ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل
ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھپیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھنبی اکرم نور مجسم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ نوجوان ان کے اشاروں پر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو تکلیف اور ایذاء پہنچاتے تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹانے والے نوجوان ہی تھے جو بڑوں کے اشاروں پر عاشق رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کو ستا رہے تھے۔لیکن دوسری طرف رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں کی لسٹ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی 10 سال کا، کوئی 18 سال کا، کوئی 20 سال کا تھا۔ زیادہ سے زیادہ تیس یا پینتیس سال کی عمر کے تھے جو اسلام پر ثابت قدم رہے اور رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا ساتھ دیکر ایک ایسا عظیم انقلاب لائے جو صدیوں تک قائم رہا۔ جس کا اثر آج بھی ہے اور قیامت تک اس کا اثر جاری رہے گا۔ آئیں تو رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ساتھیوں پر ایک نظر ڈالیں جنہوں نے حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت دل و جان سے کی اور ہمیشہ اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا رہے۔
پہلا نوجوان جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔ جب آقائے نامدار احمد مختار صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کلمہ شہادت پڑھنے کی دعوت دی تو تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کلمہ پڑھ کر غلامان مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل ہو گئے۔ آگے چل کر بڑے بڑے کافروں کو شکستیں دیں۔ اسداللہ (شیر خدا) اور فاتح خیبر جیسے القاب حاصل کیے۔ الغرض ماضی کا نوجوان حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت میں بے مثال تھا، اگر انہیں اطاعت کا پیکر کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔اس کا ادنیٰ مثال ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ جن راہوں سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم گذرتے تھے تو وہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے، ان راہوں پر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ سبحان اللہ اس حد تک اطاعت تھی، لیکن افسوس کہ آج ملت اسلامیہ کا نوجوان مختلف نظر آتا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی بڑی سنتوں کا تارک بلکہ فرضوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ آج کے مسلم نوجوان نے نظریاتی طرح نہیں بلکہ عملی طرح بھی حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے۔ اگر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھ کر کھانے پینے کا حکم فرمایا ہے تو مسلم نوجوان کھڑے ہو کر کھاتے پیتے ہیں، اگر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں جیسی وضع قطع بنانے سے منع فرمایا ہے تو آج کا مسلم نوجوان غیروں کی تقلید پر فخر کرتا ہے، اگر کوئی انہیں منع کرتا ہے تو اسے تنگ نظر وغیرہ کے القاب دے دیتے ہیں، کہتے ہیں لوگ آسمانوں پر پہنچ گئے آپ ہمیں زمین پر چلنے نہیں دیں گے اور خود کو ترقی کی راہ پر گامزن تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا ہے “مسلمان نے فرنگی بن کر ترقی کی تو یہ فرنگی کی ترقی ہے مسلمان کی نہیں۔”ماضی کے مسلم نوجوان جذبہ سے سرشار صبر و استقامت کے پیکر تھے۔ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز اسلام اور اسلام کا لانے والا تھا۔ ایسے مسلم نوجوانوں میں سے دو کمسن بھائی معوذ و معاذ رضی اللہ عنہما مشہور ہیں جنہوں نے حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے دشمن ابوجہل کو جہنم رسید کیا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار عقبہ بن نافع نے آفریقہ کا علاقہ فتح کیا حالانکہ خشکی ختم ہوگئی۔ اسپین میں نوجوان سپہ سالار طارق بن زیاد نے مٹھی بھر مجاہدوں سے لاکھوں کے لشکر کو شکست دی۔19 سالہ نوجوان محمد بن قاسم نے سندھ کا علاقہ اس وقت فتح کیا جس وقت یہاں جہالت عروج پر تھی۔ جہالت کے دور میں مسلم نوجوان کرنوں کی طرح چمکے، اسپین میں علم کی روشنی پہنچی اور سندھ کو امن اور سلامتی والا مذہب ملا اور اسے ”باب الاسلام” کا شرف حاصل ہوا۔ جب مسلم نوجوان حاکم محمد بن قاسم واپس جانے لگے تو مقامی لوگوں نے آپ کو روکنے کی بڑی کوشش کی۔ جب وہ واپس ہونے لگے تو لاکھوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ ان مسلم نوجوانوں نے اپنے حسن اخلاق اور بے داغ کردار سے لوگوں کے دل موہ لیے۔ ایسے نوجوان ہی مسلمان کہلوانے کے حقدار تھے جو اخلاق وکردار میں، معرکہ تیغ و تلوار میں اور عشق و اطاعت احمد مختار صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے آگے تھے۔ لیکن آج کا مسلم نوجوان اسکے برعکس ہے۔ بزرگوں کی وہ آنکھیں جو ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی جدائی میں اشک بار ہوتی تھیں وہ آج مسلم نوجوان کے گرے ہوئے اخلاق، مذہبی اور معاشی حالات پر روتی ہیں۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کاجگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیںیقینا ہر کوئی چاہتا ہے کہ ہم خود بھی اور ہماری اولاد عزیز و اقارب بھی نیک بن جائیں، کوشش کرنے کے باوجود یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ جوہر اور قوت ہمارے اندر نہیں جس سے دوسرے متاثر ہوں۔ وہ قوت اللہ تعالیٰ نے اپنے صادقین بندوں میں رکھی ہے جن کی صحبت میں آنے والے اور نگاہ کرم کے سامنے بیٹھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں خصوصا ایمان والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ”یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُو اللہ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔”اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور ساتھ رہو صادقین کے۔یہ صادقین جن کو ولی اللہ بھی کہا جاتا ہے ان کی صحبت کی فضیلت میں مولانا رومی نے فرمایا
یک زمانہ صحبت با اولیاءبہتر ازصد سالہ طاعت بے ریایعنی ایک ساعت اللہ کے دوست کی صحبت سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہے۔ اسی صحبت کی ہم سب کو اشد ضرورت ہے بلکہ طلباء کے لیے تو خصوصی طرح نہایت ہی ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا
نہ شامل درس میں ہو نور فیضان نظر جب تکفقط تدریس کرسکتی نہیں اہل نظر پیدا
غالبا مولانا اکبر اللہ آبادی نے بھی فرمایا
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدادین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا