امير المومنين عليٴ کے دورِ خلافت کي دشوارياں اور راہِ حل
جب امامٴ نے خلافت کي ذمہ داري سنبھالي تو آپٴ کے سامنے مشکلات کا ايک پہاڑ کھڑا تھا۔ ان مشکلات کے ساتھ خليفہ سوم کے قتل سے پيدا ہونے والے سياسي عدم استحکام کي وجہ سے مستقبل بہت تاريک نظرآ رہا تھا۔ ہم ان مشکلات کا ذکر کريں گے جو امامٴ کے سامنے موجود تھيں۔
سب سے پہلے يہ بات نظر ميں رکھيں کہ امير المومنين عليٴ بن ابيطالبٴ جيسا انسان جو دين کے اصول و فروع کے بارے ميں بہت حساس ہو، اسي کے لئے يہ مشکلات تھيں۔ اس سے پہلے ہر دور ميں صرف وقتي امور اور فقط فتوحات ميں وسعت کو ہدف بنا کر کام کيا گیا تھا۔ ليکن اب يہ بات واضح ہوگئي تھي کہ ان ميں سے بہت سے راستے راہِ راست سے دور تھے۔ مثال کے طورپر خليفہ ثاني نے ديوان (رجسٹر) بناتے وقت قبائلي اصولوں کو مدنظر رکھا تھا جس کا اجتماعي اور سياسي منفي اثر پندرہ سال کے بعد (حضرت عليٴ کے دورِ حکومت ميں) ظاہر ہورہا تھا۔ يہاں ہم گفتگو و بحث کو بہتر طور پر پيش کرنے کے لئے امامٴ کي دشواريوں کو چند پہلووں سے پيش کرتے ہيں:
١۔ امامٴ کي پہلي مشکل ’’اقتصادي عدالت‘‘ کا خيال رکھنا تھا۔ اس سے پہلے ہم اشارہ کرچکے ہيںکہ خليفہ دوم نے ديوان کي تدوين ميں اسلام ميں سبقت اور قبيلوں کو بنياد بنايا تھا۔ يعني جو صحابہ پہلے اسلام لائے تھے، انہيں زيادہ حصہ ملتا تھا۔ يہي صورتِ حال خليفہ سوم کے زمانے ميں بھي جاري رہي۔ انہوں نے اپني ذاتي بخششوں کا سلسلہ بھي شروع کرديا جس سے معاشرے کے مالدار اور غريب طبقے کے درميان فاصلہ مزيد بڑھ گيا۔ يہ ساري رقوم مفتوحہ زمينوں اور کفار سے حاصل ہونے والا جزيہ، مالِ غنيمت کا خمس اور خراج وغيرہ تھا۔ اس رقم کا تعلق تمام لوگوں سے تھا۔ جب امامٴ نے خلافت کي ذمہ داري سنبھالي تو تقسيمِ اموال ميں برابري اور مساوات پر عمل کيا، جيسا کہ رسول اللہ ۰بھي ايسا ہي کيا کرتے تھے۔
امامٴ نے اپني پہلي ہي تقرير ميں يہ اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ صرف سيرتِ رسولِ خدا ۰ پر عمل کريں گے (و اني حاملکم علي منہج نبيکم)، اپني مالي و اقتصادي پاليسي کا اعلان کر ديا تھا۔ آپٴ نے مہاجر و انصارکي ايک دوسرے پر فضيلت کو معنوي و روحاني فضيلت قرار ديا جو خدا کے نزديک محفوظ ہے اور اس کا اجر خدا دے گا۔ ليکن اس دنيا ميں، جو شخص خدا اور اس کے رسول۰ کي دعوت کو قبول کرکے مسلمان ہوجائے، مسلمانوں کے قبلہ کي طرف نماز پڑھے، وہ تمام حقوق سے بہرہ مند ہوگا اور اسلامي حدود بھي اس پر نافذ ہوں گي۔ امامٴ نے اضافہ فرمايا:
’’تم اللہ کے بندے ہو اور مال بھي اللہ کا مال ہے جو تمہارے درميان برابر تقسيم ہوگا اور کسي کو دوسرے پر برتري نہيں ہوگي۔ پرہيزگاروں کو خدا کے پاس بہترين اجر ملے گا۔‘‘
امامٴ نے اپني پاليسي کي تاکيد کرتے ہوئے فرمايا:
’’مبادا کل کوئي کہے کہ علي بن ابيطالب نے ہمارے حقوق روک ليے۔ ‘‘ (شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد جلد ٧ صفحہ ٣٧۔٣٦)
حضرت عليٴ نے دوسرے دِن عبيد اللہ بن ابي رافع کو حکم ديا کہ جو بھي آئے اسے تين دينار ادا کردے۔ اسي وقت سہل بن حنيف نے کہا: ’’يہ شخص ميرا غلام تھا اور کل ہي ميں نے اسے آزاد کيا ہے۔‘‘ امامٴ نے فرمايا: ’’سب کو تين دينار مليں گے۔ ہم کسي کو دوسرے پر ترجيح نہيں ديں گے۔‘‘
بني اميہ کے کچھ بڑے اور طلحہ و زبير اپنا حصہ لينے بھي نہيں آئے۔ اگلے روز وليد بن عقبہ کچھ اور لوگوں کے ساتھ امامٴ کے پاس آيا اور احد ميں عليٴ کے ہاتھوں اپنے باپ اور سعيد بن عاص کے باپ کے قتل اور جناب عثمان کي موجودگي ميں مروان کے باپ کي ذلت کي طرف اشارہ کرتے ہوئے امامٴ سے مطالبہ کيا کہ کم از کم جو اموال انہيں ديئے گئے ہيں، وہ ان سے واپس نہ ليے جائيں۔ اس کے علاوہ خليفہ سوم کے قاتلوں سے قصاص ليا جائے۔ امامٴ نے ان کے مطالبات مسترد کرديئے اور انہوں نے اپني منافقت کااظہار اور مخالفت کا آغاز کرديا۔
