استنباط کا تاریخچه

336

 
استنباط کا تاریخچه:اس سے پهلے که استنباط کے معنی و مفهوم بیان هو ، مناسب هے که ابتدائی اجتهاد و استنباط کی مختصر تاریخ بیان کریں تا که معلوم هو که طول تاریخ میں اجتهاد کن ادوار سے گذرا اور کن مراحل کو پشت سر گذارکر یهاں تک پهنچا .اجتهاد تاریخ میں مختلف مراحل و ادوار سے گذراهے جیسا که محمد علی انصاری تاریخ حصر الاجتهاد نامی کتاب کے مقدمه میں لکھتے هیں :بهت مشکل هے که اجتهاد کے تمام ادوار کو بطور کامل بیان کیا جائے لیکن کلی طور پر سنی اور شیعه مکتب فقه میں اس کی جستجو کی جاسکتی هے .
سنی مکتب :حقیقت میں سنی مدرسه فقه تین تاریخی مراحل سے گذرا هے .1- رسول خد(ص)کا دور .2- صحابه و تابعیں کا دور.3- ائمه اربعه کا دور .4- باب اجتهاد کے انسداد کا دور ( تقلید کا دور ).ان تمام مراحل کی تفصیل اس رساله کی قدرت سے باهر هے .
مقدمات استنباط :
فقهای شیعه کے نظریات:شهید ثانی ، علم فقه کو باره علوم پر استورا جانتے هیں : تصریف لغت ، اشتقاق ،معانی بیان، بدیع، اصول فقه،منطق، رجال ،حدیث ،تفسیر آیات الاحکام .صاحب معالم استنباط مطلق کو نو چیز پر متوقف جانتے هیں .1- ادبیات عرب اعم از لغت و صرف و نحو سے آشنائی.2- آیات الاحکام کا علم چاهیے وه مراجعه کتاب کے ذریعه هی کیوں نه هو .3- سنت معصومین اور کتب حدیث کی جا کناری اور هر موضوع سے مربوط احادیث کو ڈھونڈنے اور مراجعه کرنے کی قدرت و صلاحیت.4- علم رجال اور راویان کے حالات کی جانکاری.5- اصول فقه کا علم او رمسائل اصول میں استنباط کی قدرت کیونکه استنباط احکام اسی علم پر متوقف هیں اور ایک مجتهد کے لئے یه علم تمام علوم سے مهم ترهے .6- انعقاد اجماع کے موارد کی آشنائی.7- علم منطق کی واقفیت کیونکه اقامه برهان اور صحت استدلال اسی پر متوقف هے .8- فروع مسائل کو اصول کی جانب لوٹانے اورتعارض ادله کی صورت میں راجح کو مرجوح پر تشخیص دینے اور نتیجه گیری کی صورت .9- دیگر امور کے علاوه فروع فقهی کا جاننا اس دور میں لازم هے.1فاضل نے کتاب الوافیه کے تقریبا چالس صفحه اسی بحث سے مخصوص کیے هیں. وه بھی مجتهد کے لئے مذکوره علوم میں نو علوم کو لازم جانتے هیں ، لغت ،صرف ،نحو، اصول ، کلام اورعلوم عقلی ، تفسیر آیات الاحکام اور علوم نقلی میں احکام کی احادیث اور رجال کا علم پھر وه علم کلام کے سلسله میں فرماتے هیں :بعض مسائل کلامی استنباط میں دخیل هیں جیسے تکلیف میں قدرت کی شرط کا هونا اور اسی طرح متکلم حکیم کے کلام میں خلاف ظاهر اراده کا قبیح هونا اور بعض دوسرے مسائل جیسے “خدا و رسول کا صدق گفتار صحت اعتقادیں دخیل هے نه که استنباط احکام” ان کی نظر میں احادیث احکام میں معتبر کتابوں کا هونا بھی کافی هے ان کی نظر میں دس علوم ایسے بھی هیں جن کی دخالت استنباط میں جزئی هے اور ان علوم کو استنباط کے تکمیل شرط میں قرار دیا جاسکتا هے که عبارت هیں:1- معانی .2- بیان.3- بدیع ،که بعض موارد میں دلیل لفظی سے استفاده کے لئے ان تین علوم کی ضرورت هے .4- ریاضیات کا علم،ریاضیات مالی اور اقتصادی مباحث بالخصوص ارث دین ارو وصیت کی بحث میں کام آتاهے .5- علم هیئت، یه علم وقت اور قبله کی بحث میں بهت ضروری هے .6- هندسه کا علم ، یه علم اندازه گیری کے کام آتا هے مثلا آب کرکی اندازه گیری کے لئے یه علم مددگار هے.7- علم طب ، خاص طور پر نکاح کی بحث میں جهاں عورت اور مرد کے جسمانی عیوب کے مسائل پیش آتے هیں .8- فروع فقهی کا علم یعنی مسائل فقهی اور اس سلسلے میں پیش کئے سوالات کی آشنائی ، حقیقت میں اس کام کے لئے قواعد کے مواقع ،موادر خلاف اور اقوال وفتاوا سے آشنائی .9- فروع جزئی کو قواعد اور اصول کلی کی جانب لوٹانے کی قدرت لیکن فقهای معاصر کے نزدیک استنباط کے لئے صرف یه علم کافی هیں :1- ادبیات عرب.2- علم رجال .3- اصول فقه .اور مجتهد کے لئے ضروری نهیں که وه ادبیات عرب میں صاحب نظر هو پس اس اعتبار سے استنباط کے لئے صرف رجال اور اصول فقه کافی هیں .
مقدمات استنباط اهل سنت کی نظر میں :اهل سنت کی نظر میں استنباط کے عمومی شرائط کچھ اس طرح هیں .1- بلوغ .2- عقل .3- نظافت .4- ایمان .اور استنباط کے اساسی شرائط میں وه علوم هیں که جن سے آگاههی لازم هے .1- ادبیات عرب.2- قرآن کریم .3- سنت نبوی .4- اصول فقه .5- قواعد فقهی .6- استعداد فطری .
استنباط کے تکمیلی شرائط :1- مورد استنباط دلیل قطعی سے فاقد هو .2- فقها ءکے موارد اختلاف امور سے آگاهی .3- عرف سے واقفیت (عرف در زمان حاضر).4- اصل برائت سے آشنا ئی.5- عدالت اور صلاحیت .6- ورع اور تقوا .7- درگاه رب العزت میں الهام صواب کے لئے نیازی مندی احساس .8- اعتماد به نفس .9- عمل اور علم و گفتار میں موافقت .
————–1 . معالم الاصول ، المطالب التاسع فی الاجتهاد و التقلید.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.