تواتر احادیث مہدی (عج)
1۔ حافظ ابو عبداللہ محمد بن یوسف كنجی شافعی متوفی ۶۷۵ھ، اپنی كتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“ میں لكھتے ہیں :
”تنبیہ آخر، ان الاحادیث الواردة فیہ اختلاف كثیر روایاتہا لاتكاد تنحصر، فقد قال محمدبن الحسن الاسنوی الشافعی فی كتاب مناقب الشافعی، قد تواتر الاخبار عن رسول اللّہ بذكر المہدی وانّہ من اہل بیتہ۔“ 2
جان لیں، كہ حضرت مہدی(ع) كے بارے میں وارد ہونے والی احادیث بہت زیادہ ہیں اورجن كا شمار ممكن نہیں ہے اسی لئے محمدبن حسن اسنوی نے ”مناقب شافعی“ میں كہا ہے، حضرت مہدی(ع) كے وجود اور ان كا اہل بیت(ع) رسول سے ہونے كے بارے میں ہیں پیغمبر اكرم (ص)سے بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر تك پہنچیں ہیں۔
ایك اور جگہ فرماتے ہیں:
”تنبیہ آخر، قد علمت ان احادیث وجود المہدی وخروجہ فی آخرالزمان وانّہ من عترت رسول اللہ من ولد فاطمہ بلغت حدا لتواتر المعنوی، فلا معنی لانكارہ ومن ثمّ ورد من كذب باالدجال فقد كفر ومن كذب بالمہدی فقد كفر۔“
ایك اور یاد آوری، آپ نے جان لیا كہ حضرت مہدی(عج) كے وجود اوران كے آخری زمانے میں خروج اوران كا اہل بیت(ع) رسول اور اولاد فاطمہ (ع) سے ہونا حد تواتر معنوی تك پہنچا ہوا ہے لہذا اس سے انكار كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس كے علاوہ روایت میں آیا ہے جس نے دجال كو جھٹلایا وہ كافر ہوگیا اور جس نے حضرت مہدی(ع) كو جھٹلایا وہ بھی كافر ہوگیا۔ 3
2۔ قاضی محمدبن علی شوكانی، متوفی، ۱۳۵۰ھ ”التوضیح فی تواتر ماجاءفی المہدی“ میں لكھتے ہیں :
”والاحادیث الواردة فی المہدی الّتی امكن الوقوف منہا خمسون حدیثا فیہا الصحیح والحسن والضعیف المنجبرة وہی متواترة بلاشك ولاشبہہ۔“
اور وہ احادیث جو حضرت مہدی(ع) كے بارے میں وارد ہوئیں ۵۰ پچاس حدیثیں ہیں ان میں سے كچھ صحیح، كچھ حسن، اور كچھ ضعیف منجبرہ، اور یہ احادیث متواتر ہیں جس میں كسی قسم كے شك وشبہ كی گنجائش نہیں ۔
3۔ بزرگ سنی عالم محمد بن جعفر بن ادریس بن محمد كتانی فاسی مالكی متوفی ۱۳۴۵ھ اپنی كتاب ”نظم المتناثر من الحدیث المتواتر“ میں لكھتے ہیں :
الاحادیث الواردة فی المہدی النتظر بكثرة رواتہا من المصطفٰی بخروج المہدی وانّہ من اہل بیتہ وانّہ یملاء الارض عدلاً“ 4
بہت سے راویوں كی نقل شدہ احادیث متواتر ہیں كہ حضرت محمد مصطفی (ص) نے ارشاد فرمایا :
حضرت مہدی(ع) كا ظہو ر ہوگا اور وہ میرے اہل بیت(ع) سے ہوں گے وہ سات سال تك حكومت كریں گے اور زمین كو عدل و انصاف سے پر كردیں گے ۔
4۔ سید محمدصدیق حسن قنوجی متوفی ۱۳۰۷ھ ”الاذاعہ بما كان ومایكون بین یدی الساعة“ میں لكھتے ہیں :
”والاحادیث الواردة فی المہدی علی اختلاف روایاتہا كثیرة جدّاً حتی تبلغ تواتر المعنوی“
حضرت مہدی (ع) كے بارے میں وارد ہونے والی احادیث روایتوں كے مختلف ہونے كے باوجود بہت زیادہ ہیں، یہاں تك كہ تواتر معنوی كی حد تك پہنچ گئی ہیں ۔ 5
5۔ شیخ محمدبن احمد سفارینی اثر ی حنبلی متوفی ۱۱۸۸ھ ”لوامع الانوار البہیہ و سواطع الاسرار الشریہ“ میں لكھتے ہیں ۔
”وقد كثرت بخروجہ، یعنی المہدی الروایات حتی بلغت حد التواتر المعنوی وشاع ذالك بین علماء السنّة حتی عدّ من معتقد اتہم ۔“
