کربلا کی شعری روایت
کربلا کی شعری روایتواقعہ کربلا اورامام عالی مقام کی لازوال قربانی کے اردوزبان پرگہرے اثرات مرتب ہوئے اسے کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے ایک تووثائی ادب ہے جس میں مرثیہ، نوحہ ، سلام، سوز اوردہہ وغیرہ شامل ہیں جوخالصتاً کربلا اورامام حسینؑ اوران کے جانثاراں کے عظیم کارنامے کونہ صرف بیان کیاگیا بلکہ اپنی عقیدت کااظہار بھی کیاگیا یہ ایک اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ جس کی اہمیت اورمعنویت مسلم ہے اس کے علاوہ بھی اردو، غزل اورنظم میں جابجا کربلا، قربانی، علم، پیاس، خون وغیرہ ذکرکرکے شاعر نے اپنے مخاطبین پیغام دیا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ جن میں کربلا کے حوالے سے براہ راست کوئی علامت بیان نہیں ہوئی مگرشعر کامفہوم بتا دیتا ہے کہ اس کاپس منظر کربلا سے حاصل کیاگیا ہے مثل قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علماورنکلیں گے عشاق کے قافلےگواس شعر میں بظاہر کربلا کی مناسبت سے کوئی تذکرہ نہیں ہے مگرپڑھنے والاکربلا کے پس منظر تک پہنچ جاتا ہے زیر نظر مضمون میں وثائی ادب کے بجائے اردو ادب کاایک مختصر ساجائزہ پیش ہے کہ جہاں کربلا کی نسبتیں اشعار میں جلوہ گرہوئی ہیں۔اردو‘ میرتقی میرؔ سے پہلے بولی اورلکھی جارہی ہے میرؔ کے دور سے ہی عموماً اردو کاحوالہ بیان کیاجاتا ہے مثلاً میرؔ کے یہ اشعار اگرچہ کسی سلام یامرثیہ کاحصہ نہیں ہیں مگر کربلا کی مناسبت دیکھے: شیخ پڑے محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھتے رہو سجدہ ایک اس تیغ تلے کاان سے ہوتوسلام کریںیایہ شعر: زیر شمشیرستم میرؔ تڑپنا کیساسربھی تسلیم محبت میں ہلایانہ گییایہ شعر: وا اس سے سرحرف توہوگوکہ یہ سرجائےہم حلق بریدہ ہی سے تقریر کریں گے
بظاہر یہ اشعار کسی عشقیہ غزل سے لئے گئے ہیں مگران میں اسی تاریخی روایت کاحوالہ ہے کہ جہاں سے ایمانی رشتوں کی روشنی ملتی ہے۔مرزا غالبؔ کواردو شاعری میں جومقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر اس کے شعری مجموعہ میں اس حوالے کوئی تذکرہ نہیں ملتا ”یادگارغالب‘‘ میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ جب انھو ں نے کسی کے کہنے پرمرثیہ لکھنا شروع کیاتوچند بندلکھ کرچھوڑ دیااورکہا”یہ ان لوگوں کاحصہ ہے جنھوں نے اس وادی میں عمریں بسر کی ہیں ۔‘‘ مگرغالب فارسی غزل میں حمد کے انداز میں کہہ چکے ہیں:
بزم ترا شمع وگل خستگی بوتراب ساز ترا زیروبم واقعہ کربل
جب برصغیر میں آزادی کی تحریک چلی توکربل کی روایت اردو شاعری پھولی پھلی مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کے روح رواں تھے انھوں نے اپنی جدوجہد اورشاعری سے ہندوستان کے مسلمانوں کوزبان دی ان کے اشعار میں جابجا کربلا کی مناسبت سے تذکرہ ملتا ہے ان کے یہ مشہور شعر جوآج بھی زبان زدعام ہے ملاحظہ کیجئے:
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
اس کے علاوہ بھی مولانا کے اشعار ہیں کہ جن میں انھوں نے ظلم وجور ، جبراستبداد کے خلاف کربلا کوہی اپنا نمونۂ عمل بنایا ہے: پیغام ملا تھا جوحسینؑ ابن علیؑ کوخوش ہوں وہی پیغام قضا میرے لئے ہے
فرصت کسے خوشامد شمرویزید سےاب ادعائے پیروی پنجتن کہاں
کہتے ہیں لوگ ہے رہ ظلمات پُر خطرکچھ دشت کربلا سے سوا ہوتوجانیے
جب تک کہ دل سے محو نہ کربلا کی یادہم سے نہ ہوسکے گی اطاعت یزید کی
بنیاد جبروقہر اشارے میں ہل گئیہوجائے کاش پھروہی ایمائے کربل
روزازل سے ہے یہی اک مقصد حیاتجائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربل
شہادت امام حسینؑ کے نئے پہلوؤں پرسب سے پہلے علامہ اقبالؔ نے اظہار خیال کیا ہے اقبال نے اردو فارسی میں اس کاتذکرہ ملتا ہے علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے : غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرمنہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشقمعرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق
علامہ اقبال کربلا اورامام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ”ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں جس کااظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے: اللہ اللہ بائے بسمہ اللہ پدرمعنی ذبح عظیم آمد پسر
یعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے اوریہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اوریہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسینؑ کااسلام میں کیامقام ہے اورمنشاء ایزدی میں قربانی حسینؑ کب سے جلوہ گرتھی۔اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں: حقیقت ابدی ہے مقام شبیریبدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیںگرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات
”بال جبرائیل ‘ ‘ میں علامہ ”فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اک فقر سکھاتا ہے صیاد کومخچیریاک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیریاک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہےمیری میراث مسلمانی ، سرمایہ شبیری
علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں: نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیریکہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری(ارمغان حجاز)
جس وقت علامہ نے یہ بات کی توپوری امت محمدیؐ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی مگر علامہ انھیں رسم شبیری اداکرنے کاکہہ رہے ہیں اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری اداکرکے اس فکر کودنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے آ ج جہاں بھی مسلمان مجبور ہیں وہ رسم شبیری اداکررہے ہیں یااسی فکرکو اپنانے کی فکرمیں ہیں لیکن اقبال یہ فکردینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔علامہ اقبال کاکچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کومرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھااس میں سے دوشعر پیش ہیں:
جس طرح مجھ کوشہید کربلا سے پیار ہےحق تعالیٰ کویتیموں کی دعا سے پیار ہے رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میںکیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
علامہ اقبال نے اپنے کلام کووسعت اورزندہ وجاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا علامہ کے فارسی کلام کوپڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ”نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوسکتی۔علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں”درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کیا ہے اس علامہ اقبال اسلام کی خصوصٰات بیان کرتے ہوئے کربلاکاتذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پرآئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کوکس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اورکن پہلوؤں پرزور دینا چاہتے ہیں حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کاوہ تصور نظرآتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اوراس میں انھیں حریت کاوہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کامطالعہ کرتے ہیں:
ہرکہ پیماں باھُوَالمَوجود بستگردنش از بندہرمعبود رست”جوشخص قوانین خداوندی کی اتباع کومقصود زندگی قرار دے لے اوراسی طرح اپنا عہدوپیمان اللہ سے باندھ لے اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اورمحکموی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق وعقل کاخوبصورت موازنہ پیش کیا ہے یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ اورکربلا کوسمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہئے امام عالی مقام کایہ کارنامہ عقل کی بنا پرظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرماتھی اس لئے ایسے لوگ جوعقلی دلائل پرواقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک وتردید کااظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جوعشق کی نظر سے دیکھتے ہیں توپھر وہ اس نتیجہ پرجاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں:
