکفہ عضة ظلم میں پہل کرنے والا کل (ندامت سے)اپنا ہاتھ دانتوں سے کاٹتاہوگا۔(21) امام کے ان فرامین کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلا کہ زندگی میں چاہے فردی ہو یا اجتماعی عدل اور انصاف کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ اخروی پاداش محفوظ ہو اورلوگ اس کے شر سے آسائش میں ہوں اور رہتی دنیا تک امام عادل کی طرح عدل کرنے والوںمیں اس کا نام ہو۔
امام علی (ع) نے علاء بن زیاد حارثی سے فرمایا: ”ان اللہ علی ائمة العدل ان لقدروا انفسہم بضعة الناس کیلا یتبع بالفقر فقرہ” بلا شبہ خدا نے عادل امام و رہبروں پر یہ بات فرض کی ہے کہ اپنی زندگی کو ضعیفوں اور کمزوروں کی زندگی کے برابر قرار دینا تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فقیر کو اس کی تنگ دستی رنج و غم سے ہلاک کر ڈالے(22)
عدل کی اقسام
العدل منھاعلی اربع شعب…١۔ تہو تک پہنچنے والی فکروسمجھ ٢۔ علم کی گہرائی ٣۔ فیصلہ کی خوبی ٤۔عقل کی پائیداری چنانچہ جس نے غوروفکر اور علم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائیوں سے آشنا ہوا اور جو علم کی گہرائیوں میں اترا وہ فیصلہ کے سرچشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کرزندگی بسر کی۔(23)
معاشرتی زندگی کے اعتبار سے مولاکے عدل کی چند جھلکیاں
امام علی (ع) کے فرامین کومعاشرتی زندگی کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو مختلف پہلو نظر آتے ہیں جن میںسے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
١۔قانوں کے مقابلہ میں بہت انسانوں کے ساتھ مساوات کا برتاؤ۔
٢۔تقسیم بیت المال میں عدم تبعیض جسطرح خطبہ ١٥ میں فرمایا خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اسی حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا حق مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دے دیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں اور بھی تنگی ہوگی۔
٣۔اپنے کارندوں پر اجراء عدالت میں نظارت کہ صحیح طریقے سے عدل و انصاف انجام پائے پھر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرناجو عادل ہو ں اپنے عاملیں کے معاملات پر کڑی نظر رکھنایہ مولا ئے کائنات کے اعدل ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ بصرہ کے عامل یا گورنر عبداللہ بن عباس کا نائب زیاد بن ابیہ کے نام جو بصرہ و اہواز کے اطراف میں عامل تھے تحریر فرمایا میں اللہ کی سچی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر مجھے خبر مل گئی کہ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت میں چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم ناداربوجھل پیٹھ والے اور بے ننگ و نام ہوکر رہ جاؤگے (24)
٤۔ہر قسم کی طبقہ کی نفی یعنی عدم امتیاز کہ ابواسحاق ہمدانی کہتا ہے:۔
کہ جب عرب و غیر عرب عورتیں امام عادل کی خدمت میں درخواست کی۔
حضرت نے بطور مساوی دونوںکو درہم عطا کئے
عرب عورت نے کہا میں عرب سے ہوں!!
امام نے فرمایا خدا کی قسم میرے نزدیک اس مال میں فرزندان اسماعیل کو اسحاق کی اولاد پر کوئی ترجیح نہیں ۔
٥۔شخصی زندگی میں عدالت کو اس قدر اہمیت دی کہ فرمایا میں نے اپنے نفس کے لئے عدل کو لازم قراردیا ہے۔ فرزندان زیاد نے امام کی شخصی زندگی پر اعتراض کیا اس قدر بھی آپ نے دنیا سے اعراض کیا ہوا ہے؟
تو فرمایا تم پر حیف !!! کہ تم نے میرا قیاس اپنے اوپر کیا ہے جب کہ پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قرار دیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پرکسی پیچ و تاب کا شکارنہ ہو،یا جب بازار سے دو لباس خریدے ایک اچھا لباس قنبر کو عطا کیااور خود کم قیمت والا پہنا تو اس کو بھی یہی جواب دیا ہے آج وہ امراء ثروتمند لوگ کہاں مولائے کائنات کی سیرت پرعمل پیرا ہیں !!!
آخرمیں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمیں عدل پرعمل کرنے اور دوسروںتک عدل کا پیغام پہنچانے میں ہماری مدد فرمائے۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بلال حسین جعفری
(١)( لسان العرب ابن منظور ج ٩ مادہ (٤) ص ٨٤)(دار احیاء الثرات العربی بیروت طبع ٣۔) (٢)(تفسیر المیزان ج١٢ ص ٤٥٤ قم نشرالامیر ١٣٦٧)
(٣)حکمت ٣٤١
(٤)حکمت ٤٣٧ جوادی ص ٧٨٤
(5) نہج البلاغہ ١٢٢
(6)غررالحکم ج١ ص ٣٢ حدیث ٦٢
(7)غررالحکم ج ٢ ص ٢٧٦ حدیث ٢٤
(8)حکمت ٤٧٦
(9) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ ج ٢٠ ص ٧٧٨
(10)کافی ج ٧ ص ٢٦٠
(١1)حکمت ٢٧٦
(1٢)حکمت ٣١
(13)حکمت ٢٢٠
(14)حکمت ٣٣٤
(1٥)شرح ابی ابن الحدید ج ٣ ص ١٤٥تا١٤٧
(16)خطبہ ٧
(17)خطبہ ٨٧ کے بعض جملے
(18)شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج ٢٠ ص ٢٧٦
(19)حکمت ٤٧٦
(20)( حکمت٢٤١)
(21)حکمت ١٨٤
(22)خطبہ نمبر ٢٠٧
(23)خطبہ ٣٠ مفتی جعفر حسین مرحوم ص ٨١٩
(24)خط ٢٠