امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین(ع)کے قیام کا فلسفہ

429

حضرات ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت اور عملی زندگی میں بہت زیادہ مشترکات نظر آتے ہیں اور یہ ایک مسلم بات ہے۔
بقول اقبال ؂
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

اس اشتراکِ فکر وعمل کی اصل وجہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین (ع)اور انبیاء الٰہی کا مقصد اور اصول ایک ہے؛ جیسا کہ امام خمینیؒ کا ارشاد ہے کہ اگر سارے انبیاء عظام ایک وقت میں ایک ہی مقام پر موجود ہوتے تب بھی ان کے درمیان ذرہ برابر اختلاف نہ پایا جاتا۔ کیونکہ اگر کہیں بھی انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کے چند عوامل ضرور ہوتے ہیں مثلاً:
الف۔ ان افراد کا ہدف اور نصب العین ایک نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا مقصد اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے ۔ اس حقیقت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک مسافر مشرق جانے والا ہو اور دوسرا مغرب جانے والا ہو تو یہ دونوں ہمسفر نہیں ہو سکتے اور ایک گاڑی میں دونوں ایک ساتھ سوار نہیں ہوسکتے۔
ب۔ اختلاف کا دوسرا عامل، افراد کے طریقۂ کار کا اختلاف ہوتا ہے۔ مثلاً دین کی خدمت کرنا سب کا ہدف ہوتا ہے لیکن اس ہدف کے حصول کیلئے ایک شخص سیاست یا جہاد کا راستہ اپناتا ہے اور دوسرا شخص علمی اور فلاحی خدمات کی فراہمی کء ذریعے اس ہدف تک پہنچنا چاہتا ہے۔ البتہ اس طرح کے اختلاف کی بھی دو وجوہات ہوتی ہیں:
۱) بعض اوقات متعدد راستے اپنانے کا سبب تقسیم کار ہوتا ہے؛ مثال کے طور پرایک شخص تعلیم و تربیّت کا شعبہ سنبھال لیتا ہے تو دوسرا عسکری شعبہ اپنا لیتا ہے۔ لیکن دونوں کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے اور دونوں ایک ہی نظام کے اجزاء کی حیثیّت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے افراد کے درمیان تعاون کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔
۲) بعض اوقات ان افراد میں اختلاف کا سبب تقسیم کار نہیں ہوتابلکہ ان میں سے ہر ایک، اپنی روش کو برحق اور دوسرے کی روش کو باطل تصور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کلمۂ حق کے اِعلاء کیلئے ایک فرد تبلیغ کو صحیح روش اور جہاد و سیاست کو غلط روش خیال کرتا ہے جبکہ دوسرا فرد برعکس نقطۂ نظر کا مالک ہوتا ہے۔ ایسے افراد کی مثال ان تاجروں کی سی ہوتی ہے کہ جو ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب اگر افراد کے درمیان اختلاف کی نوعیّت پہلی قسم کی ہو تو معاشرے کا ڈاکٹر، استاد، وکیل، تاجر وغیرہ وغیرہ، سیاستدانوں کی مدد کریں گے اور سیاستدان ان کی۔ لیکن اگر اختلاف کی نوعیّت دوسری قسم کی ہو تو اس صورت میں ہر فرد دوسرے کو غلط قرار دے کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یوں پہلی قسم کا اختلاف اتحاد اور ہمکاری کا سبب بنتا ہے اور دوسری قسم کا اختلاف افتراق اور اختلاف و نزاع کا عامل بنتا ہے۔
ج۔ اختلاف کا تیسرا سبب، وسائل اور ذرائع کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً دوستوں اور حامیوں کی وفاداری، تعداد ، صلاحیت ، مالی ذرائع، اسلحہ و بارود اور دشمنوں کی کمیت و کیفیت و حکمت عملی ، حالات اور اوضاع زمانہ ، معاشرہ کا باشعور ہونا یا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ مثال کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہتر ایسے ساتھی ملے جنہوں نے کربلا کی اس قربانی کو اتنی عظمت بخشی۔ لیکن امام حسن ۔ کے ساتھی ایسے تھے کہ آپ کو دست بستہ دشمن کے حوالے کرنے کا سوچ رہے تھے۔ حضرت امام حسین (ع)کا دشمن ایک ناپختہ اور خودخواہ حکمران تھا لیکن حضرت امام حسن (ع)کے مدمقابل ایک انتہائی مکار سیاستدان تھا ۔
اختلاف کے ان تین عوامل میں سے حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیان یقیناًپہلے دو عامل، باعث اختلاف نہیں ہوسکتے تھے۔ کیونکہ حضرت امام حسین (ع)کا مقصد اور نصب العین رضای الٰہی اور بس ’’رضیٰ اللہ رضانا اھل البیت‘‘ تھا اور حضرت امام حسن (ع)کا مقصد اور نصب العین بھی یہی تھا۔اب حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیاں اختلاف، منزل تک پہنچنے کیلئے طریقہٗ کار کا باہمی اختلاف بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آپ دونوں امام ہیں اور اپنی مسؤلیت امامت کو معصومانہ صلاحیتوں کے ساتھ سرانجام دیا کرتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد نبوی ہے’’ الحسن و الحسین امامان قاما او قعدا‘‘۔
بنابرایں، حضرت امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے درمیاں اختلاف کا واحد سبب، وسائل، حالات، مدمقابل کی حیثیّت اور دوست و دشمن کا اختلاف ہی ہو سکتا ہے۔ حالات اور وسائل کے اسی اختلاف ہی کی وجہ سے نہ فقط حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے درمیان صلح و جنگ کی صورت میں اختلاف نظر آتا ہے کہ حضرت امام حسن (ع)حکومت دے دیتے ہیں اور حضرت امام حسین (ع)جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں بلکہ حضرت امام رضا علیہ السلام بھی ولایت عہد ی قبول فرماتے ہیں۔
