قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست

211

قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
”قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست،، تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں کم و بیش رائج ہے۔ خاص طور پر جب مقدس مآب اور ظاہر پرست لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جائے، زہد و تقویٰ کی ظاہر داری کا بازار گرم ہو، موقعہ پرست لوگ قرآن نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیات رائج کردیتے ہیں۔ یہاں سے جو سبق حاصل کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے۔
الف:۔ پہلا سبق یہ ہے کہ جب بھی جاہل، نادان اور بے خبر لوگ پاکیزگی اور تقویٰ کے مظہر سمجھے جانے لگیں اور لوگ ان کو باعمل مسلمان کا نمونہ (SYMBOL) سمجھِنے لگیں اس وقت چالاک مفاد پرستوں کو اچھا موقعہ ہاتھ آجاتا ہے ۔ یہ چالاک لوگ ان کو اپنے مقاصد کے لیے آلہئ کار بنا لیتے ہیں اور ان کو حقیقی مصلحین کے افکار کی راہ میں مضبوط رکاوٹ بنالیتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسلام دشمن عناصر باقاعدہ اس ذریعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی اسلام کی طاقت کو انہو ںنے خ ود اسلام کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مغربی استعمار کو اس ذریعے سے فائدہ اٹھانے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اپنے مفاد کے لیے یہ مسلمانوں کے درمیان جھوٹے جذبات ابھارنا اور خاص طور پر فرقے پیدا کرکے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کس قد شرم کی بات ہے کہ ایک دل جلا مسلمان بیرونی اثر و نفوذ کو ختم کرنے کے لیے اٹھے اور جن لوگوں کو وہ نجات دینا چاہتا ہے ،وہی دین اور مذہب کے نام پر اس کے لےے سد راہ بن جائیں جی ہاں! اگر لوگ عام لوگ جاہل اور بے خبر ہوں، تو منافق خود اسلام کے مورچے سے اپنے لیے استفادہ کریں گے۔ ہمارے اپنے ایران میں جہاں لوگ اہلبیت اطہار کی ولایت اور دوستی پر فخر کرتے ہیں، کچھ منافق اہلبیت کے مقدس نام پر اور ”ولاء اہلبیت،، کے مقدس مورچے کے نام پر قرآن، اسلام اور اہل بیت کے خلاف اور غاصب یہودیوں کے مفاد میں مورچے تعمیر کرتے ہیں (یہ قبل از انقلاب اسلامی کی صورت حال کی طر ف اشارہ ہے۔ مترجم) اور یہ اسلام، قرآن، پیغمبر اکرم اور اہلبیت کرام پر سب سے زیادہ گھناؤنا ظلم ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
انی ما اخاف علی امتی الفقر و لکن اخاف علیھم سوء التدبیر ___ ” میں اپنی امت کے لیے فقر و تنگدستی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں بلکہ امت کی جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ کچج فکری ہے۔ فکر کا افلاس میری امت کے لیے جتنا خطرناک ہے اقتصادی افلاس اتنا خطرناک نہیں ہے۔،،
ب:۔دوسرا سبق یہ ہے کہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح ہو۔ قرآن اسی صورت میں رہنما اور ہادی ہے کہ اس پر صحیح غور و فکر کیا جائے، اس کی عالمانہ تفسیر کی جائے اور اہل قران جو علم میں قرآن کے راسخین ہیں، کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جب تک قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح نہ ہو اور جب تک ہم قرآن سے استفادہ کرنے کی راہ اور اس کا اصول نہ سیکھیں ہم اس سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ مفاد پرست یا نادان لوگ کبھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور بائل مطلب کے پیچھے چلتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ کی زبان سے سنا کہ وہ حق بات کہتے ہیں اور اس سے باطل مراد لیتے ہیں یہ قرآن پر عمل کرنا اور اس کا احیاء نہیں ہے۔ بلکہ یہ قرآن کو مار ڈالنا ہے۔ قرآن پر عمل تب ہے جب اس سے صحیح مطلب درک کیا جائے۔
