دشمن شناسی قرآن کی نظر میں

445

دشمن کی پہچان انسانی معاشروں کی کامیابی کیلئے بنیادی ترین شرائط میں سے ایک ہے اور قرآن مجید ایک جامع کتاب ہے۔ اسلام کا بیان وحی کی صورت میں قرآن مجید کے ذریعے اور عمل کی صورت میں سنت رسول خدا (ص) اور آئمہ اطہار (ع) کے عمل کی صورت میں ہم تک پہنچا۔ اسلام ایسا دین ہے کہ جس نے انسان کی تمام ضروریات سے متعلق احکامات بیان کئے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ دشمن شناسی کے متعلق بھی راہنمائی موجود ہے۔ علماء کے بیان کے مطابق ایک ہزار پانچ سو (1500) سے زائد آیات دشمن شناسی کے موضوع سے متعلق ہیں۔ ان آیات میں دشمنوں کی اقسام، دشمن اور اسلامی نظام، دشمن کے طریقہ کار اور دشمن سے مقابلے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن مجید دشمن کو چار گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔1۔ شیطان اور اس کے پیروکار2۔ کفار3۔ بعض اہل کتاب خصوصاً یہود4۔ منافقینقرآن کی مختلف آیات، جیسے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَقَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (١١٨) ترجمہ: اور بے علم لوگ کہتے ہیں: اللہ ہم سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کرچکے ہیں، ان کے دل ایک جیسے ہوگئے ہیں، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔اس آیت سے جانا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کے خطابات تمام بنی نوع انسان کیلئے ہیں اور یہ تمام زمانوں سے متعلق ہیں، اسی وجہ سے کوئی یہ بات نہیں کہ سکتا ہے کہ قرآن نے گذشتہ زمانے کی اقوام کے بارے میں بات کی ہے، جبکہ اب مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح سورہ مومنون/ 44 و 81، مومن/ 5، سبا/ 24 و قصص/ 58 میں نازل ہونے والی آیات ایک قانون کو ثابت کر رہی ہیں کہ جس کو ہم “تمام اقوام کی آپس میں مشابہت” کے نام سے جان سکتے ہیں۔
دشمن شناسی سے متعلق اہم قرآنی تعابیر1۔ عدو: قاموس قرآن میں ((عدو)) دشمن کے معنا میں ہے، ایسا دشمن کہ جو دل میں بھی دشمنی رکھتا ہو اور اپنے عمل میں بھی اس کو ظاہر کرتا ہو۔2۔ مکر: مکر، دھوکہ اور فریب کے معنا میں ہے، استاد مصطفٰی مراغی نے اپنی تفسیر میں مکر کو اس معنا میں استعمال کیا ہے: (( مکر، درحقیقت ایک خفیہ تدبیر ہے کہ جو اس شخص کو کہ جس کے ساتھ مکر کیا جا رہا ہو، ایسی جگہ لا کھڑا کرتی ہے کہ جس کا وہ گمان نہ کر رہا ہو، اور غالب اوقات مکر کا لفظ عربی زبان میں ایسی تدبیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جو بری اور ناپسندیدہ ہو ))3۔ کید: کید، حیلے اور فریب کے معنا میں ہے، فریب دینے اور کوشش کرنے کے معنا میں۔ جنگ کو بھی اس اعتبار سے “کید” کہا جاتا ہے، چونکہ جنگ کسی بھی زمانے میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی کے شروع نہیں کی جاتی۔4 ۔ خدع: خدع بھی فریب دینے اور دوسروں سے متعلق نیت بد رکھنے کے معنا میں ہے، اس طرح کہ اسکا یہ عمل مقابل کی آنکھوں سے پوشیدہ رہے۔ مراغی اس آیت ((یخدعون الله و الذین ءامنوا…)) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: ((مخادعہ )) کی تعبیر مبالغہ کیلئے یا منافقین کا مومنین کے لئے ((خدعہ)) کے تکرار کے معنا میں ہے۔ 5۔ نفاق: کفر کو پنہان کرنے اور چھپانے اور حق اور ایمان کو ظاہر کرنے کے معنا میں ہے۔ منافق وہ ہے کہ جو مرموز انداز اور طور طریقے سے معاشرے میں نفوذ پیدا کرلے۔ ذکر شدہ الفاظ کے علاوہ بھی ((کفر، ضلل، صد و بطانه)) جیسے الفاظ دشمن شناسی اور قرآن میں دشمن کی شناخت سے مربوط ہیں۔ یہ تمام الفاظ ایک ہزار سے زائد مقامات پر قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔
دشمن کی صفات قرآن کی نظر میں قرآن مجید نے بھی معاشرے کی سلامتی اور حفاظت کیلئے دشمن کی پہچان کے بارے میں بہت تاکید کی ہے، اور اپنی حکمت آمیز کہانیوں، داستانوں اور پند آمیز قصوں کی صورت میں دشمن کی صفات کو بیان کیا ہے۔ قرآن میں توحید کے دشمنوں کو مختلف اشکال میں بیان کیا گیا ہے، ان میں سے شیطان شناسی، منافق شناسی، استکبار شناسی، کفار اور مشرکین کی پہچان اور خود انسان کے اپنے نفس کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید دشمنوں کے اہداف کی پہچان کو مسلمان معاشرے کی اہم ذمہ داری کے طور پر بیان فرماتا ہے۔
دشمنان اسلام کی سب سے اہم صفت ان کی پیمان شکنی اور وعدہ کا پابند نہ ہونا ہے:1۔ وعدہ خلافی كَيْفَ وَ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فيكُمْ إِلاًّ وَ لا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَ تَأْبى‏ قُلُوبُهُمْ وَ أَكْثَرُهُمْ فاسِقُون (توبہ، آیت ۸) ترجمہ: (ان سے عہد) کیسے ہوسکتا ہے جب کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو وہ نہ تو ہماری قرابتداری کا لحاظ کریں گے اور نہ عہد کا؟ وہ زبان سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں مگر ان کے دل انکار پر تلے ہوئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ فاسق ہیں۔ 2۔ حریص دنیا اور موت سے ڈرنے والے وَ لَتَجِدَنهَّمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلىَ‏ حَيَوةٍ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ وَ اللَّهُ بَصِيرُ بِمَا يَعْمَلُون (بقرہ، آیت ۹۶)ترجمہ: (اے رسول!) اور آپ ان لوگوں کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پائیں گے، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش اسے ہزار سال عمر ملے، حالانکہ اگر اسے یہ عمر مل بھی جائے تو یہ بات اس کے عذاب کو ہٹا نہیں سکتی اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اسے خوب دیکھتا ہے۔ 