امام محمد باقر عليہ السلام کي سيرت کے نکات
دلوں ميں محبت:امام محمد باقر(ع) اپني تمام تر عظمتِ علمي اور خدائي طاقت کے باوجود، جو کہ پروردگار نے آپ (ع) کو عطا کي تھي، متواضع ترين انسان تھے۔ جس شخص کي عظمت اور مقام کي بلندي ظالم حکمرانوں کو بھي تعريف و تحسين پر مجبور کر ديتي ہو، وہ اپني روزمرہ کي زندگي ميں سب سے زيادہ منکسر المزاج اور مخلوق کے ساتھ سب سے بڑھ کر مہربان اور نزديک تھا۔ وہ مشکل کاموں ميں اپنے غلاموں کي مدد کيا کرتے، اپنے کھيتوں ميں مزدوري کرتے اور اپني محنت کي کمائي کو ضرورت مندوں ميں تقسيم اور شيعوں کي مشکلات کو دور کرنے ميں خرچ کر ديتے تھے۔ آپ(ع) کي مہرباني، انکساري اور خوش اخلاقي سے شيعوں کي رغبت ميں زيادتي، دوستوں کي محبت ميں فزوني اور دلوں ميں نفوذِ اسلام کا سبب بنتي تھي، يہاں تک کہ دشمنوں کي دشمني اور مکارياں بھي دلوں ميں موجود آپ(ع) کي محبت ميں ذرہ برابر کمي کا باعث نہيں بن پاتي تھيں۔باسعادت ہيں وہ لوگ جو جنہوں نے ہدايت پانے کے لئے آپ (ع) کا انتخاب کيا اور آپ (ع) کي پيروي ميں قدم بڑھائے!
کرنيں بکھيرتا سورج:آسمانِ امامت کے پانچويں ستارے، خليفہ وقت، ہشام بن عبد الملک کے حکم پر گرفتار ہوکر قيد ہوئے۔ آپ کے وجود کي کرنيں نہ ہشام کي جاہلانہ ملامتوں سے تاريک ہو سکتي تھيں اور نہ قيدخانے کي ديواريں ان کرنوں کو روشني بکھيرنے سے روک سکتي تھيں۔ آپ(ع) کا نور دوسرے قيديوں اور قيدخانے کے افسروں کو بھي روشني کي کرن دکھا ديتا تھا يہاں تک کہ قيدخانے کے تمام ساتھي آپ(ع) کے ديوانے ہوجاتے تھے۔ يہ خبر ہشام تک پہنچي تو اس نے مجبوراً بے بسي کا اظہار کر ديا اور حکم ديا کہ آپ(ع) کو عزت و احترام کے ساتھ مدينے واپس پہنچا ديا جائے۔سلام و درودِ خدا ہو خاندانِ عصمت و طہارت کے روشن سورج، حضرت امام محمد باقر عليہ السلام پر!
امام(ع) کي عمومي مرجعيت
اس زمانے کے تمام سياہ دل اور شيطان صفت دشمنوں کي پھيلائي ہوئي تاريکي کے باوجود آپ(ع) کا وجودِ ذي جود اس طرح نور پھيلاتا تھا کہ کوئي اس کا انکار نہيں کر سکتا تھا۔ اہلسنت کے بزرگ عالم، ذہبي، آپ (ع) کے بارے ميں کہتے ہيں:”وہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے علم و عمل، بزرگي و عظمت اور وثاقت و متانت کو اپنے اندر جمع کر ليا تھا اور خلافت کے لئے اہل تھے۔‘‘نيز ايک اور بزرگ عالمِ اہلسنت، ابوزہرہ، امام (ع) کي مرجعيت عمومي کے بارے ميں کہتے ہيں:”امام باقر(ع) امامت اور ہدايت ميں وارثِ امام سجاد (ع) تھے۔ اسي لئے، سرزمينِ اسلام کے تمام خطوں سے لوگ آپ کے حضور شرفياب ہوتے اور جو کوئي بھي مدينہ آتا وہ آپ(ع) کي خدمت ميں ضرور پہنچتا اور آپ (ع) کے علم کے سمندر سے استفادہ کرتا تھا۔‘‘
امام باقر(ع) کي فعاليت
