مشرکينِ مکہ کي مکارياں

159

 مشرکينِ مکہ کي مکارياں 
 جب رسولِ اکرم۰ پر اولين آيات کا نزول ہوا اور آپ۰ نے حضرت عليٴ، بي بي خديجہ اور زيد بن حارثہ کے ساتھ کعبہ کے نزديک بيت المقدس کي طرف رُخ کر کے نماز ادا کي تو اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ايک مورخ زہري کہتا ہے: رسولِ خدا خفيہ طور پر لوگوں کو دعوت ديا کرتے تھے جس کے جواب ميں بعض نوجوان اور کمزور عوام آپ۰ کي طرف مائل ہوگئے تھے يہاں تک کہ ان کي تعداد بڑھنے لگي؛ اس دور ميں قريش کے سردار حضور۰ کے ساتھ برا رويہ نہيں رکھتے تھے۔ جب کبھي رسول اللہ ان کے قريب سے گزرتے تو آپ۰ کي طرف اشارہ کر کے کہا کرتے: ’’فرزندِ عبد المطلب آسمان کي باتيں کرتا ہے‘‘۔ يہ سلسلہ جاري رہا يہاں تک کہ آنحضور۰ نے ان کے خداوں کي برائي کرنا شروع کردي اور ان سے کہا کہ ان کے باپ دادا کفر و گمراہي ميں تھے اور اب وہ جہنم ميں ہيں۔ اس پر وہ غضبناک ہوئے اور آپ۰ کو اذيتيں دينے لگے۔ پہلے مرحلے ميں مشرکوں کي جانب سے برا سلوک نہ کرنے کي بظاہر وجہ يہ تھي کہ قريش کو بت پرستي سے کوئي جذباتي لگاو اور لوگوں کے تبديلي دين سے کوئي سروکار نہ تھا۔ ان کے لئے مشکل يہ تھي کہ کوئي ان بتوں اور اس سے زيادہ اہم ان کے آبائ و اجداد کي توہين کرنے لگے۔ چنانچہ وہ بعد ميں رسول اللہ کو يہ پيشکش کرتے رہتے تھے کہ آپ۰ ان کے خداوں کو ان کے حال پر چھوڑ ديں تاکہ وہ بھي آپ۰ کو آپ۰ کے خدا کے ساتھ چھوڑ ديں۔ بتوں کي تائيد نہ کرنے بلکہ بت پرستي کي سختي کے ساتھ مذمت کے حوالے سے جب اللہ کے رسول۰ کا اصلي پيغام ظاہر ہوا تو رسول۰ و اصحاب رسول۰ کے ساتھ مشرکوں کے تعلقات کشيدہ ہوگئے۔ خطے کے مخصوص قبائلي سسٹم کي وجہ سے قريش مجبور تھے کہ وہ ايک خاص حدود کے اندر رہتے ہوئے آنحضرت۰ کا مقابلہ کريں۔ وہ لوگ، اولادِ عبد المطلب کي جانب سے نبي اکرم۰ کي حمايت کي وجہ سے براہِ راست آپ۰ کو نقصان نہيں پہنچا سکتے تھے۔ بنابريں وہ لوگ ايسے وسائل کي فکر ميں تھے جن سے استفادہ کرنے ميں ان کو مکمل اختيار و آزادي حاصل ہو۔ چنانچہ وہ عام مسلمانوں کو اذيتيں دينے لگے۔ قريش کے اقدامات کا دو پہلووں سے جائزہ ليا جاسکتا ہے: تاريخ وار جائزہ يا موضوعي اعتبار سے جائزہ۔ ہم اختصار کے پيشِ نظر موضوعي اعتبار سے جائزہ ليں گے۔
١۔ صلح:
قريش کے لوگ تجارت پيشہ تھے اور اپنا کام جاري رکھنے کے لئے انہيں امن و امان کي ضرورت تھي، اسي لئے وہ اسلام کے مسئلے کو خاموشي سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ البتہ رسولِ خدا کو ختم کرنا ممکن نہ تھا کيونکہ اس طرح خود قريش کے اندر ايک خون آشام اور لامحدود جنگ شروع ہوجاتي۔ بنابريں ہجرت سے پہلے تک وہ بات چيت کے ذريعے ہي مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے۔
صلح کے لئے انہوں نے رسول اللہ کو مال اور مقام کي پيشکش کي۔ ابنِ اسحق کہتا ہے: آيت ’’قُلْ مَا سَآَلْتُکُمْ مِنْ آَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ اِنْ آَجْرِي اِلَّا عَلَي اللّٰہِ‘‘ مشرکوں کي مالي پيشکش کے انکار کے حوالے سے نازل ہوئي ہے۔ اسي کا کہنا ہے کہ قريش کے سرداروں نے اللہ کے رسول۰ کے پاس کسي کو بھيج کر مذاکرات کي درخواست بھي کي تھي۔ انہوں نے کہا: تم اپني قوم پر ايسي چيز لے آئے ہو جو کوئي عرب نہيں لايا ہے۔ تم نے ہمارے اجداد اور ہمارے دين کو برا بھلا کہا، ہمارے خداوں کو دھتکارا، ہمارے داناوں کو احمق گردانا، ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کيا۔۔ اگر تم اپني ان حرکتوں سے مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہيں اتنا ديں گے کہ تمہاري دولت سب سے زيادہ ہوجائے گي، اگر عظمت و شرافت کي تلاش ميں ہو تو ہم تمہيں اپني سرداري ديتے ہيں؛ اگر ملک اور بادشاہي کے خواہشمند ہو تو ہم يہ بھي کرنے کے لئے تيار ہيں، اگر تم پر جن کا غلبہ ہوگيا ہے تو ہم تمہارا علاج کراتے ہيں!
اللہ کے رسول۰ نے جواب ميں فرمايا کہ ان ميں سے کسي بھي چيز کے لئے انہوں نے نبوت کا دعويٰ نہيں کيا ہے بلکہ وہ صرف اللہ کے رسول ہيں جو ان کي نصيحت کے لئے تشريف لائے ہيں۔
آنحضرت۰ فرمايا کرتے تھے کہ اگر وہ سورج کو ان کے دائيں ہاتھ پر اور چاند کو ان کے بائيں ہاتھ پر رکھ ديں تو بھي وہ اپني دعوت کے عمل کو اس کے غلبے تک جاري رکھيں گے۔
مشرکوں کي صلح کا ايک اور مقصد رسولِ خدا کو خاموش کرنا تھا۔ دراصل، جس زمانے ميں اللہ کے رسول۰ نے اعلانيہ دعوت کا آغاز نہيں کيا تھا اور باضابطہ طور پر مشرکوں کے عقائد کي مذمت نہيں کي تھي، مشرکوں نے انہيں آزاد چھوڑا ہوا تھا۔ ٹکراو اس وقت ہوا جب آنحضرت۰ نے اپني دعوت توحيد کا علي الاعلان آغاز کيا اور بت پرستي کو غلط قرار ديا۔ مشرکين چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ کے کام کو محدود کرديں اور وہ ان کے خداوں سے کوئي مطلب نہ رکھيں۔ سيرت النبي کے لکھنے والوں اور قرآن کي تفسير کرنے والوں کے بقول، سورہ کافرون قريش کے بعض سرداروں جيسے حارث بن قيس سہمي، عاص بن وائل، وليد بن مغيرہ اور اميۃ ابن خلف کے جواب ميں نازل ہوئي ہے۔ انہوں نے کہا: اے محمد! ايک سال تم ہمارے خداوں کي پرستش کرو ہم بھي ايک سال تمہارے خدا کي عبادت کريں گے۔ اس طرح ہم ميں سے جو بھي حق پر ہوگا، دوسرا اس کي پيروي کر کے حق سے کچھ استفادہ کرلے گا۔ رسول اللہ ۰ نے خدا کے ساتھ شرک کرنے سے پرہيز کيا اور ان کي پيشکش کو مسترد کرديا۔ مشرکين اس بات پر بھي راضي ہوگئے کہ رسول اللہ صرف بتوں کو ہاتھ سے مس کرليں اور جواب ميں وہ ان کے خدا کي تائيد کرديں گے۔ اس موقع پر سورہ کافرون نازل ہوئي اور توحيد اور شرک کے راستوں کو يکسر جدا کرديا۔
ابنِ عباس کہتے ہيں: جس زمانے ميں حضرت ابوطالبٴ زندگي کے آخري لمحات سے نزديک ہونے لگے، تو قريش ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ ديکھ رہے ہيں کہ ہمارے اور آپ کے بھتيجے کے درميان کيا ہو رہا ہے، اسے اپنے پاس بلائيں، اور کچھ ايسا کرديں کہ وہ ہميں ہمارے دين کے ساتھ چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دين کے ساتھ؛ حضرت ابوطالب نے رسول اللہ کو بلايا اور مشرکوں کي باتيں گوش گذار کرديں۔ آنحضرت۰ نے فرمايا: اگر ميري صرف ايک بات مان ليں تو عربوں پر حکومت حاصل کرليں گے اور عجم ان کے دين کو قبول کرليں گے۔ ابوجہل نے کہا کہ ہم دس باتيں ماننے کے لئے تيار ہيں۔ اللہ کے رسول۰ نے لاالہ الا اللہ کہنے اور بت پرستي کو ترک کرنے کي دعوت دي۔
رسولِ خدا کو صلح پر مجبور کرنے کے لئے مشرکوں کے اقدامات بہت وسيع تھے اور انہيں اميد تھي کہ اپني پيشکشوں کے ذريعے سے وہ آپ۰ کي سرعت کو کم کرديں گے۔ انہوں نے آنحضور۰ کو فريب دينے کي بھي کوشش کي۔ امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے کہ سورہ بني اسرائيل کي بعض آيات سورہ کافرون کي طرح کفار کي پيشکشوں کے حوالے سے نازل ہوئي ہيں۔ چنانچہ سورہ بني اسرائيل ميں فرماتا ہے: ’’اور نزديک تھا کہ يہ لوگ آپ کو ہماري وحي سے ہٹا کر دوسري باتوں کے افترا پر آمادہ کرديں اور اس طرح يہ آپ کو اپنا دوست بنا ليتے۔ اور اگر ہماري توفيق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشري طور پر) کچھ نہ کچھ ان کي طرف مائل ضرور ہوجاتے۔ اور پھر ہم زندگاني دنيا اور موت دونوں مرحلوں پر دہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئي مددگار اور کمک کرنے والا بھي نہ پاتے۔‘‘ طبرسي نے اس آيت کے لئے پانچ شانِ نزول نقل کي ہيں۔ اور يہ تمام کسي نہ کسي طور پر عبادتي صلح پر مشرکوں کے اصرار کي خبر ديتي ہيں۔ قرآن ميں متعدد آيات ايسي ہيں جو يہ بتاتي ہيں کہ مشرکين بہت زيادہ اصرار کيا کرتے تھے کہ رسولِ خدا اپني جانب سے آيت گھڑ کر خدا کي طرف جھوٹي نسبت دے ديں۔ ان تمام آيات ميں تاکيد کي گئي ہے کہ اللہ کے رسول۰ کو نازل شدہ آيات ميں کسي قسم کي تبديلي کا کوئي حق نہيں ہے۔
ايک مقام پر اللہ تعاليٰ نے اپنے رسول۰ سے کہا کہ مشرکوں کي کسي خواہش پر کان نہ دھريں: ’’پھر ہم نے آپ کو اپنے حکم کے واضح راستے پر لگا ديا۔ لہذا آپ اسي کا اتباع کريں اور خبردار جاہلوں کي خواہشات کا اتباع نہ کريں۔‘‘ اور ايک بار پھر فرمايا: ’’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِيْنَ وَدُّوا لَوْ تُدْھِنُ فَيُدْھِنُونَ وَ لَاتُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَہِيْنٍ، لہذا تم جھٹلانے والوں کي پيروي نہ کرو۔ وہ اس بات کو پسند کرتے ہيں کہ تم لچک دکھاو تاکہ وہ بھي لچک دکھائيں۔ اور کسي ذليل، زيادہ قسم کھانے والے کي اطاعت نہ کرو۔‘‘
