اختیار

209

اختیارکی لغوی تعریف :خیّرہ : فوض الیہ الاختیار بین الامرین او شیئین او اکثر-( عقائد اسلامی در قرآن، ج١،ص٤٤٧.) یعنی کسی شخص کو دویا دو سے زیادہ امور میں سے کسی ایک کا منتخب کرنے کااختیار دینا ۔
اختیار کی اصطلاحی تعریف:1. انسان کے اندر مختلف قسم کی خواہشات پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کچھ خواہشات کو ترجیح دیکر انتخاب کرتا ہے۔ اور یہی اختیار ملاک تکلیف ہے۔2. عقائد اسلامی کی روشنی میں اختیار کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے: ان اللہ سبحانہ کلّف عبادہ بواسطة الانبیاء و الرسل ببعض الافعال و نہی ھم عن بعض آخر و امرھم بطاعتہ فی امر بہ و نھی عنہ بعد ان منحھم القوة والارادة علی الفعل و الترک و ھولھم الاختیار فی ما یفعلون دون ان یجبر احداً علی الفعل . (عقائد اسلامی در قرآن، ج١،ص٤٤٧.)بیشک اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو انبیاء اور رسولوں کے ذریعے بعض افعال سے روکا گیا ہے اور بعض افعال کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان کی باتوں پر عمل کرے اگر وہ کسی چیز سے روکے تو رک جائے اور اگر کسی چیز کا حکم دے تو اسے بجا لائے۔اور یہ حکم انسانوں کو ان افعال کے انجام دینے اورنہ دینے کا ارادہ اور قوت دینے کے بعدکیا گیا ہے کہ ان کیلئے اختیار ہے کہ اس فعل کو انجام دے یا نہ دے ۔ اس پر کوئی جبر نہیں ۔
اختیار کی عرفی تعریف1. اختیار در مقابل اضطرار:بعنوان مثال فقہ میں مضطر افراد کا حکم بیان ہوا ہے چنانچہ کسی کیلئے بھی اپنے اختیار سے خنزیر کا گوشت کھانا جائز نہیں لیکن اگر وہ مضطر ہوجائے یعنی اگر نہ کھائے تو جان اس کی خطرے میں پڑجائے یا بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے، تو کھانا جائز ہے۔ یہ قرآن کا حکم ہے: إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ-( بقرہ ۱۷۳.) .یقینا اسی نے تم پر مردار،خون، سورکاگوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
1. اختیار در مقابل اکرا ہیہ مورد زیادہ تر حقوقی اموراور لین دین میں پایا جاتا ہے۔ بعنوان مثال کہا جاتا ہے کہ: بیع مکرہ باطل یعنی بیع صحیح ہونے کے شرائط میں سے ایک اختیار ہے پس اکراہ سے مراد کسی ضرر یا نقصان کا تہدید کرنا اور اسی تہدید یا دھمکی کی وجہ سے کسی کام کو انجام دینا۔ اگر یہ دھمکی نہ ہوتی تو وہ اس کام کو انجام نہ دیتا۔
2. اختیار درمقابل جبریہ اختیار کا وسیع ترین معنی ہے کہ وہ کام جسے فاعل اپنی میل اور رغبت کے ساتھ کسی دوسرے عامل کی طرف سے کوئی زور یا تہدید یا دھمکی کے بغیر انجام دیتا ہے ۔ یہ اس اختیارسے بھی اعم ہے جسے فاعل اپنے قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے۔ کیونکہ یہاں کوئی ایسی شرط نہیں جو ایک ذہنی مقایسہ کے بعد انجام دیا جائے اور اس کے بعد زوق پیدا ہو جائے-( محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ،ج١،ص٣٧٦.)۔
