قرآن فہمی۴

178

چوتھی تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِاعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْ خُلُوْا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا علیٰٓ اَھْلِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْآ فِیْھَا اَحَداً فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ وَ اِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارجِعُوْا ھُوَ اَزْکیٰ لَکُمم وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَہٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ۔‘‘ (سُورۂ نُور، آیت ۲۷ تا ۲۹)میں نے اپنی گزشتہ ایک تقریر میں بیان کیا تھا کہ قرآنِ کریم عفت و پاکدامنی اور افراد کے جنسی تعلقات کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کی اساس ان مصلحتوں اور حکمتوں پر استوار ہے جن کی جانب میں اشارہ کر چکا ہوں۔اسلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔جن آیاتِ مبارکہ کی تفصیل ہم نے ابتدا میں بیان کی تھی ان میں بدکاری کی سزا کا ذکر تھا۔ ”اَلزَّانِیَۃ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ ۔‘‘ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں گناہ کہ ختم کرنے کے محض سزا ہی کافی نہیں ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی جرم اور گناہ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ ظلم اور جرم چاہے بے عفتی ہو، چاہے چوری و قتل ہو، یا بے احتیاطی ہو، مثلاً بے احتیاطی سے گاڑی چلانا۔ یہ بات بالکل درست نہیں کہ ہم کسی جرم یا ظلم کے خاتمہ کے لئے فقط سزا پر زور دیں۔ بلکہ ہمیں وقوعِ جرم کے اسباب کو دیکھنا چاہئے! ان اسباب کا خاتمہ کرنا چاہئے اور پھر جرائم پیشہ عناصر کو سزا دی جانی چاہئے۔ (عام طور پر وقوعِ جرم کے اسباب نہیں پائے جاتے فقط سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے) اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے۔ اس بات کی ہمیشہ تاکید کی جاتی ہے کہ ڈرائیور حضرات شہر کے اندر فلاں رفتار (مثلاً چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تیز گاڑی نہ چلائیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانہ جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس جرم کے وقوع کے اسباب کی چھان بین نہ کی جائے تو محض سزا کافی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ڈرائیونگ میں تو سزا ویسے ہی موجود ہے یعنی ”مجازا تُھا مَعَھا‘‘ ہے کیونکہ جو شخص گاڑی تیز رفتاری سے چلاتا ہو اور دیوانوں کے مانند اندرونِ شہر اور بیرونِ شہر گاڑی تیز رفتار سے دوڑاتا پھرتا ہو تو سب سے زیادہ خطرہ اسی کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کی گاڑی بھی خطرے میں ہوتی ہے اور جان بھی۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو جان اور مال کا خطرہ اسے تیز رفتاری سے باز رکھتا ہے اور نہ ہی سزا۔ کیوں؟ اس لئے کہ بعض عوامل اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی احتیاط سے چلانے کی نصیحت کریں یا تیز رفتار سے گاڑی چلانے پر اس کے لئے جرمانہ تجویز کریں جبکہ وہ اس قسم کے حالات کا شکار ہو کہ وہ خود ٹیکسی کا مالک نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت فقط ایک ڈرائیور کی ہو۔ صبح سے ہی ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہو۔ اب اگر وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد ۱۲۰ تومان نہ کمائے تو وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ ان ۱۲۰ تومانوں میں سے ۶۰ تومان تو اسے مالک کو ادا کرنا ہیں۔ اگر وہ ۶۰ تومان مالک کو ادا نہیں کرے گا تو وہ دوسرے دن اس کی چھٹی کرا دے گا۔ پھر ۳۰ تومان ٹیکسی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالے گا۔ یوں دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے لئے فقط ۳۰ تومان باقی بچتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اس کو ہزار نصیحت کریں اور کہیں کہ تیز رفتاری سے تمہاری جان خطرے میں پڑ سکتی ہے یا تمہیں اس قدر جرمانہ کیا جائے گا اور تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ دوسری طرف ۳۰ تومان گھر لے کر جانا بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ اگر ۳۰ تومان بھی گھر لے کر نہ جائے تو اپنی بیوی بچوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ ان حالات میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ ٹیکسی اسٹارٹ کرتا ہے اور پھر اسے تیز رفتاری سے چلاتا ہے۔ وہ بہرصورت ۱۲۰ تومان کمانے پر مجبور ہے۔ ایک مجبوری اس پر اپنا حکم چلاتی ہے، اس لئے نہ وہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت سودمند ثابت ہوتی ہے۔ پس اگر ہم اس کو تیز رفتاری سے باز رکھنا چاہیں تو سزا سخت کرنے سے ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں تیز رفتاری کے اسباب کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس کے اسباب کو پیش نظر رکھ کر ہی مشکل حل ہو گی۔ مثلاً اگر ہم اس کو ایسی سہولیات بہم پہنچا سکیں کہ وہ دن میں سات گھنٹے آرام سے ٹیکسی چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کا دماغ خراب نہیں کہ اپنی جان اور ٹیکسی کو خطرے میں ڈالے یا اپنے آپ کو جیل کے حوالہ کرے۔چوری، شراب خوری، زنا، قتل اور ان جیسے دوسرے جرائم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کے اسباب کو ختم کرنے سے ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم شراب نہ پینے کا موعظہ کریں اور اخبارات پر شراب نوشی کے خطرناک نتائج (اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس فیصد جرم، ظلم، قتل، بے عفتی، حادثات شراب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں) تحریر کریں، درحالیکہ شراب خواری کی رغبت دلانے کے تمام عوامل موجود ہوں، تمام غزلوں، تحریروں اور شعروں میں مے خواری و شراب نوشی کی دعوت دی گئی ہو، ہر محفل میں اسے عیش کوشی کا حصہ قرار دیا جاتا ہو، اسے پینے کی رغبت دلائی جاتی ہو اور شراب کی دکانوں کی تعداد دوسری تمام دوکانوں سے زیادہ ہو۔ ہر قدم پر نوجوانوں کو دعوت دینے کے لئے ایک سائن بورڈ نصب ہو جس پر تحریر ہو کہ ”وہ‘‘ اور ”وغیرہ‘‘ ”یہاں دستیاب ہے، تشریف لائیے‘‘ تو اس صورت حال میں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔زنا اور پاکدامنی کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اسلام نے زنا کرنے والوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خاتمہ کے لئے سزا کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لئے اس نے زنا ثابت ہونے کا راستہ بہت دشوار بنا دیا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زنا کرنے اور نہ کرنے والوں کا سراغ لگائیں، بلکہ وہ تو اس کام کو بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ البتہ اگر زنا پایۂ ثبوت تک پہنچ جائے تو وہ سخت سزا دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ سزا کے ذریعہ زنا کا خاتمہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ لوگوں کو سراغ لگانے کی رغبت نہیں دلاتا۔ بلکہ وہ تو سرے سے ہی گناہ کا سراغ لگانے کا مخالف ہے۔ وہ اس جاسوسی کا مخالف ہے جو لوگوں کے گناہوں سے پردہ اٹھانے کی خاطر کی جائے ”وَلاَ تَجَسّسُوْا‘‘ (حجرات۔ ۱۲)اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام نے گناہ کا سد باب کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا ہے؟ اسلام نے زنا و بدکاری کے سد باب کے لئے متعدد طریقے اپنائے ہیں جن میں وعظ و نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تربیت شامل ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو۔ یہ تمام طریقے بہت ہی مناسب ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے اصولوں کو ایسی اساس پر استوارکرتا ہے جس کے باعث ایسے اسباب ہی جنم نہیں لیتے جو گمراہی اور گناہ کی جانب راغب کریں۔ پاکدامنی کا مسئلہ اسی قبیل سے ہے۔ گزشتہ تقریروں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی ساری کوشش یہی ہے کہ انسان اپنی جنسی شہوت کا جواب جائز شادی سے دے۔ اسلام تجرد کے خلاف ہے، (ہم چند آیات کے بعد پڑھیں گے۔ وَاَنْکِحُواالْاَیَامیٰ مِنْکُمم وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآ ئِکُمْ) شادی کرنے کی رغبت دلا رہا ہے۔ لڑکی لڑکے کو لازماً شادی کرنا چاہئے۔ (اس ”لازماً‘‘ پر فی الحال ہم بحث نہیں کریں گے۔ اسی آیت کے ضمن میں اس پر بحث کریں گے۔)پس ایک جانب تو اسلام شادی کی شدید رغبت دلاتا ہے تاکہ بے عفتی کے اسباب ہی وجود میں نہ آئیں۔ اسی لئے وہ ہر قسم کے تجرد کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری جانب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا محض شادی کے ذریعہ بدکاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ کیا گر کسی مرد کی اپنی بیوی ہو اور کسی عورت کا اپنا شوہر ہو تو یہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کی طرف راغب نہ ہوں اور شادی شدہ انسان بعض حیوانات (وہ حیوانات جو فقط اپنے ساتھی کی طرف مائل ہوتے ہیں) کے مانند ہو جاتا ہے؟حیوانات غریزے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انہیں خودمختار پیدا نہیں کیا گیا۔ کبوتر اور بعض دوسرے حیوانات جفت ہیں، جبکہ گوسفند، اسپ اور آہو جیسے حیوانات میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ان میں جفتی کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی چاہے وہ مادہ ہوں چاہے نر۔ خاص جنگلی حیوانات میں بوجھ اٹھانے کے علاوہ کسی اور کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ وہ نر کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ کبوتروں جیسے وہ حیوانات جو جوڑوں کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں ان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ فقط آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں۔ نہ تو نر کبوتر اس مادہ کبوتر کے علاوہ کسی دوسری کبوتری پر نظر رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کبوتری اس کبوتر کے علاوہ کسی دوسرے کبوتر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو خودمختار خلق کیا گیا ہے اس لئے اسے خود ہی تمام شہوات میں ہر شہوت میں اپنے افعال فرض کی ادائیگی کے طور پر دینا ہوتے ہیں، فطرت کے جبر کے تحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بدکاری کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اس کے سد باب کے لئے اکیلی شادی کافی نہیں ہے۔ یعنی اگر شادی شدہ مرد کی نظر کسی غیر عورت پر پڑے تو اس کی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص کر جب عورت نے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لئے بناؤ سنگار بھی کیا ہوا ہو۔ اور اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی غیر مرد کو دیکھے تب بھی یہی صورتِ حال پیش آتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے مرد و زن کے میل جول کے لئے چند شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔ ان شرائط کو فقط اس لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کہ عورت و مرد کا میل جول شہوت انگیز نہ ہو۔بعد والی آیات سے جن کو ہم پڑھیں گے، مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ تقریر کے آغا زمیں تلاوت کی جانے والی آیات کا تعلق اذن سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اطلاع اور اجازت کے بغیر اسے گھر میں داخل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ اگرچہ یہ تین آیات عورت سے مخصوص نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ تر تعلق عورت سے ہی ہے۔ آیت یہ ہے۔یٰااَیَّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَھْلِھَا”اے اہلِ ایمان تم اپنے ذاتی گھر ( آپ کا اپنا گھر مستثنیٰ ہے) کے علاوہ دوسرے شخص حتی کہ اپنے والدین، بہنوں اور بطریقِ اولیٰ اپنے بھائیوں کے گھروں میں اچانک نہ آ دھمکو بلکہ پہلے اپنے استیناس کیا کرو اور اہلِ خانہ کو سلام کیا کرو۔‘‘ ”استیناس کیا کرو‘‘ یعنی گھر والوں کی انس، الفت اور سکون کا سامان کیا کرو۔واضح سی بات ہے کہ ہر کسی کی ذاتی اور گھریلو زندگی اس کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی دوسرے شخص کی بے جا مداخلت سے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے گھر میں کوئی دوسرا شخص اچانک آ دھمکے تو وہ گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ایسا نہ کیا کرو۔ کسی کے گھر میں اچانک نہ داخل ہوا کرو، بلکہ پہلے استیناس کیا کرو۔ یعنی ایسا کام کیا کرو کہ ان کو گھبراہٹ و سراسیمگی لاحق نہ ہونے پائے، یعنی پہلے ان کو اطلاع دیا کرو۔زمانۂ قدیم میں گھروں کے دروازے بند کرنے کا معمول نہیں تھا۔ (جیسا کہ اب بھی بعض دیہاتوں میں اس معمول نہیں ہے) شہروں میں دروازوں کو اندر سے بند کر دینے کا معمول ہے۔ اگر کوئی شخص اطلاع کے بغیر داخل ہونا بھی چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اب دروازوں کو اندر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اسے پہلی گھنٹی بجانی یا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو اطلاع دینے اور ان سے اجازت طلب کرنے کی رسم نہیں تھی۔ وہ تو اجازت طلب کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اسلام اپنے ساتھ یہ حکم لایا کہ کسی کے گھر میں اچانک داخل ہونا حرام ہے۔ ہم جو کسی کے گھر میں اطلاع کے بغیر داخل نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ بند ہوتا ہے۔ اگر دروازہ کھلا ہوا ہو تب بھی ہم کو اطلاع کے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَھْلِھَا ”سلام بھی کیا کرو۔‘‘ سلام کئے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا کرو۔ جو شخص بھی کسی کے پاس جائے تو اسے چاہئے کہ پہلے اسے سلام کرے۔ جو شخص کسی کے گھر میں جائے تو اسے چاہئے کہ اہلِ خانہ کو سلام کرے۔ یہ رسم نبی اکرم نے ڈالی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی کے گھر میں داخل ہوا کرو تو بہرصورت اہلِ خانہ کو اطلاع دیا کرو تاکہ وہ آمادہ ہو جایا کریں اور جب تک وہ اجازت نہ دے دیں، جب تک ”تشریف لائیے‘‘ نہ کہیں، اس وقت تک گھر کے اندر قدم نہ رکھا کرو۔ البتہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت کھانسنے کے ذریعے بھی گھر میں داخل ہونے کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ لیکن آخر آپ ایسا ہی کیوں کریں؟ اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ ذکرِ خدا کریں۔ مثلاً ”اللہ اکبر‘‘ یا ”سبحان اللہ‘‘ کہیں۔ آجکل ہمارے مابین ”یااللہ‘‘ کہنے کا معمول ہے اور یہ ایک بہت اچھی رسم ہے، اگرچہ رفتہ رفتہ فرنگی مآب لوگوں میں یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک اسلامی رسم ہے۔ ان کے درمیان تو سلام کرنے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے اور یا اللہ کہنے کا بھی، اور یہ تعجب کی بات ہے۔نبی اکرم کسی کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ استیناس کو زیادہ تر سلام کرنے کے ساتھ ہی انجام دیتے تھے، حتیٰ کہ آپ اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ عَلَیْھَا کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ باہر دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں فرمایا کرتے ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَھْلَ الْبَیْتِ۔‘‘ اگر اس کا جواب دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ”تشریف لائیں‘‘ تو آپ اندر داخل ہوتے۔ اگر جواب نہ ملتا تو اس خیال سے کہ شاید انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں سنا ہو گا۔ دوبارہ فرماتے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَھْلَ الْبَیْتِ۔‘‘ اگر پھر بھی جواب نہ ملتا تو احتیاطاً اس خیال سے کہ انہوں نے دوسری مرتبہ بھی نہیں سنا ہو گا، آپ تیسری مرتبہ بھی سلام کرتے۔ اگر تیسرے سلام کا بھی جواب نہ ملتا تو واپس پلٹ جاتے۔ آپ فرماتے یا تو وہ گھر میں موجود نہیں ہیں، یا ان کی حالت کسی دوسرے شخص کے داخل ہونے کی مقتضی نہیں ہے۔ اور آپ بالکل برا محسوس نہ فرماتے۔ ”ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ‘‘ ”یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارا فائدہ اسی میں ہے۔ شاید تمہیں اس کام کے فائدے کا پتہ بعد میں چلے۔ شاید تم بعد میں اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔‘‘ یعنی پہلے عمل کرو بعد میں تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو گا۔ اس سلسلے میں بہت سی داستانیں نقل ہوئی ہیں جو آپ کی سنی ہوئی ہیں۔ ”سمرہ بن جندب‘‘ جو بہت ہی بد طنیت تھا، اس نے امیرالمومنین علیؓ اور معاویہ کے زمانے میں بہت بدطینتی کا مظاہرہ کیا، کی ایک داستان معروف ہے۔ نبی اکرم کے زمانے میں اس کا ایک درخت آپ کے ایک صحابی کے گھر میں تھا۔ اس درخت کی وجہ سے اسے اس گھر میں داخل ہونے اور درخت کی دیکھ بھال کرنے کا حق پہنچتا تھا۔ مگر چونکہ درخت دوسرے شخص کے گھر میں تھا۔ اس لئے اصولاً اسے اس گھر میں داخل ہونے سے پیشتر استیناس اور اجازت حاصل کرنا چاہئے تھی۔ اسے ”یااللہ‘‘ کہنا چاہتے تھا۔ لیکن وہ بہت اکڑ باز اور ظالم تھا۔ ان باتوں کی پرواہ مطلق نہ کیا کرتا اور اچانک اس گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔ (ہر شخص اپنے گھر میں کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے اس حالت میں دیکھیں) اور اہلِ خانہ کی نا راحتی کا موجب بنا کرتا۔ مالکِ مکان نے چند مرتبہ اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یا رسول اللہ فلاں شخص کو آپ سمجھائیں، وہ میرے گھر میں اچانک آ دھمکتا ہے۔ آپ نے اسے بلوا کر سمجھایا لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ اس گھر میں میرا درخت ہے اس لئے مجھے وہاں جانے کا حق حاصل ہے۔ آپ متوجہ ہوئے کہ یہ شخص تو بد طینت ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا آؤ ایک کام کرتے ہیں۔ تم یہ درخت میرے ہاتھوں فروخت کر دو۔ میں تمہیں اس سے بہتر درخت دوں گا جو ایک اور جگہ پر واقعہ ہے، مگر وہ نہ مانا۔ تین درخت، چار درخت، دس درختوں تک کی تجویز آپ نے اسے پیش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا میں تجھے جنت میں کھجور کے ایک درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا مجھے جنت کا درخت نہیں یہی درخت چاہئے اور میں گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت بھی نہیں لیا کروں گا۔ اس نے (اپنے کردار سے) ثابت کر دیا کہ وہ ظالم اور ستمگر شخص ہے۔ (میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام ابتداء میں نرمی سے کام لیتا ہے لیکن اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو کام میں لاتا ہے) آپ نے فوراً مالک مکان کو حکم دیا کہ گھر جا کر اس کا درخت جڑ سے اکھاڑ ڈالو اور اس کے آگے پھینک دو۔ ”اِنَّہٗ رَجُلٌ مُّضَارّ ” یہ ضرر رساں شخص ہے۔‘‘ لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ عَلیٰ مُؤمِنٍ ”دینِ اسلام میں ضرر اور ضرار کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘بعد میں قرآن فرماتا ہے۔ ”فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْ فِیْھَآ اَحَداً فَلاَ تَدْ خُلُوْھَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ۔‘‘ اگر آپ کسی کے گھر میں جائیں اور وہ گھر پر موجود نہ ہو تو اس صورت میں آپ کا کیا فرض ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب تو گھر پر کوئی بھی نہیں جو ہمیں اجازت دے۔ کوئی عورت بھی اس گھر میں نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس گھر میں داخل ہوں گے تو ہمیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ اچانک کیوں آ دھمکے ہیں۔ چونکہ اس گھر میں کوئی نامحرم بھی نہیں ہے اس لئے ہم کو اس میں داخل ہونے کا حق پہنچاتا ہے؟ نہیں! یہ جو کسی گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے محض نامحرم کی وجہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ لوگوں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی زندگی میں ایسے امور کا پایا جانا ممکن ہے جن کو وہ دوسروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہو۔ خدا فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھی گھر پر نہ ہو تب بھی گھر میں داخل نہ ہوا کرو، مگر یہ کہ تمہیں پہلے سے اجازت دی گئی ہو یعنی اہلِ خانہ نے پہلے سے تمہیں اجازت دے رکھی ہو۔ مثلاً مالکِ مکان نے تمہیں گھر کی چابی دی ہو یا اس نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ہو۔اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم کسی کے پاس جائیں، وہ شخص گھر میں بھی موجود ہو اور ہم اس سے اجازت طلب کریں، لیکن وہ بجائے اس کے کہ ہم سے کہے ”تشریف لائیے‘‘ کہے ” آپ واپس تشریف لے جائیں، فی الحال میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا‘‘ تو اس صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن صریحاً فرما رہا ہے کہ اگر گھر کا مالک کہے کہ میں فی الحال تمہاری پذیرائی کرنے سے قاصر ہوں تو تمہیں واپس پلٹ جانا چاہئے اور گھر کے مالک کی بات تمہارے دل پر گراں نہیں گزرنی چاہئے۔ اسلام کا یہ حکم ہم لوگوں کی موجودہ زندگی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔اس مقام پر قرآن ہم سے کہہ رہا ہے ”نا حق تمہارے دل پر گراں نہ گزرے۔ اگر تم کسی کے گھر میں جانا چاہتے ہو تو اگر انہوں نے تمہیں بلایا ہو اور تم نے ان سے وقت لیا ہو، تو گھر میں داخل ہو جایا کرو۔ اور اگر پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہوں تو اس صورت میں اگر اہلِ خانہ کسی مجبوری کی بناء پر آپ کو اندر نہ بلا سکتا ہو تو اسے بغیر کسی شرم و لحاظ کے کہہ دینا چاہئے کہ میں گھر پر ہوں (یہ نہیں کہنا چاہئے کہ گھر پر نہیں ہوں) لیکن فی الحال مصروف ہوں اس لئے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کا میزبان بننے سے قاصر ہوں (اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ اہلِ خانہ کو کوئی ضروری کام درپیش ہوتا ہے جبکہ آنے والا کسی ضروری کام سے نہیں آیا ہتا) آپ نے مجھ سے پیشگی وقت نہیں لیا تھا۔ اب آپ تشریف لے جائیے۔ پھر کسی وقت تشریف لائیے گا اور یہ بات واشگاف الفاظ میں کہی جانی چاہئے۔ اور اگر صاحبِ خانہ دو ٹوک الفاظ میں کہے تو آنے والے میں بھی اس قدر شہامت، شجاعت اور مردانگی ہونی چاہئے کہ یہ بات اس پر گراں نہ گزرے۔لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آجکل اس کے برعکس عمل ہو رہا ہے۔ نہ تو گھر والے میں اس قدر شہامت، صراحت، صداقت پائی جاتی ہے کہ کہے میں فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہوں اور نہ ہی آنے والے میں اسی قدر انسانیت پائی جاتی ہے کہ اگر وہ کہے کہ میں فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا، آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا تو اس کے دل پر گراں نہ گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت پر عمل ہو رہا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے مالک مکان جھوٹ بولتا ہے۔ وہ بچوں سے کہتا ہے کہ (آنے والے سے) کہو ابو گھر پر نہیں ہیں۔ اس طرح وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ ”گھر پر نہیں ہے‘‘ جھوٹ ہے اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ بعض لوگ اس مقام پر اپنے خیال کے مطابق ”توریہ‘‘ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ توریہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں جھوٹ نہ بولنے کی صورت میں مفسدہ وجود میں آتا ہو مثلاً خنجر بکف کوئی شخص آیا ہو، وہ کسی کونا حق قتل کرنا چاہتا ہو۔ وہ پوچھے کہ فلاں آدمی یہاں موجود ہے یا نہیں؟ تو جواب دینا چاہئے کہ یہاں نہیں ہے۔ اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جھوٹ کی عادت پڑ جائے اس لئے اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی دوسری بات کو گزاریں۔ کہیں ”نہیں‘‘ اور دل میں گزاریں کہ ”یہاں‘‘ نہیں ہے۔ اور یہ درست نہیں ہے کہ انسان اپنی مرضی کا ہر جھوٹ بول لے اور اسے توریہ قرار دیدے۔ تو مالک مکان بچوں سے کہتا ہے کہ آنے والے سے کہو ”نہیں ہے۔‘‘ لیکن اے بچو! جب تم کہو کہ نہیں ہے تو تمہارا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا والد کمرے کی چوکھٹ پر نہیں ہے۔ تو جناب اس مقام پر آپ سچ بول سکتے ہیں پھر توریہ کیوں کرتے ہیں؟ یہاں آپ کو کہنا چاہئے کہ میں گھر پر موجود ہوں لیکن فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔ایک مرتبہ ملا نصیرالدین ایک مہمان کو اپنے ہمراہ گھر کے دروازے تک لایا۔ خود گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کی بیوی (ان بہت سی عورتوں کی طرح جو ایسے امور میں ہٹ دھرمی کیا کرتی ہیں) اس سے جھگڑ پڑی کہ مہمان کو اپنے ہمراہ کیوں لائے ہو۔ ہمارے پاس اس کی پذیرائی کے لئے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لہٰذا تم نے اسے لا کر اچھا نہیں کیا۔ ملا نصیر الدین نے کہا ک ہاب میں کیا کروں؟ بیوی نے کہا میں اس کی بالکل مہمان نوازی نہیں کروں گی۔ ملا نصیرالدین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ آخر اس نے اپنے بچوں کے ذریعے مہمان کو کہلوا بھیجا کہ ملا گھر پر نہیں ہے۔ مہمان نے کہا ابھی تو ہم مل کر آئے تھے۔ یہ سنتے ہی ملا نے بلند آواز سے جواب دیا شاید اس گھر کے دو دروازے ہوں اور وہ دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا ہو۔عموماً ایسے مواقع پر کئے جانے والے ہمارے کام ملا نصیرالدین کے کاموں جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی جب دروازے پر آ کر کہا جاتا ہے کہ ”صاحب گھر پر نہیں ہیں‘‘ تو مہمان سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب کوئی دروازے پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہرئے میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر میں موجود ہیں یا نہیں تو صاف معلوم ہو رہا ہوتا ہے کہ جب تم گھر کے اندر سے آئے ہو تو تم کو پتہ ہے کہ صاحب گھر پر ہیں یا گھر پر نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ ”میں دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر پر ہیں یا نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہو سچ سچ بتاؤں یا جھوٹ سے کام لوں۔