عزاداري انبيا و ائمہ طاہرين عليہم السلام

173

سيد الشہدائ امام حسين عليہ السلام کے غم ميں عزاداري کي ايک طويل تاريخ اور بلند مقام ہے۔ جب حضرت آدمٴ کو زمين پر بھيجا گيا تو وہ کچھ عرصہ تلاش ميں تھے کہ کس طرح اپنے ماضي کي تلافي کريں اور بارگاہِ الہي ميں دوبارہ حضور کي سعادت حاصل کريں۔ چنانچہ جناب جبرئيلٴ نازل ہوئے اور يہ کلمات تعليم فرمائے تاکہ ان کے وسيلے سے اذنِ وصال مل جائے:
يا حميدُ بحقِ محمد، يا عالي بحقِ علي، يا فاطرُ بحقِ فاطمہ، يامحسنُ بحقِ الحسن و الحسين و منکَ الاحسان۔
يعني اے لائق حمد بحقِ محمد، اے بلند مرتبہ بحقِ عليٴ، اے خلق کرنے والے بحقِ فاطمہٴ، اے نيکي کرنے والے بحقِ حسنٴ و حسينٴ اور نيکياں تجھ ہي سے ہيں۔
جب جناب آدمٴ نے ان اسمائ کو دہرايا تو جبرئيلٴ سے پوچھا: ’’جب حسينٴ کا نام زبان پر لاتا ہوں کيوں ميرا دل شکستہ ہو جاتا ہے اور دل پر غم کے بادل چھا جاتے ہيں اور آنسو جاري ہوجاتے ہيں؟‘‘ جبرئيلٴ نے جواب ميں امامٴ کے مقام و مرتبے کي جانب اشارہ کيا اور آپٴ پر پڑنے والے مصائب بتائے اور خصوصيت کے ساتھ آپٴ کي اور آپٴ کے ساتھيوں کي پياس کا ذکر کيا۔ (بحار الانوار ج ٤٦)

حضرت ابراہيم خليل اللہ کي يزيد پر لعنت:
امام حسينٴ اور ان کے اصحاب پر لعنت کا تعلق صرف کربلا والوں کي شہادت کے بعد سے نہيں ہے بلکہ حضرت ابراہيمٴ بھي يزيد پر لعنت کرنے والوں ميں شامل ہيں۔ ايک مرتبہ حضرت ابراہيمٴ سرزمين کربلا سے گزر رہے تھے کہ گھوڑے سے گر گئے اور آپٴ کے سر پر زخم لگا اور خون جاري ہوگيا۔ آپٴ نے خدا کے حضور استغفار کيا اور عرض کيا: ’’خدايا! مجھ سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے؟‘‘
جبرئيلٴ نے نازل ہوکر فرمايا: ’’آپ نے کوئي گناہ نہيں کيا ہے۔ يہاں آخري نبي اور ان کے بلافصل جانشين کا بيٹا مارا جائے گا اور آپ کا خون اس کي ہمدردي ميں جاري ہوا ہے۔‘‘
جناب ابراہيمٴ نے پوچھا: ’’اس کا قاتل کون ہوگا؟‘‘
بولے: ’’ايک ايسا شخص جس پر آسمان والے اور زمين والے لعنت بھيجتے ہيں۔‘‘
يہ سُن کر خليل اللہ نے بھي ہاتھ اٹھائے اور يزيد پر بہت لعنت کي۔ (بحار الانوار جلد ٤٦)

