‘عاشورا ‘وجود ميں آنے كے اسباب

218

عاشورا درحقیقت پاک و پاکیزہ افکار و کردار اور غیروں کے ذریعہ اسیر شدہ دلوں کے درمیان تقابل کا نام ہے۔رسول خدا (ص)ارشاد فرماتے ہیں:”اگر تم اپنے دل کی نگہبانی کرتے اوراس بات کا خیال رکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل کی چراگاہ میں ہر حیوان آکر چرنے لگے تو تم بھی وہی سب کچھ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہی سنتے جو میں سنتا ہوں۔”وہ لوگ جو ہر طرح کی بات سننے کے لئے اپنے کانوں کو تیار رکھتے ہیں وہ در اصل وحی الٰہی اور سنت نبوی سے بیگانہ ہیں اور ان کے اعتقادات کی بنیاداس قدر نازک ہے کہ ایک معمولی نظریہ اور معمولی شبہہ سے منہدم ہو جاتی ہے۔ایسے لوگ وحی خدا کے سامنے اپنے ذہنوں پر تالے ڈال کر اپنے دل کو ہر چرنے والے کے لئے کھول دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پھر نہ تو انکی آنکھیں کام کرتی ہیں اور نہ انکے کان ترنم حق کو سن پاتے ہیں۔آخر کیاان خوش فہموں نے یہ حدیث نہیں سنی کہ کلام معصوم کی صحت کا معیار قرآن کریم ہے۔قرآن کریم سے معصوم کے کلام کو پرکھا جائے ،اگر اسکے خلاف ہوا تو وہ دیوار پر دے مارنے کے لائق ہے؟جب معصوم کے کلام کے لئے قرآن کریم کو معیار منایا گیا ہے تو غیر معصوم کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ ضرورت ہے۔کیا ان لوگوں کے کانوں میں یہ حکایت نہیں پڑی کہ ایک شخص نے اپنے گھر کی چاردیواریوں میں قیدہو کر سالہا قرآن کریم میں غور کرکے اپنے خیال خام میں قرآن کی متناقض آیات کو جمع کیا اور اسکو نشر کرنا چاہااور اپنے اس کام سے اس قدر خوش تھا کہ اپنے میں نہیں سما رہا تھا۔اتفاق سے اسی دوران اسکی ملاقات امام صادق علیہ السلام سے ہوگئی ۔آپ نے اس سے فرمایا:”کیاایسا ممکن نہیں ہے کہ جن آیات کو تم آپس میں متناقض سمجھتے ہو،ان سے خدا کی مراد کچھ اور ہو؟” اسی چھوٹے سے جملے نے اسکو بیدار کر دیا ۔سمجھ گیا کہ اس نے جو ان آیات کو جمع کرنے میں زحمتیں اٹھائیں سب فضول اور شیطانی وسوسوں کا نتیجہ تھیں۔آخر کا ر اس نے اپنی کتاب کو اپنی بیداری کی آگ کے نذر کر دیا۔اس شخص میں آخر کون سی خصوصیت تھی کہ ایک مختصر جملہ اسکی بیداری کے لئے کافی رہ!ورنہ بہتسے ایسے تھے جنہوں نے بہت کچھ معصوم کی زبانی سنا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔جیسے خوارج،اصحاب جمل،شام کے محل نشیں اور غاصبان غدیر۔جو لوگ شک و تردید اور شبہات سے جلد متأثر ہو کر انہیں قبول کر لیا کرتے ہیں ایسے افراد ظاہراً یا باطناًنفاق کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔جس وقت شامی مسلمان رومی طرز تفکر سے آشنا ہوتے ہیں اور رومی سیاست ،ثقافت اور چال چلن شام کے حکومتی کارندوںکے دلوں کو بھانے لگتی ہے تو ایسے میں آخر ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اسلامی اعتقادات اور سیرت نبوی ۖکی پاسبانی کریں؟