امام محمد تقي عليہ السلام
امام محمد تقي عليہ السلام مسلمانوں کے نويں امام ہيں جو ١٠ رجب سن ١٩٥ ہجري کو مدينہ منورہ ميں متولد ہوئے۔ آپٴ کي والدہ کا اسمِ گرامي ”سبيکہ” ہے جن کا تعلق ام المومنين بي بي ماريہ قبطيہ کے قبيلے سے تھا اور وہ اپنے زمانے کي عظيم ترين خاتون تھيں۔ امام علي رضاٴ انہيں پاکدامن اور نيک خاتون قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں: ”ريحانہ (سبيکہ) تقدس اور پاکيزگي ميں مانندِ مريمٴ ہيں۔” بنابريں، امام محمد تقيٴ نے بافضيلت ماں اور عظيم باپ کے سايہ عاطفت ميں پرورش پائي اور اپنے بابا کي شہادت کے بعد تمام انسانوں کي رہبري کي ذمہ داري اٹھائي۔
امام محمد تقيٴ اور گناہگار انسان: جو لوگ بے محابہ گناہ کرتے اور معصيت انجام ديتے ہيں، گويا وہ اپنے آپ کو خدا کے حساب و کتاب سے ماورائ سمجھتے ہيں۔ يہ لوگ، بقولِ امام نہمٴ، خسارے ميں شمار کئے جائيں گے؛ کيونکہ کوئي بھي خدا کي قدرت سے فرار نہيں ہوسکتا۔ امام محمد تقيٴ اس بارے ميں فرماتے ہيں: ”جو گناہگار اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہيں، گويا وہ اپنے تئيں خدا کي نگراني اور پکڑ سے محفوظ سمجھتے ہيں۔ يہ لوگ نقصان ميں ہيں اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہيں۔”
امام محمد تقيٴ اہلسنت دانشوروں کي نگاہ ميں امامت کے الہي منصب اور مقامِ ولايت کے شکوہ و عظمت اس قدر بلند مرتبہ اور جاذب نظر ہے کہ غير شيعہ علمائ و دانشور بھي اس کے سامنے سرتسليم خم کر ديتے ہيں۔ چنانچہ اہلسنت کے عظيم دانشوروں نے بھي اس حوالے سے اپنا نظريہ بيان کيا ہے۔
ابنِ صباغ مالکي: ابن صباغ مالکي نويں امامٴ کے بارے ميں لکھتے ہيں: ”ابو جعفر محمد جواد، سن ١٩٥ ہجري ميں مدينہ ميں متولد ہوئے ۔ آپٴ نسبي طور پر بہترين نسل سے تعلق رکھتے ہيں؛ کيونکہ آپٴ’ علي رضاٴ ابن موسيٰ کاظمٴ ابن جعفر صادقٴ ابن محمد باقرٴ ابن عليٴ ابن حسينٴ ابن عليٴ ابن ابيطالبٴ ہيں۔” (فصول المہمہ) ”ميں امام جوادٴ کي عظمت و مقام اور فضيلت و کمال کے بارے ميں کيا کہوں ! ائمہ کے درميان آپٴ کي عمر سب سے کم اور عزت و احترام زيادہ ہے۔ آپٴ نے اپني زندگي کي مختصر مدت ميں متعدد کرامات و معجزات دکھائے اور فضيلت و کمال کے مراتب طے کئے۔” (سرور الفوائد)
ابن تيميہ: يہ بھي اہلسنت کے ايک مشہور و معروف عالمِ دين ہيں۔ وہ امامٴ کے بارے ميں کہتے ہيں: ”محمد بن عليٴ ملقب بہ جواد (يعني نويں امام)، بني ہاشم کے بزرگ اور معروف شخصيت ہيں اور سخاوت و بزرگواري ميں بہت مشہور ہيں۔” (منہاج السنہ)