امام حسينٴ سے حضرت ابراہيمٴ کي محبت:
امام علي رضاٴ ايک حديث ميں فرماتے ہيں:
’’جب اللہ تعاليٰ نے حضرت ابراہيمٴ کو اپنے بيٹے کي قرباني کا حکم ديا (اور آخر ميں دنبہ ذبح ہوا) تو جناب ابراہيمٴ نے آرزو کي کہ کاش دنبہ نہ آيا ہوتا تاکہ وہ بھي مصيبت اٹھانے والوں کا عظيم درجہ حاصل کرپاتے۔ اس موقع پر خدا نے وحي کي: ’’اے ابراہيم! مخلوق ميں تيرے نزديک سب سے زيادہ محبوب کون ہے؟‘‘
جواب ديا: ’’تيري کوئي مخلوق ميرے نزديک تيرے حبيب محمد ۰ سے زيادہ محبوب نہيں ہے۔‘‘
خدا نے فرمايا: ’’تجھے محمد۰ اور اس کے فرزند سے زيادہ محبت ہے يا خود سے اور اپنے بيٹے سے؟‘‘
جواب ديا: ’’محمد۰ اور اس کے بيٹے سے۔‘‘
خدا نے فرمايا: ’’محمد۰ کے فرزند کا اس کے دشمن کے ہاتھوں ظلم کے عالم ميں قتل ہوجانا زيادہ دردناک ہے يا تيرے ہاتھوں تيرے بيٹے کا ميري اطاعت ميں قربان کر دينا؟‘‘
جواب ديا: ’’محمد۰ کے فرزند کا ذبح ہونا زيادہ دردناک ہے۔‘‘
خدا نے فرمايا: ’’اے ابراہيم! بہت جلد ايک گروہ ظلم کرتے ہوئے ان کے بيٹے کو ذبح کرے گا جس کے نتيجے ميں وہ گروہ ميرے غضب کا شکار ہوگا۔‘‘
پس جناب ابراہيمٴ نے گريہ کيا۔
خدا نے فرمايا: ’’اے ابراہيم! محمد۰ کے فرزند (امام حسينٴ) پر تيرے اس گريہ کو ميں نے تيرے بيٹے پر گريہ کي جگہ قرار ديا (اگر وہ قرباني ہو جاتا) اور صاحبانِ مصائب کو ملنے والا اعليٰ ترين درجہ تجھے عطا کيا۔‘‘ (خصال صدوق)

حضرت موسيٰ عليہ السلام کي نفرين:
حضرت موسيٰ عليہ السلام نے قاتلانِ امام حسينٴ پر لعنت و نفرين کي ہے۔ ايک مرتبہ وہ يوشع بن نون کے ہمراہ سفر کے دوران سرزمين کربلا پر پہنچے۔ اچانک آپٴ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گيا اور جوتا آپ کے پير سے نکل گيا۔ اسي وقت ايک کانٹا آپٴ کے پير ميں چبھا اور خون جاري ہوگيا۔ انہوں نے عرض کيا: ’’خدايا! مجھ سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے؟‘‘
وحي نازل ہوئي کہ ’’يہ مقام شہادتِ حسينٴ کا مقام ہے اور تيرا خون اس لئے جاري ہوا کہ مانند خونِ حسينٴ ہو جائے۔‘‘
حضرت موسيٰ نے پوچھا: ’’حسينٴ کون ہے؟‘‘
ارشاد ہوا: ’’وہ محمد مصطفي کا نواسہ اور علي مرتضيٰ کا بيٹا ہے۔‘‘
حضرت موسيٰ نے پوچھا: ’’حسينٴ کا قاتل کون ہے؟‘‘
فرمايا: ’’وہ ايسا شخص ہے جس پر درياوں کي مچھلياں، جنگلوں کے جانور اور ہوا ميں اڑنے والے پرندے لعنت کرتے ہيں۔‘‘
يہ سُن کر حضرت موسيٰ نے ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھايا اور يزيد پر لعنت کي اور يوشع نے آمين کہا۔(خصالِ صدوق)