اشرف خلائق رسول خدا ۖلوگوں کے درمیان خود انہی کی طرح زندگی گزارا کرتے تھے۔آپکا دارالخلافة مسجد ہوا کرتی تھی۔آپکا رویہ اور چال چلن امراء و سلاطین سے بالکل میل نہ کھاتااور ایک حاکم کے سلسلہ میں ذہنوں میں پائے جانے والے تمام افسانوی تصورات کے بالکل برخلاف آپنے اپنا طور طریقہ رکھا۔لیکن سر زمین شام میں کیا ہو رہا ہے؟کیسا رویہ اپنایا جا رہا ہے؟دبدبہ اور تنتنہ وہاں کے حکمرانوں کا خاصہ ہے،رہنے کے لئے ایک محل چاہئے ،کچھ نوکر چاکر ہوں جو سینوں پر ہاتھ دھرے تعظیم میں کھڑے ہوں،بغیر کسی حساب و کتاب کے ایک بیت المال ہاتھ میں ہو۔ایک ایسی سیاست اپنائی جا تی ہے جس کی بنیاد چالاکی اور دھوکہ بازی پر ہے۔ایسی ثقافت و معاشرہ کی تعمیر ہو رہی ہے جس میں فریب ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔وہاں ایسی چالاکی چاہئے جو علی میں نہیں، معاویہ میں پائی جاتی ہے۔اس لئے کہ علی احکام الٰہی کا پابند ہے لیکن معاویہ کا اس سے دور دور تک کوئی سرو کار نہیں…!!!میدان جنگ میں عرب کے نامور پہلوان کو زیر کرنے کے بعد علی اسکے سینہ پر سے اتر آتے ہیں تاکہ اپنے غصہ کو پی کر صرف اور صرف رضائے الٰہی کی خاطر اسکا کام تمام کریں۔حق ہے کہ ایسے شخص کو موحد کہا جائے اور اسے لوگوں کی ہدایت کے لئے منتخب کیا جائے۔وہ کہ جو اعلان برائت کے پیغام کو ہاتھ میں لیتا ہے اورصرف اپنے فریضہ کی انجام دہی کی فکر میں ہے اور اسکے علاوہ کسی بھی چیز کی پروا نہیں کرتا ،اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ معاشرے کی باگ دور اسکے ہاتھوں میں سونپی جائے۔آج جنہوں نے فرزند رسول کے مقابلہ صف آرائی کی ہے درحقیقت انہوں نے اپنے دل کے دوازے کو ہر کس و ناکس کے اوپر کھول دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسین اور اصحاب حسین کی باتیں ان پر کوئی اثر نہیں ڈال پاتیں اور حسین انہیں دوش نبی پر دکھائی نہیں دیتے۔یہ لوگ اس سے پہلے بارہا خدا اور اسکے رسول کی اطاعت کو امراء کی خوشامدوں ، قومی اور قبیلائی تعصبوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں جو آج یہ حجت خدا کو اپنی خواہشوں کی نظر کرنا چاہتے ہیں۔ بارہا انہوں نے حق و باطل کے معیار کو پیروں تلے روندا ہے جو آج انکا معیار فرمان یزید قرار پایاہے۔یہ لوگ وہ ہیں کہ جنہوں نے اب تک رسول خداکے منبر کو غاصبوں اور کج فکروں کے لئے فراہم کیا ہے اور آن اسی مسند ہر یزید پلید کو ،”امیر المومنین اور اسکے حکم کو خدا تصور کرتے ہیں!اخلاص اگر ختم ہو جائے تو نفاق اسکی جگہ لیتا ہے۔خدائی احکام اگر بالائے طاق رکھ دئے گئے تو انحرافات وجود میں آئیں گے۔انصاف پسند ، عادل اور متقی حاکم اگر مسند حکومت تک نہ پہونچ پائے تو ظالم و فاسد حکمراں حکومت کو ہاتھ میں لیگا۔