اگلے روز امامٴ نے دوبارہ خطبہ ديا اور عالمِ غضب ميں تقسيمِ اموال کے معاملے ميں اللہ کي کتاب کو اپنا معيار قرار ديا۔ امامٴ منبر سے نيچے تشريف لائے اور دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد طلحہ اور زبير کے ساتھ مسجد کے ايک کونے ميں بات چيت کے لئے تشريف لے گئے۔ ان دونوں کي اصل بات يہي تھي کہ نہ آپ کاموں ميں ہم سے مشورہ کرتے ہيں اور تقسيمِ اموال ميں بھي آپ نے جناب عمر بن خطاب کے برعکس عمل انجام ديا ہے اور يہ کہ آپٴ نے ہميں وہي حصہ ديا ہے جو ان مسلمانوں کو ديا ہے جنہوں نے اسلام کي راہ ميں کوئي تکليف نہيں اٹھائي۔ امامٴ نے فرمايا:
’’جب کتاب اللہ کے اندر حکم موجود ہے تو مشورہ کي ضرورت نہيں ہے۔ البتہ اگر کوئي بات خدا کي کتاب اور سنت رسول۰ ميں نہيں آئي ہوگي تو ميں تم لوگوںسے مشورہ کروں گا۔ برابري کي تقسيم کے معاملے ميں ہم سب نے ديکھا ہے کہ رسول اللہ ۰ اسي طرح کيا کرتے تھے جيسا کہ کتابِ خدا کا بھي يہي حکم ہے۔‘‘
زبير اسي وقت بول اٹھا: ’’يہ ہے ہمارا صلہ؟ ہم نے اس کے لئے يہ راستہ اختيار کيا تھا‘ يہاں تک کہ عثمان قتل ہوگئے۔ اور آج وہ ان کو ہم سے برتر قرار دے رہے ہيں، جن سے ہم برتر تھے۔‘‘ ابن ابي الحديد، جناب عمر کي اس روش ہي کو امامٴ کے ساتھ اصحاب کي مخالفت کا اصلي سبب قرار ديتا ہے، حالانکہ خليفہ اول کا وہي طريقہ کار رہا تھا جو رسول اللہ ۰ کا تھا اور کسي نے ان کي مخالفت نہيں کي تھي۔ جن اصحاب نے امامٴ پر اعتراض کرتے ہوئے سنتِ خليفہ ثاني کو معيار قرار ديا تھا، ان سے امامٴ نے فرمايا:
’’کيا رسول اللہ کي پيروي بہتر ہے يا سنتِ عمر کي؟‘‘
اس طريقہ کار کي مخالفت جب بحراني شکل اختيار کرنے لگي تو خود آپٴ کے اپنے اصحاب بھي آپٴ کے پاس پہنچے تاکہ سرداروں کو عام عربوں پر اور قريش کو دوسرے موالي اور عجم پر ترجيح دے دي جائے۔ امامٴ نے ان کي بات نہ ماني اور فرمايا:
’’کيا تم مجھ سے کہتے ہو کہ ميں ظلم و ستم کرکے کاميابي حاصل کروں؟‘‘
بعد ميں ابنِ عباس نے امام حسنٴ کو ايک خط ميں لکھا: ’’لوگ اس لئے آپٴ کے بابا کو چھوڑ کر معاويہ کي طرف چلے گئے کہ وہ لوگوں کے درميان مال کو برابر تقسيم کيا کرتے تھے اور وہ اس کو برداشت نہيں کر سکتے تھے۔‘‘
بعض نے تو واضح طور پر اپني مخالفت کي دليل اسي بات کو قرار ديا ہے کہ امامٴ نے تقسيمِ اموال کے موقع پر ان کا خيال نہيں رکھا ہے۔ بہرحال امامٴ کي ايک خصوصيت جس ميں آپٴ نے شہرت پائي، يہي تھي کہ قسم بالسويۃ و عدل في الرعيۃ (آپٴ برابري سے تقسيم کرتے اور رعايا ميں عدل سے کام ليتے تھے)
٢۔ فتوحات کے نتيجے ميں مختلف نسلوں، جيسے عرب، ايراني، نبطي، رومي اور بربر وغيرہ کا اختلاط پيدا ہوا۔ بہت سے جنگي قيدي بھي تھے جن کا تعلق کسي عرب قبيلے سے ہوتا تھا اور انہيں شام، عراق يا حجاز کے مختلف علاقوں سے لايا جاتا تھا۔ آزادشدہ قيديوں کو ’’موالي‘‘ کہا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ مواليوں کا شمار عام عربوں کے مقابلے ميں نچلے طبقے ميں ہوتا تھا اور ان کے حقوق بھي کم تھے۔ يہاں ايک دشواري يہ بھي تھي کہ اس معاملے ميں حکومت کي پاليسي کيا ہوني چاہئے؟ يہ بات مسلَّم ہے کہ جب امامٴ نے حکومت کي ذمہ داري سنبھالي تو اس وقت معاشرے ميں مواليوں پر عربوں کي برتري ايک مسلم الثبوت اصول سمجھي جاچکي تھي۔ امامٴ کي عدالت طلب طبيعت کے لئے يہ بات بہت مشکل تھي کيونکہ ديني اعتبار سے اس امتياز کي سچائي کي کوئي دليل نظر نہيں آتي تھي بلکہ اس کے برعکس تمام مسلمانوں کي برابري کي دليليں بالکل واضح تھيں۔
کہا جاتا ہے کہ ايک مرتبہ دو عورتيں حضرت عليٴ کے پاس آئيں اور غربت کي شکايت کي۔ امامٴ نے فرمايا: ہمارا فرض ہے کہ اگر تمہاري بات سچ ہے، تو تمہاري مدد کي جائے۔ پھر آپ نے کسي کو بھيجا کہ بازار سے کپڑا اور کھانا لاکر دونوں کو دے اور دونوں کو ايک ايک سو درہم بھي ديدے۔ يہ سُن کر ايک عورت نے اعتراض کيا اور بولي: ميں عرب ہوں اور يہ عورت موالي ہے۔ ہمارے ساتھ يکساں سلوک کيوں ہورہا ہے؟
امامٴ نے جواب ديا: ميں نے قرآن پڑھا اور اس ميں خوب غور و فکر کيا، وہاں مجھے کہيں نظر نہيں آيا کہ اولادِ اسماعيل کو اولادِ اسحاق پر مچھر کے پر کے برابر بھي برتري دي گئي ہو۔
جب امامٴ مال تقسيم کرنا چاہتے تھے تو فرمايا:
’’حضرت آدمٴ کي کوئي اولاد نہ غلام تھي اور نہ کنيز۔ اللہ کے بندے سب آزاد ہيں۔۔۔ ميرے پاس کچھ مال ہے اور ميں کالے اور سفيد ميں کوئي فرق نہيں رکھوں گا اور اسے مساوي تقسيم کردوں گا۔‘‘
موالي اور عجميوں کے ساتھ امامٴ کا عادلانہ رويہ اشعث بن قيس جيسے متعصب لوگوں کے لئے قابلِ اعتراض بن گيا۔ چنانچہ ايک مرتبہ جب امامٴ منبر پر تھے کہ اشعث چلا اٹھا: يہ سفيد موالي ہم پر چھا گئے ہيں اور تم ديکھ رہے ہو۔ آپٴ يہ سُن کر غضبناک ہوئے۔ ابنِ صوحان نے کہا: آج معلوم ہوگا کہ عربوں کي کيا حيثيت ہے۔ عليٴ نے فرمايا:
’’کون مجھے ان عظيم الجثہ لوگوں کو سزا دينے سے روکے گا جو آدھے دِن تک اپنے بستر پر کروٹيں بدلتے رہتے ہيں حالانکہ کچھ لوگ شب زندہ داري کے لئے اپنے بستر سے اٹھ کھڑے ہوتے ہيں؟ مجھ سے چاہتے ہو کہ ميں ان کو دھتکار دوں اور ظالموں ميں شامل ہوجاوں؟ قسم اس ذات کي جس نے دانے کو اُگايا اور جانداروں کو بنايا ميں نے محمد۰ سے سُنا کہ آپ۰ نے فرمايا: خدا کي قسم وہ لوگ تم (عربوں) کو ماريں گے تاکہ دين کي طرف لوٹ جاو جيساکہ تم انہيں ابتدائ ميں دين پر لانے کے لئے مارتے تھے۔‘‘
مغيرہ ضبي کہتا ہے: حضرت عليٴ مواليوں سے محبت کرتے تھے اور ان پر مہربان تھے ليکن جناب عمر ان سے بيزار اور دور رہا کرتے تھے۔
امامٴ کا ايک شعر بھي اس بارے ميں ہے جس ميں نسل و نژاد کي نفي کرتے ہوئے شرافت انساني اور الہي معيار کا تذکرہ ہے۔
لعمرک ما الانسان الا بدينہ
فلا تترک التقويٰ اتکالا علي الحسب
فقد رفع الاسلام سلمان فارس
و قد ہجن الشرک الشريف ابالہب
ترجمہ: تيري جان کي قسم کہ انسان کي اہميت دين کے علاوہ کسي اور چيز سے نہيں ہے۔ اور تجھے حسب و نسب پر تکيہ کرکے تقويٰ کو چھوڑنا نہيں چاہئے۔ اسلام نے فارس کے سلمان کو عظمت دي جبکہ ابولہب کو شرک نے ذليل کيا۔
٣۔ امامٴ کے سامنے ايک اور زيادہ اہم دشواري ديني انحرافات اور وہ باتيں تھيں جنہيں اصحاب نے خليفہ سوم کي بدعتيں قرار دیا تھا۔ علاوہ ازيں، ايک اور بڑي مشکل يہ بھي تھي کہ بہت سے لوگوں کو دين کا صحيح درک بھي نہيں تھا اور ان کو مذہب کي صحيح معلومات فراہم کرنے کے لئے کوئي اقدام بھي نہيں کيا گيا تھا۔ ہم يہاں ان تحريفات کے کچھ نمونے پيش کريں گے جن سے امامٴ روبرو ہوئے:
ان ميں سے ايک مسئلہ يہ رہا کہ بعض اصحاب قرآن و سنت (ميں کسي چيز کے بيان) کے باوجود، صرف مصلحت کے نام پر بعض احکام سامنے لے آيا کرتے تھے۔
امامٴ نے ايک تفصيلي خطبے ميں اس اندازِ فکر پر تنقيد کرتے ہوئے سنت سے اپني وابستگي کا اظہار کيا ہے۔ آپٴ نے اس چيز کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کسي مسئلے کے حل کے لئے مختلف آرائ سامنے آئيں اور لوگ حاکم کے پاس آئے تو اس نے سب کو درست قرار دے ديا، فرمايا:
’’حالانکہ ان کا خدا ايک ہے، نبي ايک ہے اور کتاب بھي ايک ہے۔ تو کيا خدا نے کہا ہے کہ ايک دوسرے کے خلاف جائيں اور انہوں نے خدا کا حکم مانا ہے؟ يا انہيں مخالفت سے روکا تھا اور انہوں نے نافرماني کي ہے؟ يا جو کچھ خدا نے نازل کيا وہ ايک ناقص دين تھا اور خدا نے اس کو کامل کرنے کے لئے ان سے مدد کي درخواست کي ہے؟ يا يہ اس کے شريک ہيں اور ان کو حق حاصل ہے کہ يہ بوليں اور خدا (چپ چاپ) جو يہ کرنا چاہيں اس پر راضي رہے؟ يا جو دين خدا نے نازل کيا ہے وہ تو کامل تھا ليکن نبي اکرم ۰نے پہنچانے ميں کوئي کوتاہي کي ہے؟ حالانکہ خدا فرماتا ہے: ہم نے کتاب ميں کسي بات کو نہيں چھوڑا۔‘‘
