احادیث کی رو سےآخرالزمان میں دینداری کا ہاتھ میں آگ پکڑنے کی مانند ہونا
آخری زمانے میں دینداری نہایت سخت ہونے کے حوالے سے مختلف نکات کی طرف اشارہ کیاجاسکتاہے جن میں سے اہم ترین مندرجہ ذیل دوسبب ہوسکتے ہیں:
الف): وظیفہ کی تشخیص: ایک متدین شخص کاوظیفہ یہ ہے کہ اپنے دینی فرائض کو اچھی طرح پہچان کر ان پر عمل کرے ۔امام کے لوگوں میں حضور کے وقت، وظیفہ کی تشخیص آسان ہے کیونکہ کوئی بھی شخص امام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا وظیفہ معین کرسکتا ہے،لیکن غیبت کے دور میں یہ مسئلہ مکمل طور پر شیعوں کے ذمہ ہے۔ لہذا واضح سی بات ہے کہ اس دور میں اپنے وظیفہ اوراپنی ذمہ داری کی تشخیص کرنا انتہائی مشکل اور اہم مسئلہ ہے اوراس میں غلطی ہونے کاامکان بھی موجود ہے۔ البتہ ائمہ معصومین علیھم السلام نے اپنے شیعوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے، بلکہ انہوں نے اپنے شیعوں سے فرمایا ہے کہ وہ علما اور فقہاء کی طرف رجوع کریں اوراپنے وظیفہ اورذمہ داری کی تشخیص کے لئے ان سے مدد حاصل کریں، امام زمانہ علیہ السلام سے صادر ہونے والی توقع میں آپؑ نے فرمایا: ‘وامّا الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیھم‘‘ روز مرّہ کے پیش آنے والے واقعات میں ہماری احادیث کے راویوں (علماء اور فقہاء) کی طرف رجوع کرو وہ ہماری طرف سے تم پرحجت ہیں اور میں خداکی طرف سے ان پر حجت ہوں۔( کمال الدین، ج۲، ص۴۵، ح۴.)پس دینداری کی مشکلات میں سے ایک مشکل اپنے وظیفہ کی صحیح تشخیص ہے۔
ب):دنیا کا ظاہر فریب دینے والا ہے: شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آخری زمانے میں دینداری کے سخت ہونے کا اہم ترین سبب اس مادی دنیا کی ثقافتی حالت ہے، ایک طرف عالمی میڈیا اسلام کے ساتھ شدت کے ساتھ برسر پیکار ہے اورمختلف حیلوں ، تحریفات اور انحرافات کے ذریعے اسلام کے چہرے کو خطرناک اور سیاہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے ،وہ یہ کام ایسی مہارت سے کام کررہاہے کہ بعض مسلمان بھی شک و تردید کا شکار ہوجاتے ہیں اوربعض اوقات وہ اپنے دین سے بھی دور ہوجاتے ہیں ۔دوسری طرف دنیا کے ظواہر کو بہت زیادہ زیبا اورخوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں اورمختلف قسم کی برائیوں کو معاشرے میں اس طرح رائج کرتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی نفسانی خواہشات پرکنٹرول کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے ۔اخلاقی اورمعاشی برائیوں کا بازار اس قدر گرم کرتے ہیں کہ بعض لوگ تمام چیزیں حتی کہ انسانیت کوبھی فراموش کردیتے ہیں اوروہ ماڈرن حیوان کی بات کرتے ہیں اوران کا عقیدہ ہے کہ انسان بھی حیوانات کی ایک قسم ہے،یہ بات واضح ہے کہ اس موجودہ دنیا کی آشکار برائیوں کے مقابلے میں دین دار کےلیے معنویت کی حفاظت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
البتہ اگرچہ اس برائیوں اورظلم وفساد سے بھرئی ہوئی دنیا میں دین کا حفظ کرنا اور اپنی ذمہ داری کی تشخیص دینا بہت دشوار کام ہے ،لیکن اس دور کے مؤمن اوردیندار انسانوں کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، پیغمبرگرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ہے کہ آپ (ص)نے فرمایا: عنقریب تمہارے بعد ایک ایسی جماعت آئے گی کہ جس جماعت کے ایک شخص کے عمل کا ثواب تمہارے پچاس افراد کے برابر ہوگا۔اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کے ساتھ جنگ بدر، اُحد،حنین، میں شرکت کی اور قرآن ہمارے درمیان نازل ہواہے ۔‘‘ آنحضرت ؐ نے فرمایا: جو مشکلات ان پر آئیں گے اگرتم پر آئیں تو تم ان کی طرح صبر نہ کرسکتے۔‘‘ ( بحارالانوار،ج۵۲،ص۱۳۰،ح۲۶.)
امیرالمؤمنین نے آخری زمانے کے مؤمنین کے بارے میں فرمایا ہے: آخری زمانے کے مؤمنین ، اوائل اسلام کے مسلمانوں کے عظیم اورنیک کاموں میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘ ( بحار، ج۵۲، ص۱۳۱،ح۳۲.)
اوریہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بھائی قرار دیا ہے اوران سے ملاقات کی آرزوکی ہے۔( بحار،ج۵۲، ص۱۳۳، ح۳۶.)
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں خداوندمتعال نے اپنا اولیاء قرار دیا ہے۔( بحار،ج۵۲، ص۱۴۳، ح۵۹.)
اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے : غیبت کے دور میں صبر کرنے والے کتنے سعادت مند ہیں کہ یہ حزب اللہ ہیں۔ ( بحار،ج۵۲، ص۱۴۳، ص۶۰.)