معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)

255

 چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رہتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ چنانچہ پہلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنہائی میں رکھو اور کچھ دن کے بعد حکم دیا کہ انہیں قتل کر دو۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظم(ع) کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ہے وہ تو ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رہتے ہیں تنہائی کے عالم میں بھی ہم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نہیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنہائی کی جگہ عطا فرمائی۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نہیں ہے۔جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاہدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ہو کر سندی بن شاہک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زہر دغا دے کر امام(ع) کی زندگی کا خاتمہ کیا۔زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ہو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ہی نہیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ہوئے بہت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی ک ےاحکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ہیں جو بتا رہے ہیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ہر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پہنچانے کے لئے رہنمائی کا فرض انجام دیتا رہا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے “معراج انسانیت” کی نشان دہی کرتا رہا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.