نجف اشرف
نجف كے معنی سخت اور بلند زمین كے ھیں، یعنی ایسی بلندی جھاں پانی نہ پہنچ سكے، یہ شھر بغدادسے ۱۰۰كلومیٹر سے دور ھے، اور تقریباََ۶۰ كلومیٹر كے فاصلہ پر كربلا كے جنوب میں واقع ھے، اس كی آب وھوا بہت گرم اور خشك رہتی ھے، علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نقل كرتے ھیں: ” نجف پہلے ایك پھاڑ كی شكل میں تھا، اسی پر حضرت نوح علیہ السلام كا بیٹا پناہ لینے كے لئے پہنچ گیا تھا، جب حضرت نوح علیہ السلام نے كھا كہ كشتی میں آ جاؤ تو اس نے جواب دیا كہ میں تو پھاڑ كے اوپر چڑھ جاؤ ں گااور -ڈوبنے سے نجات پاؤں گا، اسكے باوجود چونكہ اس نے امر الٰھی كی مخالفت كی تھی لہٰذا طوفان بلا میں غرق ھوگیا۔1
تاریخ حرم مطھر حضرت علی علیہ السلامآستان مقدس حضرت علی علیہ السلام نجف كے مركز میں واقع ھے، آستانہ ٴ نجف اشرف پر ایك سنھرا گنبد رتعمیر ھے، صحن مطھر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام كافی وسیع ھے، اور صحن كے اطراف میں كئی محراب نما كمرے بنے ھوئے ھیں ۔قبرِ مطھركو چاندی كے صندوق اور ضریح اقدس كو سونے كی جالیوں سے شاہ اسماعیل صفوی كے دور میں آراستہ كیا گیا تھا۔اور ضریح مطھر كو ہندوستان اور چین كے ہنر مندوں نے ۱۳۴۵ھ۔ق۔ میں اسماعیلی فرقہ كے توسط سے ہندوستان میں تعمیر كیا، حرم مطھر كی آئینہ كاری اصفھان كے ہنر مندوں نے كی، اور اطراف حرم میں جو نقش ونگاری كا كام ھے وہ ایرانی ہنرمندوں كی محنت كا سر چشمہ ھے۔ 2حرم كے اطراف میں جوصحن ھے اس كے كمروں میں مختلف مراجع وبزرگانِ دین كی قبریں ھیں، اس مقدس صحن میں كل پا نچ دروازے ھیں ۔1۔ ان میں سب سے بڑا دروازہ مشرق میں باب كبیر كے نام سے مشھور ھے۔2۔ باب طوسی: ۔یہ دروازہ شمال میں شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ كی یاد میں تعمیر كیا گیا ھے۔ اوراس كے مقابل خیابان شیخ طوسی ھے۔3۔ باب قبلہ: ۔ یہ دروازہ جنوب میں باب قبلہ كے نام سے معروف ھے۔4۔ باب سلطانی: ۔یہ دروازہ سلطان عزیز عثمانی كے دورمیں تعمیر كیا گیا، جو حرم كے مغرب میں واقع ھے۔5۔ پانچواں دروازہ: ۔یہ باب كبیر كے نزدیك واقع ھے۔
فضیلت زیارت امیرالمومنینسیدعبدالكر یم ابن طاؤس رحمۃ اللہ علیہ صفوان جمال سے روایت كرتے ھیں :” ھم امام صادق ں كے ھمراہ كوفہ میں وارد ھوئے، جب امام علیہ السلام منصور دوانقی كے پاس جارھے تھے، تو آپ نے فرمایا: اے صفوان! اونٹ كو بٹھاؤ كیوں كہ یہ علاقہ میرے جد امیرالمو منین ں كی قبر كے نزدیك علاقہ ھے، پس آپ اترے غسل كیا لباس تبدیل كیا اور پیروں سے جوتیاں اتاردیں اور فرمایا: تم بھی ایسا ھی كرو ۔3امام علیہ السلام پھر نجف كی طرف روانہ ھوئے اور فرمایا: آہستہ آہستہ قدم بڑھاؤاور سر كو جھكا لو كہ خدا وندعالم تمھارے لئے ھر قدم پر ایك لاكھ نیكیاں لكھے گا اور ایك لاكھ گناہ بخش دے گا، ایك لاكھ درجات بلند كرے گا، ایك لاكھ حاجتوں كو پورا كرے گا، اور تمھارے لئے صدیق وشھید كا ثواب لكھے گا، امام علیہ السلام بھی جارھے تھے، اور ھم بھی ان كے ھمراہ سكون كے ساتھ تسبیح وتہلیل كرتے ھوئے چل رھے تھے، یھاں تك كہ ھم لوگ ایك بلندی پر پہنچے، امام علیہ السلام نے دائیں بائیں نگاہ -كی اور جو لكڑی آپ كے پاس تھی اس سے ایك لكیر كھینچی پھر فرمایا: تلاش كرو میں نے تلاش كیا توایك قبر كا نشان پایا، اس وقت آپ كی آنكھوں سے آنسوں جاری ھوكر چھرہ پر آگئے”حضرت امام صادق ں سے روایت ھے كہ خدا وند عالم نے ملائكہ سے زیادہ كسی مخلوق كو نھیں پیدا كیا اور حقیقت یہ ھے كہ روزانہ سترہزار ملائكہ نازل ھوكر بیت المعمور پر آتے ھیں اور اس كے گرد طواف كرتے ھیں پھر وھاں سے فارغ ھوكر كعبہ كے طواف كو جاتے ھیں، یھاں سے قبر پیغمبر (ص) پر آتے ھیں اور آپ پرسلام كرتے ھیں، اوریھاں سے حرم امیرالمو منین ں كی جانب آتے ھیں، ان پر سلام كرتے ھیں، اسكے بعد قبر امام حسین ں پر آتے ھیں اور ان پربھی سلام كرتے ھیں، پھر آسمان پر چلے جاتے ھیں اور اسی طرح یہ سلسلہ روزِ قیامت تك جاری رھے گا۔آپ ھی سے منقول ھے: جو شخص امیرالمو منین ں كی زیارت ان كے حق كو پہچانتے ھوئے كرے (یعنی ان كو امام علیہ السلام مانتا ھو جس كی اطاعت واجب ھے) اور خلیفہ بلا فصل جانتا ھو، تكبر اور جبر كے اعتبار سے زیارت كو نہ آیا ھو، تو خدا اس كے لئے ایك لاكھ شھیدوں كا ثواب لكھتا ھے، اور اس كے پچھلے آئندہ كے تمام گناھوں كو بخش دیتا ھے اور وہ روزقیامت اس طرح اٹھایا جائے گا كہ ھول محشر سے بے خوف ھوگا، اور خدا اس پر حساب آسان كردے گا، ملائكہ اس كا استقبال كریں گے، وہ جب زیارت سے واپس ھوگا تو ملائكہ اس كے پیچھے پیچھے اس كے گھر تك آئیں گے، اگر بیمار ھوگیا تو اس كی عیادت كریں گے، اگر مرگیا تو اس كے جنازہ كی مشایعت كریں گے، اوراس كی بخشش كے لئے دعائیں كریں گے۔اور یہ بھی روایت میں آیا ھے كہ جو شخص امیرالمومنین علیہ السلام كی زیارت ان كے حق كو پہچان كركرے خدا اس كے لئے ھر قدم پر حج مقبول اور عمرہ پسندیدہ كا ثواب لكھتا ھے، امام صادق علیہ السلام ھی سے روایت ھے كہ میں كہتا ھوں پشت كوفہ پر ایك قبر ھے، اس كی پناہ میں كوئی غم زدہ نھیں آتا ھے مگر یہ كہ خدا اس كو شفا دیتا ھے۔جناب شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ كہتے ھیں: ” معتبر خبروں سے ظاھر ھوتا ھے كہ خداوندعالم نے امیرالمومنین علیہ السلام اوران كی پاكیزہ اولاد كی قبروں كو خوفزدہ كی پناہ گاہ، بے چاروں كا ملجااورزمین والوں كے لئے امان بنایا ھے، جب كوئی غم زدہ ان كے پاس آجاتا ھے اس كا غم دور ھوجاتا ھے اور مصیبت زدہ اپنے كو اس سے مس كرتا ھے توشفا پاتا ھے، اور جو پناہ چاہتا ھے اسكو امان مل جاتی ھے، لہٰذا جب كبھی زیارت كا ارادہ كرے تو غسل كرے پاك لباس پہنے اور خوشبو استعمال كرے، اورجب ضریح اقدس كے قریب پہنچ جائے تو دعائیں زیادہ كرے، كیوں كہ یہ حاجتوں كے طلب كرنے كا مقام ھے اور زیادہ استغفار كرے، كہ یہ گناھوں كی مغفرت كا مقام ھے اور اپنی حاجت خدا سے طلب كرے كہ یہ دعاؤں كے قبول ھونے كامقام ھے۔واضح رھے كہ مستحب ھے سرامام حسین علیہ السلام كی زیارت پڑھناقبر امیرالمومنین علیہ السلام كے نزدیك، اور مستدرك میں مرزا محمدا بن المشہدی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل ھوا ھے كہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے سر امام حسین علیہ السلام كی زیارت امیرالمومنین علیہ السلام كے سرھانے كی، اور آپ نے وھاں چارركعت نماز پڑھی۔