يہ آخري آيات خصوصي طور پر تصریح کر رہي ہيں کہ قريش اپنے اور رسول اللہ کے درميان کشيدگي کو کم کرنا چاہتے تھے اور دوسرے مقام پر فرمايا: ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَ لَاتَطْغَوا اِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِير¾، وَ لَا تَرْکَنُوا اِلَي الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہِ مِنْ آَوْلِيَائ ثُمَّ لَاتُنْصَرُونَ، لہذا آپ کو جس طرح حکم ديا گيا ہے اسي طرح استقامت سے کام ليں اور وہ بھي جنہوں نے آپ کے ساتھ خدا کي جانب رُخ کرليا ہے۔ اور کوئي کسي طرح کي زيادتي نہ کرے کہ خدا سب کے اعمال کو خوب ديکھنے والا ہے۔ اور خبردار تم لوگ ظالموں کي طرف جھکاو اختيار نہ کرنا کہ جہنم کي آگ تمہيں چھولے گي اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئي سرپرست نہ ہوگا اور تمہاري مدد بھي نہيں کي جائے گي۔‘‘ نيز فرمايا: ’’فَکَذٰلِکَ فَادْعُ وَ اسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَ لَاتَتَّبِعْ آَھْوَائَھُمْ، پس اسي طرح سے پکارو اور جيسا تمہيں حکم ديا گيا ہے اسي طرح سے استقامت سے کام لو اور ان کي خواہشات کي پيروي نہ کرو۔‘‘ اللہ نے اپنے رسول۰ کو حکم ديا کہ ’’فَاھْجُرْھُمْ ھَجْراً جَمِيلاً، مشرکوں سے مناسب طريقے سے دوري اختيار کرو۔‘‘ يہ حکم دعوت کے ابتدائي دور کا ہے اور شايد اس لئے ہے کہ توحيد اور شرک کا راستہ مکمل طور پر ايک دوسرے سے جدا ہوجائے۔ مشرکين يہ نہيں چاہتے تھے کہ نبي اکرم۰ کي توحيد اور ان کے شرک کے درميان فرق اتنا نہ بڑھ جائے کہ مکہ کي سوسائٹي ميں دراڑيں پڑ جائيں؛
٢۔ نفسياتي مقابلہ:
رسولِ اکرم ۰ کو تکليف پہنچانے لئے مشرکين آپ۰ کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا اصل مقصد آنحضور۰ کي شخصيت کو توڑنا، انہيں گوشہ نشيني پر مجبور کرنا نيز عوام الناس کے سامنے آپ۰ کو ذليل و رسوا کرناتھا تاکہ نہ آپ۰ معاشرے ميں ابھر سکيں اور نہ عوام الناس آپ۰ کي جانب توجہ کرے۔ رسول اللہ ۰ جو کہ صاحبِ عزت اور سچے انسان تھے، پر اس سلوک کا ذہني اثر کم نہيں ہوسکتا، اس کے باوجود آپ۰ نے صداقت و نجابت کي بنياد پر اس تمسخر آميز رويہ کا مقابلہ کيا۔ ابن سعد، ابن اسحق اور بلاذري نے تمسخر کرنے والوں کے ناموں کي فہرست بھي بيان کي ہے۔
ابن سعد نے جو دسيوں نام ذکر کئے ہيں ان ميں سے صرف دو افراد بعد ميں ايمان لائے جبکہ دوسرے لوگ يا تو جنگوں کے دوران مارے گئے يا فتحِ مکہ سے پہلے مر گئے۔ سيرت نويسوں نے اسے مذاق اڑانے والوں کے لئے حق ميں رسول اللہ ۰ کي بددعا کا اثر قرار ديا ہے۔ ان ميں سے اہم ترين افراد، ابوجہل، ابولہب، اسود بن عبد يغوث، وليد بن مغيرہ، عاص بن وائل، عُقبہ بن ابي معيط اور ابوسفيان ہيں۔ ابو لہب (عبد العزيٰ بن عبد المطلب) جو کہ رسول اللہ کے دو مخالف ہاشميوں ميں سے ايک تھا، اس نے بعثت کے پورے دور ميں فروغِ اسلام ميں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کسي کوشش سے دريغ نہيں کيا۔
بلاذري نے ايک واقعہ نقل کيا ہے کہ رسول اللہ ۰ کے ساتھ ابولہب کے تعلقات بعثت سے قبل بھي کشيدہ تھے کيونکہ جب ايک مرتبہ ابولہب اور ابوطالبٴ کے درميان لڑائي ہوئي اور ابولہب ابوطالبٴ کے سينے پر سوار ہوگيا تو رسولِ خدا نے اسے ايک طرف گراديا اور پھر جناب ابوطالبٴ اس پر سوار ہوگئے تھے۔ اپني مخالفت کي وجہ بيان کرتے ہوئے ابولہب کہتا تھا: اے عبد المطلب کے فرزندو! يہ (اسلام) ايک بري چيز ہے، اس سے پہلے کہ دوسرے اس کا راستہ روکيں تم خود اس کو روک دو؛ کيونکہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو دوسرے عربوں کے درميان ذليل ہوجاو گے اور تم نے اس کا دفاع کيا تو تم مارے جاو گے۔ اسي روايت ميں ہے کہ وہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ بني عبد المطلب تمام قريش اور عربوں کے مقابل نہ آجائيں۔
بہرصورت اعلانيہ دعوت کے آغاز کے بعد ابو لہب اور اس کي بيوي ام جميل نے پوري طاقت کے ساتھ رسولِ خدا ۰ کے خلاف پروپيگنڈہ شروع کرديا يہاں تک کہ دشمنوں کي ريل پيل ميں اللہ تعاليٰ نے قرآن ميں صرف اس کا اور اس کي بيوي ہي کا ذکر کيا ہے۔ جب اللہ کے رسول۰ لوگوں کو توحيد کي دعوت ديا کرتے تھے تو وہ ان کے پيچھے چلتا رہتا، ان کو پتھر مارتا اور لوگوں سے کہتا: اس کي بات نہ مانو، وہ صابئي ہوگيا ہے، وہ جھوٹا ہے!
