احاديث اہل بيت (ع) تمام مسلمانوں كيلئے حجّت ہيں
احاديث اہل بيت (ع) تمام مسلمانوں كيلئے حجّت ہيں
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ شیعوں كى احاديث نے مہدى كى خوب تعريف و توصيف كى ہے مگر شیعوں كے ائمہ كے اقوال و اعمال اہل سنّت كے نزديك معتبر نہيں ہيں اور ان كى قدر و قيمت نہيں ہے _
جواب میں عرض کریں گے کہ ہم امامت وولايت كاموضوع آپ كے لئے ثابت نہيں كرنا چاہتے ليكن اتنا ضرور كریں گےكہ عترت رسول (ص) كے اقوال تمام مسلمانوں كيلئے حجت اور معتبر ہيں خواہ وہ انھيں امام تسليم كرتے ہوں يا نہ كرتے ہوں _ كيونكہ رسول (ص) نے اپنى احاديث ميں جو كہ قطعى ہيں اور شيعہ ، سنى دونوں كے نزديك صحيح ہيں ، اہل بيت كو علمى مرجع قرار ديا ہے اور ان كے اقوال و اعمال كو صحيح قرار ديا ہے _
مثلاً:رسول اكرم (ص) كا ارشاد ہے :
” ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسك كيا تو كبھى گمراہ نہ ہوگے _ ان ميں سے ايك دوسرے سے بڑى ہے _ ان ميں سے ايك كتاب خدا ہے جو كہ زمين و آسمان كے درميان واسطہ اور وسيلہ ہے دوسرے ميرے اہل بيت عترت ہيں يہ دونوں قيامت تك ايك دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ ديكھو تم ان كے ساتھ كيا سلوك كرتے ہو”
(ذخائر العقبى طبع قاہرہ ص 16 ، صواعق محرقہ ص 147 ، فصول المہمہ ص 22 _ البدايہ و النہايہ ج 5 ص 209_ كنز العمال طبع حيدر آباد ص 153و 167 ، درر السمطين مولفہ محمد بن يوسف طبع نجف ص 232 ، تذكرة الخواص ص 182)
اس حديث كو شيعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت كے ساتھ اپنى اپنى كتابوں ميں نقل كيا ہے اور صحيح مانا ہے _ صواعق محرقہ ميں ابن حجر لكھتے ہيں : نبى اكرم سے يہ حديث بہت سے طرق و اسناد كے ساتھ نقل ہوئي ہے اور بيسويں راويوں نے اسكى روايت كى ہے _ پيغمبر اسلام قرآن و اہل بيت كو اس قدر اہميت ديتے تھے كہ بارہا مسلمانوں سے ان كے بارے ميں تاكيد كى ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدير خم اور طائف سے واپسى پر ان كے بارے ميں تاكيد كى _
ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روايت كى ہے كہ آپ نے فرمايا:
” ميرے اہل بيت كى مثال كشتى نوح كى سى ہے ، جو سوار ہوگيا اس نے نجات پائي اور جس نے روگردانى كى وہ ہلاك ہوا ” (صواعق محرقہ ص 150 و ص 184_ تذكرة الخواص ص 182 _ذخائر العقبى ص 20 _ دررالسمطين ص 235)
رسول (ص) كاارشاد ہے :
” جو چاہتا ميرى زندگى جئے او رميرى موت مرے اورجنت ميں درخت طوبى كے سايہ ميں كہ جس كو خدا نے لگايا ہے ، ساكن ہوا سے چاہئے كہ وہ ميرے بعد على كو اپنا ولى قرار دے اور ان كے دوستوں سے دوستى كرے اور ميرے بعد ائمہ كى اقتدا كرے ، كيونكہ وہ ميرى عترت ہيں ، ميرى ہى طينت سے خلق كئے گئے ہيں اور علم و فہم كے خزانے سے نوازے گئے ہيں _ تكذيب كرنے والوں اور ان كے بارے ميں ميرا احسان قطع كرنے والوں كے لئے تباہى ہے ، انھيں ہرگز ميرى شفاعت نصيب نہيں ہوگى ” (اثبات الہداة ج 2 ص 153)
رسول خد ا نے حضرت على (ع) سے فرمايا:
