امام خمینی [رہ] اور ارتقاء انسانیت
محکوم قومیں جب اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام کے زیر نگیں ہوتی ہیں تو انہیں فوجی اور انتظامی استبداد ہی کا مقابلہ نہیں کرنا ہوتابلکہ تہذیبی اور فکری سطح پر بھی انہیں زندگی اور موت کی لڑائی لڑنی ہوتی ہے ۔ ہر لمحہ حکمراں قوم ان کے تمام آدرشوں اور اقدار کو للکارتی ہے اور ان کے ماضی ہی نہیں حال کا بھی جواز طلب کرتی ہے۔بیسوی صدی عیسوی کے اوائل میں عظیم اور با جبروت ملت اسلامیہ ایک ایسے ہی استبداد کا شکار تھی۔ اس تاریک دور میں جب مسلمانان عالم نے اپنے آس پاس نگاہ کی تو انہیں پتہ چلا کہ وہ قافلہ ارتقاء سے کٹ گئے ہیں حیرتوں نے ان پر یورش کی اور وہ بوکھلا اٹھے ، مقابل بلندیاں انہیں بہت دور نظر آئیں ان کے عقیدوں کی سنگی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی تھیں انہوں نے جینے اور ہونے کا جواز تلاش کیا اور اس تلاش میں وہ مقابل بلندیوں سے اپنے عقائد کا موازنہ کرنے لگے۔اس اندھی تلاش کا نتیجہ یہ نکلا کہ کل کی فاتح قوم آج ذلیل و خوار ہو رہی تھی۔ سامراج کے طاقتور پنجے پوری گہرائی تک ان کے سینوں میں پیوست ہو چکے تھے۔طاقتور سرمایا دار ممالک ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ملکوں پر قیضہ کرنے اور محکوم بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ یعنی بڑی مچھلیوں کو چھوٹی مچھلیاں نگلنے کی پوری آزادی مل چکی تھی۔ڈارون کے نظریہ ارتقاء یا (EVOLUTION THEORY) کا سہارہ لینے والے اس بات کو سوچ رہے تھے کہ جس طرح جمادات ،نباتات اور حیواتات خود بخود ارتقاء کی جانب گامزن ہیں اسی طرح انسانی معاشرہ بھی بغیر احساس خود شعوری اور انسانی کردار کے پروان چڑھ جاتا ہے۔ جمادات کا ارتقاء نباتات میں دیکھنے والے اور نباتات کا ارتقاء حیوانات میں تلاش کرنے والے جب انسان کو تختہ مشق بنانے پر آئے انہوں نے اس ترقی ٔکمالات و مقامات کی منزلیں آخرت میں تلاش کرنے کے بجائے اسے تنزل اور انحطاط کی راہ دکھا کر اس کے ارتقاء کو تسفل کے مدارج میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ انسانی تمدن کا کھوج بن مانسوں اور بندروں کے جبلّی میلانات اور وحشیوں کے شہوات میں تلاش کرتے کرتے وہ خود وحشت و بربریت کی آخری حد کو پھانگ نکلے ۔ نتیجے میں بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جنگ ظیم کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا تو اواسط میں سامراجیت اور فسطائیت کا ننگا ناچ دیکھا۔جب کبھی انسان نے قانون فطرت کی شوکت کو قانونی حاکموں کی غیر فطری بالادستی کی آڑ بنایا ہے اور عسکری قوت لے کر معاشرہ کی حفاظت کے بجائے استحصال کا برتائو کیا ہے ، رحمت خداوندی جوش میں آئی ہے۔کبھی ملت ابراہیمی کی روشنی نے ظلمت کدۂ یونان میں سحر کی، تو حضرت موسی نے احکام عشرہ کے ذریعے اپنی امت کو پیغام دیا کہ قانون کا سرچشمہ انسانی معاشرہ کی ہدایت ہے حضرت عیسیٰ نے تعلیم دی کہ انسان صرف قوت کے بل بوتے پر صحت مند معاشرہ قائم نہیں کر سکتا بلکہ اس کے سامنے ” آخرت ” کا نصب العین ضروری ہے۔نبی آخر الزمان ۖ نے کردار انسانی کو معراج عطا کر کے ہدایت کا بیڑا آئمہ کرام کے حوالے کر دیا آئمہ ھدیٰ نے پرچم انسانیت کو دنیا کے گوشے گوشے میں لہرا کر پرچم سالاری کی ذمہ داری علماء و مجتہدین کو سومپ دی ۔ اب وحی کی راہ آئندہ کے لئے مسدود کر کے علم و تحقیق کی شاہراہیں کھول دی گئی۔
طلوع ارتقائکائنات کے اخلاق قویٰ کے تصادم اور اس کے احوال و نتائج پر غور کریں تو ہمیں ایک منظم قانون فطرت کارفرما نظر آتا ہے۔ جس کے مد مقابل ایک باطل نظریہ جنم لیتا ہے اس نظریہ کے علمبردار پیدا ہوتے ہیں اس پر ایک باطل نظام اخلاق، ایک باطل نظام معیشت اور ایک باطل نظام سیاست کے ردّے چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اندیشہ پیدا ہوتا ہیکہ اس غلبہ کے نیچے دب کر صالح اخلاق کے تمام عناصر دم توڑ دیں گے تا ہم اس نظام باطل کو مہلت ملتی رہتی ہے یہاں تک کہ تمام خشکی و تری میں فساد کی سیاہی چھا جاتی ہے اس عالم کے مصلحین اس دنیا کی از سر نو اصلاح سے مایوس ہونے لگتے ہیں پھر پروردگا عالم دفتعتا ایک مخفی ہاتھ نمودار کرتا ہے جو اس نظام باطل کو کسی حد تک جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوتا ہے١٩٠٠ع میں خلیج فارس کی سر زمین ایران کے شہر خمین میں ایک ایسی ہی ہستی نصرت ایزدی کی صورت میں حاجی آغا مصطفی کے گھر طلوع ہوئی جس نے انسانیت کے ارتقاء کو از سر نو معراج عطا کرنے کا بیڑا اٹھایا اس ہستی کا نام تھا ” آیت اللہ روح اللہ الخمینی”۔مغرب کی لادینی سیاست جس میں کلیسا کو حاکمیت سے، مذہب کو نظام حکومت سے الگ کر دیا گیا تھا ،جو کسی نیک نیتی یا فلاح انسانیت کے تصور پر مبنی نہ تھی جس نے ظلم و بربریت کے لئے ایک نیا جواز تلاش کر لیا تھادوسری طرف اسی سیاست نے عقیدہ و طینت کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی تصور یعنی ”قومیت” کو جنم دیا۔ اور تمام اقوام میں قومیت کا تازہ جوش پیدا کر کے انہیں ملت اسلامیہ کے خلاف متحد و صف آراء ہونے پر آمادہ کر دیا۔امام خمینی نے مغرب کی اسی استعماری سازش کو سب سے پہلے بے نقاب کرتے ہوئے موجودہ دنیا میں پہلی مرتبہ سیاسی پیلٹ فارم سے آواز ”اللہ اکبر” بلند کی اور اس نعرہ اللہ اکبر کو عملی جامعہ پہنا کر مسلمانوںکو دنیائے مغرب کے سامنے سر خرو کردیا اورانسانیت کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو معراج ارتقاء عطا کر دی۔