امامٴ ايک اور خطبے ميں بعض لوگوں کي غلطيوں کے بارے ميں تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ نہ يہ کسي نبي کو ليتے ہيں اور نہ اس کے جانشين کا کردار اپناتے ہيں۔۔ يہ شبہات ميں کام کرتے ہيں اور خواہشات کے راستے پر چلتے ہيں۔ ان کے نزديک معروف (نيکي) وہي ہے جسے وہ خود پہچانيں اور اس سے خوش رہيں اور منکر (برائي) وہي چيز ہے جو انہيں پسند نہ آئے۔ مشکلات ميں صرف اپنے اوپر تکيہ کرتے ہيں اور مسائل کے حل ميں اپني ہي رائے پر اعتماد کرتے ہيں۔ گويا ان ميں سے ہر ايک اپنا امام خود ہے اور يہ سمجھتا ہے کہ جو حکم اس نے لگايا ہے اس کے لئے اس کے پاس مضبوط ترين بنياد اور مستحکم ترين وسيلہ ہے۔
دلچسپ امر يہ ہے کہ خليفہ دوم اور سوم کے خيال ميں انہيں يہ حق حاصل تھا کہ وہ بعض معاملات ميں سنت کو چھوڑ کر اپنے مخصوص قوانين بھي بنا سکتے ہيں (جيسا کہ خليفہ سوم نے نبي اکرم۰ اور پہلے دو خلفائ کے برخلاف، منيٰ ميں پوري نماز پڑھي)۔ ليکن رفتہ رفتہ مسلمانوں نے خلفائ کے افعال و کردار کو بطورِ سنت شرعي قبول کرليا کہ جس ميں خطا کا بھي کوئي امکان نہ ہو۔ خود خليفہ ثاني نے آخري وقت ميں کہا تھا: جانشين معين نہ کرنا بھي سنت (رسول) ہے اور جانشين معين کرنا بھي سنت (ابوبکر) ہے۔
بنا بريں ان کي نظر ميں جناب ابوبکر کا عمل بھي ’’سنت‘‘ شمار ہوتا ہے۔ شوريٰ کے اندر بھي عبدالرحمٰن بن عوف نے يہ شرط لگائي تھي کہ خلافت اس کے سپرد کرے گا جو سنت رسول۰ اور سنتِ شيخين پر عمل کرے گا۔ امامٴ کي جانب سے اِن بدعتوں کي مخالفت کا واضح ترين نمونہ آپٴ کا وہ رويہ ہے جو آپٴ نے نمازِ تراويح کے بارے ميں اپنايا۔ اس نماز کو خليفہ ثاني نے ايک بدعت (البتہ بقولِ خود اچھي بدعت!) سمجھنے کے باوجود اس کو قائم کيا۔ جس زمانے ميں امامٴ کوفہ ميں تھے، تو کچھ لوگ آپٴ کے پاس آئے اور مطالبہ کيا کہ ماہِ رمضان ميں نمازِ تراويح کے لئے ان کے لئے کسي امام جماعت کو منصوب کرديں۔ آپٴ نے انہيں اس کام سے روکا تو رات کے وقت وا رمضاناہ (ہائے ماہِ رمضان!) کے نعرے لگنے لگے۔ حارثِ اعور آپٴ کے پاس آيا اور بولا: لوگ شور مچارہے ہيں اور آپ کي بات سے ناراض ہوئے ہيں۔ امامٴ نے فرمايا: چھوڑ دو ان کو۔ جو جي ميں آئے کريں اور جسے چاہيں اپنے لئے امامِ جماعت مقرر کرليں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامٴ کا سروکار کيسي قوم سے پڑا تھا او روہ کس طرح آپٴ کي پيروي کيا کرتے تھے؟
امامٴ ايک خط ميں مالک کو دينداروں کي دنياداري کي طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہيں:
’’يہ دين اشرار (برے لوگ) کے ہاتھو ں ميں اسير ہے۔ وہ اس ميں اپني خواہشات کے مطابق عمل کيا کرتے اور دين کے نام پر دنيا کھاتے تھے۔ ‘‘
ايک اور اہم انحراف جو کئي دوسرے انحرافات کي بنياد بنا، يہ تھا کہ حديث کو نقل کرنے اور اس کي کتابت پر پابندي لگا دي گئي تھي۔ رشيد رضا نے اس نکتے کي جانب اشارہ کيا ہے کہ اس بات نے اسلامي ثقافت پر ايسي ضرب لگائي ہے جس کا تدارک ممکن نہيں ہے۔ يہ فيصلہ سنت سے بے اعتنائي کي وجہ سے ہوا تھا۔ جو قرآن حضرت عليٴ نے جمع کيا تھا اور اس کے ساتھ تفسير اور آيات کي شانِ نزول بھي تھي، اسے نظرانداز کردينا، بھي نبي اکرم ۰کے کلمات سے بے توجہي کي دليل ہے، کيونکہ امامٴ نے قرآن کے ساتھ (بطورِ تفسير و شانِ نزول) کلامِ نبي۰ کو بھي درج کيا تھا۔
حضرت عليٴ نے مسلمانوں کے درميان داخلي جنگوں کا اصلي سبب لوگوں ميں شبہات کا رسوخ اور کج فکري کو قرار ديا ہے:
’’آج ہم اس لئے اپنے ہي مسلمان بھائيوںسے جنگ پر مجبور ہوگئے ہيں کہ انحراف، کجي، شبہہ اور تاويل اسلام ميں داخل ہوگئے ہيں۔‘‘
امامٴ نے ايک مقام پر فرمايا ہے کہ شبہہ کو شبہہ اس لئے کہا گيا ہے کہ يہ حق سے مشابہت رکھتا ہے۔
٤۔ امامٴ کي راہ ميں ايک اور دشواري، اجتماعي فساد تھا۔ سامانِ تعيش کي طرف لوگوں کا شديد رجحان اس بات کا سبب بنا کہ معاشرے ميں ديني اقدار اور دين کي بلند نگاہي کمزور ہوئي اور دين کو ظاہري صورت کے علاوہ کوئي اہميت نہيں دي جاتي تھي۔ جب خليفہ سوم رفاہي زندگي کي طرف مائل ہوئے تو يہي افکار ان کي رعايا ميں بھي ظاہر ہونے لگے اور بتدريج پورے معاشرے کوديني حوالے سے ايک مشکل ميں گرفتار کرديا۔ جو معاشرہ فتنہ و فساد ميں مبتلا ہوجائے وہ دوبارہ اخلاقي توازن تک بہ آساني نہيں پہنچ سکتا۔ امامٴ اپنے ايک خطبے ميں اپنے زمانے کے معاشرے کو جاہليت کے معاشرے جيسا قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’تمہاري آج کي حالت وہي ہوگئي ہے جب اللہ نے اپنے رسول کو مبعوث کيا تھا۔ ‘‘
امامٴ نے اسي وقت اقدار ميں تبديلي اور تحول و انقلاب کي ضرورت پر زور ديا اور فرمايا کہ معاشرے کو تہ و بالا کرنا ضروري ہے، تاکہ آگے نکل جانے والے پيچھے پلٹا ديئے جائيں اور پيچھے چھوڑ ديئے جانے والے آگے لے جائے جائيں۔
امامٴ نے ايک اور جگہ فرمايا:
’’جان لو کہ تم لوگ ہجرت کے بعد (اور شريعت سے ادب سيکھنے کے بعد) دوبارہ بدو ہونے کي عادت پر لوٹ گئے ہو اور دوستي کي خاطر گروہ گروہ ہوگئے ہو۔ اسلام سے اس کے نام کے علاوہ تم کو کوئي وابستگي نہيں ہے اور ايمان کے بارے ميں اس کي نشانيوں کے علاوہ کچھ نہيں جانتے۔۔۔ جان لو کہ تم نے اسلام کے ساتھ رشتہ کي ڈور کو توڑ ڈالا ہے اور اس کي حدود کو پامال کرديا ہے اوراس کے احکام پر عمل نہيں کيا ہے۔‘‘
امامٴ نے ايک اور مقام پر زمانے کے فساد کے بارے ميں فرمايا:
’’اللہ تم پر رحم کرے! جان لو کہ تم ايسے زمانے ميں زندگي گزار رہے ہو کہ جس ميں حق بولنے والے کم اور سچ بولنے والي زبان کمزور اور حق کا ساتھ دينے والے قليل ہيں ۔ لوگ نافرماني ميں گرفتار اور ايک دوسرے کے ساتھ سازش پر تيار ہيں۔ ان کے جوان بدعادت اور ان کے بوڑھے گناہگار ہيں۔ ان کے عالم منافق اور قاري مفادات کے شکار ہيں۔ نہ بچے بڑوں کا احترام کرتے ہيں اور نہ امير غريبوں کي مدد کرتے ہيں۔‘‘
اسلامي سياست ميں امير شام جيسے انسان کا دَر آنا خود معاشرے کے لئے ايک بہت بڑا فتنہ و فساد تھا۔ اسي طرح بصرہ ميں طلحہ و زبير کے ماننے والوں اور کوفہ ميں خوارج کا پيدا ہونا پريشان کن تھا۔ يہ لوگ کبھي اپني گمراہي کو جانتے بوجھتے ہوئے اور کبھي اپنے آپ کو راہِ حق کا راہي سمجھتے ہوئے رہروانِ راہِ حق کا راستہ روکتے رہے۔ امامٴ امير شام کے بارے ميں فرماتے تھے:
’’ميں نے اس معاملے کو آگے پيچھے سے اچھي طرح پرکھا اور پھر ديکھا کہ ان کے ساتھ جنگ کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہے يا پھر جو کچھ محمد۰ لے کر آئے ہيں، اس سے انکار کردوں۔‘‘
اصلاح۔۔۔ امامٴ کي سياست کا اصول
امامٴ اصلاح کو اپني بنيادي ذمہ داري سمجھتے تھے۔ اس کي وجہ يہ تھي کہ آپٴ خود دين اور سنت کے پابند انسان تھے۔ اس کے علاوہ يہ بھي مدنظر رہے کہ امامٴ ان لوگوں کے وسيلے سے خلافت پر متمکن ہوئے تھے، جو گذشتہ خليفہ کو فساد کے الزام ميں قتل کرچکے تھے اور يہ توقع کر رہے تھے کہ نيا خليفہ خرابيوں کي اصلاح کرے گا۔ ان لوگوں کا مقصد اور امامٴ کي شخصيت کے ساتھ اس کي ہم آہنگي ہي وہ بنيادي سبب تھا جس کي وجہ سے انہوں نے امامٴ کي جانب رخ کيا تھا۔ گذشتہ خلفائ کي پاليسي فتوحات کو وسعت دينا تھا جس سے اسلام پھيلا اور طبيعي طور پر لوگوں کي جيبيں درہم و دينار سے بھر گئيں۔