کہا گيا ہے کہ خدا نے ابولہب کي بيوي کو سورہ تبّت ميں اس لئے حمالۃ الحطب کہا ہے کہ وہ رسول اللہ ۰ کے راستے ميں کانٹے بچھايا کرتي تھي۔ امِ جميل نے جب سنا کہ اس کے اور اس کے شوہر کے بارے ميں آيات نازل ہوئي ہيں تو اس نے رسول اللہ کي ہجو ميں يہ شعر کہے:
مُذَمَّماً عصَيْنا وَ اَمْرَہُ آَبَيْنا وَ دِينَہ قَليٰنَا
مذمت شدہ انسان نے ہماري نافرماني کي اور ہم نے اس کي دعوت کو قبول کرنے سے انکار کيا اور اس کے دين نے ہم کو غضبناک کرديا ہے‘‘۔
ممکن ہے کہ مذمّم کا لفظ مشرکوں نے لفظ محمّد کے مقابلے ميں جعل کيا ہو۔ ابوسفيان بن حارث بن عبدالمطلب رسول اللہ کا ايک اور رشتہ دار تھا جس نے زبردست دشمني کا مظاہرہ کيا۔ وہ اشعار کے ذريعے سے اسلام اورمسلمانوں کي ہجو کيا کرتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اظہارِ اسلام کر ديا تھا۔ اميہ بن خلف بھي تمسخر کرنے والوں ميں شامل تھا۔ کہتے ہيں کہ سورہ ہمزہ اسي کے بارے ميں نازل ہوا۔
عقبہ بن ابي معيط اور اُبَيَّ بن خلف آپس ميں گہرے دوست تھے؛ جب اُبَيّ نے سنا کہ عقبہ رسول اللہ کے پاس بيٹھا ہوا ہے تو وہ سخت برآشفتہ ہوا اور بولا: ميں تم سے صرف اس صورت ميں بات کروں گا جب تم رسول کے آنے پر ان کے چہرے پر آبِ دہان ڈالو گے۔ اور اس نے ايسا کرديا! اللہ تعاليٰ نے اس کے بارے ميں فرمايا: ’’جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا: اے کاش ميں نے وہي راستہ اختيار کيا ہوتا جو رسول نے اختيار کيا تھا۔ اے کاش ميں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنايا ہوتا‘‘۔
جب ايک موقع پر ابوجہل نے اپنے ايک قرض خواہ کا قرض ادا کرنے ميں ليت و لعل سے کام ليا تو اس نے فريادِ استغاثہ بلند کردي۔ مشرکوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اسے مسجد کے نزديک بيٹھے ہوئے ايک شخص سے رجوع کرنے کو کہا جو رسول اللہ ۰ کے علاوہ کوئي اور نہ تھا۔ رسول اللہ اٹھے اور ابوجہل کے گھر تشريف لے گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص کا حق اسے دیدے۔ ابوجہل نے بے ساختہ آپ۰ کي بات پر عمل کرديا۔
تمسخر کا يہ سلسلہ اتنا وسيع تھا کہ اللہ تعاليٰ نے آپ۰ سے فرمايا: ’’اِنَّا کَفَيْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِيْنَ۔‘‘ يعني استہزا کرنے والوں کے مقابلے ميں ہم آپ کے لئے کافي ہيں۔
دوسري آيات ميں بھي اللہ تعاليٰ نے مشرکوں کے تمسخر کي وجہ سے اپنے رسول کو تسلي دي ہے: ’’آپ سے پہلے جو دوسرے رسول تھے ان کا بھي (يہ کافر) مذاق اڑاتے تھے‘‘۔ يہ عبارت تين بار دہرائي گئي ہے اور اس ميں رسول اللہ ۰ کو تسلي دينے کے علاوہ تمسخر کرنے والوں کے لئے ايک دھمکي بھي ہے کيونکہ آگے ارشاد ہوتا ہے: ’’ليکن جس عذاب کا يہ مذاق اڑايا کرتے تھے وہ ان پر نازل ہوکر رہا‘‘۔
آپ۰ کو کذاب، ساحر اور سب سے بدتر مجنون کي نسبت دي جاتي تھي۔ مشرکين کا مقصد يہ تھا کہ آيات قرآني کي سنجيدگي اور تقدس کا خاتمہ کرديں اور اللہ کے رسول۰ کو ايک جن زدہ اور جھوٹا شخص قرار ديديں۔
اللہ تعاليٰ نے يہاں پر بھي اپنے رسول۰ کو مطمئن کرنے کے لئے گذشتہ امتوں کے ساتھ پيش آنے والے واقعات کا تذکرہ کيا: ’’اسي طرح ، گذشتہ امتوں پر کوئي نبي مبعوث نہيں ہوا مگر انہوں نے کہا: يہ جادوگر يا ديوانہ ہے۔
کيا اس کام کي انہوں نے ايک دوسرے کو سفارش کي تھي؟ نہيں، يہ خود سرکش لوگ تھے۔ لہذا ان سے منہ پھير لو، کوئي آپ کو ملامت نہيں کرے گا‘‘۔
تمسخر کا ايک اور مورد يہ تھا کہ رسول اللہ ۰ کا کوئي بيٹا نہيں ہے اور آپ۰ ’’ابتر‘‘ ہيں۔ عاص بن وائل (عمرو بن عاص کا باپ) نے يہ مسئلہ چھيڑا تھا۔ خدا نے اس کے جواب ميں سورہ کوثر نازل فرمائي اور آپ۰ کے بدخواہوں کو ابتر قرار ديا۔ ايک اور مذاق اڑانے والا حکم بن ابي العاص بھي تھا جو رسول اللہ ۰ کے پيچھے چل پڑتا اور منہ بنايا کرتا تھا۔ بعض مقامات پر يہ بھي ہے کہ وہ لوگ قيامت کے عقيدے کو رسول کا ايک فريب قرار ديتے اور اسي بنا پر مذاق اڑايا کرتے تھے۔
