آغازوحی

229

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کھا : اے محمد پڑھ: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا هوانھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کھا : پڑھ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا ، اور تیسری بارکھا: < اقراباسم ربک الذی خلق۔۔۔>[1]
جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو وحی کی پھلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے هوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا : ” زملونی ودثرونی “ مجھے اڑھادو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دوتاکہ میں آرام کروں ۔
”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے فرمایا :
”جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هوجاتاهوں “ ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خداآپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سواکچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجالاتے ھیں ‘اور جوبات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔
”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کھا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے :
اے محمد ! کهو :
” بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبدوایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔
اور کهو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
” ورقہ “ نے کھا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا “ جب “ ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “[2]

[1] سورہٴ علق آیت ۱۔
[2] یقینی طورپر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوںمطالب نظرآتے ھیں جو مسلمہ طور پر جعلی‘ وضعی ‘ گھڑی هوئی روایات اور اسرائیلیات سے ھیں ‘ مثلاًیہ کہ پیغمبر نزول وحی کے پھلے واقعہ کے بعد بہت ھی ناراحت هوئے اور ڈرگئے کہ کھیں یہ شیطانی القاآت نہ هوں ‘ یا آپ نے کئی مرتبہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.