عبادت کیا ہے ؟

316

عبادت کیا ہے ؟ہماری تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے ” و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون”(١)ہم لوگ جو بھی کام انجام دیتے ہیں اگر رضائے پروردگار کی خاطر ہو تو وہ عبادت ہے چاہے وہ کام علم حاصل کرنا ، شادی کرنا یالوگوں کی خدمت کرنا ہو اور یااپنی یا معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر ہو ۔ جو چیز کسی کام کو عبادت بناتی ہے وہ انسان کی مقدس نیت ہے جس کو قرآن مجید کی زبان میں ” صبغة اللہ ” ( ٢) کہتے ہیں یعنی جس میں خدائی رنگ و بو پائی جائے ۔
فطرت و عبادتہمارے کچھ کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں اور بعض کام فطرت کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔ جو کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ وہ کسی اہمیت کے حامل ہوں جیسے ورزش کی عادت اور ممکن ہے وہ کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں ، جیسے سگریٹ پینے کی عادت، لیکن اگر کوئی کام فطری ہو یعنی فطرت اور اس پاک سرشت کی بنا پر ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہر بشر کے اندر ودیعت کی ہے تو ایسا ہر کام اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔عادت پر فطرت کی فوقیت یہ ہے کہ فطرت میں زمان ، مکان، جنسیت، نسل اورسن و سال مؤثر نہیں ہوتے ۔ ہر انسان اس جہت سے کہ انسان ہے فطرت رکھتا ہے جیسے اولاد سے محبت،کسی خاص نسل یازمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے بچےکو چاہتا ہے (۳) لیکن لباس اور غذا جیسی چیزیں عادات میں شامل ہیں جن میںزمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض جگہوں پر کچھ رسم و رواج مو جودہیں لیکن دوسری جگہ پر وہی رسم و رواج نہیں پائے جاتے ہیں۔عبادت و پرستش بھی ایک فطری امر ہے اسی لئے جتنی بھی قدیم ، خوبصورت اور مضبوط عمارتیں دیکھنے میں آتی ہیں وہ عبادت گا ہیں ، مسجدیا مندر اور چرچ وغیرہ ہیں یا پھر آتش کدے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ عبادت و پرستش کے انواع و اقسام میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو خود معبود میں فرق ؛ یعنی پتھر ، لکڑی اور بت کی عبادت سے لے کر خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت تک۔ اسی طرح عبادت کے طریقوں میں فرق ہے جیسے ناچنے ، مٹکنے سے لے کر اولیاء اللہ کی انتہائی عمیق و لطیف مناجات تک فرق پایا جاتا ہے ۔انبیاء کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگوں کے اندر خدا کی عبادت و پرستش کی روح پھو نکیںبلکہ انکا اصل مقصد معبو د سے متعلق تصور اور عبادت کے طریقے کو صحیح کرنا تھا ۔مساجد ، گرجا گھروں اور مندر وغیرہ کی عمارتوں میں اتنا زیادہ پیسہ لگانا ، اپنے وطن کے پرچم کو مقدس سمجھنا ، اپنی قوم کے بزرگوں اور بڑی شخصیتوں کی قدر کرنا ، لوگوں کے کمالات و فضائل کی تعریف کرنا حتی اچھی چیزوں سے رغبت ہو نایہ سب انسان کے وجود میں روحِ عبادت کے جلوے ہیں ۔جو لوگ خدا کی عبادت نہیں کرتے ہیں وہ بھی مال و اقتدار یا بیوی ، بچوں،سندا ور ڈگری یافکر و قانون اوراپنے مکتب فکر یا اپنی راہ و روش کی پوجا کرتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس راہ میں اتنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ دل دے بیٹھتے ہیں اور جانفشانی پر تیار رہتے ہیں ۔ اپنی پوری ہستی کو اپنے معبودپر فدا کر دیتے ہیں ۔ خدا کی عبادت انسان کی فطرت کی گہرا ئیوں میں شامل ہے ، چاہے انسان اس سے غافل ہی ہو جیسے مولاناروم کہتے ہیں :
ہمچو میل کو دکان با مادرانسرِّّ میل خودنداند درلبان
” انسان اپنی فطرت کی طرف اس طرح رغبت رکھتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں سے ، جبکہ اس کا راز وہ نہیں جانتا”۔خدائے حکیم نے جس رغبت اور چا ہت کو پیکر انسان میں قرار دیا ہے اس کی تکمیل و تشفی کے اسباب و وسائل بھی فراہم کئے ہیں ۔ اگر انسان کو پیاس لگے تواس کے لئے پانی پیدا کیا ، اگر انسان کو بھوک لگے تو غذا بھی موجود ہے ۔ اگر خداوند عالم نے انسان میں جنسی خو اہش کو رکھا تو اس کے لئے شریک حیات کو بھی خلق کیا،اگر خدا نے قوت شامّہ دی تو اس کے لئے اچھی خوشبوئیں بھی پیدا کیں ۔انسان کے متعددجذبات میں سے ایک گہرا جذبہ یہ ہے کہ وہ لا متناہی چیز سے رغبت رکھتا ہے ، کمال سے عشق کرتا ہے اور بقاء کو دوست رکھتا ہے ۔ اور ان فطری رجحانات کی تکمیل ، خداوند متعال سے رابطہ اور اس کی پرستش کے ذریعہ ہوتی ہے ،نماز و عبادت ؛ کمال کے سر چشمہ انسان کا ارتباط ، محبوب واقعی سے اُنس اور اس کی قدرت لا متناہی میں احساس امنیت کرنا ہے ۔
………………………………١۔ ذاریات آیہ ٥٦.٢۔بقرہ آیہ ١٣٨.۳۔ سوال: اگر بچے سے محبت کرنا فطری چیز ہے تو پھر کیوں بعض زمانوں ، جیسے دورجاہلیت میں لو گ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ؟ جواب : فطری مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں جیسے اولاد سے محبت فطری ہے اسی طرح حفظ آبرو بھی فطری ہے ۔عرب کے جاہل لڑکی، کو ذلت کاباعث سمجھتے تھے چونکہ جنگوں میں عورتیں اسیر ہوتی تھیں اور ان سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا آبرو کے تحفظ کے لئے اپنی لڑکیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے ۔ دور جانے کی بات نہیں ہے مال اور جان دونوں سے محبت کرنا فطرت ہے لیکن کچھ لوگ مال کو جان پر اور کچھ لوگ جان کو مال پر قربان کر دیتے ہیں لہٰذا لڑکی کو آبرو پر قربان کرنا اولا د سے محبت کی فطرت کے منافی نہیں ہے۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.