٣۔ سياسي مقابلہ:
جو موارد ’’نفسياتي مقابلہ‘‘ کے ضمن ميں بيان ہوئے ہيں، ان ميں ’’سياسي مقابلہ‘‘ کے نمونے بھي تلاش کئے جاسکتے ہيں۔ ہم يہاں پر بعض خاص مثاليں بيان کريں گے۔ درحقيقت جو ملاقاتيں مشرکين ابوطالب کے ساتھ کيا کرتے تھے اور ان کے ذريعے سے رسول اللہ ۰ پر دباو ڈالنا چاہتے تھے وہ سب مشرکوں کے سياسي مقابلہ ميں شامل ہیں۔
رسولِ خدا نے اپنے کام کو جاري رکھا يہاں تک کہ کاميابياں حاصل ہونے لگيں۔ قريش پھر ابوطالبٴ کے پاس آئے اور شکوہ کيا ليکن جناب ابوطالب نے رسول اللہ کو نہيں روکا۔ قريش پھر ان کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور پيشکش کي کہ وہ عمارۃ بن وليد کو لے ليں اور محمد۰ کو ان کے حوالے کرديں۔ جناب ابوطالبٴ ان کي يہ پيشکش سن کر بہت ناراض ہوئے اور بولے: تم اپنے بچے مجھے دينا چاہتے ہو تاکہ ميں ان کي پرورش کروں اور ميرے بيٹے کو مجھ سے چھيننا چاہتے ہو تاکہ اسے قتل کردو؟ خدا کي قسم يہ ناممکن ہے۔
ابن اسحق مزيد کہتا ہے: جب قريش نے يہ صورتحال ديکھي تو انہوں نے فيصلہ کرليا کہ ہر طائفے سے کہہ ديا جائے کہ وہ اپنے مسلمان ہوجانے والوں کو اذيتيں دينا شروع کريں۔
ماننا پڑے گا کہ حضرت ابوطالبٴ نے قريش کي سياست کے مقابلے ميں بہت عاقلانہ موقف اختيار کيا۔ انہوں نے اپنے اسلام کو پوشيدہ رکھتے ہوئے، رسولِ خدا کي بہت تعريف و تمجيد کي اور بہت خوبصورت اشعار کہہ کر قريش کو آنحضرت۰ کے مقابلے ميں غلط موقف اختيار کرنے سے باز رکھنے کي کوشش کي۔ اسي طرح بعض دوسرے اشعار ميں عبدمناف کي اولاد ميں سے ان لوگوں کي مذمت کي جنہوں نے آنحضور۰ کي حمايت کے بجائے مخالف موقف اختيار کر ليا تھا۔ جناب ابوطالبٴ نے قريش کو مخاطب قرار ديا اور ان سے کہا کہ قريش کے تمام افتخارات فرزندانِ عبد مناف کي وجہ سے ہيں اور بنو عبد مناف کي تمام عظمت بنو ہاشم سے ہے اور بنو ہاشم کي عزت محمد۰ سے ہے۔
و ان فخرت يوماً فانَّ محمدا
ہو المصطفيٰ من سرّھا و کريمھا
’’اگر کسي دن بنو ہاشم کسي پر فخر کرنا چاہيں تو محمد مصطفي ہي سر فہرست اور برگزيدہ ہے۔‘‘
قريش کے لوگ رسولِ خدا ۰ کو مکہ کي سوسائٹي اور خصوصاً قريش کے درميان شگاف اور نفاق کا باعث قرار ديتے تھے۔ کيونکہ قريش اپنے قبيلے، تجارتي مفادات اور سياسي و عبادتي رعب و دبدبے کي حفاظت کے لئے اپنے درميان اتحاد کو ايک بہت ضروري امر سمجھتے تھے۔
قريش کے لوگ جناب ابوطالبٴ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کے بھتيجے نے ہمارے امور کو ٹکڑے ٹکڑے کرديا اور ہماري وحدت و اتحاد کو پارہ پارہ کرديا ہے۔
ابوجہل رسولِ خدا کے ساتھ اپنے سخت برتاو کي توجيہ کرتے ہوئے کہتا تھا: ’’محمد تم لوگوں کے درميان دشمني پيدا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ يہ بھي کہتے تھے کہ اس نے ہماري عورتوں اور بچوں کو تباہ کرديا ہے۔
عوام الناس کو رسول اللہ ۰ کے خلاف اُکسانا بھي قريش کي ايک اور سياست تھي۔ لوگ بتوں سے محبت کرتے تھے جن کي توہين ان کے لئے ناقابلِ تحمل تھي۔ قريش کے سردار اس بات کي طرف اشارہ کرتے کہ محمد۰ بتوں پر اعتقاد کو درست نہيں سمجھتے، ہمارے افکار کو حماقت قرار ديتے ہيں اور ہمارے آبائ و اجداد کو گمراہ اور جہنمي شمار کرتے ہيں۔ وہ کوشش کيا کرتے تھے کہ آپ۰ کو مکہ والوں کے احمقانہ جذبات کے روبرو کھڑا کرديں۔
علاوہ ازيں قريش مکہ آنے والے ہر شخص سے کہا کرتے: اس نے شراب خوري کو حرام، زنا کو ناجائز اور جو کچھ عرب انجام ديتے ہيں ان سب کو غلط قرار ديا ہے۔ تم لوگ چلے جاو، اگر ان کاموں کے کرنے سے تم پر کوئي گناہ ہے تو ہم اس کي ذمہ داري قبول کرتے ہيں۔ کہا گيا ہے کہ آيت ’’وَ لَيَحْمِلَنَّ آَثْقَالَھُمْ وَ آَثْقَالاً مَعَ آَثْقَالِھِمْ‘‘ مشرکوں کے اسي رويے کے بارے ميں نازل ہوئي ہے۔
