حضرت ابوطالب کی مظلومیت

188

حضرت ابوطالب کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ کو رسالت تفویض کی گئی ہے، اس لیے وہ نہایت خاموشی سے آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ رسول خدا کی بیالیس سال سے زیادہ عرصے تک حفاظت و نگرانی کرتے رہے یعنی اس وقت سے جب کہ رسول خدا کا سن مبارک آٹھ سال تھا،

اور اس وقت تک جب آپ پچاس سال کے ہوگئے تھے۔ اور چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے لہٰذا آپ کے پروانہ وار والہ و شیفتہ تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رسول خدا کے آسمانی آئین کی ترویج کی خاطر کبھی جان و مال سے دریغ نہیں کیا، یہاں تک کہ اسی(۸۰) سال کی عمر میں اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ کا قلب خدا اور رسول پر ایمان سے منور تھا۔

جیسے ہی حضرت ابوطالب نے رحلت فرمائی، دشمنوں کے آستینوں میں پوشیدہ ہات بھی باہر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد و سخت کوش انسان کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی جذبہ تھا۔ جس نے انہیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا تھا۔

حضرت ابوطالب کے ایمان لانے پر شک و شبہ پیدا کرنے میں جو محرک کارفرما تھا اس کی مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اہمیت تھی۔ بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی اساس چونکہ خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی و کینہ توزی پر قائم تھی اس لیے انہوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب کو کافر مشہور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ابوطالب کو کافر ثابت کرنے کا مقصد یہ تھا ہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی علیہ السلام عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر حضرت ابوطالب حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر اتنا جوش و خروش دیکھاتے۔

کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی اور پیغمبر اکرم کے اس عظیم حامی اور مددگار کی جدوجہد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ہو گا وہ اپنے دل میں حضرت ابوطالب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ کو راہ نہ دے گا۔ اس کی دو وجہ ہیں:

اوّل: یہ کہ اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے شخص یا قبیلے کی حمایت و پشتیبانی کرے تو یہ ممکن ہے کہ اسے ذرا سی دیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک، نہ صرف حمایت و پشت پناہی کرے، بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہو۔

دوسرے: یہ کہ حضرت ابوطالب کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور امامت آئمہ معصومین علیہم السلام اس وہم و گمان کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انہیں رسولکی ذات بابرکات پر تھا۔

چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی مجلس میں حضرت ابوطالب کا ذکر آگیا تو آپ نے فرمایا:

مجھے حیرت ہے کہ وگوں کو حضرت ابوطالب کے ایمان میں شک و تردد ہے۔ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اوّلین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں، چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے۔

حضرت محمد امام اقر علیہ السلام سے حضرت ابوطالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

اگر حضرت ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقینا حضرت ابوطالب کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا۔ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ای الحدید، ج۱۴، ص ۶۸)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابوطالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا، اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انہیں دوگنا اجر دے گا۔

حضرت ابوطالب نے دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لیے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ہے:

کسی شخص نے حضرت ابوطالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھوں۔

میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکھ دیئے جن کا مضون یہ تھا:

لولاابو طالب و ابنہ لما مثل الذین شخصا فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ہذا بیثرب جس الحماما (۲۴) (ابن ابی الحدید ص ۸۳، ۸۴)

”اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوت دین اسلام ہرگز قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ باپ نے مکے میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑھ گیا۔“

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.