غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاںاز:سید ریاض حسین اختر ولد سید سلیم اختر حسین شاہامام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے دور میں ہماری ذمہ داریاں، کتاب عصر ظہور کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال اُبھرنا ایک یقینی امر ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اگرچہ اس سوال کا جواب کتاب مذکوربحثوں میں اجمال طور پر آچکا ہے لیکن اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا انتہائی مفید تھا، اس حوالہ سے ہم حضرت آیت اللہ حاجی میرزا محمد تقی مولوی اصفہانی کے کتابچہ سے استفادہ کیا ہے اور قارئین کے لیے یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ہم اس جگہ بحث کو زیادہ تفصیلی بیان نہیں کریں گے بلکہ ذمہ داریاں کی فہرست اور ذمہ داری کے بارے میں ایک آدھ حدیث بیان کریں گے۔
۱۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مظلومیت اور اپنی رعیت سے دور ہونے پر غمگین اور افسردہ خاطر رہنا۔اکمال الدین و اتمام النعمہ شیخ صدوق ج۲ص۷۷۳ میں حدیث ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اور ہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ خاطر ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔۲۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور اور آپ کی فرج و فتح کی انتظار کرنا بلکہ یہ افضل اعمال سے ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدیعلیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران کا انتظار کرنا واجب ہے اور میری اولاد کے تیرے ہیں بحوالہ محیف القول، صحفہ ۱۵۲ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں تمام عبادتوں سے افضل انتظار فرج امام مہدیعلیہ السلام کی آمد کا منتظر رہنا ہے۔(بحارالانوار ج۲۵ ص۵۲۱)
۳۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے رعیت سے دور رہنے اور آپ کی مظلومیت کو یاد کر کے گریہ کرنا امام جعفر صادقعلیہ السلام خد اکی قسم آپ کا امام ایک زمانہ میں آپ سے غائب ہو گا اور آزمائش ہو گی یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ وہ یا تومر گیا یا پھر وہ کیسی وادی میں چلا گیا ہے تحقیق مومنین کی آنکھیں اس پر گریاں ہوں گی۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۱۷۴۳)
۴۔ امام مہدیعلیہ السلام کے معاملہ میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کر کے یعنی یہ نہ کہنا ہو کہ ان کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا اب تو ظہور ہو جانا چاہےے تھا یہ تو زیادتی ہے ظلم ہے بلکہ خداوندی کی حکمت اور مصلحت کے تحت وہ غائب ہیں اس پر رضائیت اور سر تسلیم خم کرنا چاہےے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے۔ امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں میرے بعد امام میرا بیٹا علیعلیہ السلام ہے اس کا حکم میرا حکم ہے اس کی بات میری بات ہے اس کی اطاعت میری اطاعت ہے۔اس کے بعد امام علیہ السلام اس کا بیٹا حسن ہے اس کا حکم اس کے والد کی اطاعت ہے اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے راوی کہتا ہے میں نے کہا یا بن رسول حسنعلیہ السلام کے بعد امام علیہ السلام کون ہے؟ حضرت نے بہت زیادہ گریہ فرمانے کے بعد کہا امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام ان کے بیٹے قائم منتظر ہیں راوی نے عرض کیا کہ یابن رسول اللہ ان کو قائم کیوں کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا اس لیے ان کو قائم کہتے ہیں کہ جب اس کا ذکر ختم ہو جائے گا آپ کی امامت کے بہت سے قائل اپنے عقیدہ سے پھر جائیں گے تو اس وقت آپ قائم ہوں گے قیام کریں گے۔دوبارہ آپ کا نام زندہ ہو گا خاموشی کے بعد قیام کی وجہ سے قائم کہا گیا، راوی نے سوال کیا آپ کو منتظر کیوں کہا جاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا اس کی وجہ ہے کہ آپ نے غائب ہونا ہے آپ کے غائب ہونے کا زمانہ طولانی ہو گا آپ کے جو مخلصین ہوں گے وہ آپ کا انتظار کریں گے شک کرنے والے آپ کا انکار کریں گے وہ جھوٹے ہوں گے اور جو جلدی کریں گے وہ ہلاک ہوں گے جو آپ کے امر و معاملے میں تسلیم ہوں گے وہ نجات پائیں گے۔(اکمال الدین ج۲ص۸۷۳)