یہ عین حقیقت ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ سب جانتے ہیں، مہمان بھی جانتا ہوتا ہے اور میزبان بھی۔ لیکن اس کے باوجود مسلسل جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ پس ایک صورت یہی ہے کہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب خانہ آنے والے سے کہتا ہے ”تشریف لائیے‘‘۔ بہت ظاہرداری سے کام لیتا ہے۔ اسے خوش آمدید، اَھْلاً وَّسَھْلاً وَّ مَرْحَباً جیسے الفاظ سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ بڑے تپاک سے ملتا ہے جبکہ دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔ اسے کوستا ہے کہ یہ بلائے ناگہانی اس وقت کہاں سے آ ٹپکی۔ ہمیں کئی ضروری کام تھے۔ لوگ کس قدر غیر مہذب ہیں۔ بے سوچے سمجھے دوسروں کے گھروں میں آ دھمکتے ہیں اور ان کے کاموں میں مخل ہوتے ہیں۔ جب مہمان چلا جاتا ہے تو پھر میزبان بیوی بچوں کے سامنے اسے ڈھیر ساری گالیاں بکتا ہے۔ ان حالات میں وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا! وہ بچہ جو دیکھ رہا ہے کہ اس کے باپ میں اتنی شہامت بھی نہیں ہے کہ مہمان سے کہہ سکے کہ میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا۔ میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے بلکہ وہ سرو قد ہو کر مہمان کی تعظیم بجا لاتا ہے، اسے خوش آمدید کہتا ہے جبکہ اس کے جانے کے بعد اس پر صلواتیں بھیجتا ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ میزبان و صاحب خانہ معقول کام کرتا ہے۔ یعنی وہ خود دروازے پر آ کر آنے والے سے کہتا ہے ”جناب مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو فی الحال وقت نہیں دے سکتا۔ مجھے ضروری کام ہے، میں مصروف ہوں۔‘‘ یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ آنے والے تک پیغام بھیجتا ہے کہ فی الحال میں مصروف ہوں جس کی وجہ سے میں آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔ تو اس صورت میں صاحب خانہ نے ایک معقول طریقہ اختیار کیا ہے لیکن آنے والے شخص میں اخلاقی جرأت نہیں پائی جاتی (کیونکہ) اس کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ اپنی ہر محفل میں اسی کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں فلاں شخص کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے ملاقات نہ کی۔ وہ یہ بات تو نہیں بتاتا کہ میں نے پیشگی اجازت نہیں لی تھی اور نہ ہی یہ سوچتا ہے کہ صاحب خانہ کسی مجبوری کی بناء پر مجھ سے ملاقات نہیں کر سکا۔(جبکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ) آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے کوئی مجبوری ہو گی اور تمہیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ تمہارا میزبان شجاع ہے۔ اس نے تم سے جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح الفاظ میں حقیقت بیان کر دی ہے۔ یہ تھی تیسری صورت۔ان دونوں یا تو پہلی دو صورتوں جو کہ میزبان کے بارے میں ہیں پر عمل کیا جا رہا ہے یا اس تیسری صورت پر جو کہ مہمان سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ چوتھی صورت جسے اسلام پسند کرتا ہے ہمارے معاشرے میں بالکل ناپید ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے پاس وقت نہ ہو، وہ آنے والے سے ملاقات نہ کر سکتا ہو تو صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہئے کہ ”جناب میں معذرت چاہتا ہوں کہ فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا۔ آپ کی میزبانی کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوں‘‘ اور آنے والے کو بھی برا محسوس کئے بغیر واپس پلٹ جانا چاہئے۔ قرآن نے اس چوتھی صورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے۔وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا”اور جب تم سے کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو پلٹ جایا کرو‘‘ ”ھُوَ اَزْلیٰ لَکُمْ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘ یہ چوتھی صورت پہلی تینوں صورتوں سے بہتر ہے۔ ”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے۔‘‘ قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونا چاہو تو اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (گھر سے مراد وہ چار دیوار ہے جس میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو) ۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ہر وہ چار دیواری جس میں لوگ رہ رہے ہوں اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے؟ کیا کسی دکان میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت طلب کرنا ضروری ہے؟ اگر میں کسی شاپنگ سنٹر میں داخل ہونا چاہوں تو کیا پہلے اجازت طلب کرنی چاہئے؟ کیا کسی سرائے میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا واجب ہے؟ یا یہ حکم فقط ان گھروں سے مخصوص جن میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو۔ یعنی کیا یہ حکم لوگوں کے ذاتی و شخصی مکانوں کے ساتھ مختص ہے؟قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ حکم فقط خاص مکانوں سے مخصوص ہے چاہے وہ رہنے سہنے کا مکان ہو یا کام کرنے کا مکان۔ عمومی اماکن کے لئے یہ حکم نہیں ہے کیونکہ عمومی اماکن کا دروازہ تو سب کے لئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ایک شخص بہت ہی سادہ لوح تھا اور ساتھ ساتھ پارسا بھی بہت تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئے۔ سنے میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مشہد میں اپنے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے ایک بہت بڑے کاروان سرا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔خود کاروان سرائے کے دروازے کے پاس باہر کھڑا ہو گیا اور دوسرے شخص کو یہ معلوم کرنے کو بھیجا کہ کیا مجھے اس کاروان سرائے میں داخل ہونے کی اجازت ہے یا نہیں! جبکہ کاروان سرائے کا دروازہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ کاریں اور گاڑیاں اکثر وہاں سے گزرتی رہتی ہیں۔ اس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمومی اماکن میں سے ہے۔اس لئے قرآن مجید فرماتا ہے۔ ”لیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَۃ ”ایسے مکانوں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں لوگ موجود ہوں اور وہاں لین دین کا کاروبار ہوتا ہو بشرطیکہ وہ ان کی سکونت کے مکان نہ ہوں۔ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ۔ ”ان مکانوں میں تمہارے لئے متاع ہے‘‘ یعنی تم ان مکانوں میں کام کی وجہ سے داخل ہونا چاہتے ہو۔ البتہ اگر ان مکانوں میں تمہیں کوئی کام نہ ہو تو بلا مقصد دوسروں کے کاموں میں مخل نہ ہوا کرو۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے۔ ”وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاتَکْتُمُوْنَ۔‘‘ خدا ہر اس چیز کو جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور مخفی کرتے ہو۔‘‘اب یہاں سے حجاب اور نگاہ کے متعلق آیات کا آغاز ہو رہا ہے۔قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ ھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔‘‘ (سُورۂ نُور، آیت ۳۰)”(اے رسول) مؤمنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے پاکیزہ تر ہے۔ (یعنی عفت کا حکم پاکیزگی کی خاطر دیا گیا ہے) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔‘‘اس آیت میں بہت سے مسائل ہیں جن پر بحث کرنا ضروری ہے۔ مفسرین نے ”یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ ھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ‘‘ پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔ بعض مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں فقرے شرمگاہ چھپانے کے بارے میں ہیں کیونکہ اسلام کے واجبات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر عورت و مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اپنے شریکِ حیات کے سوا دوسروں کی نظروں سے مخفی رکھے۔ شرمگاہ کا چھپانا مرد پر بھی واجب ہے اور عورت پر بھی۔ خاوند بیوی تو شرمگاہ کی نسبت ایک دوسرے کے محرم ہیں۔ دوسروں سے اس کا چھپانا واجب ہے۔ میاں بیوی کے علاوہ کوئی شخص بھی دوسرے کی شرمگاہ کا محرم نہیں ہے۔ شرمگاہ کے مسئلے میں والدین اپنی اولاد کے، بھائی بھائی کا اور بہنیں بھی آپس میں ایک دوسری کی محرم نہیں ہیں۔ شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے۔ اور غیر کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے۔ اس کا حرام ہونا دینِ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.