منتظرین امام(عج)کے وظائف پر ایک نگاہ
امام کی معرفت
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ کی معرفت آپ(عج) کے نام و نسب کی شناخت کے علاوہ آپ(عج) کے رتبہ و مقام کی گہری شناخت اور آگاہی ہے۔جیسا کہ امام (عج)نے ابو نصر سے فرمایا کہ مجھے اس طرح پہچانو:’میں پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا آخری جانشین ہوں اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ہمارے خاندان اور ہمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ہے’۔ (کمال الدین،ج٢،باب٤٣،ح١٢،ص١٧١)
امام کی معرفت اہم ہے کہ معصومین علیہم السلام کے فرامین کے مطابق اسے حاصل کرنے کے لئےاللہ تعالی کی نصرت و مدد طلب کرنا چاہئے۔اسی لیے امام صادق عليہ السلام نے دعاء معرفت کے پڑھنے کی تلقین فرمائی’اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَاِنَّکَ ان لَم تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَم اَعْرِف نَبِیَّکَ ……( غیبت نعمانی،باب١٠،فصل٣،ح٦،ص١٧٠)نمونہ عمل
کیا ایسا نہیں ہے کہ جو شخص دنیا کے سب سے خوبصورت موجود کا منتظر ہے وہ اپنے وجود کو خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے اور خود کو برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے دور رکھتا ہے؟حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں:
‘مَنْ سَرَّہ ان یَکُونَ مِن اصحَابِ القَائِمِ فَلْیَنْتَظِرُ و لْیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاَخْلاَقِ وَ ہُوَ مُنْتَظِر’ (کمال الدین،ج١،باب٤٥،ح٤ص٢٣٧)
‘جو شخص یہ چاہتا ہو کہ حضرت قائم عليہ السلام کے مدگاروںمیں شامل ہو تو اسے منتظر رہنا چاہئے اور انتظار کے دوران تقویٰ اور پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا چاہیے’۔امام عليہ السلام کی یاد
جب وہ مہربان امام ہر وقت اور ہر جگہ شیعوں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کوکبھی نہیں بھولتے تو کیا یہ مناسب ہے کہ ان کے چاہنے والے دنیاوی امور میں ایسے مصروف ہو جائیں کہ اپنے محبوب امام سے غافل اور بے خبرہوجائیں؟ آپ(عج) کی معرفت اور محبت کا تقاضاہے کہ ہر حال میں ان کی یاد اور ذکر کو دنیا کی تمام چیزوں پر مقدم رکھا جائے، دعاے فرج ،دعاے عہد اور زیارت آل یس کا ورد اور انکی معرفت کی نشر واشاعت کےلیے محافل کا انعقاد….منتظرین کا وظیفہ ہے خود حضرت(عج)فرماتے ہیں: ‘میرے ظہور کے لئے بہت دعا کیا کرو کہ اس میں خود تمہاری گشائش بھی ہے۔’ (کمال الدین،ج١،باب٤٥،ح٤ص٢٣٧)وحدت اور ہم دلی
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ کی معرفت ،اطاعت اور ذکر کے بعد اہم ترین اجتماعی وظیفہ منتظرین میں اتحاد اور ہم دلی ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جو امام کے ظہور کو نزدیک کرتی ہے امام مہدی عجل اللہ فرجہ اپنی ایک توقیع میں فرماتے ہیں:
‘اگر ہمارے شیعہ (کہ خداوندعالم ان کو اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے) اپنے کئے ہوئے عہدو پیمان پر یکدل اور مصمم ہوں تو ہرگز (ہمارے)دیدار کی نعمت میں دیر نہیں ہوگی اور مکمل و حقیقی معرفت کے ساتھ ہماری ملاقات جلد ہی ہوجائے گی’۔ (احتجاج،ج٢،ش٣٦٠،ص٦٠٠.)
اور یہ عہد و پیمان آئمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کرنے کی ہر ممکن کوشش اور وحدت کے ساتھ دین میں تحریفات ،بدعتوں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش تھا۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘یقینا اس امت کے آخری زمانہ (آخر الزمان) میں ایک گروہ ایسا آئے گاجن کی جزاء اسلام میں سبقت کرنے والوں کی طرح ہوگی تو وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہوں گے اور اہل فتنہ (و فساد) سے جنگ (مقابلہ) کرتے ہوں گے’۔ (دلائل النبوة،ج٦،ص٥١٣)