امام خمینی کی نظر میں بعثت رسول ۖ کا فلسفہ

128

امام خمینی کی نظر میں بعثت رسول ۖ کا فلسفہ
تاریخی اور کلامی لحاظ سے رسول اللہ ۖ کی بعثت ،نبوت کی اہم ترین بحث ہے ۔تاریخ انسانیت کایہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بناہے اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑے ہیں اور یہ واقعہ نہ فقط اپنے زمانے کے لحاظ سے اہم تھا بلکہ آئندہ زمانے کے لئے بھی اس کی اہمیت اپنے زمانے سے زیادہ اہم ہے ۔ چونکہ رسول اللہ ۖ کی بعثت ایک نبی خاتم ۖ کی بعثت تھی نہ ایک محدود زمانے اور محدودپیغام کے حامل نبی کی بعثت تھی ۔بعثت پیغمبر ۖ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کو جہاں تاریخی حیثیت سے دیکھا گیا ہے وہاں کلامی اور عرفانی نقطئہ نظر سے بھی اس پر بحث کی گئی ہے ۔چونکہ امام خمینی ایک فقیہ ،فیلسوف ،عارف ہونے کے لحاظ سے ایک ایسے صاحب نظر عالم دین ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ۖ کی شریعت کو طریقت اور عملیت کے میدان میں پیش کیا ہے اور رسول اللہ ۖ کے پیغام کا عملی تجربہ کیا ہے اور اسے جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی جرائت کی ہے اور یہ رسول اللہ ۖ کی بعثت اور لائی ہوئی شریعت پر امام خمینی کے محکم ایمان اور یقین کی دلیل ہے ۔امام خمینی رسول اللہ ۖکی بعثت کے پیغام یعنی؛ شریعت محمدیہ ۖ کو نہ فقط اعتقادی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اس کو عملی میدان میں پیش کرنے اور اس کو دنیا کے تمام نظام ہائے زندگی سے برتر سمجھتے تھے ،اور اسی یقین کامل کے ساتھ اُنہوں نے بعثت رسول ۖکے نتیجے میں قائم ہو نے والی اسلامی حکومت کے احیاء کی کوشش کی اور اسے اپنے یقین محکم کے ساتھ عصر حاضر کے پیچیدہ ترین نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور پوری دنیا پر بعثت پیغمبر ۖ کی حقانیت ثابت کر دی ۔اس لحاظ سے بعثت اور فلسفہ بعثت کے بارے میں امام خمینی کے افکار وبیانات اور نظریات خاصی اہمیت رکھتے ہیں ۔چونکہ یہ ایک ایسے عالم دین کے افکار ہیں جو فقط بعثت رسول ۖ پر علمی ونظریاتی بحث نہیں کرتا بلکہ اسے انسانی معاشرے میں عملی شکل میں پیش کرتا ہے ۔یہ فقط امام خمینی کا امتیاز ہے کہ جنہوں نے پیغام رسالت اور فلسفہ بعثت کو عمل کے میدان میں پیش کیا ہے ۔لہٰذا بعثت رسول اللہ ۖکے بارے میں امام خمینی کے افکار فقط ایک عالم دین اور فقیہ کے افکار نہیں بلکہ ایک عارف کامل ، ایک فیلسوف اور ایک ماہر سیاستدان اور ایک طاقتوراسلامی حکمران کے افکار ہیں جس نے سیاست رسول ۖ اور پیغام بعثت کاتجربہ عملی طو ر پر کیا ہے ۔اسی خصوصیت کے ساتھ ہم سیرت رسول اللہ ۖ کے ایک اہم عنوان یعنی؛ ”بعثت رسول اللہ ۖ” کے بارے میں امام خمینی کے افکار پیش کرتے ہیں ۔
تاریخ کاعظیم واقعہرسول اکرم ۖ کی بعثت کا دن پورے زمانے ”مِن َ الازَل اِلی الابد”باشرف ترین دن ہے۔چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ۔دنیا میں بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں ،عظیم انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات ہو گذرے ہیں لیکن رسول اکرم ۖ کی بعثت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ اس عالم میںسوائے خداوند متعال کی ذات مقدس کے، رسول اکرم ۖ سے عظیم تر ہستی کوئی بھی نہیں ہے اورآپۖ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم ۖ کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔اور یہ واقعہ اس دن رونما ہوا ہے اسی نے اس دن کو عظمت اور شرافت عطا کی ہے ۔ اس طرح کا دن ہمارے پاس ازل وابد میں نہیں آیا اور نہ آئے گا۔لہذامیں اس دن کے موقعہ پر تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعف لوگوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ١