کہيعص کي تاويل:
سعد بن عبد اللہ اشعري کہتے ہیں: ’’ميں نے امام زمانٴ سے پوچھا: ’’کہيعص کي تاويل کيا ہے؟‘‘
فرمايا: ’’يہ حروف ايک راز ہے جو خدا نے حضرت زکريا کو بتايا تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ پنجتن آل عباٴ سے واقف ہو جائيں جو جبرئيلٴ نے انہيں بتائے تھے۔ جب کبھي جناب زکرياٴ ان ناموں کو اپني زبان پرجاري کرتے ان کا حزن و اندوہ دور ہو جاتا۔ ليکن حسينٴ کا نام زبان پرآتے ہي اشک جاري ہو جاتے اور دل غم سے بوجھل ہو جاتا۔ ايک دن انہوں نے خدا سے عرض کي۔ ’’دل کي اس تسکين اور آنسووں کي برسات کا سبب کيا ہے؟‘‘
خدا نے فرمايا: ’’کاف‘ سے سرزمين کربلا کي جانب اشارہ ہے اور ’ہا‘ خانوادہ رسول۰ کي شہادت کي نشاني ہے، ’يائ‘ کا اشارہ قاتلِ حسينٴ کي طرف ہے جس کا نام يزيد ہے اور ’عين‘ سے مراد عطش (پياس) ہے اور ’صاد‘ اس کے صبر و استقامت کي علامت ہے۔‘‘
جب حضرت زکرياٴ کو يہ معلوم ہوا تو تين روز تک مسجد ميں مقيم رہے اور کسي سے ملاقات نہ کي۔ اس دوران تنہائي ميں امام حسينٴ پر گريہ کرتے اور مرثيہ پڑھتے رہے۔ اس کے بعد خدا سے عرض کيا: ’’خدايا مجھے ايک بيٹا عطا کر تاکہ ميں اس کا غم اٹھاوں اور آخري نبي کے ساتھ ہمدردي کروں۔‘‘
چنانچہ خدا نے حضرت يحييٰ ان کو عطاکئے جو اپنے زمانے کے طاغوت کے ہاتھوں دردناک ترين انداز ميں شہيد ہوئے۔ (احتجاج طبرسي)

نبي اکرم ۰ اور ائمہ طاہرين کي عزاداري
اشکِ نبي۰:
نبي اکرم ۰ مختلف مناسبتوں سے امام حسينٴ کے مصائب بيان فرماتے اورگريہ کرتے تھے۔ جب امام حسينٴ آپ۰ کے حضور تشريف لاتے توآپ۰ اسے اپني آغوش ميں لے ليتے اور حضرت عليٴ سے فرماتے کہ ان کا خيال رکھيں۔ پھر ان کا بوسہ ليتے اور گريہ کرتے۔ جب امام حسينٴ نے آپ۰ سے گريہ کا سبب پوچھا تو فرمايا: ’’ميں تلواروں کے وار کے مقامات کا بوسہ ليتا ہوں اور گريہ کرتا ہوں۔‘‘
امامٴ نے پوچھا: ’’کيا ميں مارا جاوں گا؟‘‘
فرمايا: ’’ہاں، خدا کي قسم تم بھي، تمہارا بابا بھي اور تمہارا بھائي بھي مارے جاو گے۔‘‘
امام حسينٴ نے فرمايا: ’’کيا ہماري قتل گاہيں اور مدفن جدا جدا ہيں؟‘‘
فرمايا: ’’ہاں، بيٹا!‘‘
اب امام حسينٴ نے پوچھا: ’’ہماري زيارت کے لئے کون آئے گا؟‘‘
نبي۰ نے فرمايا: ’’ميرے، تمہارے بابا کے، تمہارے بھائي کے اور تمہارے زوار ميري امت کے سچے اور حق کے متلاشي لوگ ہوں گے۔‘‘ (بحار الانوار ج٤٤)

