معرفت شناسی اور اس کی اہمیت

499

١۔ معرفت شناسی
\\\’\\\’معرفت\\\’\\\’، شناخت، پہچان اور علم کا مترادف لفظ ہے اور اس کا مفہوم اتنا واضح ہے کہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس اصطلاح کی تعریف میں مترادف الفاظ ہی لائے جا سکتے ہیں اور لفظی تعریف ہی پیش کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ: \\\’\\\’معرفت، عبارت ہے پہچان سے۔\\\’\\\’
جہاں تک \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کی اصطلاح کا تعلق ہے تو یہ ممکن ہے کہ بعض احباب کیلئے یہ ایک جدید اصطلاح ہو۔ ان احباب کیلئے اس اصطلاح کی تعریف میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ: \\\’\\\’معرفت شناسی، شناخت کی شناخت اور پہچان کا نام ہے\\\’\\\’۔ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتاہے کہ: \\\’\\\’معرفت شناسی، وہ علم ہے جس میں خود علم کے حصول کے امکان، ذرائع، طریقۂ کاراور درستی یا نادرستی کے بارے میں بحث کی جاتی ہے\\\’\\\’۔
اس امر کی مزید وضاحت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم کے کئی شعبے ہیں۔ مثال کے طور پر \\\’\\\’خدا شناسی\\\’\\\’ علم کا وہ شعبہ ہے کہ جس میں خدا کے وجود اور خدا کی صفات ثبوتیہ یا سلبیہ کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ ریاضی وہ علم ہے کہ جس میں ہندسے اور حساب کے موضوع کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ انسان شناسی، علم کا وہ شعبہ ہے کہ جس میں انسان کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اسی طرح علم کے سینکڑوں دیگر شعبہ جات ہیں کہ جن میں ہستی کی کسی نہ کسی حقیقت اور کسی نہ کسی موضوع پر بحث کی جاتی ہے۔
واضح سی بات ہے کہ عالم ہستی کے حقائق اور موضوعات میں سے ایک حقیقت اور موضوع خود \\\’\\\’علم\\\’\\\’ بھی ہے۔ لہٰذا تعلیم و تدریس کے جس شعبے میں علم کے بارے میںبحث کی جاتی ہے اسے \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ سوال درپیش ہو کہ آیا خدا حقیقت ہے یا افسانہ ؟ تو اس سوال کا جواب ہمیں علوم کے ریاضی، فزکس یا سوشل سٹڈیزکے شعبوں میں نہیں مل سکتا؛ اس لیے کہ ان علوم کا موضوع خدا یا کوئی میٹافیزیکل حقیقت نہیں بلکہ مادی دنیا کے حقائق اور موضوعات ہیں۔ بنأ برایں، مذکورہ بالا سوال کا جواب ہمیں علم کے خدا شناسی ہی کے شعبے میں ملے گا۔
اب اگر بالکل اسی طرح یہ سوال پیدا ہو کہ آیا علم اور معرفت کا حصول ایک حقیقت ہے یا افسانہ؟ تو اس سوال کا جواب علم کے جس شعبے میں ڈھونڈا جا سکتا ہے، اسے \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کہا جاتا ہے۔ گویا معرفت شناسی وہ علم ہے جس کا موضوع مادہ، معاشرہ، انسانی بدن یا ریاضیاتی حقائق (ہندسہ و حساب) وغیرہ نہیں، بلکہ خود \\\’\\\’علم و معرفت\\\’\\\’ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علم میں جن مسائل پر ہماری بحث ہوتی ہے ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح علم ہی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس علم میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ \\\’\\\’علم\\\’\\\’ آیا حقیقت ہے یا سراب؟ آیا علم کا حصول ممکن ہے یا ناممکن؟ آیا علم کے حصول کا عمل (Process) کیسے تحقق پاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ…..