اب امامٴ کو ان ادوار کي خرابيوں کا تدارک کرنا تھا۔ يہ کام بہت دشوار تھا اور اس سے آپٴ کو بہت سے مالداروں اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کے سامنے کھڑا ہونا تھا۔ يہاں ہم امامٴ کے اصلاحي اقدامات کا ذکر کريں گے۔ سب سے پہلے تو يہ بات ياد رہے کہ امامٴ کے يہ اقدام دو حصوں ميں ہيں: کچھ زبان سے اور خاموشي کے ساتھ اجتماعي اقدامات کے ذريعہ اور کچھ جنگ کے ذريعہ۔ جنگ بھي ان لوگوں کے ساتھ جو معاشرے کے ايک قانوني حاکم کا حق ادا کرنے سے انکار کر رہے تھے اور سرکشي ميں مصروف تھے۔ (اس مقالے ميں) صرف پہلے حصے کے حوالے سے بعض اقدامات کو بطورِ نمونہ پيش کرتے ہيں:
معاشرے ميں موجود ايک خطرناک اخلاقي مشکل جس نے امامٴ کو اپني جانب بہت زيادہ متوجہ رکھا، وہ عرب سورماوں کي دنيا گرائي، تعيش پسندي اور ہوس تھي۔ يہ عادت اس طرح ان کے حواسوں پر چھا گئي تھي کہ جنگِ جمل کو اسي کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے کيونکہ امامٴ نے طلحہ اور زبير کو بيت المال ميں سے ان کے حق سے زيادہ حصہ دينے سے انکار کرديا تھا۔ ان حالات ميں امامٴ نے فيصلہ کيا کہ ايک خطبہ ميں اس بارے ميں تفصيل سے گفتگو فرمائيں اور انہيں دنيا پرستي سے پرہيز کرنے کي نصيحت کريں۔ چنانچہ امامٴ نے اپنے گورنروں کو خط لکھ کر انہيں پر تکلف دسترخوانوں پر بيٹھنے سے روکا جو خليفہ سوم کے زمانے ميں ايک رواج بن چکا تھا۔ اگر دنيا کي مذمت کے بارے ميں امامٴ کے کلمات جمع کيے جائيں تو ايک بڑي کتاب بن سکتي ہے۔
نہج البلاغہ اس قسم کے جملوںسے بھري ہوئي ہے۔ اور اتني بڑي تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ امامٴ اس پر بہت اصرار کرتے تھے۔ خطبہ ہمام ميں باتقويٰ انسان کا ايک نمونہ (رول ماڈل) بھي نظر آتا ہے۔ بعض خطبوں ميں امامٴ لوگوں کو ان کي دنيا پرستي کي وجہ سے واضح الفاظ ميں سرزنش کرتے ہوئے نظر آتے ہيں:
’’موت کا ذکر تمہارے ذہنوں سے نکل چکا ہے اور دھوکہ دينے والي آرزووں نے اس کي جگہ لے لي ہے۔ آخرت سے پہلے دنيا تم پر قبضہ کرچکي ہے اور اِس دنيا نے تمہارے ذہنوں سے اُس دنيا کو نکال ديا ہے۔‘‘
امامٴ نے دين کي تفسير کو اپنے اصلاحي اقدامات ميں سرفہرست قرار ديا اور کوشش کي کہ سنت نبوي۰ کو سامنے لاکر اور فراموش شدہ اصول و فروعِ دين کو زندہ کر کے معاشرے کي اصلاح کريں۔ آپٴ خود فرماتے ہيں:
’’کيا ميں نے تمہارے درميان ثقلِ اکبر (قرآن) پر عمل نہيں کيا؟ اور کيا تمہارے درميان ثقلِ اصغر (اہلبيت) کو نہيں چھوڑا۔ کيا تمہارے درميان پرچمِ ايمان کو نہيں اٹھايا اور کيا تمہيں حلا ل و حرام سے واقف نہيں کيا؟ اپنے عدل سے تمہيں لباسِ عافيت پہنايا اور اپنے قول و فعل سے نيکيوں کو تمہارے درميان پھيلايا، اپني ذات سے تمہيں اخلاقِ کريمانہ دکھائے۔‘‘
امامٴ ان جملات ميں تاکيد کے ساتھ کتابِ خدا اور سنتِ رسول۰ پر عمل کي بات کررہے ہيں۔ سنت رسول اللہ ۰سے آپٴ کي يہ وفاداري آپٴ کي اصلاحي سياست کا ايک اہم نکتہ ہے۔ دراصل آپٴ سنت رسول۰ سے روگرداني کو انحراف بلکہ متعدد انحرافات کا سبب سمجھتے ہيں۔ ابتدائي دنوں ميں ہي جب طلحہ اور زبير نے امامٴ سے مشورہ نہ کرنے کي شکايت کي توآپٴ نے فرمايا: ’’خدا کي قسم! مجھے خلافت ميں دلچسپي نہيں تھي اور نہ حکومت کي کوئي حاجت تھي۔ ليکن تم نے مجھے مجبور کيا اور يہ فرض ميرے ذمہ ڈال ديا۔ جب حکومتي امور ميرے پاس پہنچے تو ميں نے اللہ کي کتاب ميں اور جو کچھ ہمارے لئے مقرر کيا ہے، اس ميں اور جو حکم دينے کا ہميں حکم ديا ہے، اس ميں ديکھا اور اس کي پيروي کي۔ اور جو سنت رسول۰ نے چھوڑي ہے اس پر عمل کيا۔ ضرورت نہيں تھي کہ اس بارے ميں تم سے دوسروں سے رائے طلب کروں۔‘‘