نبي اکرم ۰ کي لعنت:
امام حسينٴ کي ولادت کے دو سال بعد نبي اکرم ۰ ايک مرتبہ عازمِ سفر ہوئے۔ راستے ميں ايک مقام پر ٹھہر گئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے: ’’انا للہ و انا اليہ راجعون‘‘۔ جب لوگوں نے اس عمل کي وجہ دريافت کي تو فرمايا: ’’ابھي جبرئيلٴ نے مجھے ايک علاقے کي اطلاع دي ہے جو نہر فرات کے کنارے واقع ہے اور اس کا نام کربلا ہے۔ ميرا فرزند حسينٴ (فاطمہٴ کا بيٹا) اس سرزمين پر مارا جائے گا۔‘‘
عرض کيا: ’’اسے کون قتل کرے گا؟‘‘
فرمايا: ’’ايک شخص جس کا نام يزيد ہوگا۔ خدا اس پر لعنت کرے! گويا ميں اس مقام کو ديکھ رہا ہوں جہاں حسينٴ کي روح پرواز کر جائے گي اور اسے دفن کيا جائے گا۔‘‘ (اللہوف في قتلي الطفوف)
جبرئيل عليہ السلام کي خبر:
سفر سے واپس آکر نبي اکرم۰ منبر پر تشريف لے گئے اور لوگوں کو نصيحت کي۔ آخر ميں اپنا داياں ہاتھ حسنٴ کے سر پر اور باياں ہاتھ حسينٴ کے سر پر رکھا اور آسمان کي طرف سر اٹھا کر فرمايا: ’’خدايا! محمد تيرا بندہ اور تيرا پيغمبر ہے اور يہ ميرے خاندان کے پاکيزہ ترين اور ميرے فرزندوں اور خاندان ميں برگزيدہ ترين افراد ہيں۔ ميں اپنے بعد ان دو کو اپني امت کے درميان چھوڑ کے جاوں گا۔ جبرئيلٴ نے مجھے بتايا ہے کہ ميرا يہ بيٹا (امام حسينٴ کي جانب اشارہ کرتے ہوئے) عالمِ غربت ميں مظلوم مارا جائے گا۔ بارِ الہا! شہادت کو اس کے لئے مبارک فرما اور اسے شہيدوں کو سردار بنا دے۔ خداوندا! جو لوگ اسے تنہا چھوڑ ديں اور جو لوگ اسے قتل کرنے کي کوشش کريں، انہيں دنيا و آخرت کي برکت سے محروم کردے!‘‘ (اللہوف في قتلي الطفوف)
نبي کے جگر کا ٹکڑا:
جب نبي اکرم ۰ لوگوں کو امام حسينٴ کے مصائب بتا رہے تھے تو وہ گريہ کر رہے تھے۔ نبي اکرم۰ نے ان سے فرمايا: ’’کيا تم حسينٴ پر گريہ کر رہے ہو اور اس کي مدد نہيں کرو گے؟‘‘ اس کے بعد برافروختہ اور سرخ چہرے کے ساتھ جب کہ آنکھوں سے آنسو جاري تھے، مختصر خطبہ ارشاد فرمايا۔ پھر فرمايا:
’’اے لوگو! ميں دو نفيس يادگاريں تمہارے درميان چھوڑ کے جارہا ہوں؛ يہ دو خدا کي کتاب اور ميري عترت اور خاندان ہے۔ يہ ميرے آب و گل سے مخلوط اور ميرے جگر کے ٹکڑے ہيں۔ يہ دو ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوضِ کوثر پر ميرے پاس آجائيں۔ آگاہ رہو! کہ ميں ان دونوں کا انتظار کروں گا اور ان دو کے بارے ميں تم سے سوائے اس کے کوئي چيز نہيں چاہتا جس کا ميرے پروردگار نے مجھے حکم ديا ہے۔ پروردگار نے مجھے حکم ديا ہے کہ ميں اپنے اقربائ اور اعزائ کي دوستي کا تم سے تقاضا کروں۔ مبادا کہ جب روزِ قيامت حوض کے کنارے مجھ سے ملاقات کرو کہ ميرے خاندان سے دشمني رکھتے ہو اور ان پر ستم کر چکے ہو!‘‘
(اللہوف في قتلي الطفوف)