خروج حضرت مہدی(ع) كے بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، یہاں تك كہ حدتواتر معنوی تك پہنچی ہوئی ہیں اوریہ علماءاہل سنت كے درمیان شہرہ آفاق ہے یہاں تك كہ اسے اپنے اعتقادات میں شمار كیا گیا ہے ۔ 6
پھر فرماتے ہیں:
تبیہ، قد علمت ان احادیث وجود المہدی (ع) وخروجہ فی آخر الزمان وانہ من عترت رسول اللہ من ولد فاطمہ بلغت حدالتواتر المعنوی فلا معنی لانكارہا وغایة ما تشبت با الاخبار الصحیحة الشہیرة الكثیرة التی بلغت تواتر المعنوی، وجود الآیات العظام التی منا، بل ادلہا خروج المہدی وانّہ یاتی فی آخر الزمان من ولد فاطمہ یملاء الارض عدلاً كما ملئت ظلماً۔“
آپ نے جان لیا كہ مہدی(ع) كا وجود، ان كا آخری زمانے میں ظہور فرمانا اور اولاد فاطمہ سے ہونا روایتوں میں حد تواتر معنوی تك پہنچا ہوا ہے جس سے انكار كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بہت سی صحیح اور مشہور روایات یہ (امر تواترمعنوی) تك پہنچ گیاہے كہ قیامت سے پہلے سی بڑی بڑی علامات ظاہر ہوں گی انہی میں ایك، بلكہ پہلی علامت ”ظہور حضرت مہدی(ع)“ ہے، وہ آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے، وہ اولاد فاطمہ (ع) سے ہوں گے اورزمین كو اسی طرح عدل سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم سے بھر چكی ہوگی 7
6۔ شیخ محمد زاہد كوثری ”نظرة عابرة“ میں لكھتے ہیں :
”وامّا تواتر احادیث المہدی والدّجال والمسیح فلیس بموضع ریبة عنداہل العلم باالحدیث ۔“
”لیكن احادیث مہدی(ع) ودجال ومسیح كا علماءحدیث كے نزدیك متواتر ہونے میں كوئی شك نہیں ہے ۔
مذكورہ علماءكے علاوہ اہل سنت كے دوسرے بہت سے علماءنے حضرت مہدی (عج) سے متعلق احادیث كو متواتر جانا ہے، یاان كے تواتر كو دوسروں سے نقل كیا ہے اوران پر اعتراض نہیں كیا ہے،
جیسے ابن حجر ہیثمی نے”الصواعق المحرقہ“ میں، مومن شلنجی ”نورالابصار“ میں محمد جان نے ”اصعاف الراغبین“ میں، ابن صباغ مالكی نے ”الفصول المہمة“میں، مفتی سید احمد شیخ الاسلام شافعی نے ”الفتوحات الاسلامیہ“ میں، حافظ محمدبن ابراہیم قندوزی حنفی، نے ”ینابیع المودة“میں اوردوسرے علماء و محدثین نے اپنی كتابوں میں ان احادیث كو متواتر قرار دیا ہے ۔ان علماء كے اقال كے دقیق ماخذات یہ ہیں:
”الصواعق“، باب ۱۱۔
”نورا لابصار“، ص ۱۸۷۔۱۸۸۔
”اسعاف الراغبین“، ص ۱۴۵و۱۴۷۔
ینابیع المودة“، باب ۸۹، ۹۶۔
قرطبی مالكی ”تفسیر قرطبی“، ج۸، ص ۱۲۱، ۱۲۲؛
حافظ جمال الدین المری متوفی، ۷۴۲ھ، ”تہذیب الكمال“، ج۲۵، ش ۵۱۸۱؛
احمد بن حجر عسقلانی، متوفی، ص۸۵۲ ھ ،” تہذیب التھذیب، ج۹، ص ۱۲۵ش۲۰۱،
محمد رسول بزنجی شافعی، متوفی، ۱۱۰۳ھ ”الاشاعة لاشراط الساعة“، ص ۸۷،
مولانا ضیاءالرحمن فاروقی، ”حضرت امام مہدی“ ص ۱۴۶۔
اور فن رجال كے ماہر وحافظ احمدبن حجر عسقلانی ”نزہة النظر“ میں لكھتے ہیں: خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اوراس پر عمل كرنے كے سلسلے میں كسی بحث كی ضرورت نہیں رہتی ۔
1. رجوع كریں، مجلہ ”تمدن اسلامی، مقالہ حول المہدی(عج)“ ش، ذی قعدہ ۱۳۷۱ھ، سال ۲۲، چاپ دمشق .
2. البیان فی اخبار صاحب الزمان، باب الثالث فی الاشراط العالم والامارات القریبہ، ص ۸۱
3. البیان فی اخبار صاحب الزمان، باب الثالث فی الاشراط العالم والامارات القریبہ، ص121
4. نظم المتناثر، ص ۲۲۵، سے ۲۲۸۔ ح۲۸۹
5. الاذاعہ بما كان ومایكون بین یدی الساعة، ص ۶۳۱
6. لوامع الانوار لاالبہیہ، ص ۳۷
7. لوامع انور البہیة،ص