بلکہ کردار اور انتخاب کا یہ اختلاف تو خود ایک ہی معصوم کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔مثال کے طور پر حضور اکرم ﷺنے ۱۵ سال تک صبر و تحمل سے کام لیا اور آٹھ سالوں میں اسی کے قریب جنگیں لڑیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ۲۵ ؍سال تک سکوت اختیار کیا اور پانچ سال میں تین عظیم جنگیں لڑین۔ حضرت امام حسن (ع)نے ابتداء میں جنگ کا راستہ اختیار کیا لیکن آخر میں صلح کر لی۔ اور حضرت امام حسین (ع)نے ابتداء میں صلح کا راستہ اختیار کیا لیکن آخر میں جنگ لڑنا پسند فرمایا۔
پس اسی لیے تو راہبر انقلاب اسلامی ایران، فرماتے ہیں کہ یہ معصومین چودہ کے بجائے اگر صرف ایک شخص ہوتا جس کی اتنی عمر لمبی ہوتی جتنی چودہ معصومین علیہم السلام کی ہے تو جو اقدامات وقت کے تقاضوں کے مطابق ان ہستیوں نے انجام دیے وہی ایک ہستی بھی یہ سب اقدامات ہوبہو انجام دیتی۔
بنابرایں، ان دو اماموں کی سیاست اور حکمت عملی میں فرق اور اختلاف کے اسباب اور عوامل کو جاننے کیلئے ہمیں معاویہ اور یزید کے درمیان کا فرق، آپ کے دوستوں اور دشمنوں اورعام مسلمانوں کے حالات کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا۔ جیسا کہ خود نبی اکرم ﷺ اور حضرت علی (ع)کے درمیان اسی وجہ سے حکمت عملی میں فرق نظر آتا ہے۔ اب ہم ذیل میں معصومین علیہم السلام کے درمیان اختلاف کے حوالے سے ایسے ہی عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

نفاق اور کفر کا فرق
اگرچہ حدیث نبوی کے مطابق منافق کافر سے بھی زیادہ امت مسلمہ کیلئے خطرناک ہے لیکن زمانے اور معاشرے کے حوالے سے نفاق کا خطرہ کفر کی نسبت کمتر ہوتا ہے ، کیونکہ منافقت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا بول بالا ہے اور منافق اپنے کفر کا اعلان بھی نہیں کرسکتا ہے۔ جبکہ اظہار کفر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اتنے بے ضمیر اور بے حس ہوچکے ہیں کہ کفر و اسلام کے درمیان ان کے لئے کوئی فرق نہیں رہا۔
بنی امیہ نے جو کہ دشمن اسلام اور دشمن پیغمبر تھے، اسلام کونابود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمیشہ ناکام رہے ۔ مشرکین مکہ اور حضور کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں قیادت کرنے والے یا بنیادی کردار ادا کرنے والے اسی قبیلہ کے بزرگان تھے۔ لیکن جب فتح مکہ کا موقعہ آیا تو لشکر اسلام کی طاقت اور عظمت کو جب اس خاندان نے دیکھا تو انہیں پتہ چل گیا کہ کفر کا علمبرداربن کر کامیابی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ تو انہوں نے اندرونی کفر اور بیرونی اسلام (جس کو قرآن نفاق سے تعبیر کرتا ہے) کی روش کو اپنایا۔ چنانچہ حضرت علی ۔ فرماتے ہیں کہ اس خاندان کے سردار نے دین کو ترک کیا ہے اور یہ اسلام کی بساط کو ایسا الٹا کریں گے جس طرح پوستین کو الٹا کیا جاتا ہے ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۰۸)۔
حضرت عمار یاسرؒ فرماتے ہیں: ’’استسلمو ولم یسلموا‘‘۔ (حماسہ حسینی) کہ انہوں نے ہتھیار ڈالا ہے مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ پھر ابوسفیان کا حضرت حمزہ کی قبرپر جاکر یہ کہنا کہ حمزہ! بادشاہت کے جس درخت کی تم اپنے خون سے آبیاری کی تھی وہ اب ہمارے بچوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے ۔پھر حضرت قیس بن سعد بن عبادہ اور معاویہ کے درمیان تبادلہ ہونے والے خطوط کے مضامین اور مغیرہ بن شعبہ کی معروف روایت (مسعودی) جس میں امیر شام نے کہا تھا کہ جب تک نام محمد کو دفن نہ کروں ،سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔تو اس قسم کے دسیوں واقعات، تاریخِ اسلام کی کتابوں میں مرقوم ہیں حالانکہ بنی امیہ کے زور شمشیر اور مذہبی تعصب کی وجہ سے اس قسم کی دسیوں تاریخی دستاویزات غائب بھی ہوچکی ہیں۔ (جیسا کہ تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں)
خلاصہ یہ ہے ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام کو نابود کرنا چاہتے تھے؛ کیونکہ اسلامی اصول نہ فقط ان کے خاندانی اور حکومتی مفادات کے منافی تھے بلکہ یہ لوگ خاندانی طور پر بھی اسلام اور حضرت محمد و آل محمد ؐکے دشمن تھے۔ لہٰذا وہ منتظر تھے کہ ایک ایسا دن آئے کہ مسلمان اعلان کفر کو بھی برداشت کرلیں اور ساتھ ان کی بادشاہت بھی باقی رہے۔ لہٰذا تاریخ بتاتی ہے کہ معاویہ خلیفہ کہلانے کی بجائے بادشاہ کے لقب سے زیادہ خوش ہوتا تھا۔
(تاریخ خلفاء۔ رسول جعفریان)