قرآن ہمیشہ مسائل کو اصول اور کلیہ کی صورت میں پیش کرتا ہے لیکن کلی جزئی پر تطبیق صحیح فہم اور ادراک کے اوپر منحصر ہے۔ مثلاً قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلان روز علی علیہ سلام اور معاویہ کے درمیان جنگ ہوگی اور یہ کہ حق علی علیہ سلام کے ساتھ ہے، قرآن میں صرف اس قدر آیا ہے کہ :
” و ان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینھما فان بغت احدٰھما علیٰ الاخرٰی فقاتلوا التی تبغی حتی تفیئی الی امر اللہ۔،،
(سورہ حجرات آیت نمبر ٩)
”اگر مؤمنون کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو ان کے درمیان صلح کرادو اور اگر ان میں سے ایک دوسرے پر سرکشی اور ظلم کرے تو جو ظالم ہے اس کے ساتھ جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔،،
یہ قرآن اور اس کا طرز بیان ہے لیکن قرآن نہیں کہتا کہ فلاں جنگ میں فلاں حق پر ہے اوردوسرا باطل پر؟! قرآن ایک ایک کا نام نہیں لیتا۔ وہ نہیں کہتا کہ چالیس سال بعد یا اس کے بعد معاویہ نام کا ایک آدمی پیدا ہوگا اور علی علیہ سلام کے ساتھ جنگ کرے گا تم علی علیہ سلام کی طرف سے جنگ کرو اورجزئیات پر بحث ہونی بھی نہیں چاہےے قرآن کے ہیے ضروری نہیں ہے کہ موضوعات کو گن کر حق اور باطل پر انگلی رکھ کے بتادے ایسا ممکن نہیں ہے۔ قرآن ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے پس اسے چاہیے کہ اصول اور کلیات کو واضح کرے تاکہ جب بھی کسی زمانے میں کوئی باطل حق کے بالمقابل کھڑا ہوتو لوگ ان کلیات کو معیار بنا کر عمل کریں۔یہ لوگوں کا اپنا وظیفہ ہے کہ اصل دکھا دینے (وان طائفتان من المؤمنین اقتلوا ۔۔۔ الخ) کے بعد اپنی آنکھین کھلی رکھیں اور سرکش اور غیر سرکش گروہ میں تمیم کریں اور اگر سرکش گروہ صحیح معنوں میں سرکشی سے ہاتھ اٹھالے تو قبول کریں اور اگر ہاتھ نہ اٹھالے اور حیلہ کرے اور صرف اس لیے کہ اپنے آپ کو شکست سے بچائے تاکہ نیا حملہ کرنے کا موقعہ پالے اور پھر سرکشی کرنے کے لیے اس آیت کا جس میں خدا فرماتا ہے:
”فان فاء ت فاصلحوا بینھما۔،،
دامن تھام لے، تو اس کے حیلہ کو قبول نہ کریں۔
ان تمام چیزوں کی تشخیص کرنا خود لوگوں کا کام ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان عقلی اور اجتماعی طور پر بالغ ہوں اور اسی عقلی بلوغت کے ساتھ مرد حق اور غیر مرد حق میں تمیز کریں۔ قرآن اس لیے نہیں آیا ہے کہ ہر وقت لوگوں کے ساتھ اس طرح رویہ رکھے جس طرح نابالغ بچے کے ساتھ اس کا ولی عمل کرتا ہے، زندگی کی جزئیات کو کسی کے سرپرست کی حیثیت سے انجام دے اور ہر خاص موضوع کی علامت اور محسوس اشاروں سے تعین کرے۔
بنیادی طور پر اشخاص کی پہچان، ان کی صلاحیتوں، اہلیتوں اور اسلام اور اسلام کے حقائق کے ساتھ ان کی وابستگی کو پرکھنا بذات خود ایک فریضہ ہے اور غالباً ہم اس اہم فریضے سے غافل ہیں۔ علی علیہ السّلام فرماتے تھے:
”انکم لن تعرفوا الرشد حتی تعرفو الذی ترکہ۔،،
(نہج البلاغہ خطبہ ١٤٧)
”تم ہرگز حق کو نہیں پہچان سکتے اور راہ راست پر نہیں پہنچ سکتے جب تک اس شخص کو نہ پہچانو جس نے راہ راست کو چھوڑ دیا ہے۔،،
یعنی صرف اصول اور کلیات کی شناخت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک مصداق اور جزئیات سے ان کی تطبیق نہ ہو کیونکہ ممکن ہے افراد یا اشخاص کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے یا موضوع کو نہ پہچاننے کی وجہ سے تم اسلام، حق اور اسلام کے رسوم کے نام پر اسلام اور حقیقت کے خلاف اور باطل کے مفاد میں کام کر رہے ہو۔
