فضائلِ علی علیہ السلام خلفاء کی نظر میں

479

حضرت علی علیہ السلام کی ذاتِ اعلیٰ کی معرفت کا ایک بہترین ذریعہ کلامِ خلفاء ہے۔ چند وجوہات کی بناء پر ان کا جاننا نہایت ضروری ہے۔پہلی اہم وجہ تو یہی ہے کہ یہ کلام اُن شخصیات کا ہے جنہیں اصحابِ رسولِ خدا کہلانے کا شرف حاصل ہے اور انہوں نے خود علی علیہ السلام کی بزرگی اور عظیم منزلت کی معرفت کیلئے فرموداتِ پیغمبر اسلام سنے۔ اس سے زیادہ معتبر ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے ان کے کلام کو پڑھ کر زیادہ اثر قبول کریں گے اور تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ افراد شناخت ہوجائیں گے جنہوں نے پیغمبر اسلام کی زندگی مبارک کے بعد اُن کی نصیحتوں اور وصیتوں کو جو علی علیہ السلام کے بارے میں کی گئی تھیں، یکسر بھلا دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و ولایت کے حق سے محروم کردیا۔ اسی بحث کے دوران حضرتِ عائشہ کے فرمودات کا بھی تذکرہ کریں گے جنہوں نے علی علیہ السلام کی عظمت کیلئے کہے تھے:
کلامِ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ
(الف)۔ ۔۔۔۔۔فَقٰالَ اَبُوبَکر:صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ قٰالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ لَیْلَةَ الْھِجْرَةِ،وَنَحْنُ خٰارِجٰانِ مِنَ الْغٰارِ نُرِیْدُ الْمَدِیْنَةَ:کَفِّی وَ کَفُّ عَلِیٍّ فِی الْعَدْلِ سِوَاءٌ۔
“حضرت ابوبکر بن قحافہ کہتے ہیں کہ خدا اور اُس کے رسول نے سچ کہا۔ہجرت کی رات ہم غار سے باہر تھے اور مدینہ کی طرف جارہے تھے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا ہاتھ اور علی کا ہاتھ عدل میں برابر ہیں‘۔”
حوالہ جات
1۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث170،صفحہ129۔
2۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ امام علی ،جلد2،صفحہ438،آخر ِ حدیث953
(شرح محمودی)۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،ص277،
حدیث17،صفحہ300۔
4۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج11،ص604(موٴسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)
(ب)۔ عَنْ عٰائِشةَ قٰالَتْ:رَأَیْتُ اَبَابَکْرِالصِدِّیْقَ یُکْثِرُ النَّظَرَ اِلٰی وَجْہِ عَلِیِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ،فَقُلْتُ یٰا أَبَةَ اِنَّکَ لَتُکْثِرُالنَّظَرَاِلٰی عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طالِبْ؟ فَقٰالَ لِی:یٰا بُنَیَّةُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم یَقُوْلُ “اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْہِ عَلِیٍ عِبَادَة”۔
“حضرتِ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابوبکر کو دیکھا جو علی علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کو بکثرت دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا:بابا جان! آج آپ علی علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟ حضرت ابو بکر نے کہا :”اے میری بیٹی! میں نے رسولِ خدا سے سنا ہے جنہوں نے فرمایا ہے:”علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے”۔
حوالہ جات
1۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد7،صفحہ358۔
2۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء میں، صفحہ172۔
3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، صفحہ210،حدیث252،اشاعت ِ اوّل۔
4۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ،جلد2،صفحہ391،حدیث895
(شرح محمودی)و دیگر۔
(ج)۔ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قٰالَ:قٰالَ اَبُوْبَکْرٍ الصدیق:اِرْقِبُوْامُحَمَّداً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم فِی اَھْلِ بَیْتِہ اَیْ اِحْفِظُوْہُ فِیْھِمْ فَلٰا تُوْذُوْھُمْ۔
“ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرنے کہا کہ حضرت محمد کا اور اُن کے اہلِ بیت کا دھیان رکھیں(یعنی اُن کی عزت و حرمت کا) اور اُن کے اہلِ بیت کی حفاظت کریں۔ اُن کو اور اُن کے اہلِ بیت کو اذیت نہ پہنچائیں”۔
حوالہ جات
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب54،صفحہ194،356۔
2۔ متقی ہندی، کنزالعمال ،ج13،ص638(موٴسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)
(د)۔ حارث بن اعور روایت کرتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایسے شخص کا پتہ دیتا ہوں جوعلم میں حضرتِ آدم علیہ السلام ،فہم و ادراک میں حضرت نوح علیہ السلام اور حکمت میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام جیسا ہو۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ علی علیہ السلام وہاں تشریف لے آئے، حضرت ابوبکر نے عرض کی:
یٰارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم اِقْتَسْتَ رَجُلاً
بثَلاٰثَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ۔بَخٍ بَخٍ لِھٰذاالرَّجُلِ۔مَنْ ھُوَیٰا رَسُوْلَ اللّٰہ؟ قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم اَوَلَا تَعْرِفُہُ یٰااَبَابَکْرٍ؟قٰالَ:اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ۔قٰالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم ھُوَ اَبُوْالْحَسَنِ عَلِیِّ بْنُ اَبِیْ طَالِبْ فَقٰالَ اَبُوْبَکْرٍ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰا اَبَاالْحَسَنِ وَاَیْنَ مِثْلُکَ یٰااَبَاالْحَسَن۔
“یا رسول اللہ! آپ نے اُس شخص کو تین رسولوں کے برابر کردیا۔ واہ واہ! وہ شخص کون ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا:اے ابوبکر! کیا تو اُس شخص کو نہیں جانتا؟ حضرت ابو بکر نے عرض کی:خدا اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ابوالحسن علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہے۔ پس ابوبکر نے کہا:مبارک مبارک! یا اباالحسن! تمہاری مثال کون ہوگا اے اباالحسن !”
حوالہ
بوستانِ معرفت، سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ447،نقل ازخوارزمی، باب7،ص45۔
(ھ)۔ قٰالَ الشَّعْبِیْ:بَیْنَااَبُوْبَکْرٍجٰالِسٌ اِذْطَلَعَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طالِبْ مِنْ بَعِیْدٍ فَلَمَّارَاَہُ اَبُوْبَکْرٍ قٰالَ مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی اَعْظَمِ النّٰاسِ مَنْزِلَةً وَاَقْرَبِھِمْ قَرٰابَةً وَاَفْضَلِھِمْ دٰالَّةً وَاَعْظَمِھِمْ غَنٰاءً عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم فَلْیَنْظُرْاِلٰی ھٰذَاالطّٰالِعِ۔
“شعبی نے کہا کہ ابو بکر اپنی جگہ پر تشریف فرما تھے کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام دور سے نظر آئے۔ جب ابوبکر نے اُن کو دیکھا تو کہا کہ ہر کسی کو خوش ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ سب سے عظیم انسان کو دیکھے گا ۔ جو مرتبہ میں سب سے اعلیٰ اور (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قرابت داری میں سب سے زیادہ نزدیک ہے اور انسانوں میں سب سے زیادہ بلند ہے اور لوگوں سے بے نیازی میں سب سے زیادہ بے نیاز ہے اور یہ چیز اُس کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملی ہے۔ پس اُن پر نگاہ کرو جو دور سے نظر آرہے ہیں”۔
حوالہ جات
بوستانِ معرفت،صفحہ650، نقل از ابن عساکر، تاریخ امیر الموٴمنین ،جلد3،صفحہ70،
حدیث1100اور مناقب ِ خوارزمی، باب14،صفحہ98۔
(و)۔ عَنْ زَیْدِ ْبنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن قٰالَ:سَمِعْتُ اَبِیْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْن یَقُوْلُ:سَمِعْتُ اَبِی الْحُسَیْن بنِ عَلِیْ یَقُوْلُ قُلْتُ لِاَبِیْ بَکْرٍ یَا اَبَابَکْرٍ مَنْ خَیْرُ النّٰاسِ بَعدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ؟فَقٰالَ لِی:اَبُوْکَ۔
“زید بن علی بن الحسین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے اپنے بابا علی ابن الحسین سے سنا،وہ فرماتے تھے کہ انہوں نے اپنے بابا حسین بن علی علیہما السلام سے سنا کہ انہوں نے حضرت ابوبکرسے پوچھا:اے ابابکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون سا شخص سب سے بہتر ہے؟انہوں نے جواب دیا:تمہارے والد بزرگوار”۔
(ز)۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسٰارٍ الْمُزْنِی قٰالَ:سَمِعْتُ اَبَابَکْرٍالصِّدِّیْقَ یَقُوْلُ:عَلِیُّ عِتْرَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم۔
“معقل بن یسار مزنی روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ میں نے ابوبکر سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ علی علیہ السلام اہلِ بیت سے ہیں اور خاندانِ رسولِ خداسے ہیں”۔
حوالہ کنزالعمال،جلد12،صفحہ489(موٴسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔
(ح)۔ (الریاض النظرةج2،ص163)قٰالَ:جٰاءَ اَبُوبَکرٍوَعَلِی یَزُورٰانِ قَبْرَالنَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم بَعْدَ وَفٰا تِہ بِسِتَّةِ اَیَّامٍ،قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْہِ السَّلَام لِاَبِی بَکْرٍ تَقَدَّمْ فَقٰالَ اَبُوْبَکْرٍ مٰاکُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ رَجُلاً سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم یَقُوْلُ:عَلِیٌ مِنِّی بِمَنْزِلَتِیْ مِنْ رَبِّی۔
“کتاب ریاض النظرہ،جلد2صفحہ163پر لکھتے ہیں کہ ابوبکر اور حضرت علی علیہ السلام بعد از وفاتِ پیغمبر اسلام متواتر چھ روز تک زیارتِ قبر کیلئے جاتے رہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر سے کہا کہ آپ آگے آگے چلیں توحضرت ابوبکر نے کہا کہ میں ہرگز اُس شخص کے آگے نہیں چلوں گا جس کے بارے میں خود رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ علی علیہ السلام کی منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو میری منزلت خدا کے سامنے ہے”۔
(ط)۔ عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسٰارِالْمُزْنِی یَقُوْلُ:سَمِعْتُ اَبٰابَکْرٍالصِّدِّیْقَ یَقُوْلُ لِعَلِیِّ “عُقْدَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم”۔
“معقل بن یسار مزنی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرصدیق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام عقدئہ رسول اللہ ہیں”۔
“عقدہ” بمعنی وہ شخص جو لوگوں سے رسول اللہ کیلئے بیعت منعقد کروائے۔
حوالہ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں، شرح حالِ امام علی ،جلد3،حدیث1092،ص54
۔۔۔۔۔
(ی)۔ عَنْ قَیسِ بْنِ حٰازِمٍ قٰالَ:اِلْتَقٰی اَ بُوْبَکْرٍالصِّدِّیْقُ وَعَلِیٍُّ فَتَبَسَّمَ اَبُوْبَکْرٍ فِی وَجْہِ عَلِیٍّ فقٰالَ لَہُ مَالَکَ تَبَسَّمْتَ؟قٰالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ”لَا یَجُوْزُ اَحَدٌ الصِّرٰ اطَ اِلَّامَنْ کَتَبَ لَہُ عَلِیُّنِ الْجَوٰاز”۔
“قیس بن حازم سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انہوں نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے چہرے کو دیکھا اور مسکرائے۔ حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہ مسکرانے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں نے پیغمبراسلام سے سنا ہے کہ کوئی بھی پل صراط سے نہ گزرسکے گا مگر جس کو علی علیہ السلام نے گزرنے کیلئے پروانہ(اجازت) لکھ کر دیا ہو”۔