لیکن معاویہ اپنے دور میں کسی ایسے اظہار کی جرأت نہیں رکھتا تھا لہٰذا جو بھی ناجائز اعمال اس نے انجام دیئے اس کے لئے دین کا سہارا لیا؛ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع)کو وہ سب کرتا تھا تو پہلے کہتا تھا خدایا تو گواہ رہنا کہ علی نے تیرے دین کو ترک کیا ہے یا اس میں بدعت ایجاد کی ہے۔ لیکن یزید نے کفر کے الفاظ کو علی الاعلان زبان پر جاری کیا (جیسا کہ اس حوالے سے یزید کے اشعار معروف ہیں۔( معالم المدرستین، علامہ عسکری) اور اسی لیے تو مدینہ میں جب مروان نے حضرت امام حسین (ع)سے مطالبہ کیا کہ آپ یزید کی بیعت کریں تو امام نے فرمایا: ’’علی الاسلام السلام اذ بلیت الامۃ براع مثل یزید‘‘۔ یعنی یزید کی حکومت، اسلام کی نابودی اور اعلان کفر کے مترادف ہے ۔
یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ خدا نے خود اسلام کی حفاظت کی ضمانت دی ہے تو پھر حضرت امام حسین (ع)نے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا؟ تو جواب یہ ہے کہ خدا وند تبارک و تعالی نے انہی اہل بیت اطہار (ع)اور قرآن ہی کے ذریعے تو اسلام کی حفاظت کی ضمانت فراہم کی ہے۔ جیسا کہ جناب پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا: ’’انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی ان تمسکتم بہما لن تظلو بعدی ابدا‘‘۔ یعنی (میں تمہارے درمیان دو گراں چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ ایک اللہ تبارک و تعالی کی کتاب ہے اور دوسرے میری عترت، میرے اہلبیت ہیں؛ کہ جب تک میرے بعد ان دونوں کا دامن تھامے رہو گے، گمراہ نہ ہو گے۔)
اسی طرح حدیث سفینہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کربلا جیسی قربانیوں ہی کے ذریعے( جن کا تفصیلی ذکرفی الحال ممکن نہیں) خدا دین کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام حسین(ع)کیلئے اعلانِ کفر کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ناممکن تھا۔ کیونکہ اسلام کی حفاظت آپ کی اور ہر مسلمان کی ذمہ داری تھی ۔ اسی لیے تو جناب زنیب (ع)نے دربار یزید میں اپنے خطاب میں فرمایا: ’’فواللّٰہ لاتمحو ذکرنا و لاتمیت وحینا‘‘۔ یعنی ائے یزید! تمہارا مقصد ہماری وحی (اسلام)کی نابودی اور محافظ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے لیکن قسم بخدا یہ بات تمہارے بس میں نہیں ہے ۔

گناہوں میں فرق
یزید کی حکومت سے پہلے اگر کبھی حکمران گناہ کرتے تھے تو اسے یا تو دوسروں کی نگاہوں سے چھپ کر انجام دیتے تھے یا اس گانہ کے انجام دینے کے جواز کے طور پر بعض جعلی احادیث کا سہارا لے کر پہلے اس گناہ کو شرعی طور پر جائزقرار دیتے تھے اور بعد میں اس کا ارتکاب کرتے تھے اور ان میں گناہ کو کھلے عام گناہ کے عنوان سے انجام دینے کی جرأت نہ تھی۔ اسی لیے تو امیر شام، یزید سے کہتا تھا: ’’بیٹا! شراب تو بہت سے لوگ پیتے ہیں لیکن وہ چھپ کر ایسا کرتے ہیں۔ تم بھی ایسا ہی کیا کرو‘‘؛ یعنی شراب چھپ کر پیا کرو۔(معالم المدرستین) لیکن یزید علی الاعلان گناہ کاارتکاب کرتا تھا۔ اور اس کی وجہ بھی ہ ہے کہ اس کی پرورش بھی ایک غیر اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ دربارِ ولید میں حضرت امام حسین (ع)نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’یزید رجلٌ فاجرٌ مُعلن بالفسق و مثلی لایبایع مثلہ‘‘۔ (یعنی یزید ایک فاجر انسان ہے جو کھلے بندوں گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا) اسی طرح جب معاویہ یزید کی خلافت کی راہ ہموار کرنے کیلئے اور اس کی بیعت لینے کیلئے مدینہ آیا تو امام عالی مقام اور عبدالرحمن ابن ابی بکر، دونوں کا جواب ایسا ہی تھا کہ یزید اعلانیہ طور پر گناہ کرتا ہے اور امیر شام نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا اور نہیں کہا کہ نہیں وہ نیک آدمی ہے اور ایسے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ حقیقت سب پر عیاں تھی؛ لہٰذا زیاد ابن ابیہ جیسا شقی انسان بھی معاویہ سے کہتا ہے کہ یزید کیلئے لوگوں سے بیعت کا مطالبہ کرنے سے قبل، اسے کہہ دیں کہ کم از کم ایک دو سال تک تو مہذب طریقے سے زندگی گزار لے۔
بنابراایں، دین اسلام میں گناہ اعلانیہ اور مخفی گناہ میں فرق ہے۔ جہاں ایک انسان کے دسیوں مخفی گناہ معاف کر دیے جائیں گے وہاں شاید اس کا فقط ایک اعلانیہ گناہ بھی معاف نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ مخفی گناہ کرتے وقت صرف انسان اپنے اوپر ظلم کرتا ہے، لیکن معاشرے کو اس کے گناہ سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی وہ شخص اپنے عمل کے ذریعے معاشرہ کو گناہ کی دعوت دیتا ہے ۔ لیکن جب ایک انسان اعلانیہ طور پر گناہ انجام دیتاہے تو در اصل وہ اپنے اس عمل کے ذریعے گناہ کی قباحت اور برائی کو ختم کردیتا ہے اور شریعت کی توہین کامرتکب ہوجاتا ہے ۔پس ایک طرف تو اعلانیہ اور مخفی گناہ میں فرق ہے
اور دوسری بات یہ ہے کہ اہم شخصیتوں کے گناہ اور معمولی افراد کے گناہ میں بھی کافی فرق ہے۔ جیسا کہ ایک عرب شاعر کہتا ہے :

اذا کان ربّ البیت بالدّف مولع
فشیمۃ اھل البیت الرقص

یعنی۔ اگر کسی خاندان کا بزرگ ڈھول بجانے والا ہو تو اس گھر کے با قی افراد بھی رقص کرنے لگیں گے۔جب مسلمانوں کا حاکم، اسلام کے احکام کا عملی مذاق اڑاتا ہو تو عوام کی کیا حالت ہوگی؟ جب ایک ایسا شخص کہ جس کی ذمہ داری الہی حدود کا اجراء ہے، خود شرابی ہو تو شراب کی حد کون جاری کرے گا؟
اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن عالم کے ایک گناہ معاف ہوجانے سے پہلے جاہل کے ستر گناہ معاف ہوچکے ہوں گے ۔ اور برعکس اگر کوئی عالم نیک ہے تو اس کی نیند اور آرام بھی جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔ کیونکہ اہم شخصیات کے نیک یا برے اعمال کا معاشرے پر پڑنے والا اثر انتہائی زیادہ ہوتا ہے ۔ اور اسی لیے حضور اکرم ﷺنے فرمایا: ’’الناس علی دین ملوکہم‘‘۔(یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جہنمیوں کی زبانی یہ بات نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ بروزِ قیامت کہیں گے ’’خدایا! ان سرداروں اور بزرگوں نے ہمیں گناہ پر اکسایا پس ان کو دُگنے عذاب میں مبتلا کردے‘‘۔
اب ان حقائق کی روشنی میں غور فرمائیے کہ اگر یزید اقتدار پر قابض رہتا اور لوگ اسے خلیفۃ المسلمین اور جانشینِ رسول کے طور پر قبول کرلیتے تو کیا اسلام پر عمل کرنے والا کوئی باقی رہ جاتا؟ اور یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ وہ دین جس پر عمل نہ ہو پائے وہ زندہ دین نہیں کہلاتا۔ زندہ دین وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں نظر آئے ورنہ ایسا دین جس پر عمل انجام نہ پائے، اور وہ دین فقط نبی اکرم ﷺ کے ذریعے لوگوں تک نہ پہنچ پائے یا صرف لوح محفوظ پر باقی رہے تو ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ اسی لیے تو قرآن مجید ہر مقام پر ایمان اور عمل صالح باہم دونوں کو باعث نجات قرار دیتا ہے۔
سورۂ مبارکۂ ’’العصر‘‘، اس حقیقت پر گواہ ہے۔ لہٰذا اب تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ یزید سے پہلے کے حکمران اگرچہ گناہ توکرتے تھے لیکن مخفی طور پر یا گناہ کا شرعی جواز ڈھونڈ کر؛ لیکن یزید علی الاعلان گناہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے کے حکمرانوں کے خلاف اتنے شدید ردّ عمل کی ضرورت نہ تھی جتنی اس کے خلاف ضرورت تھی۔ کیونکہ اس کے ان گناہوں پر خاموشی، اس کی تایید سمجھی جاتی۔ لہٰذا حضرت امام حسین (ع)پر یزید کے خلاف قیام، ضروری ہوگیا تھا۔ البتہ ہمارے موجودہ زمانے میں بھی مسلمانوں کا یہی حال ہے اور اس دور کے مسلمانوں کو بھی کم از کم سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ یزیدِ وقت کی بیعت میں تو نہیں ہیں؟

ایک طرف شک و شبہ، دوسری طرف مردہ ضمیری
تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات سے لے کر حضرت علی (ع)کو خلافت ملنے تک، کسی بھی حکمران نے نہ فقط آل محمد کو تنہا کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، بلکہ امیر شام کو بھی مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی سیاست پر عمل پیرا رہے۔ اسی لیے رسولخدا ﷺکی امت ، اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مقام سے بے خبر رہی اور حضرت علی (ع)اور معاویہ کی جنگ کو حق و باطل کی بجائے قبیلۂ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان چلی آنی والی دشمنی کی ایک کڑی تصور کرنے لگی۔ اور معاویہ کی سازشوں کے ذریعے حضرت علی (ع)تو نعوذ باللہ، بے نمازی، لیکن امیر شام کاتبِ وحی بن گئے!حضرت علی (ع)قاتلِ عثمان اور ظالم ٹھہرے اور معاویہ خوامخواہ میں خونِ عثمان کا طلبکار اور حق بجانب قرار پایا۔
اب اُس دور میں جنگ، مشکل کا حل نہ تھا؛ کیونکہ جنگ میں زیادہ طاقت رکھنے والا غالب آتا ہے چاہے حق پر ہو یا باطل پر۔ لیکن حضرات آئمہ اطہار علیہم السلام تو محافظِ اسلام ہیں لہذا انہیں اگر حکومت کرنے میں اسلام و مسلمین کو خطرہ نظر آئے تو اسے چھوڑ دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ حکومت کرنا تو ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے اور دین و ایمان کا بچانا ہدف ہے ۔ اب اگر ذریعہ اور و سیلہ ہدف کو نقصان پہنچائے تو پھر وہ وسیلہ نہیں بلکہ مانع ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر حکومت مقصد میں مانع بن جائے تو حضرت امام علی ۔ کی نظر میں بکری کی چھینک سے بھی بدتر ہے؛ لیکن اگر اس کے ذریعے عدل و انصاف کا قیام ممکن ہو تو یہ ایک بہترین چیز ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگ جو کہ حضرت امام علی (ع)کو بے نمازی اور مستحق لعن و طعن مانتے تھے یا وہ لوگ جو شک و شبہ میں مبتلا تھے ، خود انہیں موقعہ دیا جاتا کہ وہ اپنی نگاہوں سے بنی امیہ کی حقیقت اور ان کی حقیقی تصویرکو حکومت کے آئینہ میں وہ خود دیکھ لیں۔ اور وہ خود فیصلہ کریں کہ حق کہاں ہے اور باطل کہاں۔ یعنی اگر حکومت سے دستبردار ہونے سے اگرچہ حکومت چلی جاتی ہے لیکن لوگوں کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے اور اہل بیت کی معرفت بہتر ہوسکتی ہے اور لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت علی ۔ اور معاویہ کے درمیان جنگ، اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ اسلام کی بقاء یا نابودی کی جنگ ہے تو اہل بیت یہ قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔
پس حضرت امام علی (ع)اور حضرت امام حسن (ع)کے زمانے کے مسلمان ایک شک و تردید میں مبتلا تھے۔ جس سے انہیں نکالنے کیلئے وقت ملنا چاہیے تھا کہ اگر معاویہ کے ساتھ جنگ میں امام جیت بھی جاتے تب بھی یہ شک و شبہ باقی رہ جاتا۔ لیکن جیسا کہ خود حضرت امام حسن (ع)نے بھی بتایا اور تاریخی شواھد اور قرائن بھی بتارہے تھے کہ جیت معاویہ کی ہو گی، بلکہ حضرت امام علی (ع)نے اس اموی جیت کی خبر بھی دے دی تھی اور آپ(ع)نے فرمایاتھا:’’ انّی لاظن اَنّ ھولاء القوم سیدون علیکم۔۔۔ کہ شام والے جیت جائیں گے اور ان کے غلبہ کی وجوہات بھی آپ نے بیان کی جو کہ نہج البلاغہ میں مذکور ہیں۔
اور جب صلح کے بعد امیر شام کوفہ پہنچا تو اس نے واشگاف لفظوں میں یہ اعلان کیاکہ اس جنگ کا مقصد معاشرہ میں احیاء نماز، روزہ، زکات اور حج وغیرہ نہیں تھا بلکہ مقصد حکومت کا حصول تھا جو حاصل ہو گیا۔ یعنی اس نے خود لوگوں کے شکوک کو دور کردیا اور اُس کے بعد کے اعمال نے مزید حقیقت کو آشکار کردیا۔ اب اس صورت میں حضرت امام حسن (ع)کا جنگ لڑنا اور صلح نہ کرنا کیا نتیجہ دے سکتا تھا؟ اگر جنگ ہوتی اور امام کو شکست ہوتی تو معاویہ یزید جیسا بے وقوف نہ تھا۔ جیسا کہ اس نے یزید کو اپنی وصیت میں لکھا ہے کہ اگر حسین (ع)قیام کرے تو تم اسے قتل مت کرنا چونکہ وہ فرزند رسول خدا ﷺ ہیں۔ یہ ایک پختہ سیاستدان کی بات ہے تاکہ کوئی اس پر اعترض بھی نہ کرسکے ورنہ امام حسن مجتبیٰ (ع)کو زہر دلوانے والا کون تھا؟
یہی معاویہ ہی تو تھا۔ لہٰذا اگر جنگ ہوتی تو وہ امام حسن (ع)کو اسیر کرتا او رپھر انہیں عزت و احترام کے ساتھ آزاد کردیتا اور پھر بعدمیں امام کے خاص ساتھیوں کو شہید کر دینے کے بعد خود امام کو بھی چپکے سے شہید کردیتا اور ان پر احسان بھی جتاتا اور خود امت کے درمیان نیک نام بھی ہوجاتا۔ اسے فتح مکہ کے وقت جناب حسنین علیہما السلام کے نانا نے ان کو جو آزاد کیا تھا اور وہ اس شرمندگی میں مبتلا تھا، اس شرمندگی سے بھی نجات مل جاتی اور امام کے ساتھ اس کا کوئی معاہدہ بھی نہ ہوتا جس کا خوف ہر وقت اس کے دل پر چھایا رہتا۔ کیونکہ معاہدہ کی خلاف ورزی کو عرب کے مشرکین بھی برا مانتے تھے ۔ اور یہی معاہدہ ہی تو تھا کہ معاویہ نے حضرت امام حسن (ع)کو شہید کرانے کے بعد ہی یزید کیلئے بیعت کے مطالبے کی جرأت کی۔
پس یہاں پر جنگ جاری رکھنا اور شکست کھانا، امام کی جیت نہ تھا بلکہ یہاں پر صلح کرنا اور وہ بھی مشروط صلح،یہی حضرت امام حسن (ع)کی جیت تھا اور مقصد کی جیت، اسلام کی جیت اور اہل اسلام کی جیت، امام حسن (ع)کی صلح میں مضمر ہو گئی ۔ کیونکہ صلح کا سب سے پہلا بند یہ تھا کہ معاویہ کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کرے گا۔ یہاں حضرت امام حسن (ع)کا مقصد پورا ہوچکا تھا اور اب اگر معاویہ کتابِ خدا اور سنتِ رسولخدا ﷺ پر عمل نہ کرتا تو معاویہ کی باطنی حقیقت اور عہد شکنی اور قرآن و سنت سے انحراف سب لوگوں کے سامنے آجاتا۔ اسی طرح سے صلح کے معاہدے کے بقیہ بندوں نے بھی مسلمانوں کو ہر قسم کے شک و شبہ سے نکال دیا اور انہیں عملاً بتادیا کہ معاویہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ فقط اقتدار کے درپے ہے۔
لیکن امیر شام نے اپنے آپ کو بے نقاب ہوتے دیکھ کر ایک نیا منصوبہ تیار کیا ارو وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو بے غیرت بنادیا جائے اور انہیں اجتماعی اور سیاسی احساس ذمہ داری سے محروم کر دیا جائے۔ انہیں حکومت اور سیاست کے مسائل سے لا تعلق کر دیا جائے۔ اور اس نے اس مقصد کے حصول کیلئے انتہائی ماکرانہ اور ماہرانہ نقشہ تیار کیا۔ اس نقشہ کے مطابق اس نے مخلص مؤمنین اور مسلمین کو قتل کروایا، جیلوں میں ڈالا یا پھر شہر بدر کردیا۔ صغیف العقیدہ لوگوں کو مال و دولت یا حکومت عہدے دے کر خریدا۔ اور عام لوگوں کو جاہل رکھا گیااور انہیں فقط یہی سمجھایا گیا کہ ان کی ذمہ داری حکومت و سیاست کے امور میں دلچسپی لینا نہیں ہے بلکہ انہیں اپنی روٹی اور کپڑے کی فکر کرنا چاہیے۔
معاویہ کے اسی کردار کی وجہ سے اہل کوفہ کی اکثریت، حق شناس اور حسین (ع)شناس ضرور ہو گئی تھی، اور انہیں بہت سارے شکوک و شبہات سے نجات بھی ملی؛ لیکن یہ الگ بات کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہ تھے۔ اسی لئے فرزدق نے حضرت امام حسین (ع)کے جواب میں عرض کیا: ’’قلوبھم معک، سیوفھم علیک‘‘۔ یعنی( انہیں آپ کی معرفت تو ہے، لیکن عمل میں وہ بنی امیہ کے ساتھ ہیں) اور یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت مسلم (ع)کا ساتھ دینے والے مجاہدوں کو پراگندہ کرنے کیلئے آنے والی ان کی ماؤں، بہنوں ، او بیویوں کی بات بھی یہی تھی کہ حکومتی مسائل سے ہمارا کیا واسطہ؟
