تقیہ کی شرعی حیثیت
جس میں یہ ارشاد ہواہے:
< وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان>[1]
ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔
جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔
ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیںہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیںکیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیںکہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:
<و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانہ اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی اللہ و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیہ کذبہ وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن اللہ لایھدی من ھومسرف کذاب> [2]
ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو”
پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔
(۲)قول خدا وندی ہے:
<لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شئی الّا اٴن تتقوا منھم تقاةََ و یحذرکم اللہ نفسہ و ا لی اللہ المصیر>[3]
ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میںیہی کہاہے۔
(۳)ارشاد باری تعالیٰ ہے:
<من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا مَن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیھم غضبُ من اللہ ولھم عذاب عظیم>[4]
ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔
پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسرۻ کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔تقیہ اورسنت رسول
دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔
مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت
<من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا مَن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان>[5]
“اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو”
کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار ۻ کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔
اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔
پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیںاَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔[6]
لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میںتقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں)یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار ۻبن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:
“ان عادوا لک فعدلھم بما قلت”۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا ”
تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
<ومانقمو منھم الّا اٴن یومنوا بااللہ العزیز الحمید>[7]
ترجمہ”اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے”
[1] سورہ مائده آیت 2.
[2] سورہ الغافر ،آیت ۲۷
[3] سورہ آل عمران ،آیت ۲۸
[4] سورہ نحل ،آیت ۱۰۶
[5] سورہ نحل ،آیت ۱۰۶
[6] شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ج۳ ص۱۵
[7] سورہ البروج ،آیت ۸