ياد رہے کہ ان حرکتوں کے ذريعے سے قبيلہ قريش مکہ کي فضا کو رسولِ خدا کے خلاف اُکسانے اور اس کي حفاظت کرنے ميں کامياب رہا۔سرداروں کي طاقت، عام لوگوں کي عقل و فکر کي صاحبانِ مال و مقام سے وابستگي نيز سياسي چالبازيوں ميں قريش کي مہارت اس بات کا سبب بني کہ رسولِ خدا مکہ ميں عوامي اثر و رسوخ پيدا نہ کرسکے اور نہ عوام الناس کو اسلام کي جانب جذب کر پائے۔
٤۔ جسماني اذيتيں:
مکہ کي قبائلي ساخت کي وجہ سے رسول اللہ کے مخالفين انہيں بلال و عمار کي طرح بہ آساني اذيتيں نہيں دے سکتے تھے۔ اور نہ ان کے قتل کا فيصلہ کچھ آسان تھا۔ اس کي اصل وجہ جناب ابوطالب اور حضرت عبدالمطلب کے دوسرے بيٹوں کي جانب سے آپ۰ کي قطعي حمايت تھي۔ اس کے باوجود، غير منظم طور پر رسولِ خدا پر بھي جسماني اذيتوں کا سلسلہ جاري رہا؛ اس ميں تيزي اس وقت آئي جب حضرت ابوطالبٴ کا انتقال ہوگيا۔ سيرت النبي پر لکھنے والوں نے تاکيد کي ہے کہ جناب ابو طالبٴ کي وفات کے بعد ہي مشرکوں کو رسولِ خدا کے خلاف کھل کر کام کرنے کا موقع مل سکا۔
ايک رات رسول اللہ حضرت ابوطالبٴ کو نظر نہيں آئے تو آپٴ نے سب بھائيوں کو جمع کيا اور ان سے کہا کہ مسجد الحرام چلو اور وہاں قريش کے ايک ايک سردار کے پاس جاکر بيٹھ جاتے ہيں جن ميں ابوجہل بھي شامل ہے۔ چنانچہ اگر محمد۰ کو قتل کر ديا گيا ہے تو ان لوگوں کو بھي نہيں بچنا چاہئے۔ انہوں نے ايسا ہي کيا يہاں تک کہ زيد بن حارثہ آيا اور اس نے بتايا کہ وہ رسولِ خدا کے ساتھ تھا۔ جناب ابوطالب نے کہا کہ وہ جب تک اپني آنکھوں سے انہيں ديکھ نہيں ليں گے اپنے گھر نہيں جائيں گے۔
اگلے دن جناب ابوطالبٴ نے قريش کے بزرگوں کو اپنے ارادے کے بارے ميں بتا ديا جس کے بعد قريش کي ہمت جواب دے گئي اور سب سے بڑھ کر ابوجہل کي۔
عُقبہ بن ابي معيط نے ايک بار جسارت کي اور اپني عبا حضور۰ کے گلوئے مبارک ميں ڈال کر آپ۰ کو قتل کرنے کي حد تک گلا گھونٹنے کي کوشش کي۔ وہ جنگ بدر ميں اسير ہوگيا اور آپ۰ نے اسے قتل کرڈالا کہ وہ مکہ ميں اسلام کے ساتھ سخت دشمني کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ آپ۰ نے فرمايا: اس عقبہ نے جب کہ ميں سجدہ ميں تھا اس طرح ميرا گلا دبايا تھا کہ ميں نے محسوس کيا کہ گويا ميري آنکھيں حلقوں سے باہر نکل آئي ہيں۔ اسي طرح يہ بھي کہا گيا ہے کہ عقبہ ابولہب کے ساتھ مل کر فضلہ اور غلاظتيں آپ۰ کے دروازے پر ڈال ديتا تھا۔
طعيمہ بن عدي اور نضر بن حارث بھي اسي وجہ سے قتل کئے گئے جس کي بنياد پر عقبہ کو اسيري کے بعد قتل کيا گيا تھا۔ يہ بھي ان لوگوں ميں شامل تھے جنہوں نے رسولِ خدا کو بہت اذيتيں دي تھيں۔ ابوجہل نے بھي کئي مرتبہ حضور۰ کو قتل کرنے کا فيصلہ کيا ليکن اس پر عمل نہ کرسکا۔ يہاں تک کہ ايک بار قريش نے قسم اٹھائي کہ اگر وہ حضور۰ کو قتل کردے تو وہ اس کو عبد مناف کے بيٹوں کے حوالے نہيں کريں گے۔
رسول خدا پر مٹي بھي ڈالي گئي۔ حضور۰ گھر پر تشريف لے گئے جہاں بيٹي نے روتے ہوئے آپ۰ کے سر کو دھويا۔ واضح ہے کہ يہ رويہ، جناب ابوطالبٴ کي وفات کے بعد پيش آيا تھا۔ ايک اور روايت ميں ہے کہ ابوجہل رسولِ خدا کي نماز ميں رکاوٹ ڈالا کرتا تھا۔ اللہ تعاليٰ نے اس کي اس حرکت کے بارے ميں فرمايا: ’’آَرَآَيْتَ الَّذِيْ يَنْھيٰ عَبْداً اِذَا صَلّيٰ‘‘ (يعني کيا تم نے اس کو ديکھا ہے جو بندے کو روکتا ہے اس وقت جب وہ نماز ادا کرتا ہے)
اللہ تعاليٰ نے سورہ انفال (جو کہ مدينہ ميں نازل ہوا) ميں قريش کے اس فيصلے کا ذکر کيا ہے کہ جب ان کے سامنے تين تجويزيں تھيں؛ رسولِ خدا کو قيد کر دينا، مکہ سے نکال دينا يا انہيں قتل کر دينا۔ ان کي بحث و گفتگو کا نتيجہ وہي قتل کا فيصلہ تھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اگر وہ يہاں سے چلے گئے اور کچھ نوجوانوں نے ان کي ميٹھي زبان سے باتيں سن ليں تو وہ اس کي پيروي کر ليں گے اور ہم ان کے حملے سے محفوظ نہيں رہيں گے۔