عالم بشریت کا وحی کے فواہد اور تعلیمات سے بہرہ مند ہونابعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں تھا ،غیبی صورت میں تھا ،(فقط) علم خدا میںتھا اور غیب الغیوب میں تھا ،اس عظیم ہستی ۖ کے ذریعے ،وہ ہستی ۖ کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے متنزل کیا ہے بلکہ (یہ مقدس کتاب ) مرحلہ بہ مرحلہ نازل ہوئی ہے اور آخر درجہ شہادت (ظاہر)پر پہنچ کر الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان اور (استعداد ) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم ۖ کی بعثت کی اصل وجہ ہے (بَعَثَہُ اِلَیْکُم) ( اس رسول ۖ کو تمہاری طرف بھیجا)، وہ رسولۖ تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:”وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة” (سورہ جمعہ ،آیت ٢)” (وہ رسولۖ) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصودیا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم ۖتزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پس بعثت رسول اکرم ۖ کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کوسمجھ کرسکیں۔٢
نور ہدایت کے حصول کے لئے نفوس کا تزکیہجو لوگ بعثت کو ایک الہٰی بعثت سمجھتے ہیںاور بعثت کا محرک تمام مخلوق کی ہدایت جانتے ہیں؛اُنہیں بعثت کی غرض و غایت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے ۔اور بعثت کے اس محرک کی طرف توجہ کرنی چاہیے ۔چونکہ خود خداوند متعال نے بعثت کا محرک بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :”یَتلوا عَلَیھم آیاتِہِ وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة””تاکہ وہ (رسولۖ) ان پر آیات کی تلاوت کرے اور ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتابو حکمت کی تعلیم دے” (سورہ جمعہ ،آیت ٢)انسان میں ہدایت کی روشنی تزکیہ نفس سے پیدا ہوتی ہے ۔٣
عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاببعثت کا مسئلہ اور اسکی ماہیت و برکات کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے ہماری لکنت زدہ زبانوں سے بیان کیا جاسکے ۔اس کے پہلو اس قدر وسیع ہیں اور اسکی معنوی اور مادی جہات اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کرنے کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا ۔رسول اکرم ۖ کی بعثت نے تمام عالم میں ایک علمی وعرفانی انقلاب برپا کیا ہے کہ جس نے یونانیوں کے خشک اور قدر وقیمت کے حامل فلسفے کو اہل شہود ومعرفت کیلئے ایک عرفان حقیقی اور شہود واقعی میں تبدیل کردیاہے۔کسی کے لئے بھی قرآن کے اس پہلو کا انکشاف نہیں ہوا سوائے اُن لوگوں کے لئے جو اسکے حقیقی مخاطب ہیں ۔حتیٰ بعض پہلو تو ”مَن خوطِبَ بِہ ” کے لئے بھی واضح نہیں ہوئے ہیں ۔جن سے فقط ذات ذی الجلال جل جالہ کے اور کوئی بھی آگا ہ نہیں ہے۔اگر کوئی قبل از اسلام کے فلسفے اور بعد از اسلام کے فلسفے کا مطالعہ کرے اور ہندوستان وغیرہ میں اس قسم کے مسائل سے سروکار رکھنے والوں کا بعداز اسلام کے عرفا سے (موازنہ کرے) کہ جو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان مسائل میں داخل ہوئے ہیں تو وہ جان لے گاکہ اس حوالے سے کتنا عظیم انقلاب آیا ہے۔حالانکہ اسلام کے عظیم عرفا بھی قرآنی حقائق کو کشف کرنے میں عاجز ہیں ۔ قرآن کی زبان کہ جو بعثت کی برکت اور رسول خدا ۖ کی بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے۔٤
عظیم ترین علمی و عرفانی انقلابرسول اکرم ۖکی اس ولادت باسعادت کے مختلف پہلو آج تک کسی انسان کو معلوم نہیں ہوسکے۔ اس ولادت کی برکت سے فیوض وبرکات کے جاری ہونے والے چشمے رسول اکرم ۖ کے قلب مبارک پر وحی کے نزول کی صورت میں اپنے کمال کو پہنچے۔ قرآن مجید کا نزول بھی انہی سرچشموں میں سے ایک ہے کہ جس کا کامل فہم کسی ایک کیلئے یہاں تک کہ آخری زمانے کے عقلمند اور غور وخوص کرنے والے افراد کیلئے بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان عصمت سے قرآن کی بیان شدہ حقیقت سے زیادہ آج تک کسی نے قرآنی حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا ہے۔ جب آپ اسلام سے قبل معرفت وعلوم کی گہرائی، فلسفے اور اجتماعی عدل وانصاف کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے انہی معلوم شدہ حقائق نے دنیا میںایک عظیم انقلاب برپاکیا ہے کہ جس کی نہ ماضی میں مثال ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے۔تاریخ عرفان میں آپ دیکھیں کہ اسلام سے پہلے کیا تھا اور اسلام کے بعد اسلام ِمقدس اور قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعے کیا کچھ ہو گیا ہے ۔اسلام سے پہلے کی شخصیات کو دیکھیں مثلاً ارسطو وغیرہ کو دیکھیں ؛وہ عظیم شخصیات تھیں لیکن اس کے باوجود اُن کی کتابوں میں وہ چیز نہیں ملتی جو قرآن کریم میں ملتی ہے ۔ہماری روایات میں یہ جوبعض آیات(کے بارے میں) نقل ہواہے کہ مثلاً سورہ توحید اور سورہ حدید کی آخری چھ آیات آخری زمانے کے گہرا سوچ وبچار رکھنے والے دور اندیش لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہیں ؛میر ے خیال میں اس کی واقعیت اس وقت تک یا اس کے بعد انسان کے لئے جس طرح ہونا چاہیے منکشف نہیں ہو سکے گی۔البتہ اس بارے میںبہت کچھ کہا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بہت ہی گرانقدر تحقیقات انجام پاچکی ہیں لیکن اُفق قرآن اس سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔٥
انسان کے ادراک سے بالا معجزہبعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کر سکیں ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میںتدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم ۖ کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میںپرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ دنیا کے مسائل، عرفانی حقائق، فلسفی نکات اور دیگر مسائل سے قطعی طورپر آشنا نہیں تھے۔ آنحضرت ۖ نے پوری زندگی اسی خطے میں گزاری صرف ایک مختصر مدت کیلئے آپ سفر پر تشریف لے گئے اور لوٹ آئے۔ جب ایک انسان اس وقت کو دیکھتا ہے کہ جب آپۖ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپ نے ایسے مطالب پیش کیے کہ جن کا پیش کرنا اور ان کا فہم وادراک بشریت کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کیلئے پیغمبر ۖ کی نبوت پر دلیل ہے حالانکہ رسول اکرم ۖ بذات خود ان مطالب کو بیان نہیں کرسکتے تھے، نہ آپ ۖنے تحصیل علم کیا اور نہ ہی آپۖ لکھنا جانتے تھے۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کیلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم ۖ کیلئے اور ان خاص الخاص افراد کیلئے جو آپ ۖسے مربوط ہیں۔
واقعہ بعثت کی عظمت پر پیغمبر ۖ کے اُمی ہونے کی دلالتاسلام کے مختلف قسم کے عمیق اور گہرے اجتماعی مسائل ایسے شخص کے اپنے نہیں ہوسکتے جس نے تاریک اور علم سے بے بہرہ ماحول میں زندگی بسر کی ہو یا ہر ماحول ومعاشرے میںپرورش پانے والا انسان کیا اس طرح دنیا میں تمام چیزوں کے علم کو پاسکتا ہے جو موجودہ اور آئندہ زمانے کے عقلی تقاضوں اور معیارات پر پورا اترے یہ صرف ایک معجزہ ہے اور معجزے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔٦
شریعت اسلام کی جامعیت کااسلام کے وحیانی ہونے پردلالت کرناخاتم المرسلین ۖ کی نبوت کے اثبات کیلئے ہمارے دلائل کا نچوڑ یہ ہے کہ جس طرح تخلیق کائنات کی مضبوطی اور اس کی حسن ترتیب وبہترین نظم ہم کو یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا موجود ہے جو اس کی تنظیم کرتا ہے، جس کا علم تمام باریکیوں، خوبیوں اور کمالات پر محیط ہے۔ اسی طرح ایک شریعت کے احکام کا اتقان، حسن نظام، ترتیب کامل، تمام مادی ومعنوی، دنیوی واخروی، اجتماعی وفردی ضروریات کی مکمّل طورسے پر ذمہ داری قبول کرنا بھی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے منتظم اور چلانے والے کا علم بھی لامحدود ہوگا اور وہ افراد بشر کی ضرورتوں سے واقف ہوگا اور چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ یہ سارا کام ایک ایسے انسان کے عقلی قوتوں کا ہرگز مرہون نہیں ہوسکتا، جس نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہ کیا ہو، جس کی تاریخ حیات ہر قوم وملت کے مورخین نے لکھی ہو، جس نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی ہو جو کمالات وتعلیمات سے عاری ہو، ایسا شخص اتنا کامل نظام نہیں بنا سکتا۔ اس لئے یقینا غیب اور ماوراء الطبیعہ سے اس شریعت کی تشریح ہوئی ہے اور وحی والہام کے ذریعے آنحضرتۖ تک پہنچائی گئی ہے:”وَالحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ وُضُوحِ الحُجَّة”۔ ٧………………………………
حوالہ جات١۔ صحیفہ نور ،ج ١٢ ،ص١٦٨٢۔ صحیفہ نور ،ج ١٤، ص٢٥٢٣۔ صحیفہ نور ،ج ١٤ ،ص٢٥٥٤۔ صحیفہ نور ،ج ١٧ ،ص٢٥٠٥۔ صحیفہ نور ،ج١٨ ،ص١٩٠٦۔ صحیفہ نور ،ج ٢٠ ،ص٧٨٧۔ چہل حدیث ،ص ٢٠١،٢٠٢۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع١۔ چہل حدیث ؛امام خمینی ؛مئوسسہ تنظیم ونشر آثار امام خمینی ،طبع اول ١٣٧١ شمسی٢۔ صحیفہ نور ؛امام خمینی ؛(٢٢جلد )وزارت فرہنگ وارشاد اسلامی طبع اول
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.