حوالہ جات
نقل از مقدمہ کتاب”پھر میں ہدایت پاگیا”، مصنف:ڈاکٹر سید محمد تیجانی سماوی، صفحہ2،بمطابق نقل از ابان السمان درالموافقہ، صفحہ137اور ابن حجر،کتاب صواعق محرقہ،صفحہ126اور ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام،صفحہ119۔
(ک)۔ حضرت ابوبکر نے بہت دفعہ برسرِ منبر مسلمانوں کی کثیر تعداد کے سامنے کہا:
“اَقِیْلُوْنِی،اَقِیْلُوْنِی وَلَسْتُ بِخَیرٍ مِنْکُمْ وَعَلِیٌ فِیْکُمْ”
“مجھے چھوڑ دو،مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں تم سے بہترنہیں ہوں جب علی علیہ السلام تمہارے درمیان ہوں”۔
حوالہ جات
جناب محمد رازی، کتاب “میں کیوں شیعہ ہوا”،صفحہ332میں بنقل از فخر رازی،کتاب نہایة العقول۔ اسی طرح طبری،تاریخ طبری میں،بلاذری کتاب انساب الاشراف میں۔سمعانی کتاب فضائل میں۔ غزالی کتاب سرالعالمین میں۔سبط ابن جوزی کتاب تذکرہ قاضی بن روز بہان اور ابی الحدید اور دوسرے۔
حضرت ابوبکر کے کلمات کی تصدیق نہج البلاغہ میں امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
‘فَیٰاعَجَبَابَیْنٰاھُوَیَسْتَقِیْلَھَافِی حِیَاتِہِ اِذْعَقَدَھٰالِآخِرَبَعْدَمَمٰاتِہِ‘۔
“یہ کتنی تعجب کی بات ہے کہ ابوبکر اپنی خلافت کے زمانہ میں خود خلافت سے استقالہ(بیزاری) کرتے رہے لیکن اس دنیا سے جاتے ہوئے خلافت کسی اور کے سپرد کرگئے”۔
۔۔۔۔۔
کلامِ حضرتِ عمر بن خطاب
(الف)۔ عَنْ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ قٰالَ:کُنْتُ وَ اَبُوْبَکْرٍ وَ اَبُوْعُبَیْدَةٍ وَ
جَمٰاعَۃٌ اِذ ضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم مِنْکَبَ عَلِیٍّ فَقٰالَ:یٰاعَلِیُّ اَنْتَ اَوَّلُ الْمُوٴْمِنِیْنَ اِیْمٰاناً وَاَوَّلُھُمْ اِسْلٰاماً وَاَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی۔
“عمر بن خطاب سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہاکہ میں،ابوبکر ،ابوعبیدہ اوربعض دوسرے افراد تھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پرہاتھ رکھا اور کہا:یا علی !تم موٴمنوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے اوّل ہو اور اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے بھی اوّل ہو اور تمہاری منزلت کی نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کی منزلت کی نسبت موسیٰ علیہ السلام سے تھی”۔
حوالہ جات
شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،صفحہ239،اشاعت ِقم،سال1371ء اور تقی ہندی،کنزالعمال ،جلد13،صفحہ122اور123(موٴسسة الرسالہ، بیروت، اشاعت پنجم)۔
۔۔۔۔۔
(ب)۔ عَنْ عمَّارَالدُّ ھْنِی عَن سَالِم بِنْ اَبِیْ الْجَعْد قٰالَ:قِیْلَ لِعُمَرَ:
اِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلیٍ شَیْئاً لٰا تَصْنَعُہُ بِأَحَدٍ مِنْ اَصْحٰابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم قٰالَ:اِنَّہُ مَوْلٰایَ۔
“عماردھنی،سالم بن ابی جعد سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر سے پوچھا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام سے جس طرح کا(اچھا) سلوک کرتے ہیں، اُس طرح کا(اچھا) سلوک کسی اور صحابیِ پیغمبر سے نہیں کرتے۔ اس پر حضرت عمر نے جواب دیا :بے شک علی علیہ السلام میرے مولیٰ ہیں”۔
حوالہ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، بابِ حالِ امام علی ،ج2،ص82،حدیث584،شرح محمودی
۔۔۔۔۔
(ج)۔ عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ قٰالَ:نَصَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم عَلِیاً عَلَماً فقٰالَ:مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌ مَوْلٰاہُ،اَلَّلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالٰاہُ وَعَادِمَنْ عٰادٰاہُ وَاخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ اَلَّلھُمَّ اَنْتَ شَھِیْدِی عَلَیْھِمْ قٰالَ عُمَرُ۔ وَکَانَ فِی جَنْبِی شَابٌ حَسَنُ الْوَجْہِ،طِیِّبُ الرِّیْحِ،فَقٰال:یٰاعُمَرُ لَقَدْعَقَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم عَقْداً لٰا یَحِلُّہُ اِلّٰا مُنٰافِقٌ فَاحذَرْاَنْ تَحِلَّہُ۔قٰالَ عُمَرُ:فَقُلْتُ یٰارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم اِنَّکَ حَیْثُ قُلْتَ فِی عَلِیٍ(مٰاقُلْتَ)کَانَ فِیْ جَنْبِی شَابٌ حَسَنُ الوْجَہِ طَیِّبُ الرِّیْحِ قٰالَ کذٰاوکَذٰا۔
قٰالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم نَعَمْ یٰاعُمَرُاِنَّہُ لَیْسَ مِنْ وُلْدِآدَمَ لَکِنَّہُ جِبْرَئِیْلُ اَرٰادَ اَنْ یُوٴَکَّدَعَلَیْکُمْ مٰا قُلْتُہُ فِیْ عَلِیٍّ۔
“عمر بن خطاب سے روایت کی گئی ہے ،انہوں نے کہاکہ رسولِ خداحضرت علی علیہ السلام کو سب سے بہتر اور بزرگ جانتے تھے۔پس رسولِ خدا نے فرمایا کہ جس کامیں مولا ہوں،اُس کا علی مولا ہیں۔پروردگار!تو اُس کو دوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور اُس کودشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اور اُس کو ذلیل و رسوا کر جو علی علیہ السلام کو رسوا کرے اور اُس کی مدد فرما جو علی کی مدد کرے۔ پروردگار! تو اس پر میرا گواہ رہنا۔