مختصر یہ كہ امیرالمومنین علیہ السلام كی زیارت كو غنیمت سمجھنا چاہئے، اور اس حرم مطھر میں زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھنی چاہئے، اس لئے كہ آپ كی قبر كے پاس كوئی ایك نماز كا پڑھنا دولاكھ نمازوں كے برابر ھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام ھی سے منقول ھے كہ جوشخص امام علی علیہ السلام كی زیارت كرے اورچار ركعت نماز آپكی قبر كے نزدیك پڑھے، تو اس كے لئے حج اور عمرہ كا ثواب لكھا جائے گا۔4
حضرت علی علیہ السلام كے مختصر حالات زندگینام: علی ابن ابیطالب علیہ السلامكنیت: ابوالحسن، ابوالحسین، ابوتراب، ابوالسبطینالقاب: امیرالمومنین، سید الوصیین، سیدالمسلمین، سید الاوصیاء، سید العرب،منصب: دوسرے معصوم اورپہلے امامتاریخ ولادت: ۱۳رجب ا لمرجب ۳۰ ھ ئعام الفیل(پیغمبراكرمكی ہجرت سے۲۳سال پہلے)جائے ولادت: مكہ معظمہ، بیت اللہ الحرام خانہ كعبہ كے اندر پیدا ھوئے ۔شجرئہ نسب: علی ابن ابیطالب ابن عبد ا لمطلب ابن ھاشم ا بن عبد مناف۔والدہ: فاطمہ بنت اسدا بن ھاشم (فاطمہ بنت اسد، آغازاسلام كی عظیم خواتین سے اور ان پہلی خواتین میں تھیں كہ جوپیغمبر اكر م پر ایمان لائیں)مدت امامت: ۔پیغمبراكرم (ص) كی رحلت سے لےكر۲۱رمضان المبارك ۴۰ ھ۔ق۔ تك تقریباََ تیس سال ۔تاریخ وسبب شھادت: ۲۱رمضان المبارك ۴۰ ھ ئعبدالر رحمن ابن ملجم مرادی (نھر وان كی جنگ سے بچنے والے خارجی) نے مسجد كوفہ كے محراب میں آپ كو۱۹رمضان المبارك كی صبح حالت سجدہ میں زھر آلودتلوار كی كاری ضرب لگائی جس كے نتیجے میں آپ نے ۲۱ رمضان المبارك كوجام شھادت نوش فرمایا۔محل دفن: نجف اشرف سرزمین عراقحضرت علی علیہ السلام كے چند اقوالحكمت مومن كی گمشدہ چیز ھے، پس حكمت كو لے لواگرچہ اسے منافق سے ھی لیناپڑے”گھٹیا ترین علم وہ ھے جوفقط زبان تك محدود رھے، اور بہترین علم وہ ھے جو اعضاء و جوارح سے ظاھر ھو” 5زیارت امیرالمومنین علیہ السلام كے مخصوص ایام1۔ روزغدیر: ۔امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ھے كہ آپ نے ابو نصر سے فرمایا: اے ابن ابی نصر! جھاں كھیں بھی رھوقبر امیرالمومنین علیہ السلام كے پاس روز غدیر حاضرر ھو چونكہ خداوندعالم اس روزاس مومن اور مومنہ كے ساٹھ سالہ گناھوں كو بخشتا ھے جو روز غدیرحضرت كی زیارت كرے اور انكو آتش جہنم سے آزاد كرتا ھے۔2۔ تیرارجب المرجب3۔ روز ولادت حضرت رسول اكرم (ص)4۔ روزمبعث۲۷رجب كی رات اوردن میں زیارت كرنا۔6اد رھے كہ قبر جناب آدم اورجناب نوح بھی اسی مزار اقدس میں واقع ھے۔
قبرستان وادیٴ السلاموادیٴ السلام نجف اشرف كے مشرقی جانب كوفہ اور كربلا كے راستہ پر واقع ھے، اسكا شمار دنیا كے سب سے بڑے قبرستان میں ھوتا ھے، بر خلاف اس كے كہ یہ قبرستان دیكھنے میں تو معمولی نظر آتا ھے، لیكن اس كی فضیلت روایات میں بہت آئی ھے، ایك روایت میں ھے كہ جب كوئی مومن اس جھان سے رخصت ھوتا ھے تو اس كی روح كو ندا دی جاتی ھے كہ وہ وادی السلام سے ملحق ھوجائے۔7یوں تواس قبرستان میں ہزاروں كی تعداد میں علماء دین مدفون ھے، لیكن یھاں ھم چند علماء كرام كا تذكرہ كررھے ھیں جو یھاں دفن ھیں ۔
