دنیا حضرت علی (ع) کي نگاه میں

220

دنیا کے بارے میں آپ نے فرمایا هے:یاد رکھو:اس دنیا کا سر چشمه گنده اور اس کا گھاٹ گندھلاهے،اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا هے لیکن اندر کے حالات انتهائی درجه خطره ناگ هیں، یه ایک فنا هوجانے والا فریب ،بجھ جانے والی روشنی،ڈھل جانے والاسایه اور ایک گرجانے والاستوں هے.جب اس سے نفرت کرنے والامانوس هوجاتاهے اور اسے براسمجھنے والا مطمئن هوجاتاهے تو یه ایک اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی هے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی هے اور پھر اپنے تیروں کانشانه بنالیتی هے انسان کی گردن میں موت پھنده ڈال دیتی هے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی هے جهاں وه اپنا ٹھکانه دیکھ لیتا هے اور اپنے اعمال کا معارضه حاصل کرلیتاهے اور یوں هی یه سلسله نسلوں میں چلتارهتاهے که اولاد بزرگوں کی جگه پر آجاتی هے نه موت چیردستیوں سے باز آتی هے اور نه آنے والے افراد گناهوں سے باز آتے هیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رهتے هیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتهاء و فنا کی طرف بڑھتے رهتے هیں.(1)دنیا کے بارے میں آپ نے یه بھی ارشاد فرمایا هے:”میں اس دار دنیا کے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتها فناونابودی هے اس کے حلال میں حساب هے اور حرام میں عذاب ،جو اس میں غنی هوجائے وه آزمائشوں میں مبتلا هوجائے.اور جو فقیر هوجائے وه رنجیده وافسرده هوجائے .جو اس کی طرف دوڑلگائے اس کے هاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رهے اس کے پاس حاضر هوجائے جو اس کو ذریعه بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے”.(2)اپنے دور خلافت سے پهلے آپ نے جناب سلمان فارسیؒ کو اپنے ایک خط میں یه بھی تحریر فرمایاتھا .اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی هے جوچھونے میں انتهائی نرم هوتاهے لیکن اس کا زهر انتهائی قاتل هوتاهے اس میں جوچیز اچھی لگے اس سے بھی کناره کشی اختیار کرو.”مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ مَا أَلْيَنَ مَسَّهَا وَ فِي جَوْفِهَا السَّمُّ النَّاقِعُ يَحْذَرُهَا الرَّجُلُ الْعَاقِلُ وَ يَهْوِي إِلَيْهَا الصَّبِيُّ الْجَاهِلُ “(3)که اس میں سے ساتھ جانے والابهت کم هے.اس کے هم وغم کو اپنے سے دور رکھوکه اس اس سے جداهونا یقینی هے اوراس کے حالات بدلتے هی رهتے هیں.اس سے جس وقت زیاده انس محسوس کرو اس وقت زیاده حوشیار رهو که اس کا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سےمطمئن هوجاتاهے تو یه اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی هے اور انس سے نکال کروحشت کے حالات تک پهونپادیتی هے.(4)دنیا کے بارے میں آپ نے یه بھی فرمایا:میں تم لوگوں کو دنیا سے هوشیار کررهاهوں که یه شریں اورشاداب هے لیکن خواهشات میں گھری هوئی هے اپنی جلدمل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی هے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی هے یه امیدوں سے آراسته هے اور دھوکه مزیں هے. نه اس کی خوشی دائمی هے اور نه اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رهنے والا هے یه دھوکه باز،نقصان رساں،بدل جانے والی،فنا هو جانے والی،زوال پذیر اور هلاک هوجانے والی هے.یه لوگوں کوکھابھی جاتی هے اور مٹابھی دیتی هے.جب اس کی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش هوجانے والوں کی خواهشات انتهاء کو پهونچ جاتی هے تو یه بالکل پروردگارکے اس ارشاد کےمطابق هوجاتی هے.