حضرت عمر نے کہا کہ ایک خوش شکل نوجوان جس سے پاکیزہ خوشبو آرہی تھی، اُس نے مجھ سے کہا کہ یا عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ اب اس کو کوئی نہیں توڑے گامگر منافق۔اے عمر! تو بھی محتاط رہ کہ اس کو نہ توڑے۔ حضرت عمر نے کہا کہ میں نے رسولِ خدا کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! جب آپ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمارہے تھے تو وہ خوش شکل، اچھی خوشبو والا جوان مجھ سے اُسی طرح کہہ رہا تھا۔ حضرتِ رسولِ خدا نے فرمایا:ہاں، اے عمر! وہ آدم کی اولاد سے نہ تھابلکہ وہ جبرائیل تھا اور چاہتا تھا کہ جو میں نے علی علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے،وہ تجھ سے تاکیداً کہے”۔
حوالہ جات
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة(بابِ مودّت الخامسہ)صفحہ297۔
2۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں،بابِ حالِ علی ،جلد2،صفحہ80(شرح محمودی)نقل از
بخاری تا ریخ کبیر سے،جلد1،صفحہ375اور دوسرے۔
۔۔۔۔۔
(د)۔ عَنْ عَمّٰارِالدُّھْنِیْ عَنْ اَبِی فٰاخِتَةَ ، قٰالَ: اَقْبَلَ عَلِیٌ وَعُمَرُ
جٰالِسٌ فِی مَجْلِسِہِ فَلَمَّارَاٰہُ عُمَرُ تَضَعْضَعَ وَتَوٰاضَعَ وَتَوَسَّعَ لَہُ فِی الْمَجْلِسِ،فَلَمَّاقٰامَ عَلِیٌ،قٰالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:یٰااَمِیْرَالْمُوٴْمِنِیْنَ اِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلِیٍ صَنِیعًا مٰاتَصْنَعُہُ بِاَحَدٍ مِنْ اَصْحٰابِ مُحَمَّدٍ قٰالَ عُمَرُ:وَمٰارَأَیْتَنِی اَصْنَعُ بِہِ؟قٰالَ:رَأَیْتُکَ کُلَّمٰارَأَیْتَہُ تَضَعْضَعْتَ وَتَوٰاضَعْتَ وَاَوْسَعْتَ حَتّٰی یَجْلِسَ قٰالَ:وَمٰایَمْنَعُنِی،وَاللّٰہِ اِنَّہُ مَوْلٰایَ وَمَوْلٰی کُلِّ مُوٴْمِنٍ۔
“عمارِدھنی، ابی فاختہ سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بیٹھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو جب حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کوآتے دیکھا تو لرزے اور استقبال کیا اور اپنے پاس بیٹھنے کیلئے جگہ بنائی۔جب علی علیہ السلام چلے گئے تو ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ اے میرے آقا! آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے ایسا سلوک کیا ہے جوآپ کسی دوسرے صحابیِ پیغمبر سے نہیں کرتے۔ حضرت عمر نے کہا کہ میں نے کونسا ایسا سلوک کیا ہے جو تو نے دیکھا؟ اُس شخص نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ جیسے ہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی تو آپ لرزے اور اُن کا استقبال کیا اور اُن کے بیٹھنے کیلئے جگہ مہیا کی کہ وہ بیٹھ جائیں۔ حضرت عمرنے کہا کہ مجھے کونسی چیز اس سلوک سے باز رکھ سکتی ہے! خدا کی قسم! حضرت علی علیہ السلام میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام موٴمنین کے بھی مولیٰ ہیں”۔
حوالہ
ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب شرح حالِ امام علی ،جلد2،صفحہ82،حدیث585 (شرح محمودی)۔
(ھ) قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّاب:لَقَدْ أُعْطِیَ عَلِیٌ ثَلاٰثَ خِصٰالٍ لَأَنْ تَکُوْنَ لِی خَصْلَۃٌ مِنْھَا اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أُعْطِیَ حُمُرَ النَّعَمِ،فَسُئِلَ وَمٰاھِیَ؟قٰالَ تَزْوِیجُ النَّبِیِّ اِبْنَتَہُ وَسُکْنٰاہُ الْمَسْجِدَ لَایَحِلُّ لِاَحَدٍ فِیْہِ مٰایَحِلُّ لِعَلیٍ وَالرّٰایَۃُ یَوْمَ خَیْبَرٍ۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تین سعادتیں عطا فرمائی ہیں کہ اُن میں سے ایک بھی سعادت مجھے ملتی تو وہ مجھے سرخ اونٹوں کی قطاروں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ پوچھا گیا کہ وہ کونسی سعادتیں ہیں؟ حضرت عمر نے جواب دیا:
پہلی: پیغمبر اسلام کی بیٹی سے شادی کرنا۔
دوسری: مسجد کے اندر حضرت علی علیہ السلام کے گھرکا دروازہ کھلناجو کسی دوسرے کیلئے جائز نہ تھا مگر علی علیہ السلام کے لئے جائز تھا۔
تیسری: جنگ ِخیبر میں پیغمبر اسلام کا علی علیہ السلام کو عَلَم عطا کرنا۔
حوالہ جات
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ343۔
2۔ حاکم المستدرک میں،جلد3،صفحہ125۔
3۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ120۔
4۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حالِ امام علی ،ج1ص219حدیث282شرح محمودی
۔۔۔۔۔
(و)۔ عَنْ ابنِ عباس:مَشِیْتُ وَعُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ فِی بَعْضِ اَزِقَّةِ الْمَدِیْنَةِ فَقٰال لِی۔۔۔۔۔یا ابن عباس۔۔۔۔۔وَاللّٰہِ لَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم یَقُوْلُ لِعَلِیِ بنِ اَبِی طَالِبٍ:مَنْ اَحَبَّکَ اَحَبَّنِی وَمَنْ اَحَبَّنِیْ اَحَبَّ اللّٰہ، وَمَنْ اَحَبَّ اللّٰہَ اَدْخَلَہُ الْجَنَّةَ مُدْخَلاً۔
“ابن عباس روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عمربن خطاب مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ حضرتِ عمر نے مجھ سے کہا:اے ابن عباس! خدا کی قسم، میں نے رسول اللہ سے سنا،رسولِ خدانے علی علیہ السلام سے کہا:’یا علی ! جس نے تمہیں دوست رکھا، اُس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا،اُس نے گویا اللہ تعالیٰ کو دوست رکھا اور جس نے اللہ کو دوست رکھا،اُسے اللہ تعالیٰ بہشت میں داخل کرے گا”۔
حوالہ کتاب تاریخ دمشق ،باب حالِ امام علی علیہ السلام،جلد2،صفحہ388(شرح محمودی)۔
۔۔۔۔۔
