جسمانی معاد
جسمانی معاد
جسمانی معاد سے مراد یہ ھے کہ خداوندعالم روز قیامت انسانوں کو اسی جسم کے ساتھ محشور کرے گا، قیامت کے یھی معنی اصول دین کی ایک عظیم اصل ھے جس پر عقیدہ اور ایمان رکھنا واجب اور ضروری ھے کیونکہ اس کے ارکان ثابت ھیں، اور اس کا انکار کرنے والا تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاجماع کافر ھے۔قیامت کے وجود پردلیل یہ ھے کہ یہ ممکن ھے، اور صادق الوعد نے اس کے ثبوت کی خبر دی ھے، لہٰذا قیامت پر یقین رکھنا واجب ھے جس کی طرف سب کی بازگشت ھے۔لیکن اس کے ممکن ھونے کی دلیل تو قیامت کا ممکن ھوناھے ، گزشتہ فصل میں ھم اس سلسلے میں بیان کرچکے ھیں، اورقیامت کے ثبوت کے لئے اخبار اور احادیث تمام انبیاء علیھم السلام نے بیان کی ھیں، جیسا کہ ھمارے نبی صادق الامین حضرت محمد مصطفی (ص)کے دین میں قیامت کے بارے میں اخبار اور حدیث بیان ھوئی ھیں، جیسا کہ قرآن کریم نے اس بات کی وضاحت کی ھے، اور مخالفین کو بہت سی صریح آیات میں واضح الفاظ کے ساتھ جواب دیا ھے، جن میں اس بات کی تاکید کی گئی ھے کہ جب لوگوں کوقبروں سے نکالا جائے گا تو وہ تیزی سے حساب و کتاب کے لئے جائیںگے، چاھے وہ افراد نیک ھوں یا برے ،ارشاد الٰھی ھوتا ھے:< یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ وَتَرَی الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِینَ فِی الْاٴَصْفَادِ سَرَابِیلُہُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَی وُجُوہَہُمْ النَّارُ لِیَجْزِیَ اللهُ کُلَّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ>[208]”اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ھوجائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ھوں گے اور تم اس دن مجرمین کو دیکھو گے کہ کس طرح زنجیروں میں جکڑے ھوئے ھیںان کے لباس قطران کے ھوںگے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھانکے ھوئے ھوگی تا کہ خدا ہر نفس کو اس کے کئے کا بدلہ دیدے کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ھے”۔اسی طرح پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی احادیث متواترہ میں جسمانی معاد کے ثبوت پر واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔آیات قرآن کریم:
۱۔< اٴَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہُ۔>[209]”کیا انسان یہ خیال کرتا ھے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکےں گے یقینا ھم اس بات پر قادر ھےں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں”۔< وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ>[210]”اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ھے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ھے کہتا ھے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتاھے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ھے وھی زندہ بھی کرے گااو روہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ھے”۔۳۔وہ آیات جو مردوں کو قبر سے نکالے جانے پر دلالت کرتی ھیں، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:< وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا ہُمْ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ إِلَی رَبِّہِمْ یَنسِلُونَ قَالُوا یَاوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ فَالْیَوْمَ لاَتُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَلاَتُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ >[211]”اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ھوںگے۔ کھےں گے کہ آخریہ ھمیں ھماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا ھے بیشک یھی وہ چیز ھے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کھاتھا۔قیامت تو صرف ایک چنگھاڑ ھے اس کے بعد سب ھماری بارگاہ میں حاضر کردیئے جائیں گے۔پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گااور تم کو صرف ویسا ھی بدلہ دیا جائے گا جیسے اعمال تم کررھے تھے”۔نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:< مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اٴُخْرَی>[212]”اسی زمین سے ھم نے تمھیں پیدا کیا ھے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے”۔۴۔جو آیات اس چیز پر دلالت کرتی ھیں کہ انسان اپنے تمام اعضاء و جوارح کےساتھ حساب کے لئے حاضر ھوگا اور انسان کے اعضاء و جوارح اس کے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:<الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیہِمْ وَتَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ>[213]”آج ھم ان کے منھ پر مہر لگادیںگے اور ان کے ہاتھ بولےں گے اور ان کے پاؤں گواھی دیںگے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے”۔نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:< حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ >[214]”یہاں تک کہ جب سب جہنم کے پاس آئےں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلاف گواھی دیں گے”۔۵۔ وہ آیات جن میں جسمانی معاد کی واقعی مثال پیش کی گئی ھے، [215]جیسا کہ جناب عزیر، بنی اسرائیل کے مقتول ، اصحاب کہف اور جناب ابراھیم کے لئے پرندوں کا زندہ ھونا، جیسا کہ ھم نے قیامت کے دلائل میں بیان کیا ھے:
۶۔ وہ آیات شریفہ جو جنت میں لذت نعمت پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ جسمانی لذت اعضاء و جوارح کے بغیر حاصل نھیں ھوتی، اسی طرح وہ آیات جو دوزخیوں کے عذاب اور درد و غم پر دلالت کرتی ھیں جو ان کے اعضاء و جوارح سے متعلق ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:<عَلَی سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ مُتَّکِئِینَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِینَ یَطُوفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِاٴَکْوَابٍ وَاٴَبَارِیقَ وَکَاٴْسٍ مِنْ مَعِینٍ لاَیُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلاَیُنزِفُونَ وَفَاکِہَةٍ مِمَّا یَتَخَیَّرُونَ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِمَّا یَشْتَہُونَ وَحُورٌ عِینٌ کَاٴَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُونِ>[216]”موتی اور یاقوت سے جوڑے ھوئے تختو ںپر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ھوںگے ان کے گرد ھمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررھے ھوںگے۔ پیالے اور ٹونٹی دار کنڑ اور شراب کے جام لئے ھوئے جس سے نہ درد سر پیدا ھوگا اورنہ ھوش و ھواس گم ھوںگے۔اور ان کی پسند کے میوے لئے ھوںگے۔‘اور ان پرندوں کا گوشت جس کی انھیں خواہش ھوگی۔ اور کشادہ چشم حوریں ھوںگی جیسے سربستہ موتی”۔اسی طرح خداوندعالم اہل دوزخ کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:< إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَ>[217]”پس آپ کے پروردگا رکی قسم کہ یہ ہر گز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں”۔احادیث معصومین علیھم السلام
اسی طرح جسمانی معاد کے سلسلے میں بھی بہت سی احادیث موجود ھیں، ان میں سے حضرت علی علیہ السلام “غرّہ” نامی خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں:”حتی اذا تصرمت الامور ،و تقضت الدھور ،و ازف النشور، اخرجھم من ضرائح القبور، و اوکار الطیور،واوجرة السباع، ومطارح المھالک ،سراعا الی امرہ ،مھطعین الی معادہ، رعیلاً صموتاً،قیاماً صفوفاً”۔[218]”یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ھوجائیں گے، اور تمام زمانے بیت جائیں گے اور قیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انھیں قبروں کے گوشوں، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا، اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ھوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ھوئے ،گروہ درگروہ، خاموش، صف بستہ اور ایستادہ۔اسی طرح علی بن ابراھیم اور شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:”اذا اراد اللهان یبعث الخلق ،امطر السماء علی الارض اربعین صباحا ،فاجتمعت الاوصال،ونبتت اللحوم”۔[219]”جب خداوندعالم مخلوقات کو مبعوث کرنا چاھے گا تو زمین پر چالیس روز تک بارش برسائے گا ، پس تمام چیزیں جمع ھوجائیں گی اور گوشت نمو پیدا کرے گا(یعنی مردوں کے بکھرے ھوئے اعضاء و جوارح اس کے بدن میں جمع ھوجائیں گے)۔
&&&&&
[208] سورہٴ ابراھیم آیت۴۸۔۵۱۔[209] سورہٴ قیامة آیت۳۔۴۔[210] سورہٴ یس آیت۷۸۔۷۹۔[211] سورہٴ یٰس آیت ۵۱۔۵۴۔[212] سورہٴ طہ آیت ۵۵۔[213] سورہٴ یٰس آیت۶۵۔[214] سورہٴ فصلت آیت ۲۰۔[215] درج ذیل آیات کی طرف اشارہ ھے< فَقُلْنَا اضْرِبُوہُ بِبَعْضِہَا کَذَلِکَ یُحْیيِ اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ>(سورہٴ بقرة ۷۳)< اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی ہَذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیيِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء اً ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیم>(سورہٴ بقرہ ۲۵۹۔۲۶۰)< سَیَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَیَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَیَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُلْ رَبِّی اٴَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَا یَعْلَمُہُمْ إِلاَّ قَلِیلٌ فَلاَتُمَارِ فِیہِمْ إِلاَّ مِرَاءً ظَاہِرًا وَلاَتَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِنْہُمْ اٴَحَدًا وَلاَتَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیتَ وَقُلْ عَسَی اٴَنْ یَہْدِیَنِی رَبِّی لِاٴَقْرَبَ مِنْ ہَذَا رَشَدًا وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا>(سورہٴ کہف۲۲۔۲۵۔)[216] سورہٴ واقعہ آیت۱۵۔۲۳۔[217] سورہٴ نساء آیت۶۵۔[218] نہج البلاغہ/صبحی الصالح:۱۰۸۔خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ ص ۱۳۵، علامہ جوادیۺ۔[219] امالی صدوق :۲۴۳/۲۵۸موٴ سسہ البعثة ۔قم ،حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۵۴،بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۷:۳۳/۱عن الامالی و ۷:۳۹/۸ عن اتفسیر علی بن ابراھیم ۔