بعض دانشمندوں نے معرفت شناسی کی تعریف و توصیف بیان کرنے کیلئے جس مثال کا سہارا لیا ہے وہ یہ ہے کہ: ہم سب جانتے ہیں کہ چائے کی پیالی کیسے اٹھائیں تاکہ چائے گرنے نہ پائے اور ہم چائے پینے کا مزہ لے سکیں۔ عام طور پر ہم اپنے اس علم کے بارے میں کبھی غور و فکر نہیں کرتے کہ ہمیں چائے کی پیالی اٹھانے کا علم کیسے حاصل ہوا اور کونسے عناصر اس علم کی تشکیل میں کارفرما ہیں۔ لیکن اگر ہمیں یہ ذمہ داری سونپ دی جائے کہ ایک ایسا روباٹ بنائیے جو انسان کی طرح چائے کی پیالی اٹھائے کہ چائے گرنے نہ پائے تو اب ہم یہ ذمہ داری اس وقت تک نہیں نبھا سکتے جب تک کہ ہم اپنے اس علم کا تجزیہ و تحلیل نہ کریں جس کی مدد سے ہم خود چائے کی پیالی اٹھاتے ہیں۔
درحقیقت ہمارا یہ تجزیہ و تحلیل ایک طرح کی \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ ہی ہے۔ یعنی ہم اپنے علم کا تجزیہ و تحلیل کرتے اور اس کی مختلف جہات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اب وہ علم جس میں ہماری تمام معلومات کی ماہیت، اعتبار (Validity) اور ان کے حصول کے طریقہ کار پر بحث ہوتی ہے اسے \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کہا جاتا ہے۔ اب اس تناظر میں ہم \\\’\\\’معرفت شناسی کی تعریف یوں پیش کر سکتے ہیں کہ: \\\’\\\’علم کے حصول کے طریقۂ کار، شرائط، عناصر اور بطور کلی علم کی حقیقت کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کو \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کہا جاتا ہے۔\\\’\\\'(١)

٢۔ معرفت شناسی کی اہمیت
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات انسان جس چیز کو علم سمجھ رہا ہوتا ہے وہ علم نہیں بلکہ تنہا انسان کے بے بنیاد خیالات اور اوہام ہوتے ہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہم بعض اوقات غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے سراب ہیں لیکن اسے پانی سمجھ کر اس کی تلاش میں دوڑتے ہیں۔ ہمیں بعد میں یہ پتہ چلتا ہے کہ جس چیز کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے تھے، وہ یا تو \\\’\\\’ چیز\\\’\\\’ ہی نہ تھی یا وہ چیز (مذکورہ مثال میں پانی)نہ تھی جس کی ہمیں تلاش تھی۔ لہٰذا وہ چیز جسے ہم حقیقت سمجھ رہے تھے، افسانہ نکلا۔
بنابرایں، علم و معرفت کے باب میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا ایک انسان کیلئے علم و معرفت کا حصول ممکن ہے؟ آیا انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی دنیا کو پہچان سکے؟ آیا انسان کا علم اسے حقائق سے آشنا کرتاہے یا حقائق تک پہنچنا انسان کیلئے نا ممکن ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہو سکتا ہے ایک انسان کیلئے یہ سوالات بیہودہ اور غیر منطقی ہوں؛ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنی دنیا کے بارے میں علم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی دنیا کے بارے میں اربوں معلومات موجود ہیں اور یہ معلومات ہمیں حقائق سے آشنا بھی کرتی ہیں؛ کیونکہ ہم انہی معلومات کی روشنی میں اپنا دن رات بسر کرتے ہیں اور عالم دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ پس یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم کی حقیقت نمائی کے بارے میں یہ سوالات اور شک و شبہ بے جا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی اگر تھوڑا سا مزید غور و فکر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علم و معرفت کے حصول کے امکان کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات اتنے بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ آپ سوئے ہوئے عالم خواب میں ایک خوبصورت باغ میں ٹہل رہے ہیں۔ اس باغ میں انتہائی خوبصورت پھول اور لذیذ پھل موجود ہیں۔ آپ پھول سونگھتے ہیں اور پھل کھاتے ہیں۔ اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ باغ کا مالی آ نکلتا ہے اور آپ پر حملہ کر دیتا ہے۔ آپ جان بچا کے بھاگتے ہیں۔ ایک دم آپ کے سامنے ایک گڑھا آ جاتاہے جسے پھلانگتے ہوئے آپ اس میں گر جاتے ہیں۔ ابھی اس گڑھے میںگرے ہی تھے کہ آنکھ کھل گئی اور آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ ساری کہانی افسانہ تھا اور ایک ایسا خواب کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ تھے اور آپ کا بستر۔ شاید اس شاعرکا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جسے کہنا پڑا
کئی بار تیرا دامن ہاتھوں میں میرے آیا جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے
ہماری روزمرہ کی زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک شخص کو اپنا دوست سمجھ کر اس کی خدمت کرتے ہیں، اس کے ساتھ عہد وفا باندھ کر چلتے ہیں؛ لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص تو ہمارا دشمن ہے۔ وہ تو ہمارے دشمن کا جاسوس ہے یا…. کبھی اس کے برعکس ایسا بھی اتفاق ہوتا ہے کہ ہم ایک شخص کو اپنا دشمن تصور کر رہے ہوتے ہیں، اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں، سینکڑوں تہمتیں اس پر لگاتے ہیں، لیکن درحقیقت، وہ شخص ہمارا بہت مخلص دوست ہوتا ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ ہم ہی تھے جو ایک شخص کو صحیح طور پر پہچان نہ سکے۔
جو قریب تھا ائے نگاہ تو نے بعید کر کے ہمیں دکھایا روش رہی گر یہی تیری تو بتا کسے اعتبار ہو گا؟
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے حواس کی صحت و سلامتی کے باوجود بھی بہت سی ایسی چیزیں دیکھتے ، سنتے اور کھاتے پیتے ہیں کہ جن کا عالم حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ دیکھ، سن اور کھا پی رہے ہوتے ہیں وہ سب خواب ہوتا ہے۔ اگر یہ ممکن ہے تو یہاں بجا طور پر یہ سوال پیش آ سکتا ہے کہ آیا ممکن نہیں کہ ہم عالم بیداری میں جن چیزوں کو حقیقت سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ بھی ایک لمبا افسانہ ہوں؟ آیا اس امکان کی تقویت کیلئے یہ فرمان کافی نہیں ہے کہ: \\\’\\\’النّاس نیام اذا ماتوا انتبہوا\\\’\\\’ یعنی: \\\’\\\’ لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب مریں گے تو بیدار ہوں گے۔\\\’\\\’ (٢)
اور بالفرض اگر ہم سوئے ہوئے بھی نہیں، تو کیا پھر بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارا علم اور ہماری معلومات نادرست ہوں؟ یقینا یہ ممکن ہے کہ ہمارے علم کا ایک بہت بڑا حصہ اور ہماری معلومات کا ایک بہت بڑا خزانہ، نادرست ہو؛ افسانہ ہو اور اس کا حقیقت سے کہیں دور کا تعلق بھی نہ ہو؟ آیا ہم نے کئی بار نہیں دیکھا کہ تپتی دھوپ میں ہم سڑک پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیلا دیکھتے ہیں اور جب قریب جاتے ہیں تو اسے سراب پاتے ہیں۔ آیا قرآن کریم میں ایک ایسے ہی قصے کی نسبت حضرت اسماعیل ـ کی والدہ ماجدہ کی طرف نہیں دی گئی؟اگر ایک نبی کی والدہ خشکی کو پانی دیکھ سکتی ہے تو ہم سے ایسی خطا سرزد نہیں ہو سکتی؟
یقینا ہماری زندگی میں کئی بار یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے علم میں خطا کر جاتے ہیں۔ ہم پانی کے ایک گلاس میں ڈالی گئی سیدھی لکڑی کو ٹیڑھا دیکھتے ہیں، دور سے سڑک ہمیں تنگ نظر آتی ہے اور قریب جانے پر اس کی چوڑائی کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا ان مثالوں کی روشنی میں جو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ: \\\’\\\’چونکہ ہم بعض اوقات خطا کرتے ہیں لہٰذا ہمارا علم ہمیشہ قابل اعتماد نہیں ہوتا۔\\\’\\\’