” اے على آپ اور آپ كى اولاد سے ہونے والے ائمہ كى مثال كشتى نوح كى سى ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائي اور جس نے روگردانى كى وہ ہلاك ہوا آپكى مثال ستاروں جيسى ہے ايك غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس كى جگہ طلوع ہوتا ہے اور يہ سلسلہ قيامت تك جارى رہے گا _ (اثبات الہداة ج 1 ص 24)
جابر بن عبداللہ انصارى نے رسول خدا سے روايت كى ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:
” على (ع) كے دو بيٹے جوانان جنت كے سردار ہيں اور وہ ميرے بيٹے ہيں ، على ان كے دونوں بيٹے اور ان كے بعد كے ائمہ خدا كے بندوں پر اس كى حجت ہيں _ ميرى امت كے درميان وہ علم كے باب ہيں _ ان كى پيروى كرنے والے آتش جہنّم سے برى ہيں _ ان كى اقتداء كرنے والا صراط مستقيم پر ہے ان كى محبت خدا اسى كو نصيب كرتا ہے جو جنتى ہے ” (اثبات الہداة ج 1 ص 54)
حضرت على بن ابيطالب نے لوگوں سے فرمايا:
” كيا تم جانتے ہو كہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ ميں يہ فرمايا تھا :لوگو ميں كتاب خدا اور اپنے اہل بيت كو تمہارے درميان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو كبھى گمراہ نہ ہوگے كيونكہ مجھے خدائے عليم نے خبر دى ہے كہ يہ دونوں قيامت تك ايك دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ يہ سن كہ عمر بن خطاب غضب كى حالت ميں كھڑے ہوئے اور عرض كى : اے اللہ كے رسول كيا يہ چيز آپ (ص) كے تمام اہل بيت كے لئے ہے ؟ فرمايا : نہيں يہ صرف ميرے اوصياء كے بارے ميں ہے كہ ان ميں سے پہلے ميرے وزير ، ميرے وارث ، ميرے جانشين اور مومنين كے مولا على ہيں اور على (ع) كے بعد ميرے بيٹے حسن (ع) اور ان كے بعد ميرے بيٹے حسين اور ان كے بعد حسين (ع) كى اولاد سے ميرے نو اوصيا ہوں گے جو كہ قيامت تك يكے بعد ديگرے آئيں گے _ وہ روئے زمين پر علم كا خزانہ ، حكمت كے معادن اور بندوں پر خدا كى حجت ہيں _ جس نے ان كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے ان كى نافرمانى كى اس نے خدا كى معصيت و نافرمانى كى _ جب حضرت كا بيا يہاں تك پہنچا تو تمام حاضرين نے بيك زبان كہا : ہم گواہى ديتے ہيں رسول خدا نے يہى فرمايا تھا ”_ (جامع احاديث الشيع ج 1 مقدمہ)
اس قسم كى احاديث سے كہ جن سے شيعہ ، سنى كتابيں بھرى پڑى ہيں ، چند چيزيں سمجھ ميں آتى ہيں:
الف: جس طرح قرآن قيامت تك لوگوں كے درميان باقى رہے گا اسى طرح اہل بيت رسول بھى قيامت تك باقى رہيں گے _ ايسى احاديث كو امام غائب كے وجود پر دليل قرارديا جا سكتا ہے _
ب: عترت سے مراد رسول (ص) كے بارہ جانشين ہيں_
ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں كو حيرت كے عالم ميں بلا تكليف نہيں چھوڑا ہے ، بلكہ اپنى اہل بيت كو علم و ہدايت كا مركز قرارديا اور ان كے اقوال و اعما ل كو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسك كرنے پر تاكيد كى ہے _
د: امام قرآن اور اس كے احكام سے جدا نہيں ہوتا ہے _ اس كا پروگرام قرآن كے احكام كى ترويج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن كے احكام كا مكمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں كو گمراہ نہيں كرتا بلكہ اپنے تمسك كرنے والے كو كاميابى عطا كرتا ہے _ اسى طرح امام سے بھى راہ ہدايت ميں خطا نہيں ہوتى ہے اگر ان كے اقوال و اعمل كا لوگ اتباع كريں گے تو يقينا كامياب و رستگار ہوں گے كيونكہ امام خطا سے معصوم ہيں _
