عزاداری کی بقاءکےاسباب وعوامل

179

“….َ إِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَبْرُدُ أَبَدا…”(1)”امام حسین کی شهادت کی بناپر مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت و گرمی پیدا هوگئی هے جوکبھی خاموش ٹھنڈی نهی هوگی.”یقیناَواقعه کربلا کی بقاء کے کچھ غیبی اور الٰهی عوامل واسباب هیں جن کا انکار نهیں کیا جاسکتاهے.واقعه عاشور،اور قیام امام حسین بهت سی ایسی حصوصیات و امتیازات کا حامل هے جو دوسرے واقعات ،قیام اور تحریکوں میں بهت کم نظر آتے هیں ان حصوصیات و امتیازات میں ایک اس واقعه کی بقاء،جاودانی هے جبکه ،ستمگروں،ظالموں،امویوں،عباسیوں اورد وسرے افراد کی ناکام سعی و کوشش رهی هے که عزاداری سیدالشهداء کو مٹادیاجائے ،ختم کردیا جائے اسے فراموش کی نذکر کردیاجائے ،آثار و نشانات قبر کو مٹانے کے درپے رهے،زیارت پر پابندی لگائی گئی مظالم ڈھائے گئے ،مگر تمام کوششوں،پابندیوں اور مظالم کے باوجود واقعه عاشور،اور عزاداری کو بقاء و دوام حاصل هے،انشاء الله طاغوتوں،ستمگروں اور عزائے سیدالشهداءکو مٹانے والوں کا خودهی خاتمه هوتارهے گا.تاریخ کے دامن میں واقعه کربلا کے مانند اور کوئی واقعه نظر نهیں آتاجس کے تکامل بخش آثار ونتائج دنیاکی هرقوم وملت میں نفوذ کرے،یه واقعه ایک نجات بخش تحریک وقیام کے عنوان سے باقی هےاور جیسے جیسے زمانه گزرتا جاتاهے اس کی حقیقت میں نگھار پیدا هوتاجاتاهے اسے همه گیر حیثیت حاصل هوتی جارهی هے نیز حسین کودنیایاد کرتی هے.بقول شاعر:انسان کو بیدار توهولینے دو هرقوم پکارے گی همارے حسینواقعه عاشور،وعزاداری کی بقاء ودوام وجاودانی اسی حدتک پائی جاتی هے که مختلف زبانوں میں اس کے متعلق تالیفات ،تصنیفات اور نظم و نثرکاوجود ملتاهے.ان آثار وتالیفات کو دیکھتے هوئے خلاصه کے طورپر کهاجاسکتاهے که دورحاضر بلکه هرزمانے میں درج ذیل مطالب نے حسینی تحریک و قیام کی بقاء و دوام بخشنے میں اهم کردار اداکیاهے.پروردگار عالم کی مشیت واراده، ایثار و قربانی،سچائی و صداقت،حقانیت،خلوص ،فدا کار ی،شهدائے کربلا کی تاریخی جانثاری،وارثین کے عزم وحوصلے ،سیدالشهداء کےبلند وبالامقاصد واهداف،دوستوں کی سعی و کوشش اور ثناء و مرثیه گوئی وغیره،سیدالشهدا اور انقلاب کربلاکے ثمربخش هونے میں موثررهے هیں هم یهاں بعض اسباب وعوامل پر ایک سرسری نظر ڈالتے هیں.
1-مجالس عزاکی ترغیب اور مقاصد سیدالشهداء کا بیان:حضرت معصومیں علیهم السلام واقعه عاشور،کی یاد کو زنده و جاوید رکھتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے شیعوں،اتبا کرنے والوں اور دستوں کو اس مهم امر کی ترغیب دلاتے تھے که هر سال گریه وزاری؛ ناله وشیون اور آه وبکاء کے ساتھ عزاداری کو قائم و برپاکریں.(1)علماءے دین نے بھی معصوم اماموں کی اتباع و پیروی کرتے هوئے ان کی سیرت کو باقی رکھا هے مجالس عزائے امام حسین کو برپاکرتے هیں،ان کے اهداف و مقاص کو بیان کرتے هیں،اس تهذیب کو دنیاکے گوشه گوشه میں پھلانے کی سعی کرتے رهے هیں نیز شیعوں کو مسلسل اس مقدس امر کو قائم کرنے کی تاکید و سفارش کرتے رهے هیں.امام رضا کاارشاد هے: خدارحمت کرے اس شخص پر جوهمارے امر کو زنده کرے راوی نے سوال کیا کسی طرح آپ کےامر کو زنده کرے؟آپنے فرمایا:” َ رَحِمَ اللَّهُ عَبْداً أَحْيَا أَمْرَنَا قُلْتُ كَيْفَ يُحْيِي أَمْرَكُمْ قَالَ يَتَعَلَّمُ عُلُومَنَا وَ يُعَلِّمُهَا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ كَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا”همارے علوم کو حاصل کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے اس لئے که اگر لوگوں کو همارے کلام کی خوبیاں معلوم هوجائیں گی تو یقیناَهمارا اتباع کریں گے.(2)سیدالشهداء کی مجالس عزا کے بے شمار فوائد وبرکات هیں جبھی تو ایک جرمنی رائڑ(مارتین)منبر حسین کو مسلمانوں کی ترقی وپیشرفت کا مهمترین سبب جاناهے مقاصد وکلمات امام حسین کی بلندی و خوبی هی تو هے جس کی بناپر آج دنیا میں ان کانام رهی هے.
2-شعراء کی تشویق وترغیب اور مرثیه گوئی کا اجر و ثواب(3)ائمه معصومیں علیهم السلام کے پاس اهلبیت علیهم السلام کے بارے میں جب بھی کوئی مرثیه گوشاعر تشریف لاتاتھا تو اس کی تشویق و ترغیب اور دلجوئی کیا کرتے تھے،اس سے سیدالشهدا ء حضرت امام حسین کے متعلق کهے هوئے مرثیه کو اپنے خصور میں پڑھنے کی فرمائیش کیاکرتے تھے.(4)زید شحام کهتے هیں: میں کچھ لوگوں کے ساتھ امام جعفرصادق کی خدمت بابرکت میں بیٹھا هوا تھا که اسی اثنامیں ایک شیعه مرثیه گوشاعر جن کانام جعفرنی عفان طائی وارد هوئے،حضرتنے ان کاشایان شان احترام کیا اور اپنے پاس بٹھاکرفرمایا: میں نے سنا هے که تم نے امام حسینکے بارے مرثیه کهاهے.کیا یه صحیح هے؟.اس نے کها:هاں.آپنے فرمایا: پڑھو اس نے مرثیه پڑھاجس کو سن کراماماور حاضرین نے متاثر هوکر گریه وزاری کیا،حضرتکی آنکھوں سے آنسوبهه کر رخسار پر ٹپکنے لگے،اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے جعفرطائی !خداکی قسم الله کے مقرب فرشتوں نے بھی اس مجلس میں شرکت کی هے اور حضرت سیدالشهدا امام حسین کے بارے میں تمهارے کهے هوئے مرثیه کو سنافرشتوں نے هم لوگوں سے زیاده گریه وبکاء کیاهے.پروردگار عالم نے اس وقت تمهیں بخش دیا اور تم پر جنت واجب کردیا هے،پھرآپ نے فرمایا:جوشخص بھی سیدالشهداء امام حسینکے بارے میں مرثیه کاکوئی ایک کهه که روئے اور رلائے تو پروردگارعالم اسے بخش دیتاهے اور اس پر جنت کوواجب کردیتاهے.(5)به بات قابل ذکر هے که ائمه معصومیں علیهم السلام خودبھی بعض اوقات مرثیه انشاء کرتے تھے اس سلسله میں ملاحظه فرمائیں(6)اور بسااوقات شعراء کی تعظیم و تکریم کے علاوه ،انهیں صله دے کر تشویق و ترغیب اور حوصله افزائی فرمایاکرتے تھے.یهاں پر هم ان میں سے چندنمونے تائید کے طور پر آپکی خدمت میں پیش کرتے هیں جن شعراء کو معصومیں علیهم السلام نے عطیوں اور بخششوں سے نوازاهے،امام محمدباقرنے کمیت اسدی کو عطیه سےنواز، ،امام جعفرصادق نےاشجع سلمی کو هدیه عطا کیا،سیدحمیری کا شکریه اداکیا،اور امام رضانے دعبل خزاعی اور ابراهیم بن عباس کو اجروصله سے سرفرازفرمایا:امام زین العابدین نے فرزدق کو انعام سے نوازا اور کمیت اسدی کے حق میں دعائے خیر فرمائی.یه تمام کی تمام چیزیں اس حقیقت کی حکایت ونشاندهی کرتی هیں نیز پته چلتاهے که ائمه اطهار علیهم السلام اور بزرگان دین شهدائے کربلا کی عزاداری و مجالس عزا کو بهت زیاده،اهمیت دیاکرتے تھے اور یه ان حضرات علیهم السلام کی پاک و پاکیزه سیرت رهی هے.یه اهتمام ،حوصله افزائی ،اجروصله ،تشویق و ترغیب سبب بنی کربلا کے بے نظر واقعه کاذکر اور اس کی یاد و همیشه زنده وباقی رهے نیز سیدالشهداء کااسم گرامی و مشن انقلابیوں کےلئے طاغوتوں ،ظالموں اور ستمگروں کےخلاف بنیادی شعاربنارهے ،پس یهی وجه سے هے دنیا کی مختلف زبانوں میں انقلاب اور ذمه دار شعراء کاوجود نیز ان کی تعداد میں اضافه هوتارهاهے.
3- غم حسین میں رنا رولانا اور اس کا اجر وثواب:حضرت سیدالشهدا امام حسین اور ان کے اعزاء واصحاب کے غم میں آنسوبهانا، رونا اور لانابھی عاشوره،عزاداری اور قیام امام حسینکی جاودانی وبقاء میں نهایت موثر عامل وسبب رهاهے نیز معصومیں علیهم السلام نے اس کے بڑی تاکید فرمائی هے،اهلبیت علیهم السلام سیدالشهدا ء اور ان کے عزاء واصحاب کے غم میں خودبھی گریه وزاری ،آه بکاء کرتے تھے اور دوسروں کوبھی گریه وزاری کی رغبت دلایاکرتے تھے.(7)متعدد روایتوں میں غم سیدالشهداء میں رونے اور رلانے کی سفارشیں کی گئی هے نمونے کے طور پر امام علی رضاکی حدیث ملاحظه فرمائیں جوآپ نے ریان بن شبیب سے فرمایا:اگر تمهیں کسی پر روناآئے تو حسین بن علیپرگریه وبکاء کرو اس لئے که ان کے سرمبارک کوجسم اطهر سے جداکیاگیا هے.(8)یه حدیث مذکوراور اس طرح کی دیگر احادیث مستحکم سبب بنیں که اهلبیت علیهم السلام کے دوستدار اور چاهنے والے سیدالشهداء پرگریه زاری کریں تاکه پروردگار عالم کی رحمت ومغفرت ان کے شامل حال رهیں.اگریه گریه وزاری،آه وبکاء اور تذکرے نه هوتے تو ممکن تھا لوگوں کے ذهنوں سے کربلاکی یاد رفته رفته محوهوجاتی یا اس کی تازگی و دوام میں کمی آجاتی،امام حسینکے مشن اور اس کی عظمت کاپته نه چلتا،لهذا گریه وزاری ،آه و بکاء عزاداری کی بقاء وجاودانی کے موثر عوامل و اسباب میں سے هے.
4-سیدالشهداء کی زیارت کی سفارش اور اس کے اجروثواب:معصوم پیشواؤں نے عزائے سیدالشهداء،عاشوره،اور ان کی یاد کو زنده و تابنده اور باقی رکھنے میں کوئی کسر نهیں اٹھارکھی هے.منجمله عزاداری اور عاشوره کی بقاء کے اسباب میں امام حسینکی زیارت هے،کتابوں کے مطالعه سے زیارت کی اهمیت اور،فضلیت اور اجرو ثواب کاپته چلتاهے،اس سلسله میں کتب مزار،کامل الزیارات اور مفاتیح الجنان وغیره جیسی کتابیں گواه هیں جن کی رواتیوں میں مختلف تعبیروں کے ساتھ ان مطالب کو بیان کیاگیاهے،هم دیکھتے هیں که خوشی یا غم اور دیگر مواقع پر جیسے عیدوں،ایام عزاء،شبهائے قدر،روز عرفه،شب جمعه وغیره،میں زیارت سیدالشهداء کی تاکید ارو سفارش کی گئی هے نیز زیارت کے بے شمار اجروثواب کوبیان کیا گیاهے،اس سے معلوم هوتاهے که اهلبیت علیهم السلام نے اپنے دوستداروں اور چاهنے والوں کو مظلوم کربلا کی زیارت کی تشویق و ترغیب دلاکر واقعه عاشوره ،امام حسیناور ان اعزاء واصحاب کی فداکاریوں وقربانیوں کی یاد کو زنده وجاویدرکھاهے.(9)یه بات بالکل واضح هے که امام حسیناور سیدالشهدائے کربلا کی زیارت عاشور،کی بقاء کے موثرعوامل واسباب میں سے هے.
5-خاک شفا کی عظمت اور اس پر سجده کرنا:کربلا کی خاک کی عظمت وفضیلت اهل مطالعه پر پوشیده نهیں هے اس پر سجده کرنے اور شفاهونے کا تذکره روایات معصومیں علیهم السلام میں ملتاهے،واقعه کربلا قیام امام حسینکی بقاء وجاودانی اور شهدائے کربلاکی یادکو زنده رکھنے کاایک شیوه یه بھی هے که اهلبیت اطهارعلیهم السلام نے خاک شفاپرسجده کرنے کی سفارش کی هے جس میں راه معبود میں توحید باری تعالی ،عشق و محبت الٰهی اور ایثار و فداکاری کی نشانیاں پائی جاتی هیں کیونکه نمازگزارکوسجده کی حالت میں پاک و پاکیزه اور طیب وطاهر ذوات مقدسه کی یاد دلاتی هے،جنهوں نے اپنی جانوں کو پروردگارکی راه میں قربان کردیا هے یه امور انسانوں کے قلوب و اذهان کو واقعه عاشوره سے آشنا و مانوس کرتے هیں نیز اس کی بقاء وجاودانی کاباعث هے اس سے انسان کےدل وجان پر تربیتی و معنوی آثار مترتب هوتے هیں.(10)امام صادقکاارشاد هے:”إِنَّ السُّجُودَ عَلَى تُرْبَةِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع يَخْرِقُ الْحُجُبَ السَّبْعَ”(11)خاک شفاپرسجده هفتگانه نه حجاب کو شگافته کردیتاهے (علامه مجلسی کے بقول نماز قبول هوتی هے اور پروردگارکی بارگاه میں بلندهوتی هے)امام جعفرصادقکاارشاد هے:قبر حسینکی خاک پرسجده زمین کے سات طبقوں کوروشن و منور کردیتاهے اور جوشخص خاک قبر حسینکی تسبیح اپنے پاس رکھے تو اس کے لئے مستحبات کا ثواب لکھاجاتاهے اگرچه وه تسبیح نه پڑھے.(12)مذکوره اسباب وعوامل نے ایک ایسی سنت و سیرت کی بنیاد رکھی هے که جس سے واقعه عاشوره ،سیدالشهداء اور ان کے جانثاروں کانام نامی اور تذکرے همشیه همیشه کے لئے لوگوں کے ذهنوں میں زنده وجاوید اور باقی رهیں،نیز لوگ زمانے کے طاغوتوں،ظالموں اور ستمگروں کے متعلق اپنے وظائف وذمه داریوں کو درک کرتے هوئے مقابله کریں اور مظلوم کربلا کے مشن پر گامزن ره کر هر ظالم وستمگرکو ذلیل ورسوا کرتے رهیں.لهذا اس طرح سے واقعه کربلا لوگوں کے دل و جان میں راسخ هوکر انسانیت کاپیغام دنیاوالوں تک پهونچادیاهے اور ظالموں و ستمگروں کے خلاف انسانوں کو بیدار کردیاهے نیزواقعه عاشوره نے اپنی بقاء وجاودانی سے اسلام کو زنده وپائنده اور شاداب کردیاهے،هم اهلبیت علیهم السلام کے ماننے والوں کی ذمه داری هے که سیدالشهداء اور ان کے باوفااعزاءاصحاب کی زعزاداری برپاکریں تاکه رحمت پروردگار همارے شامل حال رهے اور عزاداری کو معصومیں علیهم السلام،مراجع کرام اور علماء دین کے نقش قدم پر چل کر قائم ودائم رکھیں…………………………….1-تاریخ النیاحة علی الامام الشهید،ص120.2-عیون اخبار رضا،ج1،ص270.3- کامل الزیارت،ص111-114.4-الغدیر،ج2ص193؛عیون اخبار رضا، ص 368؛ امالی شیخ صدوق،ص214.5-بحارالانوار،ج44ص283؛وسائل الشیعه،ج14ص593.6-سفینة البحارج3،ص302،304؛ادب الطفج3، ص300-304وج7،ص620و621.7-بحار الانوار،ج93ص434؛امالی شیخ صدوق، ص112.8-بحارالانوار،ج44،ص101؛عیون اخباررضا،ج1ص299.9-نورالعین فی المشئی الی زیارة الحسین.10-الارض والتربة الحسنیه ،ص32.11-وسائل الشیعه،ج3،ص16حدیث3.12-وسائل ج3،باب16 حدیث1.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.