1۔ شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہان كا شمار شیعوں كے بزرگ ترین علماء میں ھوتا ھے، جو “صاحب جواھر” كے نام سے بھی معروف ھیں، آپ كی كتاب “جواھرالكلام”ھے جو شیعوں كی عظیم ترین فقھی كتابوں میں شمار ھوتی ھے، اوراس نكتہ كو مد نظر ركھتے ھوئے كہ اس كی ھر سطر میں اسقدر دقیق علمی مطالب موجود ھیں كہ صرف ایك صفحہ كے مطالعہ میں اچھا خاصہ وقت صرف ھوتاھے، اس سے اندازہ لگایا جاسكتا ھے كہ اس بیس ہزارصفحہ كی كتا ب تالیف كرنے میں كتنا وقت اور توانائی صرف ھوئی ھوگی؟ آپ نے ۳۰سال تك مسلسل محنت كی جب كھیں یہ عظیم شاہكار وجود میں آسكا، آپ نے بہت سے شاگردوں كی تربیت فرمائی ھے۔ 8
2۔ شیخ جعفر كاشف الغطاء رحمۃ اللہ علیہآپ شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ صاحب جواھر كے استاداور سیدمہدی بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ كے شاگرد ھیں، فقہ میں ان كی مشھور كتاب” كشف الغطاء ” ھے، ۱۲۲۸ میں وفات پائی، فقہ میں كاشف الغطارحمۃ اللہ علیہ كے نظریات بڑی گھرائی اور باریك بینی كے حامل ھیں ۔9مذكورہ علماء كے علاوہ شیخ احمد كاشف الغطاء رحمۃ اللہ علیہ، آل قزوینی رحمۃ اللہ علیہ اورشیخ عبدالكریم جزائری رحمۃ اللہ علیہ جیسے پایہ كے علماء بھی وادی السلام میں ابدی نیند سو رھے ھیں (خدا وندمتعال تمام علماء اعلام كو جواررحمت میں جگہ عنایت فرمائے)
3۔ مقام امام زمان علیہ السلامیہ مقام بھی قبرستان وادئی السلام كے اندر واقع میں ھے، اور امام ز مان علیہ السلام كے نام سے مشھور ھے، زائرین حضرات یھاں امام زمانہ علیہ السلام كی زیارت پڑھتے ھیں ۔
4۔ آرامگاہ حضرت ھود علیہ السلام و حضرت صالح علیہ السلاموادی ا لسلام ھی میں جناب صالح علیہ السلام اور جناب ھود علیہ السلام كی قبر یں واقع ھیں، اور ان پر باقاعدہ گنبد بھی تعمیر كیا گیا ھے۔
نجف اشرف میں دیگر علماء كی قبریںیوں تو اس سر زمین نے ہزاروں اور لاكھوں علماء پیدا كئے ھیں، اور ہزاروں علماء اور مجتہدین اس مقدس سرزمیں كی آغوش میں محوخواب ھیں، لیكن كتاب كی وسعت كو پیش نظر ركھتے ھوئے ھم نے یھاں چند معروف علماء كا ذكر كیا ھے ۔
1۔ آرامگاہ سید مہدی بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہبحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۵۴ھ۔ق۔میں پیدا ھوئے، اور ان كی وفات ۱۲۱۱ ھ۔ق۔ میں نجف اشرف میں ھوئی، ان كی قبر مسجد شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ كے ایك گوشہ میں ھے ۔ا ٓپ معنوی مقامات كی وجہ سے اخلاق وكردار كے بلند مرتبہ پر فائز تھے، یھی وجہ ھے كہ شیعہ علماء كے نزدیك بہت زیادہ قابل احترام سمجھے جاتے ھیں ۔ 10انھیں درجہ عصمت سے قریب مانا جاتا ھے، اور آپ كی ذات سے بہت سی كرامتیں بیان كی جاتی ھیں، شھید مر تضیٰ مطھری نقل كرتے ھیں كہ علامہ كاشف الغطارحمۃ اللہ علیہ اپنے عمامہ كی تحت الحنك سے آپ كی نعلینوں كاغبار صاف كیاكرتے تھے ۔11
2۔ علامہ حلیحسن ابن یوسف ابن مطھرا بن حلی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ حلی رحمۃ اللہ علیہ كے نام سے مشھور ھیں، ان كا شمار شیعوں كے بزرگ علماء میں ھوتا ھے، اور اپنے زمانہ كے عجیب وغریب شخص مانے جاتے ھیں، تقریباََایك سو جلد كتابیں ان كی موجود ھیں ان میں سے بعض ایسی ھیں جو آپ كی عجوبہ شخصیت ھونے پر دلالت كرتی ھیں، آپكی كتابوں میں “ارشاد””تبصرةالمتعلمین “”تذكرةا لفقھا ء “اور”مختلف الشیعہ” بہت زیادہ معروف ھیں ۔ 12علامہ رحمۃ اللہ علیہ نے ۷۲۶ ھ۔ق۔ میں وفات پائی ان كا مقبرہ بھی حرم كے شمالی حصہ كی نگہبانی كے ایك كمرہ میں ھے۔
3۔ مقدس اردبیلی رحمۃ اللہ علیہا حمدا بن محمد اردبیلی رحمۃ اللہ علیہ، مقدس اردبیلی كے نام سے مشھور ھیں، آپ زہد وتقویٰ كی ضرب المثل سے جانے جاتے ھیں، آپ نجف میں رہتے تھے، شاہ عباس نے بہت اصرار كیا كہ اصفھان تشریف لے آئیں لیكن آپ نے منظور نھیں كیا، ان كے ایران نہ آنے كی وجہ سے نجف اشرف حوزہ علمیہ اصفھان كے مقابلہ میں دوسرا علمی مركز بن گیا، شھید ثانی رحمۃ اللہ علیہ كے فرزنداور ان كے نواسے آپ كے شاگرد تھے، آپ كی وفات ۹۹۳ ھ۔ق۔ میں ھوئی۔ 13ان كی قبر صحن امام علی علیہ السلام كے دیواركے كنارہ ایك كمرہ میں ھے۔
4۔شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہان كا نسب جناب جابر ابن عبداللہ انصاری تك پہنچتا ھے جو رسول خدا (ص) كے بزرگ صحابی تھے، آپ بیس سال كی عمر تك اپنے پدر كے پاس تحصیل علم كرتے رھے اس كے بعد اپنے پدر بزرگوار كے ھمراہ عتبات وعالیات كی زیارت كے لئے تشریف گئے، جب علمائے وقت نے ان كی خداداد صلاحیتوں كا مشاہدہ كیا تو ان كے پدر بزرگوار سے كھا: “ان كو اپنے ساتھ واپس نہ لے جائیں ” شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ كوخا تم الفقھاء والمجتہدین كا لقب دیا گیا ھے، آپ كی دو كتابیں (رسائل اور مكاسب) بہت زیادہ مشھور ھیں، جو آج بھی طلاب علوم دینیہ كو حوزہ علمیہ میں پڑھائی جاتی ھیں، آپ كا زہد وتقویٰ بھی زباں زدخاص وعام ھے، فقہ و اصول میں آپ نے كچھ ایسی جدت پیدا كی جس كی مثال نھیں ملتی، آپ نے۱۲۸۱ ھ۔ق۔ میں نجف اشرف میں وفات پائی۔ 14ان كی قبر باب قبلہ كی طرف نگہبانی كے دالان كے ایك كمرہ میں ھے ۔
5۔ آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہملا محمد كاظم خراسانی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۵۵ ھ۔ق۔ مشہد مقدس میں پیدا ھوئے ان كا شمار كامیاب ترین مدرسین میں ھوتا ھے، تقریباََ۱۲۰۰/شاگرد آپ كے محضر مبارك میں علوم اسلامی كا حاصل كرتے تھے، قابل غور بات یہ ھے كہ ان میں ۲۰۰/ افراد خود مجتہدتھے، عصر حاضر كے فقھاء جیسے ابوالحسن اصفھانی رحمۃ اللہ علیہ، محمد حسن اصفھانی رحمۃ اللہ علیہ، آقا حسین بروجردی رحمۃ اللہ علیہ، آقاحسین قمی رحمۃ اللہ علیہ، آقاضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ، سب آپ كے شاگردھیں، البتہ آپ زیادہ تر علم اصول میں مشھور تھے، آپ كی كتاب” كفایة الاصول” بہت معروف ھے۔15رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۲۹ ھ۔ق۔ كو نجف اشرف میں انتقال ھوا آپ كی قبر مقبرہ جنوب میں باب الذہب كے دالان میں واقع ھے، اور آپ ھی كے بغل میں مشھور فقیہ میرزا حبیب اللہ رشتی رحمۃ اللہ علیہ اور سید ابوالحسن اصفھانی رحمۃ اللہ علیہ بھی دفن ھیں ۔
6۔ آیة اللہ بہبھانی رحمۃ اللہ علیہمحمد باقرابن محمد اكمل بہبھانی رحمۃ اللہ علیہ، جو وحید بہبھانی كے نا م سے جانے جاتے ھیں، آپ نے كربلا كو اپنا مركز بنا لیا تھا، اور وھیں سے بہت سے شاگرد پر وان چڑھائے، سید بحرالعلومرحمۃ اللہ علیہ اور شیخ جعفر كاشف الغطا رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ كے شاگردوں میں شمار ھوتے ھیں ۔16یہ مخالفوں كے ھاتھوں شھید كردئے گئے تھے، ان كی قبر دوسرے مقبرہ میں شمال كی طرف باب سوق میں واقع ھے۔17
7۔ میرزا نائینی رحمۃ اللہ علیہآیة اللہ حاج میرزا حسین نائنی رحمۃ اللہ علیہ چودھویں صدی ہجری كے بزرگ فقھاء واصولین میں شمار ھوتے ھیں، آپ كا مزار بھی نجف اشرف میں حرم كے قریب جنوبی سمت میں واقع ھے۔
8۔ آرامگاہ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہابو جعفر شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ (بانی ٴحوزئہ علمیہ نجف اشرف كے) شھر طوس (خراسان) میں ۳۸۵ھ۔ق۔ میں پیدا ھوئے، آپ” كتب اربعہ” میں دو كتا بوں كے موٴلف ھیں، بچپن سے جوانی تك كا زمانہ گھریلوں تعلیم وتربیت میں گزرا، پھر آپ بغداد پہنچے جھاں محلہ كرخ میں مسجد نقطویہ نحوی میں اصول كافی كا درس ھوتا تھا، یوں تو شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے كتنے ھی بزرگ اساتیدكے سامنے زانوئے ادب تہ كیا، لیكن شیخ مفیدرحمۃ اللہ علیہ اور سید مرتضیٰرحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے زیادہ علمی استفادہ كیا، ایك مرتبہ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ كی درس گاہ اور ان كا سارا سامان بغدادمیں جلا دیاگیا، وھاں سے شیعہ خوف وھراس كے عالم میں ترك سكونت كرنے لگے آخر كار۴۴۸ھ۔ق۔ میں شیخ بھی تنگ آكر نجف اشرف منتقل ھوگئے، اور۲۲ رجب ۴۶۰ ھ كو پچھتر ۷۵ سال كی عمر میں انتقال فرمایا اور اپنے ھی مكان میں دفن ھو ئے ۔یوں تو شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ھر موضوع پر كتابیں لكھیں جن كی تعداد سیكڑوں میں ھے لیكن”تہذیب” اور”استبصار” آپ كی مھم تصانیف ھیں ۔ ۱)
9۔ آقا سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہجناب آیة اللہ العظمیٰ سید ابولقاسم الخوئی كی ولادت، ۱۵ رجب المرجب ۱۳۱۷ء ھ كو شھرخوئی(آذربائیجان ایران) میں ھوئی، آپ اپنے والد محترم كے ھمراہ ۱۳۳۰ھ۔ق۔ میں نجف اشرف روانہ ھوئے اوراسی شھر كو اپنا مسكن بنالیا پھر یھاں حصول علم كی خاطر میر زا نائینی اور محقق اصفھانی جیسے جید علماء اور اساتید كے سامنے زانوئے ادب تہہ كیااور آخر كار مرحوم آیة اللہ محسن حكیم كے بعد ایك مرجع كی صورت میں عالم اسلام كے سامنے خود كو پیش كیا۔