امام حسينٴ کا گريہ :
امام حسينٴ امام حسنٴ کي زندگي کے آخري لمحات ميں ان کے پاس پہنچے اور بہت گريہ کيا۔ امام حسنٴ نے فرمايا: ’’کيوں رو رہے ہو؟‘‘
جواب ديا: ’’آپ کي حالت ديکھ کر!‘‘
امام حسنٴ نے فرمايا: ’’ميں زہر سے مارا جاوں گا ليکن تيرے دن جيسا تو کوئي دن نہيں ہے کہ تيس ہزار بظاہر مسلمان ۔۔ اور حقيقتاً کافر۔۔ تيرے گرد جمع ہو جائيں گے تاکہ تجھے قتل کرديں اور تيرے حرم اور خاندان کي بے احترامي کريں۔ پھر انہيں قيدي بنا کر تيرے خيموں کو لوٹ ليں۔ اس موقع پر خدا بنو اميہ پر لعنت بھيجے گا اور اس ہولناک مصيبت پر آسمان گريہ کرے گا۔ نہ صرف آسمان بلکہ زمين و زمان تم پر روئيں گے يہاں تک کہ وحشي جانور اور درياوں کي مچھلياں بھي۔‘‘ (بحار الانوار ج ٤٥)
امام سجادٴ لوگوں کو جھنجھوڑ رہے ہيں:
ايک دن امام زين العابدينٴ بازار سے گزر رہے تھے۔ ديکھا کہ ايک قصاب بھيڑ کو ذبح کرنا چاہتا ہے۔ امام وہاں ٹھہر گئے اور رونے لگے۔ وہ قصاب اور بازار ميں پھرنے والے لوگ آپٴ کے گرد جمع ہوگئے۔ قصاب کو خدشہ تھا کہ کہيں اس سے کوئي غلطي سرزد نہ ہوگئي ہو، اس لئے اس نے آپٴ سے معذرت خواہي کي۔ امام سجادٴ نے سب کے سامنے اس سے پوچھا: ’’اس جانور کو تم نے پاني پلايا ہے؟‘‘
کہنے لگا: ’’يابن رسول اللہ! سب مسلمان ايسے ہي کرتے ہيں۔‘‘
يہ سُن کر امامٴ نے فرمايا: ’’ميں نے اپني آنکھوں سے ديکھا کہ ميرے بابا کو، ميرے بھائيوں کو اور ان کے اصحاب کو فرات کے آبِ گوارا کے کنارے پياسا شہيد کر ديا گيا‘‘۔
اس طرح امام سجادٴ نے بازار کے اندر سيد الشہدائ کے لئے مجلس عزاداري برپا کي اور مصائب بيان کئے۔ (بحار الانوار ج ٤٦)

سوزِ امام سجادٴ:
امام جعفر صادقٴ فرماتے ہيں: ’’سانحہ کربلا کے بعد امام سجادٴ بيس سال تک روتے رہے۔ جب کھانا آپ کے سامنے رکھا جاتا تو آپٴ گريہ فرماتے۔ ايک دن ايک غلام نے پوچھا: ’’ميں آپ کے قربان جاوں! مجھے خوف ہے کہ اس حالت ميں آپ کي زندگي کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘‘
امامٴ نے فرمايا: ’’ميں اپنا غم خدا کے سامنے پيش کرتا ہوں (يعني تم اس حقيقت کوسمجھنے سے قاصر ہو کہ ميں اسے بيان کروں) اور ميں وہ باتيں جانتا ہوں جو تم لوگ نہيں جانتے۔ جب اولادِ فاطمہٴ کا مقتل مجھے ياد آتا ہے تو ميري آنکھيں اشکوں سے لبريز ہو جاتي ہيں۔‘‘ (بحار الانوار ج ٤٦)

غم انگيز دن:
ايک دن امام سجادٴ نے علمدار کربلا حضرت عباسٴ کے بيٹے عبيد اللہ کو ديکھا تو آنکھوں ميں آنسو آگئے۔ فرمايا:
’’جنگ اُحد سے بڑھ کر نبي اکرم ۰ کے لئے سخت دن کوئي اور نہيں تھا کيونکہ اس دن آپ۰ کے چچا اور خدا و رسول۰ کے شير شہيد ہوئے۔ اس کے بعد جنگ موتہ کا دن تھا کہ جب آپ۰ کے چچازاد بھائي حضرت جعفر طيار شہيد ہوئے۔ ليکن ہمارے لئے عاشور سے بڑھ کر سخت دن کوئي نہيں کہ تيس ہزار افراد جمع ہوئے تاکہ ميرے بابا سيد الشہدائ کو شہيد کر ديں اور اپنے اس گھناونے فعل کے ذريعے قربِ خدا کي تمنا کريں؛ جب کہ آپٴ انہيں نصيحت اور موعظہ بھي کر رہے تھے اور انہيں خدا ياد دلا رہے تھے، ليکن انہوں نے دشمني اور ستم روا رکھتے ہوئے ميرے بابا کو قتل کرديا۔‘‘ (بحار الانوار ج ٤٤)