حکمرانوں کی سیاست ہمیشہ یہی رہی ہے کہ عوام کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ قرآن مجیدمیں فرعون کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’فاستخفّ قَومَہُ فَاطاعوہ‘‘۔ یعنی (اس نے اپنی قوم کو ذلیل بنایا تب انہوں نے فرعون کی اطاعت کی)۔ اور کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے، غلامی کی زندگی سے نجات پا کر آزادی کے حصول کیلئے کوشاں نہیں ہیں؟ وجہ یہی ہے کہ حکمرانوں نے ان سے اعتماد بنفس چھین لیا ہے اور انہیں اپنا بندہ اور غلام بنا لیا ہے ؛ جیسا کہ مولا علی علیہ السلام ایسے ہی حکمرانوں کے ان کرتوتوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فاتّخذوا عباد اللّٰہ خَوَلاً‘‘۔ یعنی (ان ظالم حکمرانوں نے خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا لیا ہے)۔
بنی امیہ اپنی اس منحوس سیاست میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انہوں نے مخلصین کو قتل عام کرکے یا پابند سلاسل بناکر یا شہر بدر کرکے، دنیا پرستوں کو مال و دولت و حکومت دیے کر، عوام الناس کو بے وقوف بناکر یا ذلیل، بے ضمیر اور مردہ ضمیر بناکر، اسلامی مملکت کے سیاہ و سفید پر قبضہ کر لیا تھا۔
اب ان حالات میں عالم اسلام کی اس مشکل صورتحال کے حل کیلئے حضرت امام حسین ۔ کے پاس فقط دو ہی راستے تھے:)۔ تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کو بنی امیہ اور حاکموں کے ناپاک عزائم سے باخبر کرتے؛ تاکہ پوری امت اٹھے اور امام حسین (ع)نے بھی یہی قدم اٹھایا۔ بلکہ امام حسین (ع)سے قبل خود حضرت علی (ع)نے اپنے خطبوں میں بنی امیہ کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا۔ بلکہ حضور ﷺ کی متعدد احادیث میں اس خاندان کے خطرات سے مسلمانوں کو خبردار کر دیا گیا تھا۔ لیکن اموی لابی کی مشینری نے صدرِ اسلام ہی سے پیغام رسالت اور ولایت سے مسلمانوں کو باخبر ہونے نہیں دیا۔ بلکہ جعلی احادیث کے ذریعہ اور سنت پیامبر کے نقل و انتقال پر پابندی لگا کر حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر پیش کیا ۔ اب بدقسمتی سے خود مولا امام حسین ۔ کے زمانے میں معمولی تبلیغ کے ذریعے پیغام حق کو تمام مسلمانوں تک پہنچانا ناممکن ہوچکا تھا۔
اس دعوی ٰ کی دلیل یہ ہے کہ مولا امام حسین (ع)نے دو مرتبہ اپنے خواص کو اپنا پیغام سنایا۔ایک تو صحرای منیٰ میں حج کے دوران جہاں حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے حکومت کے کارندے ناکار ہوجاتے ہیں۔ اس موقعہ پر آپ نے ایک خطبہ کے ذریعے حضرت علی (ع)کی شان میں حضور ﷺ کی احادیث سنائیں اور سامعین سے درخواست کی کہ وہ ان فضائل کو دوسروں تک پہنچادیں۔ اور دوسرے خطبہ میں خواص کی آرام طلبی ، مصلحت پسندی،سکوت اور بنی امیہ کے مظالم کو آپ نے بیان فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کے ذریعے امت محمدی کی اصلاح کرنا ناممکن ہوچکا تھا۔ یعنی نہ پیغام پہنچانا ممکن رہا تھا اور جن تک پیغام پہنچ چکا تھا وہ بھی انتہائی مردہ ضمیر ہوچکے تھے۔ چنانچہ حضرت امام حسین (ع)کے ایک سفیر نے پھانسی کے پھندے بھی لوگوں کو پیغام حسینی سنایا لیکن کوئی قابل ذکر اثر دیکھنے میں نہ آیا۔ اور امام حسین (ع)نے جو قاصد بھیجے تھے انہیں یکے بعد دیگرے گرفتار کرکے شہید کر دیا گیا۔ کیونکہ اگرچہ امت کے اندر بالعموم جہالت تھی لیکن شیعیان علی تو حقیقت سے واقف تھے یا عام مسلمان جو کہ محب اہل بیت (ع)اور دشمن بنی امیہ تھے وہ بھی حالات سے باخبر تھے۔ لیکن احساس ذمہ داری کا نہ ہونا، حب دنیا اور مردہ ضمیری نے انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنا دیا تھا۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی رگوں میں خون ڈال دیا جائے اور مردہ ضمیروں کو زندہ و بیدار کر دیا جائے۔ اس کام کیلئے تبلیغ کافی نہ تھی بلکہ کسی زندہ اور بیدار کر دینے والے اقدام کی ضرورت تھی۔ اور وہ اقدام خون کی ہولی ہی ہو سکتا تھا۔ اور فرزند رسول ﷺ نے عزت و احترام کی زندگی کو خیر باد کہا اور نانا کے دیار کو چھوڑ کر، کربلا کے چٹیل میدان میں قدم رکھا اور پیاس کے ذریعے، خون دے کر اور جگر گوشوں کے ٹکڑے اٹھا کر اور بہنوں کی چادریں لٹا کر آپ نے اُن مردوں ضمیر مسلمانوں کو زندہ کر دیا۔ کچھ اس طرح کہ وہ لوگ جو زندہ امام (ع)کی فیوضات سے استفادہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، وہ امام کے مقدس خون کی اس قربانی سے بیدار ہوکر وارث حسین کی اطاعت کریں اور اسلام کو بنی امیہ جیسے دشمنان اسلام سے بچائیں۔ خون دینا اور مظلومیت اگر صدائے حق کے ساتھ ہو تو ایسا اثر دکھا سکتا ہے اور اس نے ایسا اثر دکھایا بھی۔ لہٰذا انقلاب کربلا خون کا محتاج تھا نہ صلح یا سکوت کا؛ کیونکہ حضرت امام حسین (ع)کے پاس صرف اپنی قیمتی جان تھی ، سیدانیوں کی چادریں تھیں، اور جوانوں اور جانثاروں کی جوانیاں تھیں جنہیں آپ نے راہ دین پر قربان کردیا۔
لہٰذا امام حسن مجتبیٰ (ع)کے دور میں امت کی ایک اہم مشکل شک و شبہ تھا جیسا کہ خوارج اسی شک و شبہ کی پیداوار تھے؛ جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے زمانہ کی ایک اہم یاسب سے زیادہ اہم بیماری، امت کی مردہ ضمیری تھی ۔ اُس مشکل کا حل صلح میں نہیں تھا بلکہ اس مشکل کا حل فقط خون دینے میں تھا۔ چنانچہ صلح ایک طرف امام حسن (ع)نے خون حسین ابن علی علیہما السلام کوضائع نہیں ہونے دیا کیونکہ آپ(ع)کی صلح نے بنی امیہ کے کریہہ چہرہ سے نقاب اٹھالیا تھا، اور دوسری طرف خون حسینی نے صلح امام حسن (ع)کا مقصد پورا کردیا اور سن ۶۱ ہجری میں نہ فقط امت کوبیدار کر دیا بیداری امت کا ایک دائمی سامان فراہم کر دیا ۔
اگرچہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کے صلح اور جنگ کے امتیاز کی وجہ کے طور پر مذکورہ تین قسم فرق کے علاوہ اور بھی متعدد فرق بیان کئے جاسکتے ہیں لیکن مقالہ میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یہاں عناوین کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
۴۔ چونکہ امام حسن (ع)کا معاویہ کے ساتھ صلح نامہ کے ذریعے معاہدہ ہوچکا تھا، لہذا امام حسین ۔ نے اس معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے معاویہ سے تو جنگ نہ کی لیکن یزید کے ساتھ نہ صرف ایسا کوئی معاہدہ نہ تھا بلکہ اس کا اقتدار پرآنا خود معاہدہ کی ایک آشکار خلاف ورزی تھا، لہٰذا اس کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے آپ میدان میں نکلے۔
۵۔ سقیفہ سے لے کر حضرت امام علی (ع)کو ظاہری خلافت ملنے تک اقتدار پر آنے والے حکمرانوں نے ہر ممکن طریقے سے معاویہ کو مضبوط بنایا تھا اور خود معاویہ کی سیاست اور مکاری بھی نمایاں تھی اور اسے دین کو دین اور قرآن کو قرآن کے خلاف استعمال کرنے کا گُر خوب سمجھ آتا تھا لیکن یزید کے پاس ایسی ذہانت نہ تھی ۔
۶۔ جس طرح کہ راہبر انقلاب اسلامی ایران بیان فرماتے ہیں امام حسین (ع)کے عصر میں، کربلا میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی تاریخ اسلام میں اس وقت تک کوئی مثال نہ تھی لیکن آئندہ کبھی بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آسکتا تھا۔ لہٰذا نبی اکرم ﷺ سے لے کرحضرت امام حسن (ع)تک ہر معصوم نے اپنے انداز میں ایک خاص اسوہ پیش کیا ۔ لیکن حضرت امام حسین (ع)پر لازم تھا کہ ابد تک کیلئے ایسا اسوہ پیش کریں کہ اگر کبھی دین خطرے میں پڑ جائے اور ایک سچے مسلمان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے خون و مظلومیت کے علاوہ اور کوئی اسلحہ نہ ہو تو پھر بھی وہ طاغوت سے ٹکرا جائے لیکن دین کی حفاظت سے دستبردار نہ ہو۔
۷۔ یزید نے تو حضرت امام حسین (ع)سے بیعت مانگی تھی اور اس بیعت کے اسلام کی بقأ اور دین کی سلامتی کیلئے منفی نتائج برآمد ہونا تھے ۔ لہٰذا حضرت امام حسین (ع)بیعت نہ کر سکتے تھے ۔ اس کے برعکس، ، جب معاویہ نے حضرت امام حسن (ع)کو صلح کی کو شرائط پیش کیں تو صلح کا یہ مطالبہ اور یہ جنگ بندی مشروط تھی۔ اور حضرت امام حسن (ع)نے تو صلح اور جنگ بندی کی یہ شرط رکھی کہ معاویہ کا لقب امیر المومنین نہیں ہوگا حالانکہ لقب اسلامی حکومت کے سربراہ کیلئے ایک خاص لقب اور عنوان کی حیثیت رکھتا تھا۔ پس معاویہ کا مطالبہ جنگ بندی تھا جبکہ یزید کا مطالبہ بیعت۔ لہذا جنگ بندی تو اسلام اور مسلمین کے حق میں کی جا سکتی ہے لیکن بیعت نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ جنگ بندی میں حاکم کے اعمال اور کردار کی تأئید نہیں ہوتی جبکہ بیعت میں حاکم کے تمام ناجائز اعمال کی بھی تصدیق و تائید ہوتی ہے۔
۸۔ صلح امام حسن (ع)کے وقت جو مسئلہ در پیش تھا وہ مسئلۂ خلافت تھا۔خلافت کی وہ شکل جو اس وقت موجود تھی اگرچہ ہمارے لیے اور ہمارے پیشواؤں کی نظر میں اشکال و اعتراض سے خالی نہ تھی لیکن پھر بھی یہ سلسلہ بعض اصلاحات کے ہمراہ قابل قبول ہو سکتا ہے ؛ لیکن یزید کی حکومت تو ملوکیت تھی جو کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔
۹۔ امام حسن (ع)کے زمانے میں عالمِ اسلام پر روم کے حملہ کا خطرہ موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ۔ اور معاویہ کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پانے کی خبر سن کر روم کا لشکرواپس چلا گیا؛ لیکن حضرت امام حسین (ع)کے قیام کے وقت عالمِ اسلام کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا ۔