قرآن میں ظلم، ظالم، عدل اور حق کا ذکر آیا ہے لیکن دیکھناچاہیے کہ ان کے مصداق کون ہےں؟ کہیں ہم کسی ظلم کو حق، اور کسی حق کو ظلم نہ سمجھ رہے رہوں؟ اور پھر انہی کلیات کے تحت اور اپنے خیال میں قرآن کے حکم پر عدالت اور حق کو ختم نہ کر رہے ہوں؟
نفاق کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت:
تمام جنگوں میں سب سے مشکل نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ یہ اسیے شاطروں کے ساتھ جنگ ہے جو بیوقوفوں کو آلہء کار قرار دیتے ہیں۔ یہ جنگ کفر کے ساتھ جنگ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ کفر کے ساتھ جنگ میں مقابلہ ایک واضح، ظاہر اور بے پردہ معاملے سے ہے لیکن نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ایک پوشیدہ کفر کے ساتھ جنگ ہے۔ نفاق کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک ظاہری چہرہ جو اسلام اور مسلمانی کا ہے اور ایک چہرہ باطن کا جو کفر اور شیطنت ہے اور اس کا پچاننا عام لوگوں اور معمولی افراد کے لےے بہت دشوار ہے اور بسا اوقات ناممکن ہے۔ اس طرح نفاس کے ساتھ جنگ کرنا غالباً شکست کھان کیونکہ عام لوگوں کے ادراک کی لہریں ظاہر کی سرحد سے آگے نہیں بڑھتیں اور پوشیدہ چیزوں کو روشن نہیں کرتیں اور اتنی گہری نہیں ہوتی کہ باطن کی گہرائیوں میں اتر جائیں۔ امیر المومنین اس خط میں محمد ابن ابی بکر کولکھا گیا، فرماتے ہیں:
”ولقد قال لی رسول اللہ! انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکاء اما المؤمن فیمنعہ اللہ باایمانہ و اما المشرک فیقمعہ الل ہ بشرکہ و لکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان عالم اللسان، یقول ما تعرفون و یفعل ماتنکرون ۔،،(١)
”پیغمبر نے مجھ سے کہا میں اپنی امت پر مومن اور مشرک سے نہیں ڈرتا کیونکہ مؤمن کو خدا اس کے ایمان کی وجہ سے باز رکھتا ہے اور مشرک کو اس کی سرکشی کی وجہ سے رسوا کرتا ہے لیکن تمہارے اوپر منافق دل اور دانا زبان سے ڈرتاہوں کیونکہ وہ وہی کہتا ہے جو تم پسند کرتے ہو اور جسے تم ناپسند کرتے ہو اسے کرگزرتا ہے۔،،
اس مقام پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نفاق اور منفاق کی طرف خطرے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ امت کے عام لوگ بے خبر اور ناآگاہ ہیں اور ظاہر داریوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔(٢)
———————————————-
١) نہج البلاغہ نامہ ٢٧
٢) اسی لیے ہم اسلامی تاریخ کے دھارے میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی مصلح نے لوگوں، ان کی اجتماعی و دینی زبوں حالی کی اصلاح کی خاطر قیام کیا ہے اور مفاد پرستوں اور ظالموں کا مفاد خطرے میں پڑا ہے انہوں نے فوری طور پر تقدس کا لبادہ پہن لیا ہے اور تقویٰ اور دین کی ظاہر داری سے کام لیا ہے ۔ عباسی خلیفہ، مامون الرشید جس کی عیاشیاں اور فضول خرچیاں حکمرانوں کی تاریخ میں مشہور و معروف ہیں جب وہ علویوں کو دیکھتا ہے کہ انقلاب کی کوشش کر رہے ہیں فوراً شاہی جبہ اتار پھینکتا اور پیوند لگے ہوئے کپڑے پہن کر اجتماعات میں آنکتا ہے۔ ابو حنیفہ اس کا فی جس نے اس کے درہم و دینار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ہے مامون کے اس کام کو سراہتا ہے اور تعریف میں کہتا ہے:
مامون کز ملوک دولت اسلام
ہگز چون اوند ید تازی ودہقان
مامون کہ اسلامی ممالک کے بادشاہوں میں اس کی طرح کوئی نہیں دیکھا گیا، بد اور دہقان کی طرح سادہ
جبہ ای از حزبداشت برتن و چندان
سودہ و فرسودہ گشت بروی و خلقان
کسی وت اس کا ریشمی جبہ تھا جو اس کے دوش پر ہوتا تھا اور بہت نرم ونازک تھا مگر اب وہ پرانا ہوگیا اور پھٹ چکا ہے
مرند مارا از آن فزود تعجب
کردند از وی سوال از سبب آن
ہم نشینوں کو اس پر سخت تعجب ہوا انہو ںنے سوال کیا کہ اس کا سبب کیا ہے
گفت ز شاہان حدیث ماند باقی
در عرب و در عجم نہ توزی و کنان