(ز)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ ضَبِیْعَةَ الْعَبْدِی،عَنْ اَبِیْہِ،عَنْ جَدِّہِ قٰالَ:أَتٰی عُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ رَجُلاٰنِ سَأَلاٰہُ عَنْ طَلاٰقِ الْأَمَةِ،فَقٰامَ مَعَھُمٰا فَمَشیٰ حَتّٰی أَتیٰ حَلْقَةً فِی الْمَسْجِدِ،فیھٰارَجُلٌ اَصْلَعُ،فَقٰال:اَیُّھَاالْاصْلَعُ مٰاتَریٰ فِی طَلاٰقِ الْأَمَةِ؟فَرَفَعَ رَأسَہُ اِلَیْہِ ثُمَّ أَوْمَأَ اِلَیْہِ بِالسَّبٰابَةِ وَالْوُسْطیٰ،فَقٰالَ لَہُ عُمَرُ:تَطلِیقَتٰانِ۔فَقٰالَ اَحَدُھُمٰا:سُبْحٰانَ اللّٰہِ،جِئْنٰاکَ وَأَنْتَ اَمِیْرُالْمُوٴْمِنِیْنَ فَمَشِیْتَ مَعَنٰاحَتّٰی وَقَفْتَ عَلٰی ھٰذِہِ الرَّجُلِ فَسَأَ لْتَہُ،فَرَضِیْتَ مِنْہُ أَنْ أُوَمَاَاِلَیْکَ؟فَقٰالَ لَھُمٰا(عُمَرُ)مٰا تَدْرِیَانِ مَنْ ھٰذَا؟قٰالَ:لاٰ۔قٰالَ ھٰذَا عَلیُّ بْنُ اَبی طٰالِبٍ۔أُشْھِدُعَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم لَسَمِعْتُہُ وَھُوَ یَقُوْلُ:اَنَّ السَّمٰاوٰاتِ السَّبْعِ وَالْارْضِیْنَ السَّبْعِ لَوْوُضِعَتٰافِی کَفَّةِ(میزٰانِ)ثُمَّ وُضِعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ فِی کَفَّةِ مِیزٰانِ لَرَجَعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ۔
“دومرد حضرت عمر بن خطاب کے پاس آئے اور اُن سے کنیز کی طلاق کے بارے میں سوال کیا۔حضرت عمر ان کو ہمراہ لے کر مسجد کی طرف آئے ۔بہت سے لوگ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُن کے درمیان ایک شخص بیٹھا تھا(جس کے سر کے اگلے حصے کے تھوڑے سے بال گرے ہوئے تھے)۔حضرت عمر نے اُن سے پوچھا کہ کنیز کی طلاق کیلئے آپ کی کیا رائے ہے؟
اُس شخص نے سربلند کیا اور اپنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور جواب دیا۔ پس حضرت عمر نے سائل کو جواب کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ کنیز کیلئے دو طلاقیں ہیں۔اس پر اُن دومردوں میں سے ایک نے کہا:سبحان اللہ۔ ہم تو آپ کے پاس آئے تھے کہ آپ خلیفہٴ وقت ہیں اور ہمارے امیرالموٴمنین ہیں اور آپ تو ہمیں اس شخص کے پاس لے آئے ہیں اور مسئلہ اُس سے پوچھتے ہیں اور اُس کے اشارہ کے ہی جواب پر راضی اور مطمئن ہوگئے۔ اس پر حضرت عمر نے اُن دونوں مردوں سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ مرد کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ، ہم نہیں جانتے۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے خود سنا ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں سات زمینیں اور ساتوں آسمان رکھ دئیے جائیں اور دوسرے پلڑے میں ایمانِ علی رکھ دیا جائے تو ایمانِ علی والا پلڑا بھاری ہوگا”۔
حوالہ جات
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حالِ امام علی ،ج2ص365حدیث872شرح محمودی
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، صفحہ289،شمارہ330،اشاعت ِ اوّل اور خوارزمی،
باب13،مناقب میں،صفحہ78،اشاعت از تبریز۔
3۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، آخر ِ باب62،صفحہ258اور دوسرے۔
۔۔۔۔۔
(ح)۔ فقال عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ:عَجَزَتِ النِّسٰاءُ اَنْ یَلِدْنَ مِثْلَ عَلِی۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ تمام عورتیں عاجز ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فرزند پیدا کریں”۔
حوالہ
شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب65،صفحہ448۔
۔۔۔۔۔
(ط)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبّٰاسِ قٰالَ:سَمِعْتُ عُمَرَبْنَ الْخَطّٰابِ یَقُوْلُ:کُفُّوْا عَنْ ذِکْرِ عَلِیٍّ فَلَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْہِ خِصٰالاً لَاَنْ تَکُونَ لِی وٰاحِدَةً مِنْھُنَّ فِیْ آلِ الْخَطّٰابِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمّٰاطَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔
“عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی بدگوئی سے پرہیز کرو کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علی علیہ السلام کی فضیلتوں اور خصلتوں کو دیکھا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی فضیلت خاندانِ خطاب میں ہوتی تو وہ مجھے ہرچیز اور زمین کی ہرجگہ جہاں پر سورج چمکتا ہے، سے عزیز تر ہوتی”۔
حوالہ کتاب آثارِ الصادقین، جلد14،صفحہ212،نقل از فضائل الخمسہ،جلد2،صفحہ239،
کنزالعمال،جلد6،صفحہ393۔
(ی)۔ عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ،قٰالَ:قٰالَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم:مَااکْتَسَبَ مَکْتَسِبٌ مِثْلَ فَضْلِ عَلِیٍّ،یَھْدِی صٰاحِبَہُ اِلَی الْھُدٰی وَیَرُدُّ عَنِ الرَّدٰی۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی فضیلت میسر نہ آسکی جو اپنے ساتھی اور پاس بیٹھنے والے کو ہدایت کرتا ہے اور اُسے گمراہ ہونے سے باز رکھتا ہے”۔
حوالہ
آثارالصادقین،جلد14،صفحہ212،نقل از الغدیر،جلد5،صفحہ363اور فضائل الخمسہ
جلد1،صفحہ167،مستدرک سے۔
۔۔۔۔۔
(ک)۔ عَن۔۔۔۔۔وَعُمَرِبْنِ الْخَطّٰاب وَ۔۔۔۔۔،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم قٰالَ:اَلنَّظَرُاِلٰی وَجْہِ عَلِیٍّ عِبٰادَةٌ۔
“بہت سے راویوں اور عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر نگاہ کرنا عبادت ہے”۔
حوالہ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد7،صفحہ358۔
۔۔۔۔۔
(ل)۔ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ،قٰالَ:رَأیٰ عُمَرُرَجُلاً یُخٰاصِمُ عَلِیّاً،فَقٰالَ لَہُ عُمَرُ:اِنِّی لَأَظُنُّکَ مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ!سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ:عَلِیُّ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوسٰی اِلاّٰ اَنَّہُ لٰاَنْبِیَّ بَعْدِی۔