۱۰۔ جیسا کہ ہم نے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے، حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن علیہماالسلام کے ساتھیوں اور اصحاب میں بھی بڑا فرق تھا۔ حضرت امام حسین (ع)کے ساتھی ایسے باوفا تھے کہ ان نکی وفاشعاری نے قیامِ عاشور کی عظمت کو دوبالا کردیا اور یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا ابد تک زندہ رہے گا۔اس کے برعکس، حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)کے اصحاب کی حالت سب کو معلوم ہے۔ آپ کے اصحاب میں اکثریّت بک جانے والوں کی تھی اور وہ کسی طور بھی جنگ جاری رکھنے کیلئے آمادہ نہ تھے۔ اور اگر آپ ۔ شہید ہوجاتے شاید مظلومیتِ امام حسن مجتبیٰ (ع)کا ذکر کرنے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اور یوں آپ کا ہدفِ شہادت ناکام ہو جاتا کیونکہ شہادت کا مقصد تو ابد تک آنی والی نسلوں کا حق اور حقیقت کاپیغام پہنچانا ہوتاہے اور یہ پیغام رسانی اسی صورت میں ممکن ہے جب شہید کو زندہ رکھنے والا کوئی موجود ہو۔
۱۱۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)کے دور میں معاویہ نے جناب عثمان کے خون کے مطالبے کا بہانے بنا کر لوگوں کے جذبات اپنے حق میں موڑ لیے تھے اور اُس نے آیۂ قصاص نعرہ بنا کر بغاوت کی تھی۔ لیکن قیام کربلا میں حضرت امام حسین (ع)نے قرآن و سنت کی آیات کے کی روشنی میں قیام کیا تھا اور یہاں یزید کے پاس بھی لوگوں کو بہکانے کا کوئی ہربہ نہ تھا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہے کہ باطل حاکم کے خلاف قیام کرنا اور اسلامی حکومت وجود میں لانا ہر مسلمان پر واجب ہے، خصوصاً معصوم امام پر؛ خواہ یزید کے زمانے کی طرح کے انتہائی خطرناک حالات رونما نہ بھی ہوئے ہوں۔یہ بات خود حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن علیہما السلام کے فرمودات سے صاف ظاہر ہے ۔ اور اسی طرح قرآن و سنت و سیرت معصومین (ع)سے بھی یہ بات واضح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)نے صلح کیوں کی آپ نے قیام کیوں نہیں کیا؟ تو آپ کے قیام نہ کرنے کی وجہ کچھ ایسی رکاوٹیں اور موانع تھے جن کی وجہ سے قیام کرنا اہل حق کے حق میں نہ تھا۔
چنانچہ نماز پڑھنا، حج پر جانا، روزہ رکھنا ، واجب ہے لیکن کچھ مشکلات اور موانع کی وجہ سے یہ وجوب ساقط بھی ہوجاتا ہے ۔ تو پھر ان اعمال کے سرانجام دینے والے سے نہیں پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے نماز پڑھی بلکہ نہ پڑھنے والے سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے ترک کیا۔ یعنی اسلام کا حکم تو باطل اور ظالم کے خلاف قیام کرناہے، نہ کہ سکوت۔ بنابراایں، امام حسن (ع)کے جنگ نہ کرنے اور صلح کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، نہ کہ قیام عاشورا کیلئے ۔ لہٰذا صلح امام حسن مجتبیٰ (ع)کو بہانا بنا کر ظالم حکمرانوں کے سامنے خاموش اور لب بستہ لوگوں کو دلیل کی ضرورت ہے نہ کہ حضرت امام حسین (ع)کی سیرت کو اپنا کر ایسے فاسق حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مجاہدین کو۔ یہی وجہ ہے کہ خود امام حسن مجتبیٰ (ع)واجب الاطاعت امام ہونے کے باوجود بھی صلح کی وجوہات اور دلائل بیان فرماتے تھے۔
اگرچہ ان دو ہستوں کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام میں جنگ کے موقعہ پر جنگ ضروری ہے اور صلح کے موقعہ پر صلح لازم ہے؛ لیکن یہ سب کچھ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔ یعنی اسلام شناسی اور زمان شناسی ہر قسم کی جنگ اور صلح کی بنیادی شرط ہے ۔ بنابرایں، نہ امام حسن (ع)اور امام حسین (ع)کے درمیان کوئی مزاجی کا فرق ہے کہ نعوذباللہ کہا جائے کہ ایک امام سخت مزاج تھے اور دوسرے نرم مزاج یا بعض دشمنان اہل بیت کی طرح یہ کہا جائے کہ امام حسن (ع)عثمانی تھے اور امام حسین (ع)علوی عقیدہ رکھنے والے تھے ۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ’’الحسن والحسین امامان قاما او قعداً‘‘۔ لہٰذا نہ تو آپ دونوں کے نصب العین میں کوئی فرق تھا اور نہ ہی دونوں کے طریقہ کار میں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع)بھی سن ۵۱ ہجری تک صلح کے حامی تھے جبکہ دوسری طرف قیام کربلا کیلئے خود حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)نے بھی اپنے بیٹوں کو قربانی دینے کی وصیت کی تھی۔ پس اگر ان دو معصوم اماموں میں کوئی فرق موجود تھاتو وہ فرق حالات کا اور دراصل، یزید اور معاویہ کا فرق تھا۔ اگر کوئی فرق پڑ گیا تھا تو امت میں فرق پڑ گیا تھا اور ان دو اماموں کے اصحاب کی وفاشعاری میں فرق پڑ گیا تھا۔
اب آئیے ہم آپ یہ عہد کریں کہ ہم حضرت امام حسین (ع)کے اصحاب کی طرح وفاشعاربن جائیں کہ جن کے ساتھ شہادت پر حضرت امام حسین (ع)بھی فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے اصحاب کی وفا کی تأئید و تصدیق کرتے ہیں۔ وہ اصحابِ با وفا کہ جن کی زیارت میں آئمہ معصوم (ع)نے بھی ’’یالیتنا کنا معکم‘‘ (ائے کاش! ہم بھی تمہارے ساتھ ہوتے ) کے الفاظ بیان فرمائے۔ اور خدا نہ کرے ہماری مثال حضرت امام حسن (ع)کے ان اصحاب کی سی ہو جو عہد شکن تھے اور امام کا ساتھ دینے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.