خلاصہ یہ کہ ان سوالات کا جواب اگر مثبت ہے کہ ہم زندگی میں کئی بار افسانے کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں تو پھر کیا گارنٹی کہ ہمارے سارے علوم اور ہماری ساری معلومات افسانہ نہ ہوں؟یہاں اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان کیلئے ممکن بھی ہے کہ وہ اپنی دنیا کے بارے میں علم حاصل کر پائے؟ پس معرفت کے امکان کے بارے میں سوال، ایک بے بنیاد سوال نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سوفسطائیوں اور شکاکین نے یہ کہا کہ ہمارے لیے اپنی دنیا کے بارے میں یقینی علم حاصل کرنا یا تو ممکن ہی نہیں ہے اور اگر ممکن ہو تو بھی ہمارے پاس ایسا کوئی وسیلہ نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے علم کی صحت و سقم کی تشخیص کر سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے علم میں خطا اور گمراہی سے بچنا چاہیں تو کیا کیا جائے؟ اگر ہم اپنے علم کی غلط نمائی سے بچنا چاہیں تو ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہم سرے سے اپنی تمام معلومات اور سب علوم کی قدر و قیمت اور ان کے اعتبار کا انکار کر ڈالیں۔ لیکن آیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں! ایسا تو ڈکارٹ کر سکا نہ غزالی اور نہ ہی کوئی اور شکاک؛ کیونکہ علم و معلومات ہی کے سہارے ہماری زندگی کا ہر لمحہ گذرتا ہے۔ اگرعلم نہ ہو تو ہم عمل کے میدان میں وارد ہی نہیں ہو سکتے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت امام علی ـ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا:
\\\’\\\’یا کمیل! ما من حرکة الّا و انت فیھا محتاج الی معرفة\\\’\\\’
یعنی: \\\’\\\’ائے کمیل! آپ ہر حرکت میں علم و معرفت کے محتاج ہیں۔\\\’\\\'(٣)
یہی وجہ ہے کہ ہر عقلمند انسان، اس دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے کسی نہ کسی تصورِ کائنات یا (Worldview) کے اپنانے کا محتاج ہے۔ جب تک اس کے پاس اُس دنیا کے بارے میں معلومات نہ ہوں جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے، تب تک وہ اس میں کوئی مفید حرکت بھی انجام نہیں دے سکتا۔دوسری طرف ایک انسان کے سامنے اس کا علم، دنیا کی جیسی بھی تصویر پیش کرے گا، یہ انسان اس دنیا میں ویسے ہی اعمال بجا لائے گا۔ اس کا لائحہ عمل اس کے تصور کائنات کی روشنی میں تشکیل پائے گا۔ اگر ایک انسان کا علم اس کے سامنے اس کی دنیا کی ایک ڈراؤنی تصویر پیش کرے گا تو یہ انسان اس دنیا اور اس کے ماحول سے فرار کی کوشش کرے گا۔ لیکن اگر انسان کا علم اس کے سامنے کائنات کی تصویر، رنگینیاں بھری پیش کرے گا تو انسان اس ماحول میں رہنے بسنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ پس ایک انسان اس دنیا کو جو کہ \\\’\\\’دارالعمل\\\’\\\’ (عمل کا گھر)ہے، جیسا پاتا ہے، اس دنیا میںویسا ہی رویہ اور طرز عمل اپناتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی ہر حرکت کی سمت، اس کا دنیا کے بارے میں علم و معرفت معین کرتا ہے۔
اگر ایک انسان کا تصور کائنات یہ ہو کہ یہ دنیا مادی ہے اور اس کے بعد آخرت نام کی کوئی دنیا نہیں ہے اور نہ ہی اس دنیا میں انجام دیے گئے اچھے برے اعمال کی کوئی سزا و جزا ہے، تو یہ انسان بھرپور کوشش کرے گا کہ جو کچھ پانا ہے اسی دنیا میں پا لوں۔ ایسا انسان \\\’\\\’کھاؤ، پیو اور مزے اڑاؤ\\\’\\\’ کے فارمولے پر کاربند ہو گا۔ لیکن اگر اس انسان کا علم، اس کی معلومات اور اس کا تصور کائنات یہ بتاتا ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت بھی ہے اور دنیا اور آخرت کا آپس میں بڑا گہرا رابطہ بھی ہے اور دنیا آخرت کی کھیتی ہے، انسان یہاں جیساکرتا ہے آخرت میں ویسا بھرتا ہے تو واضح سی بات ہے کہ ایسا انسان دنیا میں ایک اور انداز کا طرز عمل اپنائے گا۔