“سوید بن غفلہ سے روایت کی گئی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو حضرت علی علیہ السلام سے جھگڑ رہا تھا۔حضرت عمر نے اُس شخص سے کہا کہ میرا گمان ہے کہ تو منافقوں میں سے ہے کیونکہ میں نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ علی علیہ السلام کی منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا”۔
حوالہ جات
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ286،نقل از ابن عساکر ،تاریخ دمشق، باب شرح حالِ امام علی علیہ السلام،جلد1،صفحہ360۔
۔۔۔۔۔
(م)۔ عَن اَبِی ھُرَیْرَةَ،عَن عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ۔
ابوہریرہ ، عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا نے فرمایا :
“جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے”۔
حوالہ جات
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حالِ امام علی ،ج2،ص79،حدیث581،شرح محمودی
2۔ ابن مغازلی، مناقب میں،صفحہ22،شمارہ31،اشاعت ِ اوّل۔
۔۔۔۔۔
(ن)۔ قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:عَلِیٌّ أَقْضٰانٰا۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم میں سے سب سے زیادہ عدل(قضاوت) کرنے والے علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں”۔
حوالہ جات
1۔ حافظ ابونعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد1،صفحہ65۔
2۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں، صفحہ170۔
3۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد7،صفحہ360۔
4۔ بلاذری،کتاب انساب الاشراف میں،جلد2،صفحہ97،حدیث21،اشاعت اوّل ۔
۔۔۔۔۔
(س)۔ عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ،عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم کُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ یَنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیٰامَۃِ اِلاّٰ سَبَبِی وَنَسَبِی وَکُلٌّ وُلْدِآدَمَ فَاِنَّ عَصَبَتَھُمْ لِأَبِیْھِمْ مٰاخَلاٰ وُلْدِ فٰاطِمَۃَ،فَاِنِّیْ أَ نَاأَبُوْھُمْ وَعَصَبَتْھُمْ۔
“حضرت عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ قیامت کے روز تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہوجائیں گے سوائے میرے سببی اور نسبی رشتوں کے۔ تمام اولادِآدم کی نسبت اُن کے باپوں سے ہے، سوائے میری بیٹی فاطمہ کے۔ حقیقت میں مَیں اُن کا باپ بھی ہوں اوراُن کی قوم بھی”۔
حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب57،صفحہ320۔
۔۔۔۔۔
(ع)۔ قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:لاٰ یُفْتِیَنَّ اَحَدٌ فِی الْمَسْجِدِ وَعَلِیٌّ حٰاضِرٌ۔
“حضرت عمر بن خطاب نے کہا کہ جب تک حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے ہوں،کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے”۔
حوالہ
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ492،نقل از الامامُ الصادق،جلد2،صفحہ582۔
۔۔۔۔۔
(ف)۔ قٰالَ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ:یَابْنَ اَبِیْطٰالِبٍ،فَمٰازِلْتَ کٰاشِفَ کُلِّ شُبْھَةٍ وَمَوْضِعَ کُلِّ عِلْمٍ۔
“حضرت عمر بن خطاب(حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہتے ہیں)کہ اے ابو طالب کے فرزند ! آپ نے ہمیشہ شک و شبہات کو دور کیا اور کلِّ علم کی جگہ پر فائز رہے ہیں”۔
حوالہ
آثارالصادقین،جلد14،صفحہ493،نقل از الامام الصادق،جلد2،صفحہ582۔
۔۔۔۔۔
(ص)۔ قٰالَ عُمَرُ:لاٰ أَبْقٰانِی اللّٰہُ بَعْدَ عَلِیِّ ابْنِ اَبیطٰالِبٍ۔
“حضرت عمر بن خطاب نے کہا:پروردگارا! مجھے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بعد زندہ نہ رکھنا”۔
حوالہ آثار الصادقین، جلد14،صفحہ293،نقل از الغدیر،جلد6،صفحہ126۔
۔۔۔۔۔
(ق)۔ قٰالَ عُمَرُفِی عِدَّةِ مَوَاطِنَ:لَولاٰعَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَر۔
“حضرت عمر نے متعدد مواقع پر کہا کہ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا”۔
حوالہ جات
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة،باب14،صفحہ80اور249۔
2۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب،باب59،صفحہ227۔
۔۔۔۔۔
(ر)۔ عَنْ سَعِیْدِبْنِ الْمُسَیِّبِ قٰالَ:قٰالَ عُمَرُابْنُ الْخَطّٰابِ:اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُعْضَلَۃٍ لَیْسَ لَھٰاأَبُوالْحَسَنِ،عَلِیُّ بْنُ اَبِی طٰالِبٍ۔
“سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اُس مشکل سے جس کے حل کیلئے ابوالحسن(علی علیہ السلام)موجود نہ ہوں”۔
حوالہ جات
1۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف ، جلد2،صفحہ99،حدیث29،بابِ شرح حالِ علی ۔
2۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب57،صفحہ217۔
3۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ171۔
4۔ حاکم المستدرک میں(باب المناسک)جلد1،صفحہ457۔
5۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ36اور دوسرے۔
۔۔۔۔۔
(ش)۔ قٰالَ عُمَرُابْنُ الْخَطّٰابِ:اَلّٰلھُمَّ لاٰ تُنْزِلْ بِی شَدِیْدَةً اِلَّاوَاَبُوْالْحَسَنِ اِلٰی جَنْبِی۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں :پروردگار!مجھ پر کوئی سختی(مشکل کام) نازل نہ فرما مگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے پاس ہوں”۔