حدیں اگر پامال ہو جائیں تو دل ہر فکرو خیال و نظر کی چراگاہ بن جائیں گے… آخر کیوں حسین نے اپنے جد کی سنت کے احیاء کو قیام کا مقصد قرار دیا؟سنت نبوی پر ایسی کون سی مصیبت آن پڑی تھی جسے دور کرنے کی خاطر حسین اپنے اور اصحاب کے خون اور خاندان کی اسیری کی قیمت پر میدان میں آگئے؟ کربلا ،دو گروہوں کے مقابلہ کا میدان ہے۔ایک وہ گروہ جو ایسی بے مہار عقل پر تکیہ کئے ہوئے ہے جو اطاعت خدا و رسول کو پیروں تلے روندتے ہوئے سرکشی اور طغیانی پر اتر آئی ہے۔ایسے گروہ کے مقابلہ ایک دوسرا گروہ ہے جسکا ہر عمل کوثر ولایت کے سائے میں ہے اور جس نے حق و باطل کی پہچان کے لئے حسین کو معیار بنایا ہے۔
دو طرز فکر کا مقابلہایک طرز فکر سنت نبوی کا سخت پابند ہے تو دوسرے نے صرف شریعت کا نام سنا ہے۔میدان میں ایک طرف وہ طرز فکر ہے جسکی بنیاد ہی دین میں ”تسامح اور تساہل”پر ہے اور دین کو صرف نماز،روزہ،حج اور اخروی ثواب جیسی چیزوں میں محدود سمجھا جاتا ہے ۔جہاں قاضی شریح جیسا نام نہاد عالم حسین بن علی کے قتل کا فتویٰ صادر کرتا ہے اور کبھی حکمیت کے وقت ابو موسیٰ اشعری جیسا علی کو معزول کرکے دم لیتا ہے۔جہاں پر ابو سفیان اور مروان و ولید جیسے اموی( جنہیں پیغمبرۖنے شہر بدر کر رکھا تھا)طالبان شریعت اور دینی حکام کی صورت میں ظاہر ہوکر حکم خدا کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اجتہاد کریں۔جہاںدار الخلافة میں ایسی محفلیں سجتی ہیں جس میں رسول کے جانشین!!! کے ہاتھ میں جام شراب ہو اور وہ رقاصوں کے حلقہ میں گھرا ہوا ہو۔جہاں محرمات خدا سے روکناٹوکنا تو در کنار،بلکہ اسی کو دیانت کے عین مطابق تصور کیا جاتا ہے!آخر کیا دربار شام اصحاب و مومنین سے بالکل خالی تھا؟!ہر گز نہیں۔بلکہ وہ سب ”ابناء طلقائ”کا نمک کھا کر اور مال غنیمت میں ڈوب کر اس مرحلہ تک پہونچ چکے تھے کہ ان تمام محرمات خدا کو ”زمانہ کے تقاضے” کا نام دے دیا جاتا۔اگر ایک امام یا عادل و متقی فقیہ، مسلمین کی مصلحت کی خاطر چند روز کے لئے کسی حکم سے چشم پوشی کرلیتا ہے تو صرف اور صرف تحفظ اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کی خاطر ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ”تقیہ”ایک اسلحہ ہوا کرتا ہے نہ کہ تسلیم ،حکم خدا ہوتا ہے نہ کہ نفاق،ایک عقلی اور شرعی تدبیر ہوا کرتی ہے نہ کہ ضعف و کمزوری۔ سقیفہ میں پیش آئے انحراف کے بعد علی اگر اپنی تلوار کو نیام میں رکھ لیتے ہیں تو کوئی بھی ان پر بز دلی ،نفاق اور ڈر کا الزام عائد نہیں کرتابلکہ ان کو سراہتا ہے کہ اسلامی اتحاد اور رضائے الٰہی کی خاطر اپنے کو تھامے رکھا تاکہ چراغ ہدایت جگمگاتا رہے۔لیکن یہی چشم پوشی اگر یزید اور اسکے آباء و اجداد کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ کسی اسلامی مصلحت کی خاطر نہیں بلکہ احکام الٰہی کے حدود کو پامال کرنے اور مسلمین کی مصلحتوں کو نظر انداز کرنے کے لئے ہے۔