۵۔ مال کے ذریعہ حضرت علیہ السلام کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کریں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک امام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں احد پہاڑ کے برابر سے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول الکافی ج۱ص۷۳۵)مقصد یہ ہے کہ امام کی نیابت میں آپ کے دوستوں اور چاہنے والوں پر اور آپ کے مشن کی تقویت کے لیے مال خرچ کرے۔
۶۔ حضرت کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا جیسا کہ نجم الثاقب ص۲۴۴ میں روایت ہے۔
۷۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا کہ آنحضرت کی معرفت نصیب کرے اس کے لیے درج ذیل دعا کافی اکمال الدین وغیرہ میں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے مروی ہے۔اللھم عرفنی نفسک فالک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک اللھم عرفنی رسولک انک ان تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک اللھم عرفنی حجتک ضللت عن دینی۔ترجمہ: خداوند! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کر کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خداوند! مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا۔ خداوند! مجھے اپنی حضت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کروں تو اپنے دےن سے گمراہ ہو جاﺅں گا بھٹک جاﺅں گا۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۲۴۳)
۸۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صفات کو جاننا ہر حالت میں حضرت علیہ السلام نصرت اور مدد کرنے پر آمادہ رہنا آپ کے فراق پر گریہ کناں ہوں۔(بحوالہ نجم الثاقب)
۹۔ درج ذیل دعا کو ورد رکھنا امام جعفر صادقعلیہ السلام سے یہ کلمات روایت ہوئے ہیں۔یااللہ یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (کمال الدین)ترجمہ: اے اللہ اے رحمن، اے رحیم اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دینی پر ثابت رکھ۔
۰۱۔ اگر استطاعت رکھتا ہو تو عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔(بحوالہ نجم الثاقب)۱۱۔ حضرت کا جو اصلی نام ہے وہ رسول اللہ کا نام ہے احترام کے لیے حضرت کا نام نہ پکارے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے قائم منتظر، حجت، مہدی، امام غائب، بعض روایات میں تو حضرت کے نام کو عام طور پر ذکر کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔(بحوالہ کمال الدین ج۲ص۲۵۳)
۲۱۔ جب حضرت کا نام لیا جائے تو آپ کے احترام کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے خاص کر جب آپ کے القاب میں سے قائم کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جائیں یہ سن آئمہ علیہم السلام (نجم الثاقب ص۴۴۴)
۳۱۔ حضرت کی ہمراہی میں دشمنان خدا سے مقابلہ کرنے کے لےے اسلحہ وغیرہ آمادہ کرنا بحارالانوار میں غیبت نمانی سے امام جعفر صادقعلیہ السلام کی حدیت بیان کی گئی ہے۔ضروری ہے کہ آپ میں سے ہر ایک حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے لیے جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو امید ہے کہ جس کی یہ نیت ہو اللہ تعالیٰ اسے حضرت قائم علیہ السلام کے اصحاب میں سے قرار دے گا۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۱۹۲)اسلحہ لینے کا مطلب یہ ہوا کہ جنگی مہینوں کی تربیت بھی اس نیت سے حاصل کرے کہ حضرت قائم علیہ السلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرے اور اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کی نابودی کا سامان مہیا کرے۔