3. اختیار یعنی ارادہ اور انتخابیعنی انسان کے سامنے کئی راستے موجود ہیں جن میں سے ایک راستے کو جانچ پڑتال کے بعد انتخاب کرتا ہے کیونکہ اپنے اس فعل کو پہلے سے تصور کر چکا ہوتاہے جسے فاعل بالقصدکہا جاتا ہے۔ایک سوال :اختیار ، ارادہ اور قدرت سے کیا مراد ہے؟ مختار ، مرید اور قادر کون ہیں؟ان سوالوں کے جواب میں آیة اللہ حسن زادہ آملی تعلیقات شیخ رئیس سے نقل کرتے ہیں: یجب ان یکون فی الوجود وجود بالذات و فی الاختیار اختیار بالذات و فی الارادة ارادة بالذات و فی القدرة قدرة بالذات حتی یصح ان یکوں ھذہ الاشیاء لا بالذات فی الشیوع معناہ یجب ان یکون واجب الوجود وجوداً بالذات و مختاراً بالذات و قادراً بالذات و مریداً بالذات حتی تصح ھذہ الاشیاء لا بالذات فی غیرہ۔ -( حسن زادہ آملی ، خیر الاثر، ص٧.)یعنی واجب الوجود ہے جس کا وجود وجود ذاتی ہے ، قدرت قدرت ذاتی ہے اور اس کا ارادہ ارادئہ ذاتی ہے، تا اینکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ واجب الوجود کے علاوہ بقیہ تمام موجودات عالم بالذات نہیں یعنی ان کی بقا کسی اور وجود کے اوپر محتاج ہے ۔ اختیارجب بھی ہم اپنے آپ کو کسی کام میں مختار پاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بالقوہ مختار نہ تھے ابھی بالفعل مختار ہوئے یعنی اچھا اور بر ا فعل انجام دینے کا اختیار ہم میں پہلے نہیں تھا ابھی وجود میں آیا۔توضیح: جب بھی ہم کسی فعل کو اختیار کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس فعل کے نفع نقصان کو تصور کرتے ہیں اور انجام دینے اور نہ دینے کیلئے موازنہ کرتے ہیں۔ نتیجتاً ایک انگیزہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے اچھے فعل کی پہچان ہوتی ہے ۔ ممکن ہے یہ پہچان احتمالی و ظنی ہویا یقینی ہو ہر صورت میں اس فعل کے انجام دینے کا باعث بنتا ہے۔پس معلوم ہو ا کہ انسان ذاتا ًفاعل مختار نہیں ہے بلکہ سبب اور علت ہو سکتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی فعل کا انجام دینے پر مختار حقیقی اور مالک واقعی نہیں ہے ۔مختار حقیقی وہ ہے جو کسی بیرونی غرض و غایت کے بغیر اختیاری فعل کو انجام دے۔ پس معلوم ہوا مختار حقیقی خدا کی ذات ہے کیونکہ وہ جو کام انجام دیتا ہے تو اس میں کسی بیرونی غایت کا عمل دخل نہیں ہے۔
ارادہارادہ انسان کی وہ داخلی حالت ہے کہ جب وہ کسی فعل کا تصور کرتا ہے تو اس کا حصول اور غرض و غایت کی تصدیق کا شوق حاصل ہوتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ارادہ اس میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی ارادہ ، فعل کا تصور اور فائدہ ، منفعت کی تصدیق اورشدید شوق کے حصول کے بعد واقع ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ شوق ارادے سے جدا ہوسکتا ہے لیکن فعل ارادے سے جدا نہیں ہوسکتا ۔ مثال کے طور پر روزہ رکھنے والا کھانے پینے کا شوق تو رکھتا ہے لیکن کھانے کاارادہ نہیں کرتا، اور مریض دواکھانے کا شوق تونہیں رکھتا لیکن ارادہ ضرور کرلیتا ہے۔
قدرتجو قدرت ہم میں پائی جاتی ہے بالقوہ ہے جسے فعلیت تک پہنچانے کیلئے کسی ترجیح دہندہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ہم دو متضاد فعل کے انجام دینے پر قادر ہیں، جب تک کوئی ترجیح دینے والا نہ آئے تب تک کوئی ایک فعل بھی ہم سے سرزد نہیں ہوگا۔ اور فعل کے انجام دینے کیلئے صرف قدرت کافی تھا تو فعل کے صادر ہونے کیلئے مرجح کی ضرورت نہ تھی اور ایک ہی وقت میں دو متضاد فعل کا انجام دینا ممکن ہوتا جبکہ ایسا نہیں ۔لیکن قدرت الہی سے مراد قدرت بالفعل ہے اور وہ قادر بالذات ہے۔ خدا کی قدرت اس کا علم ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ قادر ہے تو عالم بھی ہے اور اس کا علم فعل کے صادر ہونے کا سبب ہے اور داعی اور غرض اپنے افعا ل کے انجام دینے کیلئے خود ذات باری تعالی ہے۔ (خیر الاثر،ص١٣.)