حوالہ
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ492،نقل از “امام الصادق”،جلد2،صفحہ582۔
۔۔۔۔۔
(ت)۔ عَنْ اِبْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:کُنْتُ أِسِیْرُ مَعَ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ فِی لَیْلَۃٍ،وَوَعُمَرعَلیٰ بَغْلٍ وَ اَناعَلیٰ فَرَسٍ،فَقَرَأَ آ یَۃً فِیْھٰا ذِکْرُ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبِ فَقٰالَ:أَمٰاوَاللّٰہِ یٰا بَنِی عَبْدُالْمُطَّلِبْ لَقَدْ کٰانَ عَلِیٌّ فِیْکُمْ أَوْلیٰ بِھٰذَاالأَمْرِمِنِّی وَمِنْ أَبِیْ بَکْرٍ،(اِلٰی اَنْ قٰالَ) وَاللّٰہِ مٰا نَقْطَعُ اَمْراً دُوْنَہُ،وَلاٰ نَعْمَلُ شَیْئاً حَتّٰی نَسْتَأذِنَہُ۔
“ابن عباس روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شب میں اور حضرت عمرہم سفر تھے۔ حضرت عمرخچر پر سوار تھے اور میں گھوڑے پر۔ اس دوران ایک آیت پڑھی گئی۔ اُس آیت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر آیا۔ اُس پر حضرت عمر بن خطاب نے کہا:خدا کی قسم! اے عبدالمطلب کے بیٹو! ہوشیاررہو۔ تم سب میں علی علیہ السلام سب سے زیادہ اس (خلافت) کے اہل ہیں، مجھ سے اور ابو بکر سے۔۔۔۔۔یہاں تک کہ خدا کی قسم! میں کسی کام کو بھی اُن(علی علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں کروں گا اور کوئی کام اُن کی اجازت کے بغیر نہیں کرونگا”۔
حوالہ راغب،محاضرات میں، جلد7،صفحہ213۔
(ث)۔ عَنِ الْحٰافِظِ الدّٰارِالْقُطْنِیْ عَنْ عُمَرَ، وَقَدْجٰاءَ ہُ اَعْرٰابِیّٰانِ یَخْتَصِمٰانِ فقالَ لِعَلِیٍّ:اِقْضِ بَیْنَھُمٰا۔
فَقٰالَ اَحَدُھُمٰا:ھٰذَا یَقْضِی بَیْنَنٰا؟!فَوَثَبَ اِلَیْہِ عُمَرُوَاَحَدَ بِتَلْبِیْبِہِ،وََقٰالَ وَیْحَکَ مٰا تَدْرِی مَنْ ھٰذَا؟ھٰذَا مَولاٰیَ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَوْلاٰہُ فَلَیْسَ بِمُوٴْمِنٍ۔
“حافظ دار قطنی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ دو عرب لڑتے جھگڑتے حضرت عمر کے پاس آئے۔ پس حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ ان کے درمیان فیصلہ فرمادیجئے۔اُن میں سے ایک نے کہا کہ کیا یہ شخص ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا؟یہ سن کر حضرت عمراُس شخص کی طرف لپکے اور اُس کا گریبان پکڑ کر کہا:حیف ہے تجھ پر۔ کیا تو جانتا ہے کہ یہ شخص کون ہے؟ یہ میرے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں، وہ شخص مومن نہیں”۔
حوالہ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،جلد2،صفحہ82،بابِ حالِ امام علی علیہ السلام،حاشیے پر۔
۔۔۔۔۔
(خ)۔ عَنْ عُمَیْرِبْنِ بِشْْرٍالْخَثْعَمِیّ قٰالَ:قٰالَ عُمَرُ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ النّٰاسِ بِمٰااَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ۔
“عمیر بن بشیر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام سب انسانوں سے بڑے عالم ہیں اُس میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے”۔
حوالہ بوستانِ معرفت،ص677نقل از حسکانی، شواہد التنزیل جزو اوّل،ص30حدیث29
(ذ)۔ قال عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ(یَوْمَ غَدِیْرِخُمٍّ)ھَنِیئاً لَکَ یَابْنَ اَبِی طٰالِبٍ اَصْبَحْتَ مَوْلیٰ کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَۃٍ۔
“حضرت عمر بن خطاب نے غدیر خم کے دن( جس دن پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کو ولایت پر منصوب فرمایا تھا) حضرت علی علیہ السلام سے کہا :یا علی !آپ کو مبارک ہو، آپ سب مومن مردوں اور عورتوں کے مولیٰ ہوگئے ہیں”۔
حوالہ جات
1۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، بابِ حالِ علی ،جلد2،صفحہ48تا51(شرح محمودی)۔
2۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ350۔
3۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب اوّل، صفحہ62(حضرت ابوبکر اور عمر کی حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد)۔
4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،صفحہ283،حدیث56اور باب4،صفحہ33،34اور دوسرے۔
۔۔۔۔۔
(ض)۔ عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ اَنَّہُ قٰالَ:اُشْھِدُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَسَمِعْتُہُ وَھُوَیَقُوْلُ:لَوْاَنَّ السَّمٰاوٰاتِ السَّبْعَ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّةٍ وَوُضِعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ فِیْ کَفَّةٍ لَرَجَّعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍ۔
“حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ خدا سے سنا کہ اگر ساتوں آسمانون کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں حضرت علی کا ایمان رکھ دیا جائے تو علی علیہ السلام کے ایمان والا پلڑا بھاری رہے گا”۔
حوالہ کنزالعمال،جلد12،صفحہ489(موٴسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔
۔۔۔۔۔
(ظ)۔ عَنْ اِبنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سَمِعْتُ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ یَقُوْلُ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ:یٰاعَلِیُّ اَنْتَ اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اِسْلاٰماً وَاَوَّلُ الْمُوٴْمِنِیْنَ اِیْمٰاناً۔
“ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب سے سنا ،حضرت عمر کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا :یا علی ! آپ مسلمین میں پہلے مسلمان ہیں اور موٴمنین میں پہلے موٴمن ہیں”۔
حوالہ جات
1۔ آثار الصادقین، جلد14،صفحہ34،نقل ازمناقب ابن شہر آشوب،جلد2،صفحہ6۔
2۔ متقی ہندی،کتاب کنزالعمال میں،روایت کے آخر میں،جلد6،صفحہ395۔
۔۔۔۔۔
(غ)۔ عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ رَفَعَہُ:لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلیٰ حُبِّ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ لَمٰاخَلَقَ اللّٰہُ النّٰارَ۔
“حضرت عمر بن خطاب (حدیث مرفوع) روایت کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم نے فرمایا تھا کہ اگر تمام انسان علی کی دوستی و محبت پر اکٹھے ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتا”۔
حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب المودة السادسہ،صفحہ299۔
ایک اور مثال
“حضرت عمر بن خطاب اپنی خلافت کے دوران حج سے مشرف ہوئے اور طواف کے دوران اُن کی نظر ایک جوان پر پڑی کہ اُس کی صورت ایک طرف سے سیاہ ہوگئی تھی اورآنکھیں سرخ اور خون آلودہ تھیں۔ حضرت عمر نے اُس کو آواز دی اور کہا:
یٰافتٰی مَنْ فَعَلَ بِکَ ھٰذَا؟
اے جوان! تجھے اس طرح کس نے کیا اور تجھے کس نے مارا ہے؟ اُس جوان نے جواب دیا:
ضَرَبَنِی اَ بُوْالْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ۔
حضرت علی علیہ السلام نے مجھے مارا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تھوڑا رک جاؤکہ علی علیہ السلام آجائیں۔ اسی حال میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچ گئے۔ عمر نے کہا:
یٰا عَلِیُّ أَ اَنْتَ ضَرَبْتَ ھٰذَاالشَّبٰابَ؟
یا علی ! کیا آپ نے اس جوان کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں! میں نے اسے مارا ہے۔ عمر نے کہا: کیا وجہ بنی کہ آپ نے اس کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا:
رَأَیْتُہُ یَنْظُرُ حُرُمَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
میں نے اسے مسلمان عورتوں اور ناموسِ مسلمین کی طرف نگاہ کرتے ہوئے دیکھا۔ عمر نے جواب دیا:اے جوان! لعنت ہو تجھ پر،یہاں سے اٹھ اور چلا جا۔
فَقَدْ رَاٰ کَ عَیْنُ اللّٰہ وَضَرَبَکَ یَدُاللّٰہِ۔
بے شک تمہیں اللہ کی آنکھ نے دیکھا اور اللہ کے ہاتھ نے مارا ہے”۔
حوالہ جات
“میں شیعہ کیوں ہوا”، تالیف محمد رازی، صفحہ218،نقل از شہرستانی”ملل و نحل” اور طبری،ریاض النظرہ میں اور ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ۔
کلامِ حضرت عثمان بن عفان
(الف) ۔۔۔۔۔رَجَعَ عُثْمٰانُ اِلٰی عَلِیٍّ فَسَأَ لَہُ الْمَصِیْرَاِلَیْہِ،فَصٰارَاِلَیْہِ فَجَعَلَ یَحُدُّ النَّظَرُ اِلَیْہِ،فَقٰالَ لَہُ عَلِیٌّ:مٰالَکَ یٰاعُثْمٰانُ؟مٰالَکَ تَحُدُّ
النَّظَرَ اِلَیَّ؟قٰالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ:النَّظَرُاِلٰی عَلِیٍّ عِبَادَةٌ۔
“حضرت عثمان،حضرت علی علیہ السلام کی طرف پلٹے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کی طرف آجائیں۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت عثمان کی طرف آئے۔ اُس وقت حضرت عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ اے عثمان!تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟تو حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا کہ’علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے‘۔”
حوالہ جات
1۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ358،بابِ فضائلِ علی علیہ السلام۔
2۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، بابِ حالِ امام علی ،جلد2،صفحہ393(شرح محمودی)۔
3۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ172۔
۔۔۔۔۔
(ب)۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان نے تین مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو دعوت دی کہ وہ اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ پہلی مرتبہ 22ھ میں یعنی اُسی سال جب وہ خلیفہ بنے۔ دوسری مرتبہ 27ھ میں اور تیسری مرتبہ32ھ میں۔ حضرت علی علیہ السلام نے کسی دفعہ بھی حضرت عثمان کی کسی دعوت کو سیاسی تعاون کیلئے قبول نہ کیا۔ البتہ ہر دفعہ حضرت علی علیہ السلام یہی جواب دیتے رہے کہ ایک کام واجب ہے یعنی قرآن کی جمع آوری اور اُس کو ایک کتابی شکل دینا۔ میں اس واجب شرعی کام کیلئے تم سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔
حوالہ
فواد فاروقی، کتاب پچیس سال خاموشیِ علی علیہ السلام، نقل از روڈولف زائیگر کی کتاب”علم اور تلوار کا خداوند”۔
۔۔۔۔۔
ج ۔ حضرت عثمان کا حضرت علی علیہ السلام سے خطاب
“۔۔۔۔۔خدا کی قسم! اگر قرار یہ ہو کہ آپ (علی علیہ السلام) مجھ سے پہلے مرجائیں تو میں زندہ رہنے کو پسند نہیں کرتا کیونکہ میں آپ کے علاوہ اپنا کوئی جانشین نہیں دیکھتا اور اگر آپ زندہ رہیں تو میں کسی بھی سرکش اور باغی کو نہیں دیکھتاجو آپ کورہبر،مددگار اور مستضعفین کی پناہ گاہ کے طور پر انتخاب کرے۔۔۔۔۔ میری نسبت تو آپ سے وہی ہے جو کسی عاق شدہ بیٹے کی باپ سے ہو”۔
حوالہ “امام علی علیہ السلام”باب روزگارِ عثمان، تالیف عبدالفتاح عبدالمقصود،صفحہ202۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.