۴۱۔ مشکلات میں حضرت علیہ السلام کو وسیلہ قرار دے کر آپ کی خدمت میں اپنی حاجات پر مشتمل عریضہ ارسال کرے۔(بحارالانوار ج۲۵ص ۹۸۱) عریضہ یا تو آئمہ اطہار علیہم السلام اور حضرت نبی کی ضریحوں میں ڈالا جائے یا دریا، سمندر، کنوﺅں میں ڈالا جائے حضرت خضرت علیہ السلام کو اس عریضہ کے پہچانے کا وسیلہ بنایا جائے بہرحال یہ عمل یا اسی طرح کے باقی اعمال جو ہیں یہ سب امت مسلمہ کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کے لےے ہیں کہ حضرت مہدیعلیہ السلام موجود ہیں وہ اصل ہمارے رہبر ہیں ان کے ذریعہ تمام مشکلات اور مسلمانوں کے مسائل حل ہوں گے ان کی نصرت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (بحارالانوار ج۴۹ص۹۲)
۵۱۔ خدا سے سوال کرتے وقت خداوند کو امام زمانہ علیہ السلام کے حق کی قسم دی جائے اور حضرت علیہ السلام کو اپنا شفیع اور سفارشی بنائے (بحوالہ اکمال الدین)قدم رہیں گے کم ترین ثواب اور بدلہ جو اللہ ان کو دے گا وہ یہ ہو گا کہ خداوند کی طرف سے ان کو آواز آئے گی اے میرے بندو اور اے میری کنیزو تم میرے سرو راز پر ایمان لے آئے ہو اور میری غائب حجت کی تم نے تصدیق کی ہے تم کو بدلہ اور ثواب کی بشارت ہو میں تمہارے اچھے اعمال کو قبول کروں گا اور تمہارے برے اعمال سے عفو در گزر کرو ں گا تمہارے گناہوں کو بخش دوں گا اور تمہاری برکتوں سے اپنے بندوں پر بارش برساﺅں گا اور ان کی مصیبتوں کو ٹالوں گا اگر تم لوگ نہ ہوتے تو میں ان پر اپنا عذاب بھیجتا۔ راوی نے سوال کیا کہ اس زمانہ میں کو سا عمل تمام اعمال سے بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو کنٹروں میں رکھو اور گھروں میں رہو۔(اکمال الدین ص۵۳۳)کہ ضرورت اور اسلام کے مفاد کے لیے تو دوسرے افراد سے رابطہ اور تعلق رکھو اس کے علاوہ تمہارا دنیا والوں سے میل جول نہیں ہونا چاہیے اسی میں تیری اور خیر ہے۔
۸۱۔ حضرت مہدی علیہ السلام پر درود و سلام زیادہ بھیجا جائے ہر نماز کے بعد آپ پر سلام پڑھا جائے اس کے لیے مفاتیح الجنان اور دوسری دعاﺅں کی کتابوں کی طرف آپ رسول کر کے کسی زیارت نامہ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
۹۱۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت میں اور خداوند کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں آپ ہی واسطہ ہیں یعنی آپ فیض رسائی کا وسیلہ ہیں۔ (بحوالہ مکارم الاخلاق طبرسی ص۲۲۴)
۰۲۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے جمال مبارک کی زیارت کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا امیر المومنین علیہ السلام اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرما کر شوق کا اظہار فرماتے تھے۔(کمال الدین ج۱ص۱۹۲)
۱۲۔ لوگوں کو حضرت مہدی علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنے پر آمادہ کرنا کافی ہے سلیمان بن خالد سے مروی ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے رشتہ دار ہیں خاندان والے ہیں اور میری بات کو سنتے ہیں کیا میں اس کو اس امر کی دعوت دوں تو آپ نے فرمایا جی ہاں! خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا! اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں “خاندان” کو اس آگ سے بچاﺅ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔(سورہ تحریم آیت۶)
۲۲۔ دشمنوں کی طرف جو مصائب آئیں ان کو برداشت کیا جائے مصائب اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے امام حسینعلیہ السلام فرماتے ہیں جو مومن بارہویں امام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کو جھٹلانے پر صبر کرے، برداشت سے کام لے، گھبرائے نہ وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو یعنی رسول اللہ کی رقاب میں جہاد کرنے کا ثواب اسے ملے گا۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)۔۳۲۔ مومنین انپے نیک اعمال کو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کریں جیسی قرآن پاک کی تلاوت نوافل نبی اکرم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی زیارت حج، عمرہ، مجلس عزا ماتم عزاداری وغیرہ۔
۴۲۔ حضرت مہدیعلیہ السلام کے لیے آپ کے ظہور میں تعجیل کے لیے آپ کی سلامتی کے لیے آپ کے مصائب دور ہونے کے لیے دعائیں مانگنا روایات میں ہے کہ آپ لوگ حضرت مہدیعلیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کے لیے بہت دعا کریں کیونکہ آپ لوگوں کی فتح و کشادگی فتح و نصرت اسی میں ہو گی۔(بحوالہ الاحتجاج ج۲ص۰۸۲) امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے یہ دعا کرنا جو ہے یعنی امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے تعجیل کے لیے دعا مانگنا ایمان پر ثابت قدم رہنے کا سبب ہے۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۴۸۳)مفاتیح الجنان میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل آپ کی سلامتی آپ کے ساتھ روزانہ تجدید بیعت کرنے کے لیے متعدد دعائیں موجود ہیں آپ کچھ دعاﺅں کا انتجاب کرکے ان کا ورد رکھا کریں خاص کر دعائے اللھم کن لولیک الحجة الحسن صلواتک علیہ وعلی آبائہ فی ھذہ الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائداو و دلیلا و ناصرا و عینا حتی تسکنہ و عرضک طوعا و تمعہ و فیھا طویلا اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم۔اور صبح کے وقت تجدید کی دعا، اللھم بلغ مولای صاحب الزمان صلوات علیہ عن جمیع المومنین والمومنات۔
حضرت کے ظہور کی خاطر دعا مانگنے کے بعد زیادہ فائدے ہیں ان میں چندایک یہ ہیں۔۱۔ عمر کی طولانی ہونے کا سبب ہے۔ (مکارم الاخلاق ص۴۸۲)۲۔ دعا مانگنا ایک قسم کا امام زمانہ علیہ السلام کا جو ہم پر حق بنتا ہے اسے ادا کرنا ہے۔(کافی ص۰۷۱)۳۔ حضرت مہدیعلیہ السلام کے لےے دعا کرنے والے کو رسول اکرم کی شفاعت نصیب ہو گی۔(اطفال ص۶۹۱)۴۔ دعا کرنے والے کی خدا مدد فرمائے گا۔۵۔ دعا کرنے سے امام زمانہ علیہ السلام خوش ہوتے ہیں اور امام علیہ السلام کے دل کو خوش کرنے کا بہت ثواب ہے۔۶۔ جو شخص امام علیہ السلام کے لیے دعا مانگتا ہے تو امام علیہ السلام اس کے لیے دعا مانگتے ہیں۔۷۔ اس دعا کا ثواب اتنا ملے گا جس طرح کسی نے تمام مومنین و مومنات کے لیے دعا مانگی اور خدا کے فرشتے اس شخص کے لیے دعا مانگتے ہیں۔۸۔ دعا کرنا امام مہدیعلیہ السلام سے محبت اور دوستی کا اظہار ہے اور یہ اجر رسالت ہے۔۹۔ غیب کے زمانہ میں امام علیہ السلام کے لیے دعا کرنے سے مصائب دور ہوتے ہیں۔۰۱۔ حضرت امام مہدیعلیہ السلام ظہور کی تعجیل کے لیے دعا کرنا در حقیقت خدا کے لیے پیغمبر اکرم کے لیے کتاب خدا کے لیے دین خدا کے لیے اور مسلمانوں کے لےے خیر خواہی ہے کیونکہ اس دعا کا ثمر یہی ملتا ہے حضرت کے ظہور کی دعاو کا مطلب خدا کے نام کی سر بلندی، پیغمبر اکرم کے مشن کے غالب آنے، دین کے غلبہ مسلمانوں کی شر کفار سے نجات اور کتاب خدا کے نفاذ کی خواہش ہے جس کے اندر یہ پانچ وصف پائے جائیں رسول فرماتے ہیں میں اس کی بہشت کا ضامن ہوں۔(اطفال ج۱ ص۱۴۱)۱۱۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے لےے دعا کرنے والے کو مظلوم کی مدد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔۲۱۔ نبی کریم اور علی علیہ السلام کی ہمراہی میں جہاد کرنے کا ثواب ہے۔۳۱۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی دعا سے آپ ایک ایسے عمل میں شریک ہو جاتے ہیں کہ جس عمل کا ثواب تمام اعمال سے زیادہ ہے اور وہ ہے امام حسینعلیہ السلام کے خون کا بدلہ چکانا۔