آیة اللہ شھید محمد باقر صدر رحمۃ اللہ علیہ، آیة اللہ محمد تقی بہجت، علامہ محمد تقی جعفری، آیة اللہ شیخ كاظم تبریزی، آیةاللہ شیخ مرتضیٰ نجفی، آیة اللہ شیخ حسن صافی اصفھانی آپ كے شاگردوں میں شمار ھوتے ھیں ۔آپ كی تالیف كردہ كتابوں میں “البیان فی تفسیر القر آن” ، “رسالہٴ لباس مشكوك” ، “منھاج الصالحین” اور “معجم رجال الحدیث” بہت زیادہ معروف ھیں ۔آقائی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے سات صفر ۱۴۱۳ھ۔ق۔ میں وفات پائی، نجف اشرف میں حرم امام علی علیہ السلام كے میں آپ كی قبر واقع ھے۔اس كے علاوہ اور كئی علماء كی قبریں صحن امام علی علیہ السلام یا اطراف حرم میں موجود ھیں، ان بزرگان اور علماء میں سید ابوالحسن اصفھانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ محمد حسن آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ، سید محمد شاھرودی رحمۃ اللہ علیہ، حاج آقا حسین قمی رحمۃ اللہ علیہ، اور آقاضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شامل ھیں ۔
مسجد شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہاس مسجد میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نماز جماعت پڑھایا كرتے تھے اور درس بھی اسی مسجد میں دیا كرتے تھے ۔
مقام حضرت زین العابدین علیہ السلامجب چوتھے امام علیہ السلام اپنے جد كی زیارت كے لئے نجف آئے تو آپ نے اس مسجد میں نماز پڑھی آج بھی یہ مقام نجف اشرف كے مغرب میں واقع ھے۔
مسجد ہندییہ مسجد، مسجد ہندی كے نام سے جانی جاتی ھے اوریہ نجف كی بزرگ ترین مساجد میں شماھوتی ھے، اور حرم مبارك مولا علی علیہ السلام كے نزدیك واقع ھے اس مسجد كے بارے میں نقل كیا گیا ھے كہ جب اس كا سنگ بنیاد ركھا جارھا تھا تو یہ شرط لگائی گئی كہ وہ شخص اس كا سنگ بنیاد ركھے گا، جو كبھی بھی حالت جنابت میں نہ سویا ھو، اور نہ ھی اس كی نماز شب كبھی قضا ھوئی ھو، اس وقت فقط اس شخص كے علاوہ كوئی دوسرا ان شرائط پر نہ ا تر سكا لہٰذا اس بزرگ كے دست مبارك سے مسجد كا سنگ بنیاد ركھا گیا اور انھیں كے نام سے اس مسجد كے نام كو منسوب كردیا گیا ۔________________________________________1.بحارالانوار ماخوذاز”عتبات عالیات”نجف اشرف۔2.تاریخ شیعیان علی3.یہ ایك امام علیہ السلام كے زیارت كرنے كا طریقہ ھے، لہٰذا ھمیں بھی اس سنت پر عمل كرنا چاہئے۔4.مفاتیح الجنان “باب زیارت امیرالمومنین علیہ السلام ۔5.خاندان عصمت “امام علی علیہ السلام۔.6مفاتیح الجنان”۔ باب زیارت امیرالمومنین علیہ السلام ۔.7عتبات عالیات نجف اشرف۔8 . رسالہٴ توحید”ج ۸، شمارہ ۳ ۔9 . رسالہٴ توحید”ج ۸، شمارہ ۳ ۔10 . عتبات عالیات “نجف اشرف۔11.علم فقہ “شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔12.علم فقہ “شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔13.علم فقہ “شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔14.علم فقہ “شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔15.علم فقہ “شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔16.علم فقہ” شھید مطہری رحمۃ اللہ علیہ ۔17.عتبات عالیات”نجف اشرف۔