اس نے کہا: بادشاہوں کی ایک بات باقی رہنے دو عرب و عجم میں کہ اس کے پاس کوئی سلاہوا سن کا کپڑا نہ تھا
اور دوسروں میں بھی ہر ایک نے ”قرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کی،، تخریبی گھسی ٹی سیاست کا سہارا لیا اور (مصلحین کی) تمام زحمتوں اور قربانیوں کی سرکوبی کی اور انقلابات کو ابتداء ہی میں کچل دیا اور یہ لوگوں کی جہالت اور نادانی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ رسوم اور حقائق کے درمیان تمیز نہیں کرتے اور اس طرح اپنے اوپر انقلاب اور اصلاح کی راہ بند کرتے ہیں ارو اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب تمام اسباب بے اثر ہوجائیں اور پھر نئے سرے سے سفر شروع کریں۔
یاد رکھنا چاہیے جتنے احمق لوگ زیادہ ہوں گے نفاق کا بازار تانا ہی گرم ہوگا۔
احمق اور حماقت سے جنگ کرنا نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ احمق منافق کا آلہئ کار ہوتا ہے لہذالازمی طورپر احمق اور حماقت کے ساتھ جنگ کرنا، منافق سے اسلحہ چھین لینے اور منافق کے ہاتھ سے تلوار چھین لینے کے مترادف ہے۔
علی علیہ سلام کی سیرت سے جو عظیم نکتے ہمیں ملتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح کی جنگ کسی خاص جمعیت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جہاں بھی کچھ مسلمان اور وہ جو وضع دینی رکھتے ہیں اور غیروں کی ترقی اور استعماری مقاصد کو آگے بڑھانے میں آلہئ کار قرار پائیں اور استعمار گر اپنے مفادات کو بچانے کے لیے ان کو آگے کرکے ان کو اپنے لیے ڈھال بنائیں اور ان کے ساتھ جنگ کرنا ان ڈھال بننے والوں کو ختم کیا جائے تاکہ راہ کی رکاوٹ ختم ہو جائے اور دشمن کے قلب پر حملہ کیا جاسکے خوارج کو بگاڑنے کےلئے معاویہ کی کوشش شاید کامیاب تھیں اسی لیے اس روز بھی معاویہ اور اسی قبیل کے کچھ لوگ جیسے اشعث ابن قیس وغیرہ تخریب کار عناصر نے خوارج کو ڈھال بنا رکھا تھا۔
خوارج کو داستان ہم کو یہ حقیقت سمجھا دیتی ہے کہ ہر انقلاب میں پہلے ڈھال بننے والے کو نابود کر دینا چاہیے اور حماقتوں سے جنگ کرناچاہیے جس طرح علی علیہ سلام نے تحکیم کے واقع کے بعد پہلے خوارج سے نمٹ لیا اس کے بعد معاویہ کا تعاقب کرنا چاہا۔
علی علیہ سلام ___ سچے امام اور پیشوا
وجود علی علیہ سلام، تاریخ و سیرت عی، خلق و خوی علی علیہ سلام، رنگ و بوئے علی علیہ سلام، سخن وگفتگوئے علی علیہ سلام سراسر درس ہے، سرمشق ہے، تعلیم ہے اور رہبری ہے۔
جس طرح علی علیہ سلام کے جاذبے ہمارے لئے سبق آموز اور درس ہیں ان کے دافع بھی اسی طرح ہیں ہم معمولاً علی کی زیارتوں اور اظہار ادب کے سارے پیرایوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تمہارے دوست کے دوست اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں اس جملے کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ہم اس نقطے کی طرف جا رہے ہیں جو تمہارے جاذبے کے مدار میں قرار پاتا ہے اور تم جذب کرتے ہو اور اس نقطے سے دوری اختیار کرتے ہیں جس کو تم دفع کرتے ہو۔
جو کچھ ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے وہ علی علیہ سلام کے جاذبہ اور واقعہ کا ایک گوشہ تھا ، خاص طور پر دافعہ علی کے بارے میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ علی نے دو گروہوں کو سختی سے دفع کیا ہے۔
١: شاطر منافق
٢: زاہدان امق
ان کے شیعہ ہونے کے دعویداروں کیلئے یہی دو سبق کافی ہیں کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور منافقوں کے فریب میں نہ آئیں۔ وہ تیز نظر رکھنے والے بنیں اور ظاہر بینی کو چھوڑ دیں کہ آج جامعہ تشیع ان دو مصیبتوں میں سخت مبتلا ہے۔
والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.