رسول (ص) كى احاديث اور سيرت سے واضح ہوتاہے كہ جب آنحضرت نے يہ بات محسوس كى كہ تمام صحابہ علم نبى (ص) كے برداشت كرنے كى صلاحيت و قابليت نہيں ركھتے اور حالات بھى سازگار نہيں ہيں اور ايك نہ ايك دن مسلمانوں كو اس كى ضرورت ہوگى تو آپ (ص) نے اس كے لئے حضرت على (ع) كو منتخب كيا اور علوم نبوت اور معارف اسلام كو آپ (ع) سے مخصوص كيا اور ان كى تعليم و تربيت ميں رات ، دن كوشاں رہے _ اس سلسلہ ميں چند حديثيں نقل كى جاتى ہيں تا كہ حقيقت واضح ہوجائے :
”على (ع) نے آغوش رسول ميں تربيت پائي اور ہميشہ آپ(ص) كے ساتھ رہے” (اعيان الشيعہ ج 3 ص 11)
پيغمبر (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا:
”خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمھيں قريب بلاؤں اور اپنے علوم كى تعليم دوں تم بھى ان كے حفظ و ضبط ميں كوشش كرو اور خدا پر تمہارى مدد كرنا ضرورى ہے ” (ينابيع المودة ج 1 ص 104)
”حضرت على (ع) نے فرمايا:
ميں نے جو كچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہيں كيا ” _ (اعيان الشيعہ ج 3)
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے :” رسول (ص) خدا نے ايك گھنٹہ رات ميں اور ايك گھنٹہ دن ميں مجھ سے مخصوص كرركھا تھا كہ جس ميں آپ كے پاس ميرے سو اكوئي نہيں ہوتا تھا” (ينابيع المودة ج 1 ص 77)
حضرت على (ع) سے دريافت كيا گيا : آپ (ع) كى احاديث سب سے زيادہ كيوں ہيں؟ فرمايا:
” ميں جب رسول خدا سے كوئي سوال كرتا تھا تو آپ (ص) جواب ديتے اور جب ميں خاموش ہوتا تو آپ ہى گفتگو كا سلسلہ شروع فرماتے تھے _ (ينابيع المودة ج 2 ص 36_ طبقات بن سعد ج 2 ص 101)
حضرت على (ع) فرماتے ہيں : رسول خدا نے مجھ سے فرمايا:
” ميرى باتوں كو لكھ ليا كرو _ ميں نے عرض كى اے اللہ كے رسول كيا آپ كو يہ انديشہ ہے كہ ميں فراموش كردوں گا ؟ فرمايا : نہيں كيونكہ ميں نے خداند عالم سے يہ دعا كى ہے كہ تمہيں حافظ اور ضبط كرنے والا قرار دے _ ليكن ان مطالب كو اپنے شريك كار اور اپنى اولاد سے ہونے والے ائمہ كے لئے محفوظ كرلو _ ائمہ كے وجود كى بركت سے بارش ہوتى ہے _ لوگوں كى دعائيں مستجاب ہوتى ہيں بلائيں ان سے رفع ہوتى ہيں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتى ہے _ اس كے بعد حسن (ع) كى طرف اشارہ كركے فرمايا: تمہارے بعد يہ پہلے امام ہيں _ بھر حسين(ع) كى طرف اشارہ كيا اور فرمايا : يہ ان كے دوسرے ہيں اور ان كى اولاد سے نو امام ہونگے ” (ينابيع المودة ج 1 ص 17)
حضرت على (ع) نے اپنى ذاتى صلاحيت ، توفيق الہى اور رسول خدا كى كوشش سے پيغمبر اسلام كے علوم و معارف كا احاطہ كرليا اور انھيں ايك كتاب ميں جمع كيا اور اس صحيفہ جامعہ كو اپنے اوصياء كى تحويل ميں ديديا تا كہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ كريں _
اہل بيت كى احاديث ميں يہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :
حضرت امام صادق (ع) نے فرمايا:
” ہمارے پاس ايك چيز ہے كہ جس كى وجہ سے ہم لوگوں كے نيازمند نہيں ہيں جبكہ لوگ ہمارے محتاج ہيں كيونكہ ہمارے پاس ايك كتاب ہے جو رسول (ص) كا املا اور حضرت على (ع) كے خط ميں مرقوم ہے _ اس جامع كتاب ميں تمام حلال و حرام موجود ہے ” (جامع احاديث الشيعہ ج 1 مقدمہ)
حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمايا :
” اے جابر اگر ہم اپنے عقيدہ اور مرضى سے تم سے كوئي حديث نقل كرتے تو ہلاك ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہى حديث بيا ن كرتے ہيں جو كہ ہم نے رسول خدا سے اسى طرح ذخيرہ كى ہے جيسے لوگ سونا چاندى جمع كرتے ہيں ” (جامع احاديث الشيعہ ج 1 مقدمہ)
عبداللہ بن سنان كہتے ہيں : ميں نے حضرت صادق (ع) سے سنا كہ آپ (ع) فرماتے ہيں :
”ہمارے پاس ايك مجلد كتاب ہے جو ستر گز لمبى ہے يہ رسول(ص) كا املا اور حضرت على (ع) كا خط ہے ، لوگوں كى تمام علمى ضرورتيں اس ميں موجود ہيں، يہاں تك بدن پروارد ہونے والى خراش بھى مرقوم ہے ” (جامع احاديث الشيعہ ج 1)
آپ تو اولاد رسول (ص) كى امامت كو قبول نہيں كرتے ہيں ليكن انكے اقوال كو تو بہرحال آپ كو معتبر اور حجت تسليم كرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعين كى احاديث كو حجت سمجھتے ہيں _ اسى طرح عترت رسول (ص) كى بيان كردہ احاديث كو بھى حجت سمجھئے بالفرض اگر وہ امام نہيں ہيں تو روايت كرنے كا حق تو ان سے سلب نہيں ہوا ہے _ ان كے اقوال كى اہميت ايك معمولى راوى سے كہيں زيادہ ہے _ اہل سنّت كے علما نے بھى ان كے علم اور طہارت كا اعتراف كيا ہے _ (روضة الصفا ج3 ، اثبات الوصيہ مؤلفہ مسعودي)
ائمہ نے باربار فرمايا ہے كہ : ہم اپنى طرف سے كوئي چيز بيان نہيں كرتے ہيں بلكہ پيغمبر كے علوم كے وارث ہيں جو كچھ كہتے ہيں اسے اپنے آبا و اجداد كے ذريعہ پيغمبر (ص) سے نقل كرتے ہيں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائيں :
حضرت امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے :
” ميرى حديث ميرے والد كى حديث ہے اور ان كى حديث ميرے جد كى حديث ہے اور ميرے جد كى حديث حسين (ع) كى حديث ہے ، حسين (ع) كى حديث حسن (ع) كى حديث ہے اور حسن (ع) كى حديث امير المؤمنين كى حديث ہے اور امير المومنين كى حديث رسول اللہ (ص) كى حديث ہے اور حديث رسول (ص) ، خدا كا قول ہے ” (جامع احاديث الشيعہ ج 1 مقدمہ)
فہيمى صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں كيا جوانان جنّت كے سردار حسن (ع) و حسين (ع) ، زين العابدين ، ايسے عابد و متقى اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جيسے صاحبان علم كى احاديث ابوہريرہ ، سمرہ بن جندب اور كعب الاحبار كى حديثوں كے برابر بھى نہيں ہيں ؟
پيغمبر اسلا م نے على (ع) اور ان كى اولاد كو اپنے علوم كا خزانہ قرارديا ہے اور اس موضوع كو باربار مسلمانوں كے گوش گزاركيا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان كى طرف لوگوں كى راہنمائي كى ہے مگر افسوس وہ اسلام كے حقيقى راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بيت كے علوم سے محروم ہوگئے جو كہ ان كى پسماندگى كا سبب ہوا_
(انتخاب از آفتاب عدالت از علامہ امینی رہ)