3۔ حسد کرنے والے اور برائی کے خواہشمند مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَ لَا المُشْرِكِينَ أَن يُنزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيرْ مِّن رَّبِّكُمْ وَ اللَّهُ يختَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ وَ اللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم (بقرہ، آیت ۱۰۵)ترجمہ: کفر اختیار کرنے والے خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ أَمْ يَحسُدُونَ النَّاسَ عَلىَ‏ مَا ءَاتَئهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ ءَاتَيْنَا ءَالَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَ الحكْمَةَ وَ ءَاتَيْنَاهُم مُّلْكا عَظِيمًا (نساء، آیت ۵۴)ترجمہ: کیا یہ دوسرے لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔4۔ کنجوس اور تنگدل قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائنَ رَحْمَةِ رَبىّ‏ِ إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْانفَاقِ وَ كاَنَ الْانسَانُ قَتُورًا (الاسراء، آیت ۱۰۰)ترجمہ: کہہ دیجئے، اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پر اختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت تنگ دل واقع ہوا ہے۔ أَمْ لهمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا (نساء، آیت ۵۳) ترجمہ: کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسرے لوگوں کو کوڑی برابر بھی نہ دیتے۔5۔ خیانتوَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَ مِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائمًا ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَيْسَ عَلَيْنَا فىِ الْأُمِّيِّنَ سَبِيلٌ وَ يَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ يَعْلَمُون (آل عمران، آیت ۷۵)ترجمہ: اور اہل کتاب میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر آپ اسے ڈھیروں دولت کا امین بنا دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا، البتہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اگر آپ ایک دینار کا بھی امین بنا دیں تو وہ آپ کو ادا نہیں کرے گا، جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے نہ رہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ناخواندہ (غیر یہودی) لوگوں کے بارے میں ہم پر کوئی ذمے داری نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔6۔ کینہ اور غصہ هَأَنتُمْ أُوْلَاءِ تُحبُّونَهُمْ وَ لَا يُحِبُّونَكُمْ وَ تُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كلُّهِ وَ إِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ ءَامَنَّا وَ إِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمُ بِذَاتِ الصُّدُور (آل عمران، آیت ۱۱۹)ترجمہ: تم لوگ تو اس طرح کے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، جبکہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، حالانکہ تم پوری (آسمانی) کتاب کو مانتے ہو (مگر وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں جاتے ہیں تو تم پر غصے کے مارے اپنی انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، ان سے کہہ دیجیے: تم اپنے غصے میں جل مرو، یقینا اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔7۔ اپنے آپ کو لوگوں کا مالک جانناقَالَ ءَامَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِى عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَ أَرْجُلَكمُ مِّنْ خِلَافٍ وَ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ فىِ جُذُوعِ النَّخْلِ وَ لَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَ أَبْقَى (طہ، آیت ۷۱)ترجمہ: (فرعون بولا) تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، یہ یقیناً تمہارا بڑا ہے، جس نے تمہیں جادو سکھایا، اب میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں یقیناً سولی چڑھوا دوں گا، پھر تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے سخت اور دیرپا عذاب دینے والا کون ہے۔
یہاں جس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ صفات دشمن کی پہچان کیلئے ہیں اور مسلمانوں اور مومنین کے دشمن میں ان صفات کا پایا جانا حتمی امر ہے، لیکن اس سے یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ ہر وہ شخص کہ جس میں ان میں سے کچھ صفات پائی جاتی ہوں، ہم اس کو دشمن کہنا شروع کر دیں۔ بعض اوقات ممکن ہے ہمارے کسی دوست میں ایمان کی کمزوری کی بنا پر ایسی صفات پائی جائیں تو یہاں دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے دوست کو ان صفات سے متنبہ کرے اور اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ہمارے دشمن میں یہ صفات موجود ہوں گی اور جب دشمن کے ساتھ برتاؤ کیا جائے یا بعض اوقات دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو ان صفات کو مدنظر رکھنا چاہیئے، تاکہ اس کی مخفی چالوں سے غافل نہ رہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.