جس زمانے ميں خليفہ سوم منيٰ ميں (سفر کے باوجود) نماز پوري پڑھا کرتے تھے، ايک بار وہ بيمار ہوگئے تو انہوں نے امامٴ سے نماز پڑھانے کي درخواست کي۔ امامٴ نے فرمايا کہ اگر وہ نماز پڑھائيں گے تو رسول اللہ ۰ کي طرح سے نماز پڑھائيں گے۔ خليفہ نے کہا: نہيں جس طرح ميں نماز پڑھاتا ہوں اس طرح سے۔ امامٴ نے يہ درخواست مسترد کردي۔
مطرف بن عبد اللہ کہتا ہے: رسول اللہ کے ايک صحابي عمران بن حصين کے ساتھ ميں حضرت عليٴ کے پيچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کے بعد عمران نے ميرا ہاتھ تھاما اور کہا: يہ محمد۰ کي طرح نماز پڑھتے ہيں۔ انہوں نے مجھے محمد۰ کي نماز يا د دلادي۔ ابوموسيٰ اشعري کہ جس نے امامٴ کے کوفہ آتے ہي ان کے پيچھے نماز پڑھي تھي، کہتا ہے: علي ابن ابيطالب نے ہميں نبي کي نماز ياد دلا دي۔ امامٴ کي اصلاحي پاليسي کے لئے سيرتِ نبوي کا احيائ بہت اہميت کا حامل تھا۔
امامٴ نے خليفہ دوم اور سوم کي کتابتِ حديث کو ترک کرنے کي پاليسي کے بارے ميں منبر پر جاکر اعلان فرمايا: ’’جو لوگ علم کو لکھ لينا چاہتے ہيں وہ کاغذ اور قلم تيار کرليں۔‘‘ حارث اعور نے کاغذ قلم فراہم کيا اور جو کچھ آپٴ نقل فرماتے، وہ لکھتا جاتا۔ اس کے بعد امام حسنٴ نے بھي اپنے بچوں کو تاکيد کي کہ احاديث نبوي کو لکھ ليں۔ توجہ رہے کہ حضرت عليٴ خود بھي احاديثِ رسول۰ کو لکھا کرتے تھے۔ آپٴ کے بعد آپٴ کي لکھي ہوئي کتاب اہلبيتٴ کے پاس ہوتي تھي اور وہ ’’کتابِ عليٴ‘‘ سے شيعوں کے لئے حديث نقل کيا کرتے تھے۔
دوسري جانب حديث کي کتابت پر پابندي کے ساتھ ساتھ قصہ گو لوگوں کو اجازت ملي کہ وہ مسجد ميں آکر انبيائ کے بارے ميں يہوديوں اور عيسائي راہبوں کے قصے سنائيں۔ امامٴ نے حديث کي کتابت کو رواج ديتے ہوئے قصہ خواني کے خلاف سخت اقدامات کيے اور لوگوں کو قصہ خواني سے منع فرمايا۔ دراصل امامٴ يہوديوں کي روايات کو نقل کرنے کے مخالف تھے۔ آپٴ سے منقول ہے کہ فرمايا: جن کے پاس گذشتہ لوگوں کي کتابيں ہيں، وہ انہيں ضائع کرديں۔
کسي نے يہودي کتابوں سے حضرت داودٴ کا اوريا کے ساتھ پيش آنے والا واقعہ نقل کيا تو آپٴ نے سخت بازپرس کي اور فرمايا: اگر کسي نے اسے نقل کيا تو اس پر حد جاري کروں گا۔ ہم جانتے ہيں کہ اس جھوٹے واقعہ ميں حضرت داودٴ کي جانب قتلِ عمد اور زنا کي نسبت دي گئي ہے۔
جب آپٴ بصرہ تشريف لائے تو قصہ سنانے والوں کو مسجد سے نکال ديا۔ آپٴ کے بعد امام حسنٴ نے بھي قصہ خواني سے منع فرمايا۔ امام زين العابدينٴ نے بھي حسن بصري کو جو قصہ خوان تھے، اس کام سے روکا، اور اس نے بھي امامٴ کي بات مان لي۔
تاريخي کتابوں ميں رسول اللہ ۰ کے اخلاق اور ان کي شخصيت کي توصيف تمام اصحاب سے زيادہ حضرت عليٴ کي زبانِ مبارک سے نقل شدہ نظر آتي ہے۔ اس کا ايک سبب يہي ہے کہ امامٴ سب سے بڑھ کر حضور۰ کي روش کے پيروکار تھے۔ اسي لئے ابتدائ ہي سے پيغمبر اکرم ۰ کي تمام حرکات کو اپنے ذہن ميں بٹھاتے تھے اور بعد ميں جاذب ترين کلمات کے ذريعہ آنحضور۰ کي شخصيت کي توصيف کيا کرتے تھے۔
کسي نے حسن بصري سے امامٴ کے بارے ميں پوچھا تو جواب ديا: ’’انہوں نے لوگوں کو راستہ دکھايا اور جب دين راستہ سے ہٹا تو اسے سيدھا کيا۔ ‘‘
حسن بصري کا يہ جملہ سوچا سمجھا، دقيق اور اس پاليسي کے مطابق ہے جو امامٴ نے اپني حکومت کے دوران رکھي تھي۔ ايک شاعر آپٴ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
اوضحت من ديننا ما کان مشتبہا
جزاک ربک عنا فيہ احسانا
جو باتيںدين ميں ہمارے لئے مشتبہ تھيں ، آپٴ نے اس کي وضاحت کي۔ اللہ تعاليٰ آپ کو نيک جزا دے۔
جناب ابوذر۱ حضرت عليٴ کي تعريف ميں کہا کرتے تھے: علي زرّ الدين۔ علي دين کا قوام (اصلي ستون) ہيں۔ امامٴ خود بھي اپني سيرت کو سيرتِ رسول۰ کے ساتھ مطابقت دينے پر اصرار کرتے تھے۔ جنگِ جمل کے بعد بصرہ والوں کے ساتھ اپنے رويے کے بارے ميں فرمايا: مکہ والوں کے ساتھ جو رويہ نبي اکرم ۰ نے رکھا تھا، ميں نے بصرہ والوں کے ساتھ وہي رويہ اختيار کيا ۔
