امامت حديث كى نظر ميں

108

امامت حديث كى نظر ميں
امامت سے متعلق جو چيزيں بيان ہوئي ہيں وہ سب اہل بيت كي روايات ميں موجود ہيں ، اگر تحقيق كرنا چاہتے ہيں تو احاديث كى كتابوں كا مطالعہ فرمائيں _ ان ميں سے چند يہ ہيں:ابوحمزہ كہتے ہيں : ميں نے حضرت امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كى كيا امام كے وجود كے بغير زمين باقى رہ سكتى ہے ؟ فرمايا: اگر زمين پر امام كا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گى _( اصول كافى ج 1 ص 324_)و شاء كہتے ہيں : ميں نے امام رضا (ع) كى خدمت ميں عرض كى : اما م كے بغير زمين باقى رہ سكتى ہے ؟ فرمايا: نہيں _ عرض كى : ہم تك روايت پہنچى ہے كہ زمين حجت خدا ، امام كے وجود سے اس وقت خالى ہوتى ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناك ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا كہ : زمين وجود امام سے خالى نہ ہوگى ورنہ دھنس جائے گى _( اصول كافى ج 1 ص 334_)
 
ابن طيا ركہتے ہيں : ميں نے امام جعفر صادق سے سنا كہ آپ نے فرمايا : اگر زمين پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھى ان ميں سے ايك امام ہوگا _ (اصول كافى ج 1 ص 335_)
حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہيں : خدا كى قسم حضرت آدم (ع) كے انتقال كے وقت سے اس وقت تك خدا نے زمين كو اس امام كے وجود سے خالى نہ ركھا ہے جس سے لوگ ہدايت پاتے ہيں اور وہى لوگوں پر خدا كى حجت ہے _ زمين كبھى امام كے وجود سے خالى نہيں رہتى كيونكہ وہ بندوں پرخدا كى حجت ہے _ (اصول كافى ج 1 ص 333_)
حضرت امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے : خدا نے ہميں بہترين طريقہ سے خلق فرمايا ہے اور زمين و آسمان ميں اپنے علم كاخزينہ دار قرارديا ہے ، درخت ہم سے ہم كلام ہوتے ہيں اور ہمارى عبادت سے خدا كى عبادت ہوتى ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا كى عبادت نہ ہوتى _ (اصول كافى جلد1 ص 368_)
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے : اوصياء خدا علوم كے دروازے ہيں _ ان ہى كے ذريعہ دين ميں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان كے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم كرتا ہے _ (اصول كافى جلد 1ص 369_)
ابوخالد كہتے ہيں : ميں نے امام جعفر صادق (ع) سے آيت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذى انزلنا _ كى تفسير دريافت كى تو آپ نے فرمايا : اے ابوخالد خداكى قسم نور سے مراد ائمہ ہيں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں كے دل سورج سے زيادہ روشن ہوتے ہيں _ وہى مومنوں كے دلوں كو نورانى بنانتے ہيں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان كے نور كو پوشيدہ ركھتا ہے اور اس كا قلب تاريك ہوجاتا ہے _ (اصول كافى جلد 1 ص 372_)
حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہيں : جب خد اكسى كو اپنے بندوں كے امور كے لئے منتخب كرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا كرتا ہے ، اس كے قلب كو علم و حكمت كا اور حقائق كاسرچشمہ قرار ديتا ہے اور ہميشہ اپنے علوم كا الہام كرتا ہے اس كے بعد وہ كسى جواب سے عاجز نہيں ہوتا ہے اور صحيح راہنمائي اور حقائق كو بيان كرنے ميں گمراہ نہيں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے
خدا كى توفيقات و تائيدات ہميشہ اس كے شامل حال رہتى ہيں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب كيا ہے تا كہ اس كے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ يہ خدا كى بخشش ہے ،جس كو چاہتا ہے عطا كرتا ہے _ بے شك خدا بہت بڑا فضل كرنے والا ہے _ (اصول كافى جلد 1 ص390_)
پيغمبر فرماتے ہيں: ستارے آسمان والوں كے لئے باعث امان ہيں _ ان كے تباہ ہونے سے آسمان والے بھى تباہ ہوجائيں گے اور ميرے اہل بيت زمين والوں كے لئے باعث امان ہيں اگر ميرے اہل بيت نہ رہيں گے تو زمين والے ہلاك ہوجائيں گے _( تذكرة الخواص الامة ص 182_)
حضرت على بن ابى طالب كا ارشاد ہے : زمين خدا كيلئے قيام كرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالى نہيں رہتى ، وہ كبھى ظاہر و آشكار ہوتا ہے _ كبھى پوشيدہ رہتا ہے تا كہ خدا كى حجت باطل نہ ہوجائے وہ كتنے اور كہاں ہيں؟؟ خدا كى قسم وہ تعداد ميں بعت كم ہيں ليكن خدا كے نزديك قدر كے اعتبار سے عظيم ہيں ان كے ذريعہ اپنى حجت و برہان كى حفاظت كرتا ہے تا كہ اس امانت كو اپنے ہى رتبہ كے افراد كے سپردكريں اوراپنے جيسے لوگو ں كے قلوب ميں اس كا بيچ بوئيں _
علم نے انھيں بصيرت و حقيقت تك پہنچاديا ہے ، وہ يقين كى منزلوں ميں وارد ہوچكے ہيں اور جس چيز كو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہيں وہ ان كيلئے سہل و آسان ہے جس چيز سے جاہل دڑتے ہيں يہ اس سے مانوس ہيں _ يہ دنيا ميں ان جسموں كے ساتھ رہتے ہيں كہ جن كى ارواح ملائے اعلى سے معلق رہتى ہيں _ يہ زمين پر خدا كے خليفہ اوردين كے دعوت دينے والے ہيں _ (نہج البلاغہ ج 3 خطبہ 147_)
آپ (ص) ہى كا ارشاد ہے : اہل بيت (ع) كے وجود ميں قرآن كے گراں بہا گوہر وديعت كئے گئے ہيں _ وہ خدا كے خزانے ہيں اگر وہ بولتے ہيں تو سچ اور خاموش رہتے ہيں تو كوئي ان پر سبقت نہيں كرتا _ (نہج البلاغہ ج 2 خطبہ 150_)
دوسرى جگہ ارشاد فرماتے ہيں _ اہل بيت كى بركت سے حق اپنى جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل كى بنياد اكھڑگئي ہے اور اس كى بنياد تو اكھڑ نے والى ہى تھى _ انہوں نے دين كو سمجھ ليا ہے _ چنانچہ اس كو حفظ كرتے اور اس پر عمل پيرا رہتے ہيں _ يہ تعقل ، سننے اور نقل كرنے ميں محدود نہيں ہے _ يقينا علم كے بيان كرنے والے بہت ہيں ليكن اس پر عمل كرنے والے بہت ہى كم ہيں _ (نہج البلاغہ ج 2 خطبہ 234_)
اب ميں اپنے بيان كو سٹميتا ہوں ، اور اس سلسلے ميں مذكورہ عقلى دليلوں اور احاديث سے استفادہ كرتا ہوں : جب تك روئے زمين پر نوع انسان كا وجود ہے اس وقت تك ان كے درميان ايك ايسے كامل و معصوم انسان كا وجود بھى ضرورى ہے كہ جس ميں اس نوع كے تمام كمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں كى ہدايت كرتا ہو اور لوگوں كا امام ہو وہ انسانى كمالات كى راہوں كو طے كرتا اور دوسرے لوگوں كو ان كمالات و مقامات كى طرف بلاتا ہو _ اس كے واسطہ سے عالم انسانيت كا عالم غيب سے ارتباط و اتصال برقرار رہتا ہے _ عالم غيب كے فيوض و بركات پہلے اس كے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہيں _ اگر لوگوں كے درميان ايسا كامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان كى كوئي غرض و غايت نہ رہے گى اور غرض و غايت سے انقطاع كے بعد نوع كا تباہ ہوجانا يقينى ہے _ پس دوسرى دليلوں سے قطع نظر يہ دليل بھى اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ : كوئي زمانہ يہاں تك كہ ہمارا زمانہ بھى ، وجود امام سے خالى نہيں ہے اور چونكہ ہمارے زمانہ ميں امام ظاہر نہيں ہيں اس لئے كہنا چاہئے كہ پردہ غيب ميں ہيں _
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.