حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سر آغاز

147

قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے:
آسمانى كتاب قرآن ميں مريم (ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا
درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے، اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي، انتخاب كيا_
اس وقت مريم (ع) نے ”اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا”_
تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_
”العالمين” كا لفظ بھى اس بات كے منافى نہيں ہے كيونكہ يہ لفظ قرآن حكيم ميں اور ديگر عبارات ميں ايسے لوگوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے جو ايك وقت اور ايك زمانے ميں زندگى بسر كرتے تھے_ جيسا كہ بنى اسرائيل كے بارے ميں ہے:
”اور ميں نے تمہيں عالمين پر فضيلت دي_
واضح ہے يہاں مراد يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے مو منين كو اپنے زمانے كے لوگوں پر فضيلت حاصل تھي_
بہر حال اس وقت ہم نے اپني”روح”(جو بزرگ فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ ہے) اس كى طرف بھيجى اور وہ بے عيب خوبصورت اور كامل انسان كى شكل ميں مريم(ع) كے سامنے ظاہر ہوئي_
ظاہر ہے ايسے موقع پر مريم(ع) كى كيا حالت ہوگي_وہ مريم (ع) كہ جس نے ہميشہ پاكدامنى كى زندگى گزاري، پاكيزہ افراد كے دامن ميں پرورش پائي اور تمام لوگوں كے درميان عفت و تقوى كى ضرب المثل تھي، اس پر اس قسم كے منظر كو ديكھ كر كيا گزرى ہوگي_ ايك خوبصورت اجنبى آدمى اس كى خلوت گاہ ميں پہنچ گيا تھا_اس پر برى وحشت طارى ہوئي_فوراً پكاريں كہ” ميں خدائے رحمن كى پناہ چاہتى ہوں كہ مجھے تجھ سے بچائے_ اگر تو پرہيزگار ہے”_
اور يہ خوف ايسا تھا كہ جس نے مريم عليہا السلام كے سارے وجود كو ہلا كر ركھ ديا_ خدائے رحمان كا نام لينا اور اس كى رحمت عامہ كے ساتھ توصيف كرنا ايك طرف اور اسے تقوى اور پرہيزگارى كى تشويق كرنا دوسرى طرف، يہ سب كچھ اس لئے تھا كہ اگر وہ اجنبى آدمى كوئي برا ارادہ ركھتا ہو تو اس پر كنڑول كرے اور سب سے بڑھ كر خدا كى طرف پناہ لينا،وہ خدا كہ جو انسان كے لئے سخت ترين حالات ميں سہارا اور جائے پناہ ہے اور كوئي قدرت اس كى قدرت كے سامنے كچھ حيثيت نہيں ركھتي_
حضرت مريم عليہا السلام يہ بات كہنے كے ساتھ اس اجنبى آدمى كے ردّ عمل كى منتظر تھيں_ ايسا انتظار جس ميں بہت پريشانى اور وحشت كا رنگ تھا_ليكن يہ حالت زيادہ دير تك باقى نہ رہي،اس اجنبى نے گفتگو كے اس ميں شك نہيں ہے، كہ اس گفتگو كا يہ معنى نہيں ہے كہ جبرئيل صورت اور سيرت كے اعتبار سے بھى ايك انسان ميں بدل گيا تھا كيونكہ اس قسم كا انقلاب اور تبديلى ممكن نہيں ہے، بلكہ مراد يہ ہے كہ وہ (بظاہر) انسان كى شكل ميں نمودار ہوا، اگر چہ اس كى سيرت وہى فرشتے جيسى تھي، ليكن حضرت مريم (ع) كو ابتدائي امر ميں چونكہ يہ خبر نہيں تھى لہذا انہوں نے يہى خيال كيا تھا كہ ان كے سامنے ايك ايساانسان ہے جو باعتبار صورت بھى انسان ہے اور باعتبار سيرت بھى انسان ہے_
لئے زبان كھولى اور اپنى عظيم ذمہ دارى اور ماموريت كواس طرح سے بيان كيا”اس نے كہاكہ ميں تيرے پروردگار كا بھيجا ہوا ہوں”_
اس جملہ نے اس پانى كى طرح جو آگ پر چھڑكا جائے حضرت مريم عليہا السلام كے پاكيزہ دل كو سكون بخشا ليكن يہ سكون زيادہ دير تك قائم نہ رہ سكا_
كيونكہ اس نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہا:”ميں اس لئے آيا ہوں كہ تمہيں ايك ايسا لڑكا بخشوں جو جسم و روح اور اخلاق و عادات كے لحاظ سے پاك و پاكيزہ ہو”_
يہ بات سنتے ہى مريم عليہا السلام كانپ اٹھيں وہ پھر ايك گہرى پريشانى ميں ڈوب گئيں اور”كہا كہ يہ بات كيسے ممكن ہے كہ ميرے كوئي لڑكا ہو حالانكہ كسى انسان نے اب تك مجھے چھواتك نہيں اور ميں ہرگز كوئي بدكار عورت بھى نہيں ہوں”_
وہ اس حالت ميں صرف معمول كے اسباب كے مطابق سوچ رہى تھيں كيونكہ كوئي عورت صاحب اولاد ہو،اس كے لئے صرف دو ہى راستے ہيں يا تو وہ شادى كرے يا بدكارى اور انحراف كا راستہ اختيار كرے، ميں تو خود كو كسى بھى دوسرے شخص سے بہتر طور پر جانتى ہوں،نہ تو ابھى تك ميرا كوئي شوہر ہے اور نہ ہى ميں كبھى منحرف عورت رہى ہوں_اب تك تو يہ بات ہرگز سننے ميں نہيں آئي كہ كوئي عورت ان دونوں صورتوں كے سوا صاحب اولاد ہوئي ہو_
ليكن جلدى ہى اس نئي پريشانى كا طوفا ن بھى پروردگار عالم كے قاصد كى ايك دوسرى بات سننے سے تھم گيا اس نے مريم عليہاالسلام سے صراحت كے ساتھ كہا:”مطلب تو يہى ہے كيونكہ تيرے پروردگار نے فرمايا ہے كہ يہ كام ميرے لئے سہل اور آسان ہے”_
تو تو اچھى طرح ميرى قدرت سے آگا ہ ہے، تو نے تو بہشت كے وہ پھل جو دنيا ميں اس فصل ميں ہوتے ہى نہيں اپنے محراب عبادت كے پاس ديكھے ہيں،تو نے تو فرشتو ںكى وہ آوازيں سنى ہيں جو تيرى پاكيزگى كى شہادت كے لئے تھيں_ تجھے تو يہ حقيقت اچھى طرح معلوم ہے كہ تيرے جد امجد آدم (ع) مٹى سے پيدا ہوئے_ پھر يہ كيسا تعجب ہے كہ جو تجھے اس خبر سے ہورہا ہے_
اس كے بعد اس نے مزيد كہا:”ہم چاہتے ہيں كہ اسے لوگوں كے لئے آيت اور ايك معجزہ قرارديں”_اور ہم چاہتے ہيں كہ اسے اپنے بندوں كے لئے اپنى طرف سے رحمت قرار ديں_”بہر حال ”يہ فيصلہ شدہ امر ہے  اور اس ميں گفتگو كى گنجائشے نہيں ہے_

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.