> كَماءٍ أَنْزَلْناهُ مِنَ السَّماءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشيماً تَذْرُوهُ الرِّياحُ وَ كانَ اللَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مُقْتَدِرا” < یعنی دنیا کی مثال اس پانی کی جیسی هے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا تو زمین کی روئیدگی اس سے مل جل گئی پھر آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑادیتی ہیں اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے”(5)اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نهیں هوا هے مگر یه که اسے بعد میں آ نسو بها ناپر ے اور کو ئی اس کی خوشی کو آ تے نهیں دیکھتا هے مگر یه که وه مصیبت میں وال کر پیٹھ دکھلادیتی هے اورکهیں راحت وآرام کی هلکی بارش نهیں هوتی هے مگر یه که بلاؤں کا دوگڑاگرنے لگتاهے.اس کی شان هی یه هے که اگر صبح کو کسی طرف سے بد له لیتے آتی هے تو شام هو تے هو تے انجان بن جاتی هے اور اگر ایک طرف سے شیر یں اور خوش گوار نظر آتی هے تو دوسرے رخ سے تلخ اور بلا خیز هوتی هے .کوئی انسان اس کی تازگی سےاپنی خوا هش پوری نهیں کرتا هے مگر یه که اس کے پے در پے مصا ئب کی بنا پر رنج و تعب کا شکار رهو جا تا هےاو کوئی شخص شام کو امن و امان کے پروں پر نهیں رهتا هے مگر یه که صبح هو تے ههو تے خوف کے با لوں پر لا ددیا جاتاهے .یه دنیا دهو که باز هےاور اس کےاندر جو کچھ هے سب دھو که هے.یه فانی هےاوراس میں جو کچھ هے سب فنا هونےوالا هے.اس کےکسی زادر اه میں کوئی خیر نهیں هے سوائے تقویٰ کے .اس میں سے جوکم حاصل کرتاهے اسی کو راحت زیاده نصیب هوتی هے اور جوزیاده کے چکڑ میں پڑجاتا هے اس کے مهلکات بھی زیاده هوجاتے هیں اور یه بهت جلد اس سے الگ هوجاتی هے.کتنے اس پر اعتبار کرنے والے هیں جنهیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیاگیا او رکتنے اس پر اطمینان کرنے والے هیں جنهیں هلاک کردیاگیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنهیں ذلیل بنادیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنهیں حقارت کے ساتھ پلٹادیاگیا. اس کی بادشاهی پلٹاکھانے والی.اس کا عیش مکدر -اس کا شریں شور- اس کامیٹھاکڑوا.اس کی غذازهر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیده هیں.اس کازنده معرض هلاکت میں هے اور اس کا صحت مندبیماریوں کی زوپرهے.اس کا ملک چھننے والاهے اور اس کا صاحب عزت مغلوب هونے والاهے.اس کا ملدار بدبختیوں کا شکارهونے والاهے اور اس کا همسایه لٹنے ولاهے .کیاتم انهیں کے گھروں میں نهیں هوجوتم سے پهلے طویل عمر،پائیدارآثار اور دوررس امیدوںوالے تھے .بے پناه سامان مهیاکیا،بڑےبڑےلشکرتیار کئے اورجی بھر کر دنیا کی پرستش کی اور اسے هرچیزپرمقدم رکھالیکن اس کے بعد بویں روانه هوگئے که نه منزل تک پهونچانے والا زادراه ساتھ اورنه راسته طے کرانے والی سواری .کیا تم تک کوئی خیر پهونچی هے که اس دنیانے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیه پیش کیاهویاان کی کوئی مدد کی هو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزارهو.؟بلکه اس نے توان پر مصیبتوں کے پهاڑتوڑے،آفتوں سے انهیں عاجز ودرمانده کردیا اورلوٹ لوٹ کرآنے والی زحمتوں سے انهیں جھنجھور کررکھ دیا اور ناک کے بل انهیں خاک کےبل پرپچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچل ڈالا،اور ان کے خلاف زمانه کے حوادث کاهاتھ بٹایا.تم نے تودیکھاهے که جوذرادنیا کی طرف جھکااور اسے اختیار کیا اور سے لپٹا،تو اس نے( اپنے تیوربدل کر ان سے کیسی)اجنبیت اختیار کرلی.