۴۱۔ دعا کے معنوی فوائد کے علاوہ بہت سارے ظاہری فائدے بھی ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعا کرنے والا اپنے اندر آمادگی محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے انقلاب کے لیے تیاری بھی کرتا ہے۔خداوند کریم ہم سب کو توفیق دے کہ ہم حضرت مہدیعلیہ السلام کی آمد اور آپ کے ظہور کے لےے سچے دل سے دعا کرنے والے ہوں اور آپ کے ظہور کے مقدمات مہیا کرنے میں اپنا کردارادا کر سکیں فقط دعا کے کلمات کو زبان پر ادا کرنے کی حد تک نہ رکھیں۔۵۱۔ آئمہ اطہار علیہم السلام سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے مفاہیم پر توجہ دینے میں حضرت مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کا خاکہ آپ کی پالیسیاں آپ کے انصار اور معاونین کی ذمہ داریوں کا بھی اوراک ہوتا ہے اور یہ بہت بڑا فائدہ ہے اس لیے روایات میں ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام سے اس بات میں جو دعائیں منقول ہیں ان کو پڑھا جائے ویسے تو اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں لیکن جو انداز دعا آئمہ علیہم السلام کارہا ہے اس سے جو فوائد مقصود ہیں ان سے ہم بے بہرہ ہوں گے۔۶۱۔ علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کسی طرح اپنے مخالفین کو جواب دیںاگر وہ حیران و پریشان ہوں تو ان کی حیرانگی اور پریشانی کو دور کریں یہ مطلب بہت اہمیت رکھتا ہے علماءکی ذمہ داری ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہوﺅں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کا صفایا کرنے کے بکھرے ہوﺅں کو منظم کر کے ان کو مقابلہ کے لےے تیار کریں حدیث میں ہے جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے (یعنی ان سے شکوک و شبہات کو دور کرے) وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور حدیث سے رسول اللہ کا فرمان ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(الکافی ج۱ص ۳۳۔۴۵) اس حدیث کی روشنی میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا عالم دین کی اہم ذمہ داری قرار پائی ہے اور اس کے لیے سیاسی عمل میں جانا ضروری ہے اسلامی حکومت کا قیام ہی بدعتوں کے خاتمے کا سبب ہو گا، بعض علمائے کرام انفرادی بدعتوں کے خاتمے کے لیے تو اقدامات کرتے ہیں لیکن اسلامی معاشروں میں جو اجتماعی بدعتیں ہیں سوسائٹی میں جو خرابیاں اور فسادات ہیں اجرائم ہیں ان کے خاتمہ کے لیے جدوجہد نہیں کرتے حالانکہ اجتماعی مفاسد اور بدعتوں کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کرنا انفرادی مفاسد کے خاتمہ کی جدوجہد سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اگر اجتماع درست ہو گا ایک سوسائٹی میں اجتماعی بدعتوں کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو ان کے ضمن میں انفرادی برائیوں کا خاتمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا جائے گا یعنی اس عمل سے دونوں مقاصد حاصل ہوتے ہیں جب کہ افراد کی شخصی برائیوں کے خلاف بات کرنے پر اکتفا کرنا معاشرہ کی اجتماعی بیماریوں کو دور نہیں کر سکتا دیکھنے میں آیا ہے کہ مومنین اپنے انفرادی اعمال میں نیک اور پارسا ہوتے ہیں لیکن اجتماعی کاموں میں وہ دشمنان خدا کے آلہ کا ر بنتے ہیں اور اپنے اجتماعی فرائض انجام دہی پر بالکل توجہ ہی نہیں کرتے یہ علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھی کام کریں۔۷۲۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اپنی رعیت پر جو حقوق بنتے ہیں ان کی ادائیگی کے لیے زبردست کوشش کی جائے ہر شخص اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق ان حقوق کو ادا کرے امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت کرنے کوتاہی نہ کریں امام صادقعلیہ السلام نے اس وقت فرمایا جب حضرت قائم علیہ السلام کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی کہ اگر میں آپ کے زمانہ میں ہوتا تو جب تک زندہ رہتا امام کی خدمت کرتا۔(بحارالانوار ج۱۵ ص۸۴۱)دیکھیے امام صادقعلیہ السلام اتنی عظمت و جلالت کے باوجود کسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کی خدمت کرنے کے متعلق اظہار فرما رہے ہیں امام علیہ السلام کی خدمت کرنے کا مطلب آپ کے مشن کی خدمت کرنا اگر ہم امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کر کے امام کے دل کو خوش نہیں کر سکتے تو آپ کے مشن کی مخالفت میں اقدامات کر کے امام علیہ السلام کے دل کو غمگین و مخزون تو نہ کریں۔۸۲۔ امام مہدیعلیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے حدیث معراجیہ میں ہے رسول پاک فرماتے ہیں معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ خطاب ہوا کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو آپ کے اوصیاءکا دیدار کراﺅں میں نے کہا جی ہاں تو اللہ نے فرمایا اپنے سامنے دیکھو جب میں نے دیکھا تو میں نے اپنے بارہ اوصیاءکی درخشاں تصویروں کو دیکھا اور میں نے دیکھا کہ حضرت قائم علیہ السلام ان بارہ میں سے روشن ستارے کی مانند چمک رہے ہیں پس میں نے عرض کیا خدایا یہ کون ہیں؟ (ان کا اپنی زبان سے تعارف کروا دے) تو خطاب ہوا یہ بر حق آئمہ ہیں اور یہ جو ان کے درمیان سب سے زیادہ چمک رہا ہے یہ میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرے گا اور میرے دشمنوں سے بدلہ لے گا۔اے محمد! اس سے محبت کرو اور اسے دوست رکھو کیونکہ میں اسے پسند کرتاہوں اور اسے چاہتا ہوں جو اسے دوست رکھے میں اسے دوست رکھتا ہوں جب کہ تمام آئمہ سے محبت کرنا واجب ہے خصوصیات کے ساتھ حضرت قائم علیہ السلام سے محبت کرنے کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے محبت کرنے کو خاص اہمیت حاصل ہے یعنی عمومی حکم کے علاوہ خصوصی حکم آپ سے محبت اور دوستی کرنے کا دیا گیا ہے۔۹۲۔ امام مہدیعلیہ السلام کے انصار اور مددگاروں اور آپ کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی کامیابی ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔۰۳۔ امام مہدیعلیہ السلام کے دشمنوں آپ کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔(بحوالہ الاحتجاج ص۶۱۳)۱۳۔ اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا کہ خداوندا! ہمیں امام مہدیعلیہ السلام کے انصار اور معاونین سے قرار دے اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنا جو امام مہدیعلیہ السلام کے انصار کی صفات ہیں۔۲۳۔ جب امام مہدیعلیہ السلام کے لیے مجالس و محافل میں دعا مانگی جائے تو بلند آواز سے دعا مانگی جائے کیونکہ یہ عمل تعظیم شعائر اللہ سے ہے۔۳۳۔ امام مہدیعلیہ السلام کے انصار اور معاونین پر صلوات بھیجنا جیسا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعائے عرفہ میں ہے اور بعض دوسری دعاﺅں سے بھی یہ مطلب واضح ہے۔۴۳۔ حضرت امام مہدیعلیہ السلام کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا یا کسی کو بھیجنا کہ وہ امام علیہ السلام کی نیابت میںطواف کر آئے۔۵۳۔ حضرت امام مہدیعلیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا۔۶۳۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا، نیابت میں عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا۔۷۳۔ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے حضرت امام مہدیعلیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے عہد و قرار داد باندھے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر کہے اے امام زمانہ علیہ السلام میں آپکا مومن ہوں، آپ کا حامل ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہو گی آپ کے انصار اور آپ کے مشن کے لےے وقف ہے میرا یہ عہد قیامت تک کے لیے ہے بہر حال امام زمانہ علیہ السلام سے بیعت اور عہد کرنے کے بارے میں بھی مخصوص دعائیںمفاتیح الجنان میں موجود ہیں وہاں سے دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں روزانہ صبح کی نماز کے بعد اگر یہ عہد نامہ پڑھا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ روایات میں ہے۔۸۳۔ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں امام حسینعلیہ السلام کی زیارت کے علاوہ باقی آئمہ معصومینعلیہ السلام کے مزاروں ر جا کر زیارت پڑھانا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا۔۹۳۔ مفصل کہتا ہے کہ میں نے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ ہم غیبت کے زمانہ میں کیا کریں تو آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص دوران صاحب الامر ہونے کا دعویٰ کرے تو اس سے ایسی چیزوں کا سوال کرو جن تک عام لوگوں کے علم کی رسائی نہیں ہے جیسے حیوانات سے بات کرنا، نباتات و جمادات سے بات کروانات وغیرہ۔۰۴۔ اگر کوئی شخص غیبت کبریٰ کے زمانہ میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے۔۱۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہ کریں اگر کوئی شخص ایساکرے تو اسے جھٹلایا جائے جو کچھ روایامت میں حتمی علامات کے حوالے سے ذکر ہے اسی کے بیان کرنے پر اکتفا کیا جائے امام صادقعلیہ السلام سے روایات ہے جو شخص آپ کے لیے (ظہور) کا وقت معین کرے اس سے ڈرو مت اور اسے جھٹلا دو کیونکہ ہم نے کسی ایک کے لیے وقت معین نہیں کیا ہے۔(بحوالہ بقیة شیخ طوسی ص۲۶۲)امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں جو لوگ (ظہورکا وقت معین کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں)۔(بحوالہ البقیة شیخ طوسی ص۲۶۲)ظہور کے وقت کو معین نہ کرنے میں مصلحت اور فائدہ ہے جس کا علم امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد ہو گا یہ خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔۲۴۔ دشمنوں سے چوکنے رہو اپنی حفاظت کا خیال کرودشمن کے چنگل میں آجاﺅ تو اسے اپنا راز بیان نہ کرو مقصد یہ ہے کہ عالمی اسلامی انقلاب کے قیام کے لیے جب کام شروع کرو گے تو اپنے معاملات سے دشمن کو مخفی رکھو اور اپنے پروگراموں میں محتاط رہو۔۳۴۔ گناہوں سے توبہ کرنا اسلامی احکام پر سختی سے کار بند رہنا کیونکہ امام علیہ السلام کی غیبت کا سبب یہ تھا کہ امت راہ حق سے پھر چکی تھی امت کے اندر اسلامی احکام کو نافذ کرنے کے لیے آمادگی نہ تھی لوگ خدا کے نافرمان تھے اب جب کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی انتظار میں ہیں تو ہمیں گناہوں کو ترک کرنا ہو گا اسلامی احکام کا نفاظ میں سے پہلے اپنے اوپر کرنا ہو گا اور اسی طرح خود کو عالمی اسلامی حکومت کے لیے آمادہ کرنا ہو گا جو لوگ خدا کے نا فرمان ہیں اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتے چاہتے اسلام کے سیاسی اجتماعی احکام ہوں یا انفرادی یا غیر سیاسی احکام ہوں، سب پر عمل نہیں کرتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کے منتظر ہیں وہ جھوٹے ہیں اور اپنے اس جھوٹ سے امام زمانہ علیہ السلام کو تکلیف دیتے ہیں۔۴۴۔ خداوند سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم علیہ السلام بن کر آئیں گے۔(بحوالہ روضہ کافی ص۴۳۲)۵۴۔ امام مہدیعلیہ السلام کے فضائل بیان کر کے مومن کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو حضرت کا حامی اور دوست بنائے۔۶۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ لوگوں کو شیعیان آل محمد کو شیعیان امام زمانہ علیہ السلام کو گمراہی اور بے راہ روی سے بچا سکیں۔