ارادہ اور اختیار میں فرقارادہ کا معنی ، اختیارکے معنی سے زیادہ دقیق تر نہیں ۔ چنانچہ ہر اختیاری فعل میں فاعل کا ارادہ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ فعل انجام پائے۔
سوال یہ ہے کہ ارادہ کی ماہیت کیا ہے اور اختیار کے ساتھ اس کی کیا نسبت ہے؟
جواب:ارادہ کی ماہیت اوپر ذکر ہوا کہ وہ انگیزہ اورشوق جو انسان کوفعل کے انجام دینے کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔ اور اوپر بیان ہوا کہ ارادہ ، شوق شدید سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اختیار سے مراد یہ ہے کہ اس کا فعل علم ، ارادہ اور قدرت کے بعد واقع ہوتا ہے۔ (علم پیشین الہی و اختیار انسان، ص١٣.)
مبادی اختیار کی تلاشچنانچہ اختیار جبر کے مقابلے میں والی بحث سے واضح ہوا کہ خداوند فاعل مختار ہے اور انسان فاعل بالقصد ۔ اور اختیار انسان اور اختیار خدا میں نمایان فرق یہی ہے کہ خدا کیلئے لازم نہیں کہ کسی فعل کو انجام دینے کیلئے پہلے تصور کرے پھر انگیزہ پیدا ہوجائے جس کے بعد فعل کو انجام دے، بلکہ فقال لہ کن فیکون۔ لیکن انسان پہلے اس فعل کو تصور کرتا ہے اس کے بعد میل و رغبت پیدا ہوجاتا ہے پھر اقدام کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی انسان کو کبھی کبھی تسامحاً فاعل مختار کہا جاتا ہے۔ یعنی فاعل اپنے فعل کے انجام دینے میں مجبور نہیں تھا بلکہ خود اپنے اختیارکے ساتھ انجام دیا۔ آپ یونیورسٹی کا ایک طالب علم کی مثال لیجئے : جو اپنے ماں باپ ، عزیز و اقرباء سے دور دوسرے شہر یا ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے خاطر بہت ساری صعوبتیں اور دشواریاں برداشت کررہا ہے۔ واضح ہے کہ اس راہ میں بہت ساری دشواریوں کو متحمل ہورہا ہے، یہ خود طالب علم کا اختیاری عمل ہے۔ واضح ہے کہ اس راہ میں بہت ساری سختیوں کا متحمل ہونا خود طالب علم کا اختیاری عمل ہے کہ اپنی مرضی سے ان مشکلات کو برداشت کر رہا ہے۔ واضح ہے کہ اس کے کئی عوامل ہیں:• طالب علم جانتا ہے کہ اپنی تقدیر اور آنے والی زندگی کو سنوارنے کیلئے ان دشواریوں کے با وجود تحصیلات کا جاری رکھنا ضروری ہے۔• طالب علم میں یہ قدرت بھی ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اسے بروی کار لائے۔• طالب علم کے اندر مختلف قسم کی میلانات اور خواہشات بھی پائی جاتی ہیں یعنی ایک طرف بہتر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش شدت سے پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف سے ان خواہشات کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ طالب علم پھر بھی ایک راہ کو اختیار کرلیتا ہے اگر یہی تین عوامل نہ ہوتے تو اس میں اختیار اور موازنہ کا زمینہ نہیں پاتا۔ پس اس مثال سے واضح ہوا کہ مبادی اختیار تین ہیں:
۱۔علم و آگاہیاگر شناخت و آگاہی نہ ہو تو ممکن نہیں کہ ایک طرف کو انتخاب کرے اور مطلوبہ ہدف تک پہنچ جائے اس لئے اختیاری امور میں آگاہی اور شناخت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خصوصاً جب اس کے اندر مختلف قسم کی میلانات اور خواہشات پائی جائے تو اس عامل کی طرف زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