آیا ممکن ہے کہ کوئی اسلامی امت کی قوت و عزت کی خاطر تدبیر کرے لیکن خود اسلام اور اسکی عزت سے بالکل بے بہرہ ہو؟!صفین میں جس وقت معاویہ کے لشکر پر پانی بند کرنے کی بات آئی اور علی راضی نہ ہوئے لیکن معاویہ نے لشکر علی پر پانی کوبند کرنے سے کوئی گریز نہ کیاتو یہیں سے دونوں سیاستوں میں فرق سامنے آجاتا ہے۔علی احکام الٰہی کے باپند ہیں اور دنیا کو حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کا سودا نہیں کر سکتے اور پوری قوت کے ساتھ دین کا نفاذ چاہتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف معاویہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہر چیز کو مباح سمجھتا ہے۔یہی ہیں دو طرز فکر جو کربلا میں ایک دوسرے کے سامنے صف آرائی کئے ہیں۔کچھ لوگ جو علی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ معاویہ کو چند روز کے لئے شام کی حکومت دے دی جائے یا طلحہ و زبیر کو کچھ مال وزر دے کر بصرہ کی طرف روانہ کر دیا جائے تاکہ انکی حکومت استوار ہو جائے اور پھر اس کے بعد جو دل چاہے کریں ،تو کیا ایسا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل باطل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا جائے؟!آخر کیوں علی نے اپنے نادان دوستوں کی بات ماننے سے انکار کیا؟اس لئے کہ ان مطالبات کو قبول کرنے کا مطلب ہے اسلام کی شکست،اور ایسی شکست کہ جسکی تلافی ناممن ہے۔اگر خود اولو الامر کے ہاتوں اسلام میں شکاف پیدا ہونے لگے تو پھر کون ہے جو اس کو پر کر سکے؟علی کو اسکی کیا پرواہ کہ ان کو سیاستدان کہا جائے یا نہ کہا جائے؟کیا ڈر کہ ان کو کامیابی حاصل ہو یا پھر شکست کا سامنا کرنا پڑے؟اسکی کیا پرواہ کہ انکی تعریف کی جائے یا مذمت؟یا انکی اطاعت کی جائے یا پھر لوگ انکے مقابلے میں آ کھڑے ہوں؟علی نے حکومت اسلامی کی باگ ڈور ان تمام امور کے لئے نہیں سنبھالی جو آج وہ فکر مند ہوں۔علی صرف اللہ کی خاطر اس میدان میں اترے ہیںاور ذرہ برابر بھی انکی جانب سے احکام الٰہی کی مخالفت نہیں دیکھی جا سکتی۔علی کی نظر فقط مرضیٔ الٰہی پر ہے اور انکا مقصد اطاعت خدا ہے۔لہٰذا کوئی بھی قول و فعل ایسا نہیں ہوگا جو دشمنان خدا کی خوشنودی کا باعث ہو۔ آج بھی حسین اور یزید کی جنگ وہی علی اور معاویہ کی جنگ ہے۔ایک فقط رضائے الٰہی اور اسکی اطاعت کا خواہاں اور پابند شریعت ہے تو دوسرا دین سے کھلواڑ کرنے،اسکا مذاق اڑانے اور اپنی ہوا و ہوس کے جہنم کو پر کرنے کو ہی اپنا مشغلہ سمجھتا ہے۔میدان میں دوسری طرف علوی طرز فکر ہے جو جو پیرو قرآن اور سنت نبویۖ کا پابند ہے۔احکام الٰہی کا نفاذ چاہتا ہے اوررضائے خدا کا طالب ہے۔وادیٔ حرص و طمع میں دوڑتے ہوئے بے مہار دنیا طلبوں کی خوشنودی جس کی نظر میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.