ابن ہشام کے بقول رسول اللہ ۰ پر سخت ترين دن وہ تھا جب وہ گھر سے باہر آئے اور جس کسي سے ان کا سامنا ہوا، سب نے ان کي تکذيب کي اور انہيں تکليف پہنچائي۔ اسي روايت کے مطابق پريشاني کے عالم ميں گھر واپس آئے اور اپنے اوپر ايک چادر لپيٹ لي اور يہيں پر سورہ مدثر نازل ہوئي۔ يہ کہنا پڑے گا کہ آخري برسوں ميں مشرکوں کي جانب سے اذيتيں دينے ميں شدت کي وجہ حضرت ابوطالبٴ کي وفات کے علاوہ رسولِ اکرم ۰ کي جانب سے قبيلوں کے درميان تبليغِ اسلام ميں تيزي بھي تھي۔
٥۔ علمي مقابلہ:
اس جديد دعوت کا علمي سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے قريش لازمي علمي توانائي سے بہرہ مند نہيں تھے۔ کيونکہ بنيادي طور پر افکارِ جاہليت ميں يہ طاقت نہيں تھي کہ سوسائٹي کے اندر غور و فکر اور تفکر و تعقل کا جذبہ پيدا کرسکے۔ اس کے باوجود، قريش اپني سي ہر کوشش کيا کرتے تھے اور ہر چيز سے استفادہ کرنے پر تيار رہتے تھے تاکہ اسلام کے روز افزوں فروغ کے آگے بند باندھ سکيں۔ اس حوالے سے انہوں نے علمي مقابلہ کرنے سے بھي (البتہ مدينہ کے يہوديوں سے استفادہ کرتے ہوئے) دريغ نہ کيا۔
چنانچہ قريش نے رسولِ اکرم۰ کي نبوت کا انکار کرنے کے لئے اس بات کا دعويٰ کيا کہ اللہ کے رسول۰ جس بات کو وحي کہتے ہيں، وہ دراصل وحي الہي نہيں ہے بلکہ وہ باتيں ہيں جو اہلِ کتاب نے انہيں سکھائي ہيں۔ ايک ضعيف روايت ميں ’’بلعام‘‘ نامي ايک شخص کا ذکر ہے جو عجمي تھا اور مکہ ميں مقيم تھا۔ قريش نے دعويٰ کيا تھا کہ رسولِ خدا کا اس کے پاس آنا جانا ہے۔ ايک اور روايت اس شخص کو ’’اعبدۃ بن حضرمي‘‘ قرار ديتي ہے جو اہل کتاب ہے۔ عکرمہ کہتا ہے کہ نبي اکرم۰ بني مغيرہ کے ايک غلام کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے جس کا نام مقيس تھا۔ ايک روايت ميں اس مقيس سے مراد اسي مذکورہ بالا ابن حضرمي کو قرار ديا گيا ہے۔ ايک اور روايت ميں اسے سلمان فارسي پر منطبق کيا گيا ہے جو کہ درست نہيں ہوسکتا، کيونکہ سلمان فارسي مدينہ ميں اللہ کے رسول۰ سے واقف ہوئے تھے جب کہ سورہ نحل مکي سورہ ہے۔ ايک اور روايت کہتي ہے: جب مکہ والوں نے رسولِ خدا ۰ کو تکليفيں دينا شروع کيں تو وہ بني مغيرہ کے غلام کہ جسے ابو يسر کہتے تھے، کے پاس آئے؛ وہ توريت و انجيل سے واقف تھا۔ جب مشرکوں نے يہ ديکھا تو الزام لگا ديا کہ وہي آپ۰ کو سکھاتا ہے۔
درج بالا روايات ميں غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلعام اور بني مغيرہ کا ايک غلام قريش کے موردِ نظر تھا۔ ابن اسحق نے متعلقہ شخص کا نام ’’جبر‘‘ بتايا ہے۔ اس روايت کا تعلق بھي بني مغيرہ کے اسي غلام سے ہونا چاہئے جس کا ذکر تمام روايات ميں مختلف انداز سے موجود ہے۔ اس کے نام و نشان ميں يہ اختلاف اس بات کي نشاندہي کرتا ہے کہ يہ بے چارہ غلام جو کہ اس قدر بدقسمت تھا کہ صحيح طور پر پہچانا بھي نہ جاسکا، وہ کس طرح سے ايسے افکار ايجاد کرسکتا ہے؟ ابن اسحق نے ايک اور روايت ميں کہا ہے کہ مشرکين کہتے تھے کہ يمامہ کے رہنے والے رحمان نامي ايک شخص نے تمہيں يہ سب سکھايا ہے۔
جو جواب قرآن مجيد نے مشرکوں کے اس رويے کا ديا ہے، وہ ايک علمي اور معقول جواب ہے؛ اللہ تعاليٰ نے مشرکوں کے الزام کو نقل کرتے ہوئے آگے چل کر فرمايا: ’’لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُونَ اِلَيْہِ آَعْجَمِيّ¾ وَ ھٰذَا لِسَان¾ عَرَبِيّ¾ مُبِيْن¾ جس کي طرف يہ اشارہ کرتے ہيں اس کي زبان تو عجمي ہے جبکہ يہ واضح عربي زبان ہے۔‘‘ اس آيت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کا خاص موردِ نظر شخص عجمي ۔۔ اور بظاہر رومي۔۔ تھا۔ قرآن کا اہم ترين (معجزاتي) پہلو اس کا ادب ہے اور خدا نے اسي کو مدِنظرقرارديتے ہوئے قريش کے اس اعتراض کو کہ وہ اس کے مضامين کو ايک عجمي شخص سے نسبت ديتے ہيں، مسترد کر ديا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ قرآن مجيد کے مضامين کي وسعت کو مکہ ميں مقيم کسي ايسے نصراني سے نسبت دي ہي نہيں جاسکتي جس کا عرب جاہليت کے آثار ميں کوئي ذکر نہيں ہوا۔
انبيائ کے قصوں کے باب ميں قرآن مجيد کي توريت کے ساتھ مشابہت بھي مشرکين کے مدِنظر رہي ہے۔ اللہ تعاليٰ نے اس بات کو اس طرح سے بيان کيا ہے: ’’اور کافروں نے کہا کہ يہ (قرآن) سوائے جھوٹ کے جسے اس نے خود گھڑ ليا ہے، اور ايک گروہ نے اس پر اس کي مدد کي ہے، کچھ نہيں ہے؛ بے شک جو کچھ يہ کہہ رہے ہيں، وہ ستم اور باطل ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ يہ افسانہ ہائے پارينہ ہيں جو ہر صبح و شام اس کو املا کرائے جاتے ہيں اور وہ اسے لکھ ليتا ہے‘‘۔ يہ آيت اساطير الاولين کے الزام کا تعلق ايسے لوگوں کے ساتھ بتاتي ہے جو بزعمِ مشرکين نبي اکرم۰ کے استاد تھے۔ قريش کے لوگ قرآني قصوں کو اہلِ کتاب کے قصوں کي مانند سمجھتے تھے جنہيں وہ ’’اہل الکتاب الاول‘‘ کے نام سے پہچانتے تھے۔ قرآن اور توريت کے قصوں کي مشابہت کے حوالے سے ہم کہيں گے کہ: دراصل يہ دونوں آسماني کتابيں ہيں اور ان کے درميان شباہت ايک طبيعي امر ہے، ليکن اہم بات دونوں کے بيان کردہ قصوں ميں موجود اختلاف ہے اور دوسرے يہ کہ انبيائ کي عصمت کے حوالے سے دونوں کتابوں کے رويے ميں بہت فرق ہے۔ جو غلط باتيں توريت ميں انبيائ سے منسوب کي گئي ہيں وہ کسي بھي صورت ميں قرآن ميں نظر نہيں آتيں اور قرآن کي دعوتِ توحيد بہت صريح اور واضح ہے۔
رسول اللہ ۰ کي لکھنے اور پڑھنے سے ناآشنائي اسي قسم کے بے بنياد الزامات کو دور کرنے کے لئے تھي۔ علاوہ ازيں قرآني آيات کا ايک بڑا حصہ، اور خصوصاً انبيائ کے قصے مکہ ميں نازل ہوئے ہيں، کہ جب يہودِ مدينہ کي ثقافت و تہذيب سے رسولِ خدا کي کوئي معمولي سي بھي آشنائي نہيں تھي۔ قريش کو اس بات کا ادراک تھا کہ رسول اللہ ۰ ايک ايسے دين کي ترويج کر رہے ہيں جو درحقيقت اديانِ آسماني کي ايک نئي قسم ہے، لہذا ان کے ذہن ميں يہوديوں سے فائدہ اٹھانے کا خيال آيا۔ چنانچہ انہوں نے نضر بن حارث کو کہ جسے قريش کي علمي شخصيت کہنا چاہئے، مدينہ کے يہوديوں کے پاس بھيجا تاکہ ا س مسئلے کے بارے ميں ان سے رائے طلب کرے۔ نضر بن حارث‘ عُقبہ بن ابي مُعيط کے ہمراہ يہوديوں کے پاس گيا اور ان سے رسول اللہ کے اوصاف بيان کئے۔ يہوديوں نے کہا: اس سے تين چيزوں کے بارے ميں پوچھو، اگر جواب دے ديا تو اللہ کا نبي ہے وگرنہ دھوکے بازي کے علاوہ اور کچھ نہيں ہے۔ ان کے سوالات کے جواب ميں قرآن ميں سورہ کہف اور سورہ بني اسرائيل کي آيات نازل ہوئيں۔
ياد رہے کہ قريش کے لوگ اسلام کي حقيقت اور اس کي سچائي کي تلاش ميں نہيں تھے؛ وہ کوئي ايسا راستہ (کہ جسے قرآن نے مکر کا نام ديا ہے) ڈھونڈ رہے تھے جس کے ذريعے وہ نبي اکرم۰ کي تبليغي کوششوں کو بے اثر کر سکيں۔ ان ميں سے ايک يہي نضر بن حارث تھا جس کے بارے ميں اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اس وقت کو (ياد کرو) کہ جب انہوں نے کہا: خدايا! اگر اس کا تيري جانب سے آنا حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کي بارش برسا دے يا دردناک عذاب بھيج دے۔‘‘ قيامت کے حوالے سے مشرکوں کا زيادہ تر مسئلہ توحيد کي نسبت سے تھا۔ قيامت کے حوالے سے ان کا تردد اور موت کے بعد کي زندگي پر ان کا تعجب قرآن مجيد کي چند آيات ميں ذکر ہوا ہے۔
ايک اور علمي اعتراض جو سيرت ميں آيا ہے، ابنِ زِبعريٰ کے بارے ميں ہے۔ جب يہ آيت نازل ہوئي کہ: ’’تم لوگ اور جن چيزوں کي تم پرستش کرتے ہو، وہ جہنم کا ايندھن ہے۔ تم جہنم ميں جاو گے‘‘، تو ابن زبعريٰ نے اعتراض کيا اور کہا: اگر ايسا ہے تو ہم فرشتوں کي پرستش کرتے ہيں، يہود عزير کي اور نصاريٰ حضرت مسيح کي؛ لہذا يہ بھي جہنم ميں ہوں گے۔ رسول اللہ ۰ نے جواب ميں فرمايا: البتہ اس قسم کے افراد بھي اگر اس بات کو پسند کريں کہ خدا کے علاوہ وہ بھي معبود بن جائيں تو وہ بھي اپنے عبادت کرنے والوں کے ساتھ يعني جہنم ميں ہوںگے۔ اللہ تعاليٰ نے بھي اس توہم کو دور کرنے کے لئے آيات ميں آگے چل کر فرمايا: جن کے بارے ميں ہم نے پہلے ہي مقرر کرديا ہے کہ ان کے ساتھ نيکي کريں گے، وہ جہنم سے دور ہيں‘‘۔   
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.