عقش را آرام جاں حریت استناقہ اش را ساربان حریت است”عشق کوکامل سکون اوراطمینان آزادی ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘
آن شنیدیستی کہ ہنگام نبردعشق باعقل ہوس پرورچہ کرداقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اورکہتے ہیں”تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیاکیا۔‘‘
آں امام عاشقان پور بتولؑسرد آزادے زبستان رسولؐ
اللہ اللہ بائے بسمہ اللہ پدرمعنی ذبح عظیم آمد پسرعاشقوں کے امام حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد اورحضورؐ کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علیؑ ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں”اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبا اورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی ؑ کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیتؑ شناسی پرایک دلیل ہے امام حسینؑ کو”ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امام حسینؑ کوقربانی اسماعیل ؑ کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔
بہرآں شہزادہ خیرالمللدوش ختم المرسلین نعم الجملروایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکے کھیلا رہے تھے آپؐ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ”نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
سرخ رو عشق غیور از خوناو شوخی ایں مصرع از مضمون اوامام حسینؑ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے۔
درمیاں امت آں کیواں جنابہمچو حرف قل ھواللہ درکتابامت محمدیہؐ میں آپؑ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کوبھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
موسیٰ وفرعون وشبیر ویزیدایں دوقوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری استباطل آخر داغ حسرت میری استدنیا میں حق وباطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کاغلبہ ہوتا ہے اورباطل شکست ونامرادی سے دچار
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیختحریت رازہراندرکام ریخت
خاست آں سرجلوہ خیرالاممچوں سحاب قبلہ باراں درقدم
برزمین کربلا بارید ورفتلالہ درویرانہ کارید رقتجب خلافت کاتعلق قرآن سے منقطع ہوگیااور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکرونظر باقی نہ رہی تواس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹااٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پربرسا اوراسے لالہ زار بنادیا۔
تاقیامت قطع استبداد کردموج خون او چمن ایجاد کردآپؑ نے اس طرح قیامت تک ظلم واستبداد کے راستے بندکردیئے اوراپنے خون کی سیرابی سے ریگزاروں کوچمنستان بنادیا۔
بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ استپس بنائے لاالٰہ گرویدہ استآپؑ نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اوراس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ”لاالٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے اس مصرع کی طرف:”حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسینؑ ‘‘
مدعایش سلطنت بودے اگرخودنکردے باچنیں سامان سفر
دشمناں چو ریگ صحرا لاتعددوستان او بہ یزداں ہم عدداگر آپؑ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرف بہتر(72)نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد”72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔
سرابراہیمؑ واسماعیلؑ بودیعنی آں جمال راتفصیل بود
کربلا کے واقع میں قربانی اسماعیلؑ کی تفصیل ہے۔
تیغ بہرعزت دین است وبسمقصد اوحفظ آئین است وبسمومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ واقتدار کے لئے اٹھتی ہے ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کامقصد آئین اورقانون کی حفاظت ہوتا ہے۔
ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نسبتپیش فرعونی سرش افگندہ نسبتمسلمان اللہ کے سوا کسی کامحکوم نہیں ہوتا اس کاسرکسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔
خون او تفسیر ایں اسرار کردملت خوابیدہ رابیدار کردامام حسینؑ کے خون نے ان اسرار ورموز دین کی تفسیر کردی اورسوئی ہوئی ملت کاجگایا۔
تیغ لا چوازمیاں بیروں کشیداز رگ ارباب باطل خوں کشیدانھوں نے جب”لا‘‘ کوبے نیام کیاتوباطل کے خداؤں کی رگوں سے خون جاری ہوگیا۔
نقش الا للہ برصحرا نوشتسطر عنوان نجات ما نوشتباطل کے خداؤں کومٹانے کے بعد انھوں نے سرزمین کربلا پرخدا کی توحید کانقش ثبت کردیا وہ توحید جوہماری نجات کاسرعنوان ہے۔
رمز قرآن از حسینؑ آموختیمبہ آتش او شعلہ ھا اندوختیمہم نے قرآن کے رموز واسرار امام حسینؑ سے سیکھے ہیں ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کوجمع کیا ہے۔
شوکت شام وفربغداد رفتسطوت غرناطہ ہم از یاد رفتتار ما ازخمہ اش لرزاں ہنوزتازہ از تکبیر اوایمان ہنوزمسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اورمٹ گئیں بنی امیہ کی سلطنت دمشق میں بھی اوراندلس میں بھی ،بنی عباس کی حکومت ،یہ اپنے پورے عروج کے بعد ختم ہوگئیں لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں امام حسینؑ نے تکبیر کی جوآواز بلندکی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اے صبا اے پیک دور افتادگاںاشک ما برخاک پاک او رساںاے صبا!توہماری نم آلود آنکھوں کاسلام مرقد امام حسینؑ تک پہنچادے۔علامہ اقبال کے کلام سے مذید مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں مگر صفحات کی محدودیت کی وجہ سے دیگر شعراء کاتذکرہ کرتے ہیں: جوش ملیح آبادی نے نوحے، مرثیے تصنیف کیے جس میں انھوں نے اپنے انقلابی خیالات کااظہار اوربھی کھل کرکیا۔
عباس ؑ نامور کے لہو سے دھلا ہوااب بھی حسینیت کاعلم ہے کھلا ہو دنیاتری نظیر شہادت لئے ہوئےاب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے انسان کوبیدار توہولینے دوہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑعلامہ اقبال، محمدعلی جوہر اورجوش نے جوشاعری کونئے افکار دیئے بعد میں آنے والے شعراء نے اس روایت کوآگے بڑھایا۔
فراق گورکھپوری: خون شہید کاترے آج ہے زیب دستاںنعرہ انقلاب ہے ماتم فتگاں نہیں
یاس یگانہ: ڈوب کرپار اتر گیا اسلامآپ کیاجانیں کربلا کیا ہے
احمدندیم قاسمی: یہ شہادت ہے اس انسان کی کہ اب حشر تلکآسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں جب تجھ سے ہوئے مرے تشنہ دہن کے لباے دشت کربلا تری قسمت بدل گئییہ راہ حق میں صرف شہادت نہ تھی ندیماک زندگی فنا سے بقا تک نکل گئی
علی سردار جعفری: دنیا کی شہادت گاہ میں ہوجواپنے لہو سے سرخ کفن ہےچاک جگر کی شرط یہاںیہ حلقہ دل افگاراں ہے در دریا ہے ایک بہتا ہواجس کے ساحل بدلتے رہتے ہیںوہی تلوار اوروہی مقتلصرف قاتل بدلتے رہتے ہیں
مجید امجد: سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہاجوتیرا حکم، جوتیری رضا، جوتوچاہےمجیدامجد عہدرفتہ کاایک منفرد شاعر ہے جب بھی چند بڑے شعراء کانام لیاجاتا ہے تومجید امجد کانام ضرور لیاجاتا ہے حضرت زینب عالیہ ؑ کی خدمت میں یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں:
وہ قتل گاہ، وہ لاشے، وہ بے کسوں کے خیاموہ شب، وہ سینہ کونین میں غموں کے خیاموہ رات، جب تری آنکھوں کے سامنے لرزےمرے ہوؤں کی صفوں میں، ڈرے ہوؤں کے خیامیہ کون جان سکے ، تیرے دل پہ کیاگذریلٹے جب آگ کی آندھی میں ، غمزدوں کے خیامستم کی رات، کالی قنات کے نیچےبڑے ہی خیمہ دل سے تھے عشرتوں کے خیامتری ہی برق صدا کی کڑک سے کانپ گئےبہ زیرچتر مطلا شہنشہوں کے خیامجہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردااکھڑچکے ہیں ترے آنگنوں کے خیام
منیز نیازی ہمارے عہد کے ایک اہم اورمنفرد آواز ہے جنھوں نے اپنے مجموعے”دشمنوں کے درمیان‘‘ کاانتساب ہی امام حسین علیہ السلام کے نام سے کیا ہے۔ خواب جمال عشق کی تعبیر ہے حسینؑشام ملال عشق کی تصویر ہے حسینؑ
مصطفی زیدی کاایک نامکمل مرثیہ”کربلااے کربلا‘‘ بہت مشہور ہے اس کے علاوہ ان کے اشعار میں کربلا کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔ نام حسینیت پہ سر کربلائے عصرکس کاعلم ہے کس کے علمدار دیکھنمجھ پرچلی ہے عین بہ ہنگامۂ سجوداک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکھن غیر تورمز غم کون ومکاں تک پہنچےکربلا تیرے یہ غمخوار کہاں تک پہنچے
شہرت بخاری: جز حسینؑ ابن علیؑ مرد نہ نکلا کوئیجمع ہوتی رہی دنیا سرمقتل کیاکی آل نبی پرتنگ ہے اب تک ہرکوفے کی بستی پائےامیر شام یہ سجدہ عین عبادت ٹھہری پھرکوئی حسینؑ آئے گا اس دشت ستم میںپرچم کسی زینب کی ردا ہوتی رہے گی
افتخار عارف کی شاعری میں کربلا کی تمام علامات نئے روپ لئے ہوئے ہیں: وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہےمشکیزے سے تیر کارشتہ بہت پرانا ہےصبح سویرے رن پڑنا ہے اورگھمسان کارنراتوں رات چلا جائے جس جس کوجانا ہے خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سےنوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سےپتھر پہ سر رکھ کرسونے والے دیکھےہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
خلیل الرحمن عظمی(آف انڈیا): سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کاسرکس اہتمام سے پروردگار شب نکلبس اک حسین کانہیں ملتا کہیں سراغیوں ہرگلی یہاں کی ہمیں کربلا لگی
شاذ تمکنت(آف انڈیا): کچھ لوگ تھے جودشت کوآباد کرگئےاک ہم ہیں جن کے ہاتھ سے صحرا نکل گی
شہریار(آف انڈیا): حسینؑ ابن علیؑ کربلا کوجاتے ہیںمگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں
فارغ بخاری:ہے فخر نسبت شبیر پرہمیں فارعؔبغاوتوں کی روایت ہمارے گھر سے چلی
عبیداللہ علیم: اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کادناب رہ گیا ہے شام کابازار دیکھن
سلیم کوثر: یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیںفیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہوسلیمؔاھل حق ہوں توبہتر بھی غضب ہوتے ہیں
اقبال ساجد: تونے صداقتوں کانہ سودا کیاحسینؑباطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی
امیرمینائی: جوکربلا میں شاہ شہیداں سے پھرگئےکعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھرگئے
اے۔جی جوش: کیں دفن جویزید نے اقدار دین کیپھرزندہ کرگئی ہے کرامت حسینؑ کی
بہادر شاہ ظفرؔ : سکینہ نے کہاروکرکہ میرے کان دکھتے ہیںاتار اے شمر میری بالیاں آہستہ آہستہجوچلنا ہے توچل ظفرؔ اب شاہ کے روضے پرگذرجائے گی عمررواں آہستہ آہستہ
ڈاکٹر بیدل حیدری: دشت کرب وبلا کاحال نہ پوچھدورتک گرد یاس ملتی ہےبھوک ملتی ہے پیاس ملتی ہےلیکن اس دشت میں مسافر کوایک مینار نور ملتا ہےجس سے درس شعور ملتا ہے
نثار سید: نہ سرپہ چادر زہرا نہ ساتھ بھائی کاتیرے نصیب میں زینب عجب سفر آئےحسینیت سے کرواخذ رسم حق گوئیسواد جبر میں مشکل گھڑی آئے
قمر جلالوی: اصغر جگر کوتھام کے روتی ہے فوج شامتم تیر کھا کے آئے ہویاتیر مار کے
گلزار بخاری: کسی سے اب کوئی بیعت نہیں طلب کرتاکہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کاہے
محسن نقوی:شبیر کے ہاتھوں پرتواصغر تھاوہ لیکننکلا سرمیداں علی اکبر کے برابرمحسنؔ کونہیں خوف تکبیرین لحد میںکون آئے گا مولا تیرے نوکرکے برابراس کم سنی میں یوں صف اعدا سے انتقاماصغر توابتدا میں ہوا انتہا پسندثابت ہوئی یہ بات دیار دمشق میںزینب خدا کے دین کوتیری ردا پسند
حوالہ جاتاس مضمون کے لکھنے میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا:۱۔ برصغیر کے امامیہ مصنفقین کی مطبوعہ تصانیف اورتراجم۔ جلد اول۲۔ سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ از گوپی چندنارنگ۳۔ اقبال درمدح محمد وآل محمد از سید احسن ترابی۴۔ مجلس اقبال از غلام احمد پرویز۵۔ بنائے لاالٰہ از غضنفر علی ندیم۶۔ باقیات اقبال۷۔ مثنوی رموز بے خودی