تاريکي ميں روشني کا مينار:پہلي صدي ہجري کے اختتام اور کشورکشائي کے آغاز کے ساتھ مسلمانوں کي اسلام سے بے خبري اپنے عروج تک پہنچ گئي تھي۔ جنگي امور اور مالي معاملات نے لوگوں کو علمي و تہذيبي فعاليت اور ديني تربيت سے غافل کر ديا تھا۔ بعض تاريخيں تو يہ تک بتاتي ہيں کہ بہت سے لوگ تو نماز اور حج بجا لانے کے صحيح طريقے سے بھي واقف نہيں تھے۔ ٹھيک اسي زمانے ميں امام باقر (ع) نے دربارِ خلافت کي کمزوري سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو جہالت کي تاريکيوں سے نکالا اور علمي و فرہنگي مکتب کي بنياديں رکھنا شروع کرديں جسے آپ (ع) کے بعد آپ (ع) کے فرزند، امام صادق(ع) نے عظيم يونيورسٹي ميں تبديل کر ديا اور عظيم دانشوروں کي تربيت ہونے لگي۔
سياسي اور فرہنگي سرگرمياں:پہلي صدي ہجري کے آخري برسوں ميں امام باقر (ع) کي علمي کاوشيں دنيائے اسلام کے لئے حياتِ نو کي نويد تھيں۔ اس زمانے کے سياسي حالات امام(ع) کو يہ موقع فراہم کرتے تھے کہ آپ (ع) علومِ اہلبيت (ع) کے فروغ کے لئے جدوجہد کريں۔ جو روايات آج ہمارے پاس ہيں، ان کا ايک بڑا حصہ آپ(ع) ہي سے منقول ہے۔ تاريخ ميں يہاں تک مرقوم ہے کہ: ”امام حسن(ع) اور امام حسين (ع) کي اولاد ميں تفسير، کلام، فتويٰ اور حلال و حرام کے احکام کے بارے ميںجو روايات آپ (ع) سے نقل ہوئي ہيں، وہ کسي اور سے صادر نہيں ہوئيں۔‘‘ علومِ اسلامي کا يہ جامع اور کامل مجموعہ ايسي مضبوط بنيادوں پر استوار ہے جس پر مکتبِ تشيع کي وسيع و مستحکم اور ہر مکتبِ فکر سے بے نياز عمارت تعمير ہوئي ہے۔سلام و درود خدا ہو اس چراغ پر جو تمام انسانوں کے لئے باعثِ ہدايت ہے!
فقہِ تشيع کے موسس:رسولِ خدا۰ کي وفات کے بعد پہلي صدي ہجري کے آخر تک تدوينِ حديث پر پابندي کے سبب احکامِ فقہي گوشہ گير اور عوام الناس احکامِ دين سے غافل ہوگئے تھے۔ آخرکار امام محمد باقر (ع) کے ہم عصر خليفہ، عمر بن عبد العزيز نے احاديث لکھنے کا حکم ديا جس کے بعد تقريباً سو سال پہلے فراموش ہو جانے والي احاديث مختلف راويوں کے ذريعے لکھي جانے لگيں۔ اس عمل نے سوسائٹي ميں فقہي اختلافات کا طوفان برپا کر ديا اور معاشرہ حيران و سرگرداں ہو گيا۔ يہي وہ موقع تھا جب امت اسلامي کي کشتي کے ناخدا، حضرت امام محمد باقر (ع) نے اپني الہي ہدايت کا اظہار کيا۔ آپ(ع) نے، جو کہ مکتبِ اہلبيت (ع) کے نمائندے اور شيعہ فقہ کے اولين موسس تھے، اپنے اجداد کي درست روايات کو بيان کر کے مکتبِ تشيع کي فقہ کي بنياد ڈالي۔۔ ايک ايسا بھرپور مکتب کہ جو دينِ مبين اسلام کا جامع اور کامل دستور العمل اور انساني زندگي کے لئے مکمل رہنما ہے۔
غلو کا مقابلہ:پہلي صدي ہجري کے اواخر ميں مقامِ امامت کے حوالے سے لوگوں کا اندازِ فکر شديد اختلافات کا شکار ہو گيا تھا۔ ايک جانب سے کچھ لوگ خلافت کو بنواميہ کا حق سمجھتے تھے اور مقامِ عصمت سے يکسر غافل تھے تو دوسري جانب سے کچھ لوگ ايسے بھي تھے جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے مقامِ امامت کے بارے ميں غلو سے کام لينے لگے تھے۔ يہ لوگ معرفت امام کا نام لے کر اپنے آپ کو اسلامي ذمہ داريوں سے بري الذمہ سمجھنے لگتے تھے اور کاميابي کے لئے امام کي شناخت کو کافي سمجھتے تھے۔ امام محمد باقر (ع) ائمہ کرام کے مقامِ عصمت پر تاکيد کرتے ہوئے عملِ صالح کي بھي تلقين کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”ہمارے شيعہ وہ ہيں جو ہماري، ہمارے آثار کي اور ہمارے اعمال کي پيروي کرتے ہيں۔‘‘ مضبوط ايمان کے ساتھ ساتھ شيعوں کو عمل کي جانب راغب کرنے کے لئے امام (ع) کي يہ تاکيد‘ ان تمام فرقوں کے مقابلے ميں امام (ع) کا اہم اقدام تھا جو عمل کے لئے کسي اہميت کے قائل نہ تھے اور شناختِ امام کو اپني سستي اور غفلت پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
حقيقت کي جانب رہنمائي:اس پُرفريب دنيا ميں اور انسان کي نيند ميں ڈوبي آنکھوں اور غفلت ميں پڑے دلوں کو صرف آپ(ع) کے کلام کا نور ہي راستہ دکھا سکتا ہے اور غفلت کے پردو ںکو چاک کر سکتا ہے۔ اے باقر العلوم (ع)! آپ کتني خوبصورتي کے ساتھ حقيقت کي جانب‘ جيسي کہ وہ ہے‘ رہنمائي کرتے ہيں۔ جابر جُعفي کس طرح پياسے کي مانند آپ (ع) کے کلام سے سيراب ہوتے ہيں، جب آپ (ع) زبانِ مبارک سے فرماتے ہيں:”اے جابر! آخرت، رہنے کي جگہ اور دنيا مقامِ فنا ہے۔ اہلِ دنيا غافل ہيں اور صاحبانِ ايمان عالم، ذاکر اور عبرت حاصل کرنے والے۔ مومنين جو باتيں اپنے کانوں سے سنتے ہيں، وہ انہيں يادِ خدا سے روکتي نہيں، اور دنيا کي جتني نعمتيں اپني آنکھوں سے ديکھتے ہيں، وہ انہيں يادِ خدا سے غافل نہيں کرتيں۔ لہذا وہ آخرت ميں ثواب اور دنيا ميں علم سے بہرہ مند ہوتے ہيں۔‘‘غلو کرنے والوں کي مذمت:امام محمد باقر(ع) غلو کرنے والوں کو‘ جو کہ معرفتِ امام و محبِ امام ہونے کو ہي نجات کے لئے کافي سمجھتے تھے، خود سے دور کر ديتے تھے اور فرماتے تھے:”خدا سے ڈرو، اور اس کے احکامات پر عمل کرو تاکہ ثواب حاصل کر سکو۔ بے شک خدا اور اس کي کسي مخلوق کے درميان کوئي رشتہ داري نہيں ہے اور خدا کے نزديک اس کے بندوں ميں سے محبوب ترين وہ ہے جو خدا کي حرام کي ہوئي چيزوں سے زيادہ پرہيز کرے اور اطاعت الہي ميں علم کو زيادہ سے زيادہ بڑھائے۔‘‘کلامِ نور کي کرنيں:٭ اے جابر! ميں تمہيں پانچ کاموں کي وصيت کرتا ہوں: اگر تم پر ظلم کيا جائے تو (جواباً) ظلم نہ کرو؛ اگر تمہارے ساتھ خيانت کي جائے تو خيانت نہ کرو؛ اگر تمہيں جھٹلايا جائے تو غضب نہ کرو۔ اگر تمہيں سراہا جائے تو خوش نہ ہو اور اگر تمہاري مذمت کي جائے تو ناراض نہ ہو۔٭ اے جابر! بدن کے آرام کو دل کے سکون ميں تلاش کرو اور دل کے سکون کو خطاوں ميں کمي کرکے۔٭ آرزووں کي رسي کو چھوٹا کر کے دنيا سے اپنا زادِراہ حاصل کرلو۔٭ کم روزي کو زيادہ اور زيادہ اطاعت کو کم جان کر اللہ کا شکر کرو۔٭ دنيا کے مال کو ايسا مال سمجھو جسے تم نے خواب ميں حاصل کيا ہو اور جب بيدار ہوگے تو اس ميں سے تمہارے پاس کچھ بھي نہ ہوگا۔