۷۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس و زکوٰة اور خمس کا جو حصہ مال امام ہے اسے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں اور کوشش کریں کہ امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر اسے خرچ کریں خاص کر ان افراد پر جو علم دین حاصل کر رہے ہیں کل عالم دین بن کر معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا انہوں نے اُٹھانا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے۔۸۴۔ غیبت کے طولانی ہونے پر مایوسی اپنے نزدیک نہ آنے دو۔۹۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے بچوں، اپنی کمپنیوں، اداروں، جماعتوں، مساجد اور اجتماعات کی جگہوں کے ناموں میں امام مہدیعلیہ السلام کے القاب میں سے کسی نہ کسی لقب کو لے آﺅ۔۰۵۔ مرابطہ کے عمل کو انجام دو، مرابطہ دو قسم کا ہوتا ہے۔۱۔ انسان اسلامی زمین کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے کافروں کے حملہ سے اپنی سر زمین کی سرحدوں پر ڈیوٹی ادا کرے اس کا بہت ثواب یہ عمل ہر دور میں ہو سکتا ہے اس کے لیے بھی عسکری ترتیب حاصل کرنا لازم ہے اور حکومتوں پر بھی لازم ہے اسلام میں یہ عمل بہت بڑی عبادت ہے۔۱۵۔ دشمن اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اسلحہ اور سواری کو ہر وقت تیار رکھے یہ علم جو ہے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے دوران بالخصوص کرنے کو کہا گیا ہے اس کے لیے نہ تو جگہ معین ہے اور نہ ہی وقت معین ہے بلکہ ہر وقت شخص مومن آمادہ باش کی حالت میں رہے اس ضمن آتا ہے کہ انسان ورزش کے ذریعہ اپنے بدن کو متوازن رکھے اپنی صحت کا خیال رکھے جنگی فنون سے آگاہی حاصل کرے دشمنوں کامقابلہ کرنے کے لیے جو امور درکار ہیں ان کو حاصل کرے جہاں پر دشمنان کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے خود کو آمادہ رکھے وہاں پر فکری اور نظریاتی میدانوں میں ٹیکنیکل میدانوں میں بھی مخالفین اسلام کو شکست دےنے کے لیے تیار کرے اس کام کے لیے دینی جماعتیں تنظیمیں، دینی مدارس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر کہیں پر اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو اس کے لیے ان امور کو انجام دینا بہت ہی آسان کام ہے جیسا کہ اس وقت سر زمین ایران پر ہو رہا ہے۔اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان اسلامی سر زمین ہے اس کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے دشمن کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے ہمارے نوجوانوں کو شہری دفاع کی تربیت حاصل کرنا چاہیے اس طرح کیونکہ ہم سب لوگ پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں اور امام مہدی منتظرعلیہ السلام ہیں اس حوالے سے ایک عالمی اسلامی حکومت قائم کرنے کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے بھی ہم اپنے آپ کو ہر پہلو اور حوالے سے آمادہ تیار کریں یہ ہماری اسلامی ذمہ داری ہے۔خداوند تبارک و تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے انصار اور معاونین سے بنائے ہمیں صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ ہونے کی توفیق دے دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے کی توفیق دے خدایا ہماری اس کوشش فرمااور بصدق محمد و آل محمد اس کتاب کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کے لیے مفید قرار دے۔آپ علیہ السلام کے معاملہ میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کرے یعنی یہ نہ کہنا ہو کہ ان کا ظہور کیوں نہیں ہورہا اب تو ظہور ہو جانا چاہیے تھا یہ تو زیادتی ہے ظلم ہے بلکہ خداوند کی حکمت اور مصلحت کے تحت وہ غائب ہیں اس پر رضائیت اور سر تسلیم خم کرنا چاہےے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے۔امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا۔حضرت امام زمانہ علیہ السلام زیارت پڑھنا۔