امام حسينٴ کا زوار، اہلبيتٴ کا ہم نشيں:
امام باقرٴ نے فرمايا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا مقام بہشت بريں ہو، وہ زيارتِ مظلوم کو ترک نہ کرے۔‘‘
کسي نے پوچھا: ’’مظلوم کون ہے؟‘‘
فرمايا: ’’حسينٴ بن عليٴ کہ جس نے انقلابِ عاشورائ کو جنم ديا۔ جو شخص ان کے عشق ميں اور خاندانِ رسالت کي محبت ميں ان کي زيارت کے لئے جائے گا، دوسرے لوگوں سے پہلے جنت ميں داخل ہوگا اور اہلبيتِ نبوي کے ساتھ ہم نشيں ہوگا۔‘‘ (بحار الانوار ج ١٠١)

روزِ عاشور:
امام جعفر صادقٴ کے ايک صحابي عبد اللہ بن سنان کہتے ہيں: ’’روزِ عاشور ميں امام صادقٴ کے حضور شرفياب ہوا۔ آپٴ کي آنکھوں سے آنسو کے موتي ٹپک رہے تھے۔ ميں نے عرض کيا: ’’آپ کيوں گريہ کر رہے ہيں؟‘‘
امامٴ نے جواب ديا: ’’تم کيسے غافل ہوئے؟ کيا تم نہيں جانتے کہ ايک ايسے دن ميں کربلا کا عظيم سانحہ ہوا تھا؟‘‘
ميں نے عرض کيا: ’’آپ کے خيال ميں اس دن روزہ رکھنا کيسا ہے؟‘‘
فرمايا: ’’پورا روزہ نہ رکھو اور نہ ايک رات پہلے روزے کي نيت کرو۔ عصر کے وقت تھوڑے پاني سے افطار کرلو؛ کيونکہ يہي وہ وقت تھا جب خاندانِ رسالت پر مسلط کي جانے والي سخت جنگ ختم ہوئي تھي۔ جب کہ ان ميں سے تيس افراد زمين پر پڑے ہوئے تھے۔ نبي اکرم ۰ کے لئے انتہائي سخت تھا کہ انہيں اس حال ميں ديکھيں۔ اگر اس دن آنحضور۰ زندہ ہوتے تو يقينا صاحبِ عزا ہوتے اور اس دن انہيں تسليت پيش کي جاتي۔‘‘ (بحار الانوار ج ٤٥)

شاعر کي حوصلہ افزائي:
امام جعفر صادقٴ نے جعفر بن عفان طائي سے فرمايا: ’’ميں نے سنا ہے کہ تم حسينٴ بن عليٴ کے بارے ميں شعر اور مرثيہ کہتے ہو اور بہت اچھے شعر کہتے ہو۔‘‘
کہنے لگا: ’’جي ہاں!‘‘
اس کے بعد اپنے چند اشعار امامٴ کي خدمت ميں پڑھ کر سنائے۔ آپٴ اور دوسرے حاضرين نے شدت سے گريہ کيا اور ان کي آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے۔ امامٴ نے فرمايا:
’’اے جعفر! خدا کي قسم جس گھڑي تم حسينٴ کا مرثيہ پڑھ رہے تھے، خدا کے فرشتے اس کے گواہ اور سننے والے تھے۔ وہ بھي ہماري طرح رو رہے تھے۔ خدا نے تيرے لئے جنت کو لازم کر ديا اور تجھے بخش ديا۔‘‘ (وسائل الشيعہ ج ١٠)