پس اگر انسان کے علم اور نظریات کا اس کی زندگی پر اس قدر گہرا اثر ہے تو پھر ضروری ہے کہ انسان یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ وہ کہیں کسی افسانوی اور غیر حقیقی تصور کائنات اور خیالی علم و معرفت کی روشنی میں تو زندگی نہیں گزار رہا؟ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ اپنی معرفت اور معلومات کا تجزیہ و تحلیل کرے اور انہیں بہتر پہچاننے کی کوشش کرے یا دوسرے الفاظ میں \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کا درس پڑھے۔
یہاں ایک اور زاویے سے بھی ضروری ہے کہ \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کی بحث کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور وہ یہ کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایسے نظریات یا Worldviews کا بازار گرم رہا ہے جو اکثر آپس میں متصادم تھے۔ ایک تصور کائنات، دوسرے تصور کائنات سے میل نہیں کھاتا۔ اور ایک نظریہ دوسرے نظریے کی نفی کرتا ہے۔ مزید بر ایں، ہر مکتب ِ فکر اور نظریہ کے ماننے والوں کا اصرار ہے کہ انہی کا نظریہ اور مکتب صحیح ہے اور باقی سب نظریات اور مکاتب فکر باطل ہیں۔ اب اگر انسان یہ جاننا چاہے کہ کونسا مکتب فکر صحیح ہے اور کونسا باطل، تو ناگزیر اسے ان سوالات کا جواب دینا پڑے گا کہ آیا ایک ہی دنیا، ایک ہی حقیقت اور ایک ہی کائنات کے بارے میں بیک وقت باہم متضاد اور متصادم تصور کائنات، درست ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو یہ کیسے پتہ چلے کہ کونسا مکتب فکر ٹھیک ہے اور کونسا غلط؟ اس قسم کے اور بھی بیسیوں سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
ان سوالات کا جواب انسان تنہا \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ ہی کی بحث میں ڈھونڈ سکتا ہے۔ پس اس بحث کی روشنی میں \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کے موضوع کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ او ریہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر قسم کا علم اور بالخصوص انسانی زندگی کی سمت و سو (Direction) معین کرنے کا کوئی علم (منجملہ علم دین) حاصل کرنے سے پہلے حق و حقیقت کے ہر طالب کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ کم از کم \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کے بنیادی مسائل سے آشنا ہو تاکہ کافی بصیرت کے ساتھ حصول علم کی راہ میں قدم اٹھا سکے۔ بقول استاد مطہری: \\\’\\\’ہر چیز سے پہلے انسان کو شناخت شناس ہونا چاہیے تاکہ وہ جہان شناس بن سکے؛ تاکہ کوئی بھی مکتب اور آئیڈیالوجی اپنانے یا یا نہ اپنانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کا تعیّن کر سکے۔\\\’\\\'(٤)
معرفت شناسی کی اہمیت کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ علم کی تاریخ میں ایسے افراد بھی پائے گئے ہیں جنہوں نے علم کی حقیقت نمائی کو چیلنج کیا ہے۔ ایسے افراد کو \\\’\\\’سوفسطائی\\\’\\\’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوفسطائیوں نے علم کی حقیقت اور حقیقت نمائی کے حوالے سے کئی اعتراضات کیے ہیں اور ان کے اعتراضات کا جواب بھی اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ انسان \\\’\\\’معرفت شناسی\\\’\\\’ کی بحثوں سے آشنا نہ ہو اور کسی حد تک ان پراحاطہ نہ رکھتا ہو۔ بنأ برایں، ضروری ہے کہ ہم \\\’\\\’معرفت شناسی \\\’\\\’ کے بنیادی مسائل سے ضرور آشنائی حاصل کریں۔ہمیں امید ہے کہ ہم اس موضوع پر آئندہ شماروں میں مزید بحث پیش کر سکیں گے۔

حوالہ جات
١۔ ملاحظہ فرمائیے: نظریہ ھای امروزی شناخت جان پولاک و جوزف کراز فارسی ترجمہ دکتر علی حجتی۔
٢۔ شرح اصول الکافی، ج ٨، ص ٣٧٩۔
٣۔ میزان الحکمة حدیث ٠٧٤٢١
٤۔ مطہری، مجموعہ آثار ، جلد ١٣، ص ٣٥٥۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.