حضرت عليٴ ايک مقام پر اس عادل امام کو بہترين بندہ خدا قرار ديتے ہيں جو احيائِ سنت کے لئے کوشش کرے۔ اسي طرح اس امام ظالم کو بدترين بندہ شمار کرتے ہيں جو سنت کا خاتمہ کرے۔ کلي طور پر امامٴ بدعت سے مکمل دوري اختيار کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہيں: ’’ہر نئي بدعت کے آنے سے ايک سنت ختم ہوجاتي ہے۔‘‘ امامٴ دو باتوں کو اپني وصيت کے طور پر پيش کرتے ہيں؛ خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا اور دوسرے سنت رسول۰ کو ضائع نہ کرنا۔ امامٴ ان لوگوں کو اوليائ اللہ سمجھتے ہيں جو اللہ اور اس کے رسول کي سنت کو زندہ کرتے ہيں۔
امامٴ کے نزديک لوگوں کے دو گروہ ہيں: شريعت کي پيروي کرنے والے اور بدعتيں ايجاد کرنے والے۔ نہج البلاغہ ميں آنے والے يہ اور ان جيسے جملوں سے سنت کي پيروي اور بدعت سے پرہيز کے معاملے ميں امامٴ کے افکار کي واضح نشاندہي ہوتي ہے۔ آپٴ کا يہ موقف ان لوگوں کے مقابلے ميں تھا جنہوں نے کم از کم بعض موارد ميں بدعتيں ايجاد کي تھيں اور جب ان پر اعتراض کيا جاتا تھا تو کہتے تھے: اگر بدعت ہے تو بھي اچھي بدعت ہے۔
امامٴ دين کے معاملے ميں کسي بے جا نرمي کے قائل بھي نہيں تھے۔ آپٴ خود فرماتے تھے: ’’خدا کي قسم! ميں نے دين کے معاملے ميں کبھي بے جا نرمي سے کام نہيں ليا۔‘‘ ايک مرتبہ بني اسد کے ايک شخص کو آپٴ کے پاس سزا دينے کے لئے لايا گيا۔ بني اسد نے امامٴ سے درخواست کي کہ سزا نہ دي جائے۔ امامٴ نے فرمايا: ’’جس چيز کا اختيار ميرے پاس ہے، وہ تم مجھ سے مانگو گے تو ميں ضرور دوں گا۔‘‘ پھر امامٴ نے اس شخص پر حد جاري کي اور فرمايا: ’’يہ خدا کا کام تھا اور ميرے پاس اس کا اختيار نہيں کہ ميں تمہيں دے سکتا۔ ‘‘
امامٴ امت کي ہدايت ميں اپنے کردار کے بارے ميں فرماتے ہيں: ’’اے لوگو! ميں نے تمہيں وہ نصيحتيں کيں جو انبيائ اپني امتوں کو کرتے تھے اور اوصيائ اپنے بعد والوں کو ديا کرتے تھے، ميں نے تمہيں وعظ و نصيحت کے کوڑے سے سمجھايا ليکن تم نہيں مانے اور باتوں کے ذريعہ تمہيں نافرماني سے روکا ليکن نہيں رکے۔ تمہيں قسم ہے خدا کي! کيا ميرے علاوہ کسي اور امام سے تمہيں توقع ہے کہ جو تمہارے ساتھ سيدھي راہ پر چلے اور تمہيں سيدھے راستے کي ہدايت کرے؟‘‘ نيز اپنے بارے ميں فرماتے ہيں: ’’بے شک ميں تمہارے درميان ايسے ہوں جيسے تاريکي ميں چراغ۔ جو اس تاريکي ميں آئے گا وہ اسي چراغ سے روشني چاہے گا اور فائدہ اٹھائے گا۔‘‘
بہرصورت امامٴ سنت رسول۰ کے نفاذ ميں اس قدر سنجيدہ تھے کہ کوشش کرتے تھے کہ آپٴ کي تمام حرکات و سکنات بھي شبيہِ پيامبر۰ ہوجائيں۔ جب امامٴ پر اعتراض کيا گيا کہ مسجد ميں لوگوں کو اچھا کھانا ديتے ہيں اور خود گھر کے اندر بھوسے والي روٹي کيوں کھاتے ہيں؟ تو امامٴ نے گريہ کرتے ہوئے فرمايا: ’’خدا کي قسم! ميں نے کبھي نہيں ديکھا کہ نبي اکرم۰ کے گھر پر بغير بھوسي کے روٹي پکائي جائے۔‘‘
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ امامٴ کي کوشش ہوتي تھي کہ آپٴ کا کھانا بھي رسولِ خدا ۰ کے کھانے جيسا ہونا چاہئے۔
حوالہ جات
شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد جلد ٧ ، تحف العقول، نہج السعادہ جلد ١،الغارات جلد ١ ، حياۃ الصحابہ جلد ٢، طبقات الکبريٰ جلد ٣ ، انساب الاشراف جلد ٢، تاريخ يعقوبي جلد ٢ ، بحار الانوار جلد ٤١، مختصر تاريخ دمشق جلد ١٠، نہج البلاغہ، المنار جلد٦، تاريخ المدينہ المنورہ جلد ٣، الغدير جلد ٩، ترجمۃ الامام الحسنٴ ابنِ سعد، جامع بيان العلم و فضلہ جلد ١، مجمع البيان جلد ٨، وسائل الشيعہ جلد ٢، الکافي جلد ٢، المصنف ابن ابي شيبہ جلد