۲۔توانائی اور قدرتاگر توانائی نہ ہو تو صرف آگاہی انسان کو نفع نہیں پہنچا سکتی۔ لہذا وہ اختیارکا حق بھی نہیں رکھتا۔ کیونکہ عدم توانائی اسے کسی فعل کے ترک پر مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ اگر اس میں توانائی اور قدرت پائی جاتی تو وہ اسے حتماً انجام دیتا ۔یہ توانائی جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے کئی قسموں پر مشتمل ہے۔ وہ درج ذیل ہیں:• طبعی توانائی : یعنی جسمی امکانات اور قدرت بدنی ہے۔• صنعتی توانائی: یعنی انسانی فکر اور سوچ کی ترقی یافتہ ترین نمائش ہے۔• اجتماعی توانائی: یعنی انسان ایک دوسرے کی توانائی سے مدد لیکر اپنی ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں ۔• روحی توانائی: یعنی جو قوانین طبیعت کے دائرے سے خارج ہے ۔ اور حواس خمسہ کے ذریعے بھی قابل درک نہیں ہے۔جو انسان کو ریاضت اور تلاش کرنے سے ہاتھ آتی ہے۔
3. نفسانی خواہشاتگذشتہ مثال میں کچھ دقت کرے کہ اگر طالب علم کے اندر خواہشات مختلف نہ ہوتی اور اس کے سامنے فقط ایک ہی راستہ ہوتا تو کیا پھر بھی انتخاب اور اختیار کیلئے زمینہ باقی رہتا ؟ نہیں بلکہ انتخاب اور اختیارکا موضوع اس و قت محقق ہوگا کہ انسان کے اندر مختلف کشش اور خواہشات پائی جائے۔روان شناس حضرات نے ان خواہشات نفسانی کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
غرائزیعنی جو بدن انسان کے کسی ایک اندام سے وابستہ ہے ۔ مثال ؛ کھانے پینے اور سونے کی طرف رغبت پیدا کرتی ہے۔
عواطفجو انسانوں میں ایک دوسرے کے خاطر پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ماں کی محبت بیٹے سے ۔ دوست کی محبت دوست سے، بہن کی محبت بھائی سے، ہادی کی محبت ہدایت پانے والوں سے و۔ ۔ ۔ یہ سب عواطف انسان ہے ۔
انفعالاتوہ منفی عواطف و احساسات جو انسان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے غم و غصہ ، نفرت دشمنی وغیرہ ۔
احساساتروان شناسوں کی اصطلاح میں وہ میلانات جو فقط اور فقط انسان میں پائی جاتی ہیں۔ وہ تین قسم کی خواہشات ہیں:• تعظیم اور تجلیل کا احساس• خیر واہی کا احساس• اوربندگی اور پرستش کا احساس ۔ جو انسان کی بالا ترین خصوصیت ہے۔
نظام خلقت اور اختیار انساندنیا کی ساری چیزیں معلول خدا وندی ہیں۔ اور یہ تمام موجودات اس کی ذات پر جاکر اپنی انتہا کو پہنچتی ہیں ۔ اور انسا ن کا اختیاری فعل بھی انہی موجودات عالم کا جز ہے جو کسی موجد کا محتاج ہے جواسے وجود میں لائے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا اختیاری فعل بھی خدا کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ (غرویان،آموزش عقائد، ج١،ص٢٠٠۔)
اخلاق اور اختیاردینا کے سارے مکاتب فکر خواہ وہ اان سلام ہو یا مسیحیت ، خواہ وہ سوشلزم ہو یا کپیٹل ازم و۔ ۔ ۔ ہر ایک مکتب میں اخلاقی مسائل ایک مسلمہ اور مورد اتفاق حقیقت ہے اور اختیار ہی اختلاف کی بنیاد ہے۔ یعنی اخلاقی مسائل کا موضوع انسان کا اختیاری فعل ہے۔ اسی لئے کبھی دل کی دھڑکن خون کا جسم میں گردش کرنا و۔ ۔ ۔ کو اخلاقی اعتبار سے اچھا یا برا نہیں کہاجا سکتا۔ کیونکہ انسان کا انہیں انجام دینے یا نہ دینے میں کوئی کردار نہیں ۔ پس جہاں اختیار اور افعال شروع ہوتا ہے وہاں سے اچھا اور برا بھی کہہ سکتا ہے۔ جیسے کسی دوسرے پر احسان اور نیکی کرنا۔فدا کاری ، نعمت عطا کرنے والے کا شکر ادا کرنا و۔ ۔ ۔ یہ ایسے افعال ہیں جن کا ہونا اخلاقی طور پراچھا اور حسین ہے اور نہ ہونا اخلاقی طورپر برا اور قبیح ہے ۔ پس جس نے بھی انسان کے اندر اختیارکو نظر انداز کیا اور اسے مجبور سمجھا ، حقیقت میں اس نے اخلاق کو پایمال کردیا۔ اگرچہ زبان پر اقرار نہ بھی کرتا ہو۔جس طرح مارکسیزم کے رہنما جو ان کے بڑے سیاست دانوں اور مفکروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہمیشہ اپنی تقاریر میں اخلاقی مفاہیم سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ جبکہ ان کے مکتب فکر میں اخلاق اور اخلاقی مفاہیم کیلئے کوئی گنجائش نہیں ۔
قضا و قدر اور اختیاراشکال: اگر انسان مختار ہے تو کیونکر اپنے افعال کو ارادہ الہی پر استناد کرتا ہے؟ اور اگر قضائے الہی پر استناد کرتا ہے توکس طرح اسے تابع اختیار انسان مان لیتے ہیں؟جواب: ایک معلول کیلئے دوعلتوں کا ہونا ممکن نہیں ۔ مستشکل نے اس جملے کے مفہوم میں اشتباہ کیا ہے۔ انہوں نے علت ناقصہ اور علت تامہ کو ایک ہی نگا ہ سے دیکھا ہے۔ جبکہ ان دونوں علتوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ اور اس مقولۂ فلسفی سے مراد یہ ہے کہ دو علت ہستی بخش کا ایک ساتھ جمع ہونا ناممکن ہے ۔ نہ یہ کہ ایک علت ہستی بخش اور ایک یا ایک سے زیادہ علت ناقصہ کا جمع ہونا ۔یہاں انسان کا ارادہ (علت معد¬¬ہ) خدا کا ارادہ (علت العلل ) سے وابستہ ہے۔ جب تک ارادۂ الہی نہ ہو ارادۂ انسان وجود میں نہیں آسکتا۔ پس یہ دونوں علل ایک دوسرے کے طول میں ہیں نہ عرض میں۔علامہ طباطبائی نے اس مسئلے کو ایک دلچسپ اور جالب مثال کے ذریعے سمجھایا ہے جو ہر ایک کیلئے قابل فہم ہے: فرماتے ہیں : ایک دولت مند شخص ہے اور اس کے کئی غلام اور کنیز ہیں۔ یہ شخص اپنے ایک غلام کیلئے اپنی کنیزوں میں سے ایک کو انتخاب کرتا ہے۔ اور شادی کراتا ہے۔ اور اسے زندگی کی تمام ضروریا ت دیدیتا ہے۔اس صورت میں اگر کہے کہ ان لوازمات کا دینا غلام کی ملکیت پر کوئی اثر نہیں کرتا ۔ آقا مال دینے سے پہلے بھی وہی آقا تھا اب دینے کے بعد بھی وہی آقا ہے۔ اس کے اختیار میں کوئی کمی نہیں آئی اور غلام بھی اس میں اجازت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتا ۔ یہ جبریوں کا نظریہ ہے۔اگر کہےکہ جب مولا نے تمام اموال کو غلام کی ملکیت میں دے دی تو اب خود غلام مالک مطلق ہے۔ جس طریقے سے بھی چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ کیونکہ غلام خود مالک مطلق بنا ہے۔اور مولی کی ملکیت باطل ہوگئی۔ یہ گروہ مفوضہ کا نظریہ ہے۔اگر کہیں گے غلام ان چیزوں پر مالک بن جائے گا جو مولی نے اسے دی ہے لیکن مستقل مالک نہیں بلکہ مولی کی ملکیت کے دائرے میں رہ کر وہ مالک ہے۔ اب یہ غلام پر منحصر ہے کہ ان اموال کو مولی کی رضایت والے راستے میں خرچ کرے یا مولی کی مرضی کے خلاف خرچ کرکے مولی کا غیظ و غضب کو قبول کرے۔ پس غلام کی ملکیت مولی کی ملکیت کے طول میں ہے نہ عرض میں ۔ اس طرح مولی اصل مالک ہے اور غلام مالک تبعی ہے ۔ یہ نظریہ مذہب حقہ کا ہے۔ (تہرانی، معاد شناسی،ج١٠،ص٢٦٤۔)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.