عاشورائ کي ياد کے لئے امام کاظمٴ کي تدبير:
امام موسيٰ کاظمٴ ايسے ماحول ميں زندگي گزار رہے تھے کہ آپٴ سے عزاداري حسينٴ کو برپا کرنے کا اختيار چھين ليا گيا تھا۔ ليکن امامٴ نے مناسب موقع پا کر لوگوں کي نگاہوں کو کربلا کي جانب مبذول کرايا۔ ايک سال نوروز کے دن ہارون الرشيد نے امامٴ کو پيشکش کي کہ سياسي اور فوجي افسران آپ سے ملنے آئيں گے۔ امامٴ نے انکار کيا ليکن ہارون الرشيد نے سخت اصرار کے بعد امامٴ کو مجبور کرديا۔ تمام سياسي اور فوجي افسران آپ کي خدمت ميں بارياب ہوئے اور ہر ايک نے ہديہ بھي پيش کيا۔ اس دوران ايک بوڑھا حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’ميں غريب آدمي ہوں اور کوئي ہديہ نہيں دے سکتا ليکن آپٴ کے جد، حسينٴ کے بارے ميں ميرے والد نے ايک مرثيہ کہا تھا اس کے چند اشعار پيش کرتا ہوں۔‘‘ امامٴ نے اس کا بہت استقبال کيا اور اپنے نزديک بٹھايا۔ ملاقاتيں ختم ہوئيں تو امامٴ نے ہارون کے اہلکار، جسے ہارون نے نگراني کے لئے بٹھايا تھا، سے فرمايا: ’’ہارون کے پاس جاو اور ان تحائف کے بارے ميں معلوم کرو کہ کيا کرنا ہے؟‘‘ وہ جاکر واپس آيا اور کہنے لگا: ’’آپ کو ان تحائف ميں اختيار حاصل ہے۔‘‘ چنانچہ امامٴ نے وہ سارے تحائف اس شخص کو دے ديئے جس نے امام حسينٴ کا مرثيہ سنايا تھا اور اس طرح امامٴ نے انقلابِ حسيني کي پاسداري ميں اہم کردار ادا کيا۔ (نفس المہموم، شيخ عباس قمي۲)

عزاداري حسينٴ اور امام علي رضاٴ :
امام علي رضاٴ مناسب موقعوں پر امام حسينٴ کے مصائب کا ذکر کرتے اور آپٴ کي ياد ميں گريہ فرماتے تھے۔ آپٴ نے ابن شبيب سے کہا: ’’اے فرزندِ شبيب! اگر کسي چيز پر رونا چاہتے ہو تو حسينٴ بن عليٴ پر گريہ کرو؛ کيونکہ ان کو اس طرح ذبح کيا گيا جس طرح جانور کا سر کاٹا جاتا ہے اور ان کے خاندان کے اٹھارہ مردوں کو جو اپنے دور کے بے مثال افراد تھے، بھي شہيد کرديا۔ ان کي شہادت کے سوگ ميں آسمانوں اورزمينوں نے گريہ کيا۔‘‘ (بحار الانوار ج ٤٤)

حرم حسيني:
امام علي نقيٴ اپنے زمانے کے گھٹن آلود ماحول ميں اپنے جد، حضرت امام حسينٴ، کے لئے علي الاعلان عزاداري برپا نہيں کرسکتے تھے۔ ليکن عاشورائي افکار کو پھيلانے کے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپٴ نے ايک شخص کو جو امام حسينٴ کي زيارت کے لئے جارہا تھا، فرمايا: ’’اس عظيم مقام پر ميرے لئے دعا کرنا؛ کيونکہ ميں يہ پسند کرتا ہوں کہ تم ميرے ايسے مقام پر دعاکرو کہ جہاں پر خدا کو دعا کرنا پسند ہے، اور امام حسينٴ کا حرم ايسي ہي ايک جگہ ہے۔‘‘ (بحار الانوار ج ١٠١)

امام زمانٴ کي مناجات:
امام زمانٴ سيد الشہدائٴ کے غم ميں فرماتے ہيں:
’’اگر زمانے نے مجھے دور کرديا ہے اور تقديرِ الہي نے مجھے آپٴ کي مدد سے روک ليا ہے اور ميں آپٴ کے ساتھ مل کر آپٴ کے دشمنوں سے جنگ نہيں کر سکا ہوں، تو ہميشہ آپ کے مصائب پر گريہ و زاري کرتا رہوں گا اور آنسووں کي جگہ اپني آنکھوں سے خونِ دل بہاوں گا، يہاں تک کہ ان مصائب کے درد اور رنج و غم سے اپني جان جان آفرين کے سپرد کردوں۔ (بحار الانوار ج ١٠١)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.