کمال الدين شافعي: اہلِ تسنن کے يہ مشہور دانشور، امام جوادٴ کے بارے ميں دلچسپ جملات ادا کرتے ہيں۔ وہ کہتے ہيں: ”امام جوادٴ صاحبِ عظمت اور بلند مرتبہ کے مالک ہيں اور آپٴ کا نام زبانوں پر جاري ہے۔ آپٴ کي کشادہ قلبي، وسعتِ نظري اور شيريں سخني نے ہر ايک کو اپني جانب جذب کرليا ہے۔۔۔ آپٴ کے کلمات بہت قيمتي اور عظيم ہيں اور آپ کي بارگاہ ميں پہنچنے والا ہر شخص سرِتسليم خم کرديتا ہے۔۔ وہ ايسا نور ہيں جن سے ہر کوئي مستفيد ہوتا ہے اور انسان کي عقل امام جوادٴ سے علم و معرفت پاتي ہے۔” (کشف الغمہ في معرفۃ الائمہ ج٣)
مامون الرشيد: عباسي خليفہ، مامون الرشيد پر بنوعباس نے جب اعتراض کيا کہ اس نے اپني بيٹي ”ام الفضل” کي شادي امام جوادٴ سے کيوں کردي تو اس نے جواب ميں کہا: ”ميں نے اس لئے انہيں اپنا داماد بنايا ہے کہ وہ کم عمري کے باوجود علم و فضيلت کي وسعت ميں تمام اہلِ علم و فضل پربرتري رکھتے ہيں۔ وہ علم و کمال ميں غير معمولي دسترس رکھتے ہيں۔” (اعيان الشيعہ ج٣)
غريبوں کي دستگيري: ”امام جوادٴ مظہرِ جود و سخا اور غريبوں اور محروموں کے مددگار تھے۔ آپٴ کبھي کسي فقير کو نااميد نہيں کرتے تھے۔ آپٴ کے ايک صحابي احمد بن حديد کہتے ہيں: ”ميں ايک مرتبہ حج کرنے کے لئے ايک قافلہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ جارہا تھاکہ راستے ميں رہزنوں نے حملہ کرديا اور ہمارا مال و اسباب لوٹ ليا۔ جب ہم مدينہ واپس پہنچے تو ايک گلي ميں ميري ملاقات نويں امامٴ سے ہوگئي اور ميں ان کے ساتھ ان کے گھر چلا گيا اور انہيں سارا ماجرا بتا ديا۔ آپٴ نے مجھے لباس او ر کچھ رقم عنايت کي اور فرمايا: اپنے ساتھيوں کے درميان يہ سب اسي طرح سے تقسيم کردو جس طرح سے ان کا مال لوٹا گيا ہے۔ جب ميں نے يہ سارا مال و اسباب تقسيم کيا تو ہم سب حيرت زدہ رہ گئے کہ کسي قسم کي کمي بيشي کے بغير جو مال ہمارا لوٹا گيا تھا، امامٴ نے اتنا ہي ہميں عطا کر ديا تھا۔” (بحار الانوار جلد ٥٠)
شاگردوں کي تربيت اور مکتب کي تقويت: امام محمد تقيٴ نے شاگردوں کي تربيت اور مکتبِ اہلبيتٴ کي تقويت کے لئے موثر جدوجہد کي ہے۔ آپٴ نے مدينہ منورہ ميں درس و تدريس اور تفسيرِ قرآن کا سلسلہ شروع کيا ہوا تھا اور جب لوگ آپٴ سے ملاقات کے لئے آتے تو وہ مدينہ کے رہنے والے ہوں يا دوسرے علاقوں سے آئے ہوں، سب کے لئے مسائل ديني اور معارف اسلامي کي وضاحت کيا کرتے تھے۔ آپٴ خط لکھ کر اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے خطوط کے جواب دے کر بھي معارف اسلامي کو بيان اور ديني و عقيدتي مسائل کو حل کيا کرتے تھے۔ (الامام الجواد من المہد الي اللحد)
غريبوں کي مالي امداد: بغير کسي شک و تردد امام جوادٴ سوسائٹي کے غريب اور محروم طبقے کي امداد کے لئے مثالي ترين شخصيت ہيں۔ آپٴ محروم طبقے کو کبھي بھي فراموش نہيں کرتے تھے اور جس حد تک ہوسکتا، کمزوروں اور بے بضاعتوں کي مدد کيا کرتے تھے۔ اسي لئے آپٴ جواد کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے جس کے معني ہيں، ”سخي انسان”۔ ايک مورخ اس بارے ميں کہتے ہيں: امام جوادٴ ہر سال ہزاروں درہم مدينہ والوں ميں تقسيم کيا کرتے تھے، اسي لئے آپٴ کو جواد کا لقب ديا گيا تھا۔ (زندگاني امام جواد)
امام جواد کي نصيحت: دين مبين اسلام کي تعليمات ميں سے ايک اہم ترين تعليم مسلمان بھائيوں کي مدد اور ان کے ساتھ نيکي کرنا ہے۔ ضرورتمندوں کي امداد، پسنديدہ ترين کام اور سنت رسول۰ اور کردارِ ائمہ ہے۔ دينِ اسلام کے بزرگ رہنما اور امام جوادٴ بھي ہميشہ نيکي کرنے والوں کي حوصلہ افزائي کيا کرتے تھے اور ان سے چاہتے تھے کہ لوگوں کے ساتھ نيکي کر کے ان کے دل موہ ليں اور دوستي اور محبت کے ذريعے عشق و محبت کا پودا دل ميں کاشت کريں۔ اس حوالے سے نقل کيا گيا ہے کہ: ايک مرتبہ ايک شخص خوشي خوشي امام جوادٴ کي خدمت ميں پہنچا۔ آپٴ نے اس کي خوشي کي وجہ پوچھي تو کہنے لگا: اے فرزندِ رسول۰! جس دن اللہ تعاليٰ کسي مسلمان کو نيکي کي توفيق دے، وہ دن خوشي اور شادابي کا دن ہے اور آج مجھے ايک ديني بھائي کے ساتھ نيکي کرنے کي توفيق حاصل ہوئي ہے۔ اس وقت امامٴ نے اپني جان کي قسم کھا کر کہا: ”يہ کام باعث خوشي ہے، بشرطيکہ احسان جتا کر اسے ضائع نہ کردو۔” (سيرہ عملي اہلبيتٴ)
مامون الرشيد کو جواب: ايک دن مامون کہيں جارہا تھا کہ راستے ميں اس نے چند نوجوانوں کو ديکھا، جن ميں امام جوادٴ بھي شامل تھے۔ سارے نوجوان سلطنتي کر و فر کو ديکھ کر فرار ہوگئے ليکن کم سن نوجوان امام محمد تقيٴ وہيں کھڑے رہے۔ مامون نے آپ سے فرار نہ ہونے کي وجہ پوچھي تو آپٴ نے انتہائي بہادري کے ساتھ فرمايا: ”مجھے يہاں سے جانے کي کوئي وجہ سمجھ ميں نہيں آئي؛ کيونکہ نہ ميري وجہ سے آپ کا راستہ تنگ ہورہا ہے، کہ ميرے جانے سے آپ کے لئے راستہ کھل جائے گا، اور نہ ميں نے کوئي جرم کيا ہے کہ جس سے ڈر کر بھاگ جاوں اور ميں يہ بھي جانتا ہوں کہ آپ کسي بے گناہ کو بلاوجہ نقصان نہيں پہنچاتے۔” مامون نے جب امام جوادٴ کو پہچان ليا تو بولا: ”تم صحيح معنوں ميں علي بن موسيٰ الرضاٴ کے بيٹے ہو۔” (سيرہ عملي اہلبيتٴ)
ماں باپ کے احترام کي تاکيد: ماں باپ کے ساتھ نيکي، ايک انساني صفت ہے جس کي تاکيد اسلام نے بھي کي ہے اور معصومين عليہم السلام نے بھي اس پر زور ديا ہے۔ اس حوالے سے نقل ہوا ہے کہ ايک مرتبہ کسي شخص نے امامٴ کو خط لکھا اور دعا کي درخواست کرتے ہوئے پوچھا کہ ميں اپنے بداخلاق باپ کے ساتھ کس طرح پيش آوں جو کہ دشمنِ اہلبيتٴ بھي ہے۔ امام جوادٴ نے اس کو جواب ديتے ہوئے لکھا: ”ميں تمہارے لئے دعا کروں گا اور ميں چاہتا ہوں کہ تم اپنے والد کے ساتھ مناسب طريقے سے پيش آو اور اسے ناراض کرنے سے پرہيز کرو۔” امامٴ نے آگے چل کر اسے تسلي دي کہ ”مشکل کے بعد آساني ہوتي ہے۔ صبر کرو کہ کاميابي پرہيزگاروں کو ہي ملتي ہے۔” (سيرہ عملي اہلبيتٴ)