یهاں تک که وه همیشه همیشه کے لئے اس سے جدا هوکرچل دیئے ،اور اس نے انهیں بھوک کے سواکچھ زادراه نه دیا،اور ایک تنگ جگه کے سواکوئی ٹھهرنے کاسامان نه کیا،اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نه دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجه نه دیا،توکیاتم اسی دنیاکو ترجیح دیتے هو،یا اسی پر مطمئن هوگئے هو یا اسی پر مرے جارهے هو؟ جود نیاپر بے اعتماد نه رهے اور اس میں بے خوف و خطرهوکررهے اس کے لئے یه بهت بڑاگھرهے.جان لو اور حقیقت میں تم جانتے هی هو،که(ایک نه ایک دن)تمهیں دنیاکوچھوڑناهے،اوریهاں سے کوچ کرناهے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جوکها کرتے تھے که”هم سے زیاده قوت وطاقت میں کون هے.”انهیں لادکرقبروں تک پهونچایاگیامگراس طرح نهیں که انهیں سوار سمجھاجائے انهیں قبروں میں اتاردیاگیا،مگر وه مهمان نهیں کهلاتے پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پرڈال دئے گئے اورگلی سڑی هڈیوں کوان کا همسایه بنادیاگیا هے.وه ایسےهمسایه هیں جوپکارنے والے کو جواب نهیں دیتے هیں اور نه زیادتیوں کوروک سکتے هیں اور نه رونے دھونے والوں کی پرواکرتے هیں .اگربادل (جھوم کر) ان پربرسیں،توخوش نهیں هوتے اورقحط آئے توان پرمایوسی نهیں چھاجاتی.وه ایک جگه هیں مگر الگ الگ ،وه آپس میں همسایه هیں مگردوردور،پاس پاس هیں مگر میل ملاقات نهیں قریب قریب هیں مگر ایک دوسرے کے پاس نهیں پھنگتے وه بردبار بنے هوئے بے خبر پڑے هیں ،ان کے بغض و عناد ختم هوگئے اورکیسے مٹ گئے.نه ان سے کسی ضررکا اندیشه هے نه کسی تکلیف کے دورکرنے کی توقع هے انهوں نے زمین کے اوپرکا حصه اندر کے حصه سے اورننگے پیراور ننگے بدن پیدا هوئے تھے،ویسے هی زمین میں(پیوند خاک)هوگئے اور اس دنیاسے صرف عمل لے کر همیشه کی زندگی اورسدارهنے والے گھر کی طرف کوچ کرگئے.جیساکه خداوند قدوس نے فرمایاهے :>كَما بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنا إِنَّا كُنَّا فاعِلِين‏<(6)”جس طرح هم نے مخلوقات کو پهلی دفعه پیدا کیا تھا اسی طرح دوباره پیدا کریں گے.اس وعده کا پورا کرنا همارے ذمه هے اور هم اسے پورا کرکے رهیں گے”آپ نے یه بھی ارشاد فرمایا:”وَ أُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا دَارُ قُلْعَةٍ وَ لَيْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ دَارٌ هَانَتْ عَلَى رَبِّهَا فَخَلَطَ خَيْرَهَا بِشَرِّهَا وَ حُلْوَهَا بِمُرِّهَا لَمْ يَرْضَهَا لِأَوْلِيَائِهِ وَ لَمْ يَضِنَّ بِهَا عَلَى أَعْدَائِهِ رُبَّ فِعْلٍ يُصَابُ بِهِ وَقْتُهُ فَيَكُونُ سُنَّةً وَ يَخْطَأُ بِهِ وَقْتُهُ فَيَكُونُ سُبَّةً دَخَلَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ هُوَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوِ اتَّخَذْتَ فِرَاشاً أَوْثَرَ مِنْهُ فَقَالَ مَا لِي وَ لِلدُّنْيَا مَا مَثَلِي وَ مَثَلُ الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ سَارَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ رَاحَ وَ تَرَكَهَا “(7)”میں تمهیں اس دنیا سے هوشیار کررهاهوں که یه کوچ کی جگه هے.آب ودانه کی منزل نهیں هے .یه اپنے دھوکے هی سے آراسته هوگئی هے اور اپنی آرائشی هی سے دھوکادیتی هے.اس کا گھرپروردگارکی نگاه میں بالکل بے ارزش هے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام. خیر کے ساتھ شر،زندگی کےساتھ موت اور شریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا هے اور نه اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیاهے اور نه اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھاهے.اس کا خیربهت کم هے اور اس کا شرهروقت حاضر هے.اس کا جمع کیاهوا ختم هوجانے والاهے اور اس کا مالک چھن جانے والاهے اور اس کےآباد کو ایک دن خراب هوجاناهے.بھلا اس گھر میں کیاخوبی هے جوکمزور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی هے جوزادراه کی طرح ختم هوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن هے جوچلتے پھرتے تمام هوجائے.دیکھو اپنے مطلوبه امور میں فرائض الٰهیه کوبھی شامل کرلواور اسی سے اس کے حق کے اداکرنے کی توفیق کامطالبه کرو اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اس کے که تمهیں بلالیاجائے.”دنیاکے سلسله میں هی فرماتے هیں:”عِبَادَ اللَّهِ أُوصِيكُمْ بِالرَّفْضِ لِهَذِهِ الدُّنْيَا التَّارِكَةِ لَكُمْ وَ إِنْ لَمْ تُحِبُّوا تَرْكَهَا وَ الْمُبْلِيَةِ لِأَجْسَامِكُمْ وَ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ تَجْدِيدَهَا فَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَ مَثَلُهَا كَسَفْرٍ سَلَكُوا سَبِيلًا فَكَأَنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوهُ… ‏”(8)”بندگان خدا !میں تمهیں وصیت کرتاهوں که اس دنیا کوچھوڑ دوجوتمهیں بهرحال چھوڑنے والی هے چاهے تم اس کی جدائی کوپسند نه کرو.وه تمهاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی هے جوکسی راسته پر چلے اور گویا که منزل تک پهونچ گئے. کسی نشان راه کا اراده کیااورگویا که اسے حاصل کرلیا اورکتنا تھوڑاوقفه هوتاهے اس گھوڑادوڑانے والے کے لئے جودوڑاتے هی مقصد تک پهونچ جائے.اس شخص کی بقاهی کیاهے جس کا ایک دن مقررهو جس سے آگے نه بڑھ سکے اورپھرموت تیزرفتاری سے اسے هنکاکرلے جارهی هو یهان تک که بادل ناخواسته دنیاکو چھوڑدے.خبردار دنیاکی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابله نه کرنا اور اس کی زینت ونعمت کوپسند نه کرنا اور اس کی دشواری اورپریشانی سے رنجیده نه هوتاکه اس کی عزت و سربلندی ختم هوجانے والی هے اور اس کی زینت ونعمت کو زوال آجانے والاهے اور اس کی تنگی اورسختی بهرحال ختم هوجانے والی هے.یهاں هر مدت کی ایک انتهائی هے اور هر زنده کے لئے فناهے هے.کیا تمهارےلئے گذشته لوگوں کے آثار میں سامان تنبیه نهیں هے دیکھا هے که جانے والے پلٹ کرنهیں آتے هیں اوربعدمیں آنے والے ره نهیں جاتے هیں؟ کیاتم نهیں دیکھتے هو که اهل دنیا مختلف حالات میں صبح وشام کرتے هیں.کوئی مرده هے جس پرگریه هورهاهے اورکوئی زنده هے تو اسے پرسه دیاجارهاهے .ایک بسترپر کوئی غفلت میں پڑاهواهے توزمانه اس سے غافل نهیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر ره جانے والے چلے جارهے هیں.آگاه هوجاؤ که ابھی موقع هے اسے یاد کرو جولذتوں کوفنا کردینے والی.خواهشات کومکدر کردینےوالی اور امیدوں کو قطع کردینے والی هے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کررهے هو اور الله سے مدد مانگوتاکه اس کےواجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریه ادا کرسکوجن کاشمار کرنا ناممکن هے.”یه زندگی دنیا کا پهلارخ هے چنانچهدنیاکے اس چهر ے کی نشاندهی کرنے کے لئے هم نے روایات کواسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیاهے کیونکه اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑکر اس کے ظاهر پر هی ٹهرجاتے هیں اور ان کی نظر یں باطن تک نهیں پهونچ پاتیں.شاید همیں انهیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سهارے هم ظاهر دنیاسے نکل کر اس کے باطن تک پهونچ جائیں.(جاری هے)

نهج البلاغه مکتوب 2.نهج البلاغه خطبه83.بحارالانوار ج77،ص374.نهج البلاغه،خطبه82.کهف،آیت45.نهج البلاغه خطبه111،انبیاء آیت104.